- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 14 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/02
- 0 رائ
الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ(۳)
وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا آنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا آنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُونَ(۴)
آوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّہِمْ وَآوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ(۵)
ترجمہ
۳۔ پرہیزگار وہ ہیں جو غیب(جس کا حواس ادارک نہیں کرسکتے) پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور ان نعمتوں اور عطیوں میں سے جو ہم نے انیہں بطور روزی دیے ہیں خرچ کرتے ہیں۔
۴۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ آپ(ص) سے قبل (انبیاء گذشتہ پر) نازل ہوچکا ایمان رکھتے ہیں۔
۵۔ انہیں خدا نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔
تفسیر
روح و جسم انسانی میں آثار تقوی
قرآن اس سورہ کی ابتداء میں اسلامی آئین اور پروگرام سے مربوط ہونے کے لحاظ سے لوگوں کو تین مختلف گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔
۱۔ متقین(پرہیزگار)۔ جو اسلام کو مکمل طور پر قبول کرتے ہیں۔
۲۔ کافرین ۔ جو پہلے گروہ کے مد مقابل کھڑے ہیں، اپنے کفر کے معترف ہیں اور اسلام کے مقابلے میں دشمنی کی گفتار و رفتار سے انکاری نہیں ہیں۔
۳۔ منافقین ۔ جو دو رخ اور دو چہرے رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ظاہرا مسلمان ہیں اور گروہ مخالف کے ساتھ ہوں تو مخالف اسلام۔ البتہ ان کا اصلی چہرہ وہی کفر والا ہے تاہم اسلام کی ظاہری چیزیں بھی اپناتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ گروہ اسلام کے لئے دوسرے گروہ کی نسبت زیادہ خطرناک ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اسی بناء پر قرآن ان پر بہت زیادہ نکتہ چینی کرتاہے۔
البتہ یہ موضوع اسلام ہی سے مخصوص نہیں بلکہ تمام مکاتب و مذاہب عالم ان تین گروہ سے واسطہ رکھتے ہیں کیونکہ کوئی شخص کسی مکتب کا مومن ہے یا واضح طور پر اس کا مخالف یا پھر منافق جسے اپنے کام سے کام ہے۔ نیز یہ مسئلہ کسی خاص زمانے سے بھی تعلق نہیں رکھتا بلکہ تمام ادوار عالم میں ایسا ہی رہا ہے۔
زیر بحث آیات میں پہلے گروہ کے متعلق گفتگو ہے۔ ان کی خصوصیات کو ایمان و عمل کے لحاظ سے پانچ عنوانات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
۱۔ غیب پر ایمان: سب سے پہلے قرآن کہتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں (الذین یومنون بالغیب)۔ غیب و شہود ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ عالم شہود عالم محسوسات ہے اور عالم غیب ماورائے حس ہے۔ کیونکہ غیب کے معنی اصل میں پوشیدہ و پنہاں چیز کے ہیں۔ کیونکہ محسوسات سے ماوراء کی دنیا ہماری حس سے پوشیدہ ہے لہذا اسے غیب کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:
عالم الغیب والشھادة، ھو الرحمن الرحیم
وہ خدا جو غیب و شہود سے واقف ہے وہی مہربان (اور) رحیم ہے۔
غیب پر ایمان رکھنا در اصل وہ پہلا نقطہ ہے جو مومنین کو دوسروں سے جدا کرتاہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو آسمانی ادیان کے پیروکاروں کو خدا، وحی اور قیامت کے منکروں کے مقابلے میں کھڑا کرتاہے۔ اسی بناء پر پرہیزگاروں کی پہلی خصوصیت کے طور پر ایمان بالغیب کا ذکر کیا گیا ہے۔
مومنین سرحد مادہ کو توڑ کر، اس محدود چاردیواری سے نکال لئے گئے ہیں اور وہ اس وسعت فکر و نظر کے باعث ایک بہت بڑے فوق العادہ جہان سے مربوط ہوگئے ہیں جبکہ ان کے مخالف مصر ہیں کہ انسان کو مادہ کی چار دیواری میں جانوروں کی طرح محدود رکھیں اور اس الٹی چال کو وہ تمدن کی پیش رفت اور ترقی کا نام دیتے ہیں۔
ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے ادراک و فکر کا مقابلہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ غیب پر ایمان رکھنے والے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہان ہستی اس دنیا سے کہیں وسیع تر ہے جسے ہمارے حواس درک کرتے ہیں۔ اس جہان کے پیدا کرنے والے کا علم اور قدرت بے انتہا ہے اور اس کی عظمت و ادراک کی کوئی حد نہیں۔ وہ ازلی و ابدی ہے۔ اس نے عالم ایک بہت بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنایا ہے۔
روح انسانی اور باقی حیوانات میں بہت بڑا فرق ہے ۔ موت کے معنی نابود ہونا اور فنا ہونا نہیں بلکہ یہ انسان کی تکمیل کا ایک مرحلہ و منزل ہے۔ یہ ایک وسیع تر جہان دیکھنے کے لئے ایک دریچہ ہے جب کہ ایک مادی شخص اعتقاد رکھتا ہے کہ جہان ہستی اسی میں محدود ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ جتنا علوم طبیعی نے ہمارے لئے ثابت کیا ہے وہی کچھ کائنات ہے۔ قوانین طبیعت جبری قوانین کا ایک سلسلہ ہے جو بغیر کسی پروگرام یا منصوبے کے ظاہر ہوگیا۔ اس عالم کے پیدا کرنے والی قوت و طاقت ایک چھوٹے سے بچے جتنی عقل و شعور بھی نہیں رکھتی۔ انسان بھی اس طبیعت کا ایک جزء ہے اور موت کے بعد اس کی ہر چیز ختم ہوجائے گی۔اس کا بدن منتشر ہوجائے گا اور اس کے اجزاء دوبارہ طبیعی مواد سے مل جائیں گے۔ انسان کے لئے بقاء نہیں ہے۔ اس کے اور عام حیوانات کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں[40]۔
کیا انسانوں کا ان دو متضاد طرز فکر ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ آیا معاشرے میں ان کا طرز زندگی اور طریق کار ایک جیسا ہوسکتا ہے۔
پہلا شخص(مومن) حق و عدالت، خیرخواہی اور دوسروں کی مدد سے چشم پوشی نہیں کرسکتا لیکن دوسرے (مادی) شخص کے پاس ان امور کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں مگر جتنا اس کی آج یا کل کی مادی زندگی کا تقاضا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ مومنین کے درمیان سچا بھائی چارہ، پاکیزہ افہام و تفہیم اور تعاون ہوتا ہے جب کہ جہاں پرمادی فکر کے حامل شخص کی حکمرانی ہے وہاں استعمار، استشمار، خونریزی، غارت گری اور تاراجی ہے۔
واضح ہوا کہ قرآن نے تقوی کا پہلا نقطہ ایمان بالغیب کو قرار دیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے جو بیان کی گئی ہے۔
کیا ایمان بالغیب سے مراد صرف ذات پاک پروردگار پر ایمان لانا ہے یا غیب یہاں ایک وسیع معنی رکھتا ہے یعنی وحی، قیامت، فرشتے اور عالم حس سے ماوراء سب کچھ اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے لیکن ہم نے ابھی کہا ہے کہ جہاں ماورائے جس پر ایمان رکھنا مومنین اور کافرین میں نقطہ اختلاف اور علیہدگی کا سبب ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ غیب یہاںایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت کی تعبیر بھی مطلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قید موجود نہیں جو اسے کسی خاص معنی میں محدود کردے۔
اب اگر ہم اہلبیت(ع) کی بعض روایات میں دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں غیب سے مراد امام غائب حضرت مہدی سلام اللہ علیہ لئے گئے ہیں[41]۔
تو یہ بات ہماری گذشتہ گفتگو سے اختلاف نہیں رکھتی۔ امام مہدی علیہ السلام ہمارے عقیدے کی بناء پر زندہ و سلامت ہیں اور نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ آیات کی تفسیر کے سلسلے کی روایات جن کے بہت سے نمونے آپ ملاحظہ کریں گے زیادہ تر مخصوص مصادیق کے لئے بیان ہوئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ان مصادیق میں محدود کردیا گیا ہے بلکہ مذکورہ روایات حقیقت میں ایمان بالغیب کی وسعت اور اس کے امام غائب تک کے شمول کو بیان کرتی ہے یہاں تک کہ کہا جاسکتا ہے کہ ایمان بالغیب ممکن ہے زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ نئے مصداق بھی پیدا کرے۔
بسم اللہ لرحمن الرحیم
۲۔ خدا سے رابطہ: پرہیز گاروں کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں(ویقیمون الصلواة)۔ نماز، خدا سے رابطے کی ایک رمز ہے۔
مومنین جو جہان ماورائے طبیعت تک رسائی حاصل کر چکے ہیں نماز ان کا دائمی و ہمیشگی رابطہ مبداء عظیم آفرینش سے برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ وہ صرف خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ وہ فقط جہان ہستی کے خالق کے سامنے جھکتے ہیں لہذا بتوں کے سامنے خضوع کرنا یا جباروں اور ستم گروں کے سامنے جھکنا ان کی زندگی میں کیسے حائل ہوسکتا ہے۔
ایسا انسان احساس کرتا ہے کہ میں تمام مخلوقات سے آگے بڑھ گیا ہوں اور مجھے اس مقام تک رسائی حاصل ہوگئی ہے کہ خدا سے گفتگو کروں۔ یہ احساس اس کی تربیت کےلئے بہترین عامل ہے۔
جو شخص روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ خدا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے اس کی کفر ، اس کا عمل اور اس کی گفتار سب خدائی ہوجاتی ہیں، کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس کی خواہش کے برخلاف قدم اٹھائے(لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ درگاہ حق میں اس کاراز و نیاز دل و جان کے ساتھ ہو اور مکمل دلجمعی کے ساتھ اس کی بارگاہ کا رخ کرے[42]۔
۳۔ انسانوں سے رابطہ: مومنین وہ لوگ ہیں جو پروردگار کے ساتھ دائمی رابطے کے علاوہ خلق خدا سے بھی مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ اسی لئے قرآن ان کی تیسری خصوصیت یہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے جو نعمتیں انہیں روزی کے طور پر عطا کی ہیں انہیں خرچ کرتے ہیں (و مما رزقناھم ینفقون)۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہتا کہ ” من اموالھم ینفقون“ ( اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں) بلکہ کہتا ہے مما رزقناھم۔ جو ہم نے انہیں رزق دیا ہے۔ اس طرح مسئلہ انفاق اور خرچ کرنے کو عمومیت دے دی گئی ہے گویا اس میں خدا کا مادی اور معنوی سب عنایتیں شامل ہیں۔ اس بناء پر پرہیزگار وہ ہیں جو نہ صرف اپنا مال بلکہ علم، عقل، دانش، جسمانی قوتیں، مقام اور منصب اجتماعی غرض اپنا ہر قسم کا سرمایہ صاحبان حاجت پر خرچ کرتے ہیں اور اس خواہش کے بغیر کہ ان لوگوں سے اس کا کچھ عوض ملے گا۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ انفاق اور خرچ کرنا جہان آفرینش کا ایک عمومی قانون ہے یہ قانون خاص طور پر موجودات زندہ میں نظر آتا ہے۔ مثلا انسان کا دل صرف اپنے لئے کام نہیں کرتا بلکہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ بدن کے تمام خلیوں پر خرچ کرتا ہے۔ مغز، جگر اور بدن انسانی کے کارخانے کا ہر جزء اپنے کام کے ماحصل کو ہمیشہ خرچ کرتا ہے۔ اصولی طور پر جو مل جل کر رہتے ہیں، انفاق کے بغیر ان کی زندگی کا کوئی مفہوم نہیں[43]۔
دوسرے انسانوں سے رابطہ در حقیقت خدا سے ربط و تعلق کا نتیجہ ہے جس انسان کا خدا سے تعلق ہے اور جو و مما رزقناھم کے مطابق روزی کو خدا کی عطا سمجھتا ہے، اسے اپنی پیدا کردہ نہیں سمجھتا بلکہ خدا تعالی کا عطیہ سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ چند دن کے لئے اس کے پاس بطور امانت ہے۔ وہ انفاق و بخشش سے تکلیف نہیں بلکہ راحت محسوس کرے گا کیونکہ اس نے خدا کی عطا خدا کے بندوں کو دی ہے البتہ اس کے مادی و معنوی نتائج و برکات خود حاصل کئے ہیں، یہ طرز فکر روح انسانی کو بخل و حسد سے پاک کردیتا ہے اور تنازعہ کی دنیا کو تعاون کی دنیا میں بدل دیتا ہے۔ ایسی دنیا کہ جس میں ہر شخص اپنے آپ کو مقروض سمجھتے ہوئے وہ نعمات جو اس کے پاس ہیں حاجت مندوں کے سپرد کردیتاہے۔ وہ آفتاب کی طرف نور افشانی کرتا ہے اور کسی عوض کا خواہاں نہیں ہوتا۔
یہ امر قابل غور ہے کہ امام صادق(ع) نے مما رزقناھم کی تفسیر میں ارشاد فرمایا:
ان معناہ و مما علمناھم یبثون
یعنی جن علوم و احکام کی ہم نے انہیں تعلیم دی ہے وہ ان کی نشر واشاعت کرتے ہیں اور جو ان کی احتیاج رکھتے ہیں انہیں تعلیم دیتے ہیں[44]۔
واضح ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انفاق اور خرچ کرنا علم کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ مسئلہ انفاق میں نگاہیں چونکہ مالی انفاق کی طرف متوجہ تھیں لہذا امام نے معنوی انفاق کا ذکر فرما کر اس مفہوم کی وسعت کو روشن کر دیا۔
ضمنی طور پر یہاں یہ بھی پورے طور پر واضح ہو گیا کہ زیر بحث آیت میں انفاق اور خرچ کرنے سے مراد فقط زکواة واجب یا واجب و مستحب دونوں نہیں بلکہ اس کا مفہوم وسیع تر ہے جو ہر قسم کی بلا عوض مدد پر محیط ہے۔
۴۔ پرہیزگاروں کی ایک اور خصوصیت: متقی انسانوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء اور خدائی پروگراموں پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے وہ ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ آپ(ص) پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے اس پرایمان رکھتے ہیں۔ والذین یومنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک۔
اس لحاظ سے قرآن نہ صرف یہ کہ اصول و اساس کی نظر سے دعوت انبیاء میں اختلاف نہیں رکھتا بلکہ انہیں ایک ایسا معلم و مربی سمجھتا ہے جن میں سےہر کوئی جہان انسانیت کی عظیم درسگاہ میں انسانوں کی تکمیل کے لئے قدم بڑھاتا ہے۔ انبیاء نہ صرف یہ کہ ادیان آسمانی کو فرقہ بندی اور نفاق کا ذریعہ نہیں سمجھتے بلکہ انسانوں کے درمیان ربط و تعلق کے لئے انہیں وسیلہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اس فکر و نظر کے حامل ہیں وہ اپنی روح کو تعصب سے پاک کرلیتے ہیں، پیغمبران خدا جو کچھ انسانی ہدایت و تکمیل کے لئے لے کر آئے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں اور راہ توحید کے سب ہادیوں کو قابل احترام سمجھتے ہیں۔
البتہ گذشتہ انبیاء کے دستورات پر ایمان انہیں اپنے فکر و عمل کو آخری نبی(ص) کے آئین سے منطبق کرنے سے نہیں روکتا (کیونکہ آخری نبی کا لایا ہوا آئین تکامل ادیان کے سلسلے کا آخری حلقہ ہے) اگر وہ ایسا نہ کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے مرحلہ تکمیل میں قدم بڑھانے کی بجائے ہٹایا ہے۔
۵۔ قیامت پر ایمان: یہ وہ آخری صفت ہے جو پرہیزگاروں کی صفات کے سلسلے میں بیان ہوئی ہے فرمایا گیا ہے کہ وہ آخرت پر یقینا ایمان رکھتے ہیں ( و با الآخرة ھم یوقنون)۔
وہ یقین رکھتے ہیں کہ انسان مہمل، عبث اور بے مقصد پیدا نہیں ہوا۔ اس کی تخلیق اس کے آگے بڑھنے کے لئے ہے اور اس کا سفر موت کے بعد ختم نہیں ہوجاتا کیونکہ اگر معاملہ یہیں پر ختم ہوجاتا تو یقینا چند دن کی زندگی کے لئے یہ شور و غل فضول اور بیکار تھا۔ وہ اقرار کرتا ہے کہ پروردگار کی عدالت مطلقہ سب کے انتظار میں ہے اور یہ نہیں کہ اس دنیا میں ہمارے اعمال بے حساب اور بغیر جزا و سزا کے رہ جائیں۔
جب وہ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے رہا ہوتا ہے تو قیامت کا اعتقاد اس میں اطمینان کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور کام کا بوجھ اس کے لئے باعث تکلیف نہیں رہتا بلکہ وہ ان ذمہ داریوں کا استقبال کر تا ہے۔ حوادث کے مقابلے میں کوہ گراں کی مانند کھڑا ہو جاتا ہے۔ غیر عادلانہ سلوک کے مقابلے میں سر نہیں جھکاتا۔ وہ مطمئن ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے نیک و بد کام کی جزا و سزا ہے، موت کے بعد ایک زیادہ وسیع جہان کی طرف منتقل ہونا ہے اور رحمت وسیع اور الطاف پروردگار سے بہرہ ور ہونا ہے۔
آخرت پر ایمان کا مطلب ہے عالم مادہ کی سرحد سے باہر نکل آنا اور ایک بلند تر عالم میں قدم رکھنا جو ایسا جہان ہے کہ ہماری دنیا اس کے لئے کھیتی ہے وہاں کی زندگی کے لئے زیادہ آمادہ ہونے کے لئے یہ ایک تربیت گاہ ہے۔ ا س دنیا کی زندگی آخری ہدف اور مقصد نہیں بلکہ یہ حقیقی زندگی کے لئے تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسرے جہان کی زندگی کو سازگار بنانے کے لئے اس جہان کی زندگی رحم مادر میں بچے کی زندگی کی طرح ہے۔ انسان کی خلقت کا مقصد کبھی بھی یہ زندگی نہیں رہا بلکہ یہ ایک زندگی کے لئے دور تکامل ہے جب تک انسان جنین سے صحیح و سالم اور ہر قسم کے عیب سے پاک متولد نہ ہو بعد والی زندگی میںخوش بخت اور سعادت مند نہیں ہوسکتا۔
قیامت کا عقیدہ رکھنا انسان کی زندگی پر گہرا اثر پیدا کرتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو شہامت و شجاعت بخشتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر انسان اس جہان کی زندگی میں افتخار کی بلندیوں تک پہنچتا ہے جو اسے خدا وند عالم کی مقدس راہ میں ”شہادت“ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ شہادت ایک صاحب ایمان انسان کے لئے محبوب ترین چیز ہے کیونکہ یہ در اصل ایک ابدی و جاودانی زندگی کی ابتداء ہے۔
قیامت پر ایمان انسان کو گناہ سے روکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے گناہ خدا اور آخرت پر ایمان سے نسبت معکوسی رکھتے ہیں۔ یہ ایمان جتنا قوی ہوگا گناہ اتنے کم ہوں گے۔ سورہ ص آیة ۲۶ میں حضرت داؤد سے خطاب الہی ہے:
ولا یتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ، ان الذین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب۔
خواہشات نفس کی پیروی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں خدائی راستے سے گمراہ کردیں گی وہ لوگ جو راہ خدا سے گمراہ ہوجاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے کیونکہ انہوں نے روز قیامت کو فراموش کردیا ہے۔
گویا روز جزا کو بھول جانا قسم قسم کی سرکشی ظلم وستم اور گناہوں کا پیش خیمہ ہے اور یہی چیزیں عذاب شدید کا سرچشمہ ہیں۔
زیر نظر آیات میں سے آخری ان لوگوں کے نتیجے اور انجام کار کی خبر دیتی ہے جن کی صفات گذشتہ پانچ آیات میں بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں (اولئک علی ھدی من ربھم) اور یہی کامیاب ہیں (و اولئک ھم المفلحون)۔
حقیقت میں ان کی ہدایت اور کامیابی کی ضمانت خدا کی طرف سے ہے۔ ” من ربھم “ کی تعبیر اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن کہتا ہے” علی ھدی من ربھم“ یہ ایسے ہے گویا ہدایت خداوندی ایک رہوار ہے جس پر وہ سوار ہیں اور اس سواری کی مدد سے وہ کامیابی اور سعادت کی طرف رواں دواں ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لفظ ”علی“ عموما تسلط علو اور غلبہ کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔
”ھدی“( بصورت نکرہ) ضمنا اس ہدایت کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جو خدا کی طرف سے ان کے شامل حال ہے یعنی وہ بہت عظیم ہدایت پر فائز ہیں۔
ھم المفلحون کی تعبیر علم معانی و بیان کے اصول کے پیش نظر دلیل حصر ہے یعنی کامیابی کا راستہ صرف انہی لوگوں کا راستہ ہے کیونکہ یہ لوگ پانچ مخصوص صفات اپنا کر ہدایت الہی سے سرفراز ہوئے ہیں[45]۔
چند اہم نکات
۱۔ ایمان و عمل کی راہ میں تسلسل: گذشتہ آیات میں تمام جگہوں پر فعل مضارع سے استفادہ کیا گیا ہے جو عموما استمرار و تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یوٴمنون با لغیب، یقیمون الصلواة، ینفقون، و بالآخرة ھم یوقنون۔ یہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پرہیز گار اور سچے مومن وہ ہیں جو اپنے پروگرام میں ثبات و استمرار رکھتے ہیں۔ زندگی کے نشیب و فراز ان کی روح فکر پر اثر انداز نہیں ہوتے اور ان سے ان کے انسان ساز پروگراموں میں خلل پیدا نہیں ہوتا۔
وہ ابتداء ہی سے حق طلبی کی روح رکھتے ہیں جو اس کا باعث بنتی ہے کہ وہ دعوت قرآن کے پیچھے جائیں اور پھر دعوت قرآن ان میں یہ پانچ صفات پیدا کردیتی ہے۔
۲۔ حقیقت تقوی کیا ہے: تقوی کا مادہ ہے”وقایة“ جس کے معنی ہیں نگہداری یا خود داری[46]۔
دوسرے لفظوں میں نظم و ضبط کی ایک ایسی اندرونی طاقت کا نام تقوی ہے جو سر کشی و شہوت کے مقابلے میں انسان کی حفاظت کرتی ہے حقیقت میں یہ قوت ایک ایسے مضبوط ہینڈل کا کام دیتی ہے جو وجود انسانی کی مسینری کو الٹ جانے کی جگہوں پر محفوظ رکھتا ہے اور خطرناک تیزیوں سے روکتا ہے۔
اسی لئے امیرالمومنین علی(ع) تقوی کو خطرات گناہ کے مقابلے میں ایک مضبوط قلعے کا عنوان دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
اعلموا عباد اللہ ان التقوی دار حصن عزیز
اے اللہ کے بندو! جان لو کہ تقوی ایسا مضبوط قلعہ ہے جسے تسخیر نہیں کیا جاسکتا[47]۔
اسلامی احادیث اور علماء اسلام کے کلمات میں حالت تقوی کے لئے بہت سی تشبیہات بیان ہوئی ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:
الا و ان التقوی مطایا ذلل حمل علیھا اھلھا و اعطوا ارمتھا فاوردتھم الجنة۔
تقوی ایسے راہوار کی مانند ہے جس پر اس کا مالک سوار ہو، اس کی باگ ڈور بھی اس کے ہاتھ میں ہو اور وہ اسے بہشت کے اندر پہنچادے[48]
بعض نے تقوی کو اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی ہے جو کانٹوں بھری زمین سے گذر رہا ہو اور اس کی کوشش میں ہو کہ اپنا دامن بھی سنبھالے رکھے اور قدم بھی احتیاط سے اٹھائے تاکہ کوئی کانٹا اس کے دامن سے نہ الجھ جائے اور نہ ہی کوئی خار اس کے پاؤں میں چبھے۔
عبد اللہ معتز نے اس کیفیت کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے:
۱۔ خل الذنوب صغیرھا و کبیر ھا فھو التقی
۲۔ واضع کماش فوق ارض الشوک یحذر ما یری
۳۔ لا تحقرون صغیرة ان الجبال من الحصی
۱۔ سب چھوٹے بڑے گناہوں کو چھوڑ دے کہ حقیقت تقوی یہی ہے۔
۲۔ اس شخص کی طرح ہو جا جو خار دار زمین پر انتہائی احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے۔
۳۔ چھوٹے گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھ کہ پہاڑ سنگریزوں ہی سے بنتا ہے[49]۔
ضمنا اس تشبیہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ تقوی یہ نہیں کہ انسان گوشہ نشین ہو جائے اور لوگوں سے میل جول ترک کر دے بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے اگر چہ وہ غلیظ معاشرہ ہی کیوں نہ ہو اپنی حفاظت کرے۔
اسلام میں کسی کی شخصیت کے لئے معیار فضیلت و افتخار یہی تقوی ہے اور اسلام کا شعار زندہ ہے: ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔
یعنی یقینا خدا کے یہاں تم میں سے زیادہ صاحب عزت و تکریم وہی ہے جو تقوی میں سب سے بڑھ کر ہے(حجرات، ۱۳)۔
حضرت علی فرماتے ہیں:
ان تقوی اللہ مفتاح سداد و ذخیرة معاد و عتق من کل ملکة ونجاة من کل ھلکة
تقوی اور خوف خدا ہر بند دروازے کی کلید ہے، قیامت کے لئے ذخیرہ ہے، شیطان کی بندگی سے آزادی کا سبب ہے اور ہر ہلاکت سے باعث نجات ہے[50]۔
ضمنا متوجہ رہئے گا کہ تقوی کی کئی ایک شاخیں اور شعبے ہیں مثلا تقوی مالی، تقوی اقتصادی، تقوی جنسی، تقوی اجتماعی اور تقوی سیاسی وغیرہ۔
…………………….
حواله جات
[40]. اقتباس از قرآن و آخرین پیامبر۔
[41]. نور الثقلین جلد اول ص ۳۱ ۔
[42]. اہمیت نماز اور اس کے بے شمار تربیتی آثار کے متعلق اسی تفسیر میں سورہ ہود کی آیة ۱۱۴ کے ذیل میں بحث کی گئی ہے۔
[43]. انفاق، اس کی اہمیت اور اس کے اثرات کی بحث اسی تفسیر کی جلد ۲ ص ۱۸۱ تا ۲۰۸ آیات ۲۶۱ تا ۲۷۴ پر ملاحظہ فرمائیں۔
[44]. نور الثقلین و مجمع البیان ذیل آیہ مذکورہ۔
[45]. صاحب تفسیر المنار مصر ہیں کہ اولئک دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے۔ پہلا وہ جس میں ایمان بالغیب،قیام نماز اور انفاق کی صفات پائی جاتی ہیں اور دوسراوہ جو آسمانی وحی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن یہ تفسیر بہت بعید نظر آتی ہے کیونکہ یہ پانچ صفات ایک گروہ سے مخصوص ہیں اور ایک دوسرے سے متصل ہیں اور اس کے دو حصے کرنا درست نہیں۔
[46]. راغب نے ”مفردات“ میں لکھا ہے ”وقایہ“ کے معنی ہیں چیزوں کو ان امور سے محفوظ کرنا جو انہیں نقصان یا تکلیف پہنچائیں اور تقوی کے معنی ہیں ”خطرات سے بچا کر روح کو ایک حفاظتی پردے میں رکھنا“ تقوی کے معنی کبھی خوف بھی کئے جاتے ہیں حالانکہ خوف تو تقوی کا سبب ہے۔ عرف شریعت میں تقوی کا مطلب ہے اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھنا اور کمال تقوی یہ ہے کہ مشتبہ چیزوں سے بھی اجتناب کیا جائے۔
[47]. نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۷۔
[48]. نہج البلاغہ ، خبطہ ۱۶۔
[49]. تفسیر ابوالفتوح رازی، جلد اول ص ۶۲۔
[50]. نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۰۔