- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/02/05
- 0 رائ
یہودیوں کو اپنے قدیمی صحائف میں جب یہ پیشنگوئی ملی کہ فاران کے پہاڑوں سے ایک مسیحا ظاہر گا جو سارے عالم میں دین الٰہی كا پرچار کرے گا، تو انہوں نے اس مسیحا کے انتظار میں جزیرہ عرب کا رخ کیا اور يثرب کو اپنا مسکن بنایا۔
مکہ بے آب و گیاہ وادی جب کہ یثرب سر سبز و شاداب بستی تھی، اس لئے یہ پڑاؤ کے لیے مناسب جگہ تھی۔ یہودیوں کے تین قبائل بنو نضیر، بنو قینقاع، اور بنو قریظہ یہاں آباد ہوئے۔ زراعت آور تجارت میں یہ خوب مہارت رکھتے تھے، رفتہ رفتہ یثرب کے اقتصادی امور کی بھاگ دوڑ ان کے ہاتھ لگ گئی۔
ان کی نظریں اب یثرب کے اطراف کی زرخیز زمینوں پر تھی، خیبر اور اس کے اطراف کے باغات سب سے مناسب جگہ تھی، یوں یہ قبائل اطراف یثرب میں پھیلنے لگے۔
خیبر کے اطراف میں سرسبز باغات اور نخلستانوں پر مشتمل ایک علاقے کو فدک کہا جاتا تھا، یہ یثرب سے لگ بھگ 160کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہاں کھجوروں کے بلند قامت پیڑ، لہلہاتے کھیت، صاف وشفاف چشمے، خوبصورت مناظر دیدنی تھے۔ اس لئے یہودیوں نے اس کی ملکیت حاصل کی۔ فدک کی اعلی نسل اور خوش ذائقہ کھجور کی مانگ زیادہ تھی، اس لئے ان باغات سے خوب آمدنی ہوتی تھی۔ سعودی عرب کے اس علاقے میں اب الحائط نامی شہر آباد ہے۔
فتح خیبر کے بعد یہودى یہ جان چکے تھے کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا ممکن نہی ہے، ورنہ ان کا انجام بھی اہلیانِ خیبر کی طرح ہو گا، اسلئے فدک کے یہودیوں نے مصالحت کی راہ اختیار کی۔ اس بات پر صلح ہو گئی کہ نصف فدک رسول اکرم کے حوالے کیا جائے گا جبکہ باقیماندہ میں ان کو حق تصرف حاصل ہو گا۔
چونکہ فدک بغیر فوج کشی کے حاصل ہوا تھا اسلئے مال فۓ کہلایا اور آنحضرت ص کی خصوصی ملکیت قرار پایا، اور اس میں کسی اور کا استحقاق نہ تھا۔ اس بارے میں مورخ طبری لکھتے ہیں کہ “و كانت فدك خالصة لرسول الله لأنهم لم يجلبوا عليها بخيل ولا ركاب” فدك رسول اللہ کی خصوصی ملکیت تھا، کیونکہ اس پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔
اور یہ خصوصی ملکیت آپ ص نے جناب سیدہ کو ہبہ کے طور پر عطا کر دیا۔ اس سلسے میں کتاب کنز العمال میں ابو سعید خدرى سے روایت ہے ” لما نزلت (و آت ذا القربى حقه) قال النبي ص يا فاطمة! لك فدك” جب یہ آیت (و آت ذا القربی حقہ) ہوئی تو پیغمبر ص نے فرمایا کہ: اے فاطمہ! فدک تمہارا حصہ ہے ۔
11ھجری کو جب حضرت ابوبکر نے زمام حکومت سنبھالی تو فدک سے جناب سیدہ س کو بے دخل کر کے اپنا قبضہ جما لیا۔ ابن حجر لکھتے ہیں ” ان ابا بکر انتزع من فاطمہ فدک” یعنی ابوبکر نے جناب فاطمہ سے فدک چھین لیا۔ جناب سیدہ س نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے فدک کی واپسی کا مطالبہ فرمایا، جس پر جنابِ ابوبکر نے ہبہ کے گواہ طلب کئے۔ امیر المومنین ع اور ام ایمن نے جناب سیدہ کے حق میں گواہی دی مگر ان کی گواہی قبول نہی کی گئی اور دختر رسول س کے دعوی فدک کو غلط بیانی پر محمل کرتے ہوئے خارج کیا گیا۔
بلاذری نے فتوح بلدان میں یہ واقعہ یوں درج كيا ہے کہ ” قالت فاطمة لأبي بكر: إن رسول الله جعل لي فدك فاعطني اياها، و شهد لها علي بن ابي طالب، فسئلها شاهدا آخر، فشهدت لها ام ايمن، فقال: قد علمت يا بنت رسول الله! أنه لا تجوز إلا شهادة رجلين أو رجل و امرأتين.” حضرت فاطمہ س نے ابوبکر سے کہا: رسول اللہ نے فدک مجھے دیا تھا، لہذا وہ میرے حوالے کرو اور امیر المومنین نے ان کے حق میں گواہی دی۔ حضرت ابوبکر نے دوسرے گواہ کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ دوسری گواہی ام ایمن نے دی، جس پر ابوبکر نے کہا: اے دختر رسول! تم جانتی ہو کہ گواہی کیلئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہونا چاہئیں۔
جب دنیا کی سب سے سچی خاتون کا دعوی مسترد کیا گیا تو جناب سیدہ نے فدک کا مطالبہ میراث کی رو سے کیا۔ فدک کو پیغمبر ص کی طرف سے ہبہ تسلیم نہیں کیا گیا، تو اس کا تو انکار نہیں کیا جا سکتا تھا کہ فدک رسول اکرم کی ذاتی ملکیت تھی اور یہ ملکیت وراثت میں ان کی اولاد کو منتقل ہوگی۔
جبکہ رسول اکرم ص کی تنہا وارث جناب سیدہ تھی لہذا وراثت کے رو سے فدک جناب فاطمہ کو ملنا چاہیے تھا. صاحب الملل والنحل تحریر کرتے ہیں “و دعوى فاطمة عليها السلام وراثة تارة و تمليكا أخرى” جناب فاطمہ نے ایک دفعہ وراثت کی رو سے دعوی کیا اور ایک دفعہ ملکیت کی رو سے.
جناب سیدہ کے حق وراثت کو مسترد کرنے کے لیے آپ کے سامنے ایک ایسا قول پیش کیا گیا جس کی نسبت رسول اکرم کی طرف دی گئی کہ رسول خدا نے فرمایا تھا کہ : ہم گروہ انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے بلکہ جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے. یہ وہ قول تھا کہ جس کا حضرت ابوبکر کے علاوہ کسی کو علم نہ تھا اور نہ صحابہ میں سے کسی اور نے اسے سنا تھا.
چنانچہ تاریخ خلفاء میں جلال الدین سیوطی نے تحریر کیا کہ: اختلفوا في ميراثه فما وجدوا عند احد من ذلك علما، فقال ابوبكر: سمعت رسول الله ص يقول: انا معشر الانبياء لا نورث ما تركناه صدقة” انحضرت ص کی وفات کے بعد آپ کی میراث کے بارے میں اختلاف پیدا ہوا اور کسی کے پاس اس کے متعلق کوئی اطلاع نہ تھی. البتہ ابوبکر نے کہا کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے: ہم گروہ انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے بلکہ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے.
دختر رسول نے جب مسند نشینوں کے یہ تیور دیکھے تو سمجھ گئیں کہ وہ کسی طرح بھی ان کو حق واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو دربار حکومت میں کھڑے ہو کر یاران مصطفی سے مخاطب ہوئیں اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا، جسے ابن طیفور نے بلاغات النساء میں درج کیا ہے اور اسے خطبہ فدکیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.
اس خطبے میں جناب زہراء س نے حکمت الہی کہ وہ جواہر بیان فرمائے کہ اہل دانش دہنگ رہ گئے۔ آپ نے حمد و ثنا کے بعد مسلمانوں کے اسلام سے پہلے کی حالت بیان کی،اسلام کی وجہ سے ان کے معاشرے میں تبدیلی کا ذکر کیا، خاندان رسالت کا فضل بیان فرمایا اور احکام شرعیہ کی حقیقت بیان کی، نبوت کے بعد ولایت کی حکمت، غصب خلافت پر ان کی خاموشی، اور اللہ تعالیٰ کے وعدے وعید کا ذکر کیا، قران کریم سے استدلال کرتے ہوئے وراثت کے بارے میں سات آیات پیش کیں اور جس قول کی رسول کی طرف نسبت دی گئی تھی قران کی آیات سے استدلال کرتے ہوئے ان پر خط بطلان کھینچ دیا.
اللہ تعالیٰ نے وراثت کا جو قانون قرآن میں بیان کیا ہے اس کی رو سے وارثت میں بیٹی کا حق مسلم ہے اور اس قانون سے کسی کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیاہے۔ قانون وراثت کی رو سے جب ہر بیٹی کو باپ کی وراثت مل سکتی ہے تو دختر رسول کو کیوں نہیں مل سکتی۔
اور جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، تو قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یہ ایک بےبنیاد دعویٰ ہے۔ سورہ نمل میں ارشادِ ربانی ہے کہ حضرت سلیمان ع حضرت داؤد کے وارث بنے؛ “و ورث سلیمان داؤد” سلیمان داؤد کے وارث ہوئے۔ اور حضرت یعقوب ع کی دعا قرآن میں مذکور ہے کہ اے پروردگار! مجھے اپنی طرف سے ولی عطا فرما، جو میرا اور آل یعقوب کا وراث ہو، فرمایا؛ ” یرثنی و یرث من آل یعقوب” (مریم۔6) جو میرا اور اولاد یعقوب کا وراث بنے۔
اگر انبیاء کا وراث ہی نہ ہوتا تو حضرت زکریا ع نے یہ دعا کیوں مانگی۔
جناب سیدہ س نے قرآن کے رو سے اس بے بنیاد دعوے کے پول کھول دیے اور کلام الٰہی سے ثابت کیا کہ انبیاء کی وراثت ہوتی ہے اور کسی بیٹی کو اس رو سے محروم رکھنا، قانون الٰہی کے انکار کے مترادف ہے۔
جب یہ سب واضح ہو چکا، تو سیدہ کونین س مسند خلافت پر متمکن جناب ابوبکر سے مخاطب ہوئیں اور فرمایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابوبکر کی بیٹی تو اس کی وراث بنے مگر بنت رسول اپنے باپ کی وارث نہ بنے۔ کس قانون کے تحت یہ درست ہو سکتا ہے۔ ہرگز نہیں! قرآن کریم اس کی اجازت نہیں دیتا۔
دختر رسول کو اس بات کا احساس تھا کہ ابھی تو بابا کے قبر کی مٹی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ان کو مسلمانوں کے سامنے اپنے حق کی صفائی پیش کرنی پڑی۔ جوان سال بیٹی کی آواز میں اب یہ احساس شدت سے محسوس ہو رہا تھا۔ الفاظ کی حدت میں پوشیدہ اس شکوے کو ہر ایک محسوس کرنے لگا تھا، جناب سیدہ سے اب برداشت نہ ہو سکا اور در چشمان پر اشکوں نے دستک دی، آنسوں کی روانی سسکیوں میں ڈھل گئی۔ ہائے دختر رسول کی مظلومیت کہ سسکیوں کی آہٹ نے یکایک دربار کو ماتم کدہ میں بدل دیا اور ہر جانب گریہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
یہ ماحول دیکھ کر جناب ابوبکر بھی گریہ کرنے لگے، شاید ان کو محسوس ہوا کہ بنت رسول کے حق جھٹلانا درست نہ تھا، یہ سوچ کر آپ منبر سے نیچے تشریف لائے اور بغیر کچھ کہے ایک تحریر لکھنے لگنے۔ پھر یہ نوشتہ جناب سیدہ س کی خدمت میں پیش کیا اور یوں جناب سیدہ کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
صاحب سیرتِ حلبیہ نے یہ واقعہ سبط ابنِ جوزی سے یوں نقل کیاہے، “إن فاطمة جاءت إلى ابي بكر وهو على منبر فقالت: يا أبابكر! أفي كتاب الله أن ترث ابنتك ولا أرث أبي، فاستعبر أبو بكر باكيا، ثم نزل فكتب لها فدك ” حضرت ابوبکر منبر پر تھے کہ جناب فاطمہ س تشریف لائیں اور فرمایا کہ: قران میں یہ تو ہو تمہاری بیٹی تمہاری وارث بنے اور میں اپنے باپ کا ورثہ نہ پاؤں. اس پر حضرت ابوبکر رونے لگے اور منبر سے نیچے اتر آئے اور فاطمہ کو فدک کی دستاویز لکھ دی.
دختر رسول کے ہاتھ میں نوشتہ فدک کے آتے ہی دربار کی فضاء بدلنے لگی، غم کا گریہ خوشی کے آنسوں میں ڈھلنے لگا، لوگوں کے چہروں پر فرحت کے آثار دکھنے لگے، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ سیدہ س کی رنجشوں کا مداوا ہونے کو ہے۔ لیکن یہ ماحول ذیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکا، بہار کی شروعات سے پہلے خزان کے طبل بجنے لگے۔
عمر بن خطاب آگے بڑھے، ان کی نظریں بنت رسول کے ہاتھوں میں فدک کی دستاویز پر تھیں اور چہرے پر غضب کے آثار نمایاں تھے۔ ان کے ایک جانب خلیفہ وقت اور دوسری جانب سیدہ کونین س، نگاہیں جناب ابوبکر کیطرف موڑ تے ہوئے تحکیمانہ لہجے میں استفسار کرنے لگے کہ آخر انہوں نے یہ ارادہ ہی کیسے کیا کہ سیدہ س کو حق لوٹایا جائے اور پھر دستاویز بھی لکھ ڈالی۔ اس سوال کے جواب میں خلیفہ وقت اپنی صفائی پیش کرنے لگے، اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی ان سے تفتیش کر رہا ہے۔
صاحب سیرتِ حلبیہ نے اس ماحول کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ؛ ” و دخل عليه عمر فقال ما هذا؟ فقال: كتاب كتبته لفاطمة ميراثها من أبيها، قال: فماذا تنفق على المسلمين وقد حاربتك العرب كما ترى” اتنے میں حضرت عمر آئے اور پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ حضرت ابوبکر نے کہا کہ: میں نے جناب فاطمہ س کے لئے میراث کا نوشتہ لکھ دیا ہے کہ جو انہیں ان کے باپ کی طرف سے پہنچاتی ہے۔ حضرت عمر نے کہا کہ: پھر مسلمانوں پر کیا صرف کرو گے، جبکہ عرب تم سے جنگ کے لیے آمادہ ہیں۔
حاضرین مجلس یہ منظر دیکھ کر دست بدندان تھے کہ آخر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ کوئی خلیفہ وقت کے فیصلے پر نہ صرف اعتراض بلکہ ان سے پوچھ گچھ کرے۔ ان کے صفحہ ذہن پر یہ سوال ابھرا کہ ان کو اس پوچھ گچھ کا حق کس نے دیا ہے۔ ان کی حیرت میں اس وقت اضافہ ہوا جب یہ دیکھا کہ خلیفہ وقت ان کو ٹھوکنے کے بجائے دھیمے لہجے میں صفائی پیش کر رہا ہے۔ اس گفتگو سے یہ تاثر واضح ہو رہا تھا کہ زمام اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں ہے ورنہ یہ لہجہ اور یہ انداز اپنانے کی کیا توجیہ ہو سکتی تھی۔
جناب عمر بن خطاب کو حضرت ابوبکر کا جواب پسند نہ آیا، ان کے تیور سے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی غیر متوقع کام انجام دینے والے ہیں اور پھر یکایک انہوں نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا جب دختر رسول کے ہاتھ سے وہ تحریر چھین لی۔ صرف اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ بات اس حد تک بڑھ گئی کہ عمر بن خطاب نے وہ نوشتہ پھاڑ کر پھینک دیا۔ علماء نے اسے یوں تحریر کیا ہے کہ” ثم أخذ عمر الكتاب فشقه” يہ کہہ کر حضرت عمر نے وہ تحریر چاک کر ڈالی۔ (سیرت حلبیہ، ج3، ص400)
جناب عمر کے اس طرز عمل سے دربار خلافت کی فضا یکسر تبدیل ہو گئی ہر طرف سناٹا چھا گیا اور حیرت و افسردگی کا سماں بن گیا۔ تذبذب کے عالم میں سب کے دل و دماغ میں یہ سوال گردش کرنے لگا کہ جب بات بنت رسول اور خلیفہ وقت کے درمیان تھی تو پھر کسی اور کو مداخلت کا حق کیسے حاصل ہوا. مزید براں کے اس نومولود حکومت کو تو ابھی ہفتہ ہفتہ دس دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کو حکومت چلانے میں دقت پیش آرہی تھی، اور اگر واقعا اخراجات کی مشکل درپیش تھی تو مسلمانوں کی تجوریاں کہاں چلی گئی تھی کہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے دختر رسول سے فدک چھینا جا رہا ہے.
سب کی نظریں اب خلیفہ وقت پر تھیں کہ وہ جناب عمر کہ اس عمل پر کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ان سے توقع یہی کی جا رہی تھی کہ وہ اپنی خلافت کا بھرم باقی رکھیں گے چونکہ اس وقت حضرت عمر کی حیثیت ایک عام مسلمان فرد کی تھی جبکہ حضرت ابوبکر صاحب مسند تھے اور بظاہر زمام اقتدار ان کے ہاتھ میں تھی، لہذا اب سب ایک مناسب ردعمل کے منتظر تھے۔ جناب زہراء س اسی انتظار میں تھیں کہ اب کیا جواب آتا ہے.
جناب ابوبکر نے چپ سادھ لی اور بغیر کچھ کہے منبر کی طرف بڑھے، منبر پر بیٹھ کر سر نیچے کو جھکا لیا اور سکوت اختیار کی۔ ان کا یہ سکوت ان کی رضامندی کا غماز بن رہا تھا اور ان کی خاموشی سے ایک پراسرار ناتوانی اور ضعف کا اظہار چھلک رہا تھا جیسے کوئی غیر مرئی طاقت اس کو روک رہی ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ احساس بڑھ رہا تھا کہ وہ اس عمل سے راضی ہے اور اس کی خاموشی نے جناب عمر کہ اس فعل پر مہر تصدیق ثبت کر لی۔
اب مزید خاموشی سے حالات دسترس سے باہر ہونے کو تھے کہ جنابِ ابوبکر کو حالات کی نزاکت کا احساس ہونے لگا لہذا ماحول پر اپنی گرفت مضبوط رکھنی کے لیے انہوں نے آخر کار خاموشی توڑ ڈالی۔ حضرت فاطمہ س سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ جو کام رسولِ اکرم نے انجام نہ دیا ہو وہ میں کیسے کرسکتا ہو۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں اس عذرتراشی کو یوں درج کیا ہے۔
“فأبى ابوبكر عليها ذالك وقال: لست تاركا شيئا كان رسول الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به فإنى أخشى إن تركت شيئا من أمره أن ازيغ….” جناب ابوبکر نے (حق زہراء) دینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ: میں کوئی بھی ایسا عمل نہیں چھوڑ سکتا جسے رسولِ اکرم اپنی زندگی میں کرتے رہے ہوں گے اور اگر ایسا کوئی کام چھوٹ جائے تو مجھے بے راہ روی کا اندیشہ ہے۔ گویا یہ عذرخواہی کر رہے تھے کہ خیبر و فدک کے اموال تو سرے سے رسول اکرم نے تقسیم ہی نہیں کیے تھے،پھر میں کیسے کر سکتا ہوں۔ کچھ دیر پہلے تو فرما رہے تھے کہ انبیاء کی وراثت ہی نہی ہوتی اور اب فرما رہے ہیں کہ رسولِ اکرم نے تقسیم اموال سے دریغ فرمایا تھا۔ اب کونسی بات مانی جائے، یا پھر کار نہ کرد را بہانہ بسیار۔
بنت رسول کے جذبات کا رخ اب تبدیل ہو رہا تھا. چند لحظے پہلے حیرت کے آثار اب محو ہونا شروع ہو گئے تھے اور ان کی جگہ غضب اور افسردگی نے لے لی تھی. گویا ان کو صاحبان مسند کی طرف سے یہ پیغام مل گیا تھا کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں لہذا ہم سے کوئی توقع نہ رکھی جائے اور یہ امر نہ صرف افسردگی بلکہ باعث ناراضگی بن گیا. یاران باوفا نے بھی اس موقع پر اپنی مصلحت آمیز خاموشی نہیں توڑی اور سکوت کی راہ اختیار کر لی۔ بنت رسول کے حق کو اپنے آنکھوں کے سامنے پامال ہوتے دیکھ کر آنکھیں چرا لینا کہاں کی مسلمانی ہے۔ کیا رسول اور اہل بیت رسول سے مودت کے اظہار کا یہی طریقہ تھا.
جناب سیدہ نے ماحول کو دیکھ کر محسوس کر لیا کہ پیروان مصطفیٰ ص کے رویے اس کے بعد بدل ہو چکے ہیں اور انہوں نے کوئی اور راہ اختیار کر لی ہے، لہذا ناراضگی کی حالت میں دربار سے واپس بیت الشرف کی طرف روانہ ہوئیں. جناب بخاری نے حضرت عائشہ رض کی روایت یوں تحریر کی ہے کہ” فغضبت بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فهجرت أبابكر و لم تزل مهاجرته حتى توفيت” (صحيح بخارى،باب فرض خمس، ح3093) جناب سیدہ س (اس انکار پر)غضبناک ہوئیں یہاں تک کہ ابوبکر سے قطع تعلق کیا اور تا دم مرگ اس سے ناراض رہیں۔
جناب بخاری نے اپنی کتاب میں واقعہ فدک انتہائی اختصار سے ذکر کیا ہے۔ صحیح بخاری کے باب فرض خمس کی تیسری حدیث۔3093 کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حقائق سے چشم پوشی کی خاطر بے جا قطع وبرید اور اختصار سے کام لیا گیاہے۔ لیکن جس حق کو خدا نے آشکارا کرنا ہوتا ہے، وہ کب پوشیدہ رہ سکتا ہے،
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
از قلم : شیخ محمد مرتضی علوی
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)