قرآن مجید کی صفات بہت زیادہ ہیں لیکن احادیث اہل بیت (ع) میں قرآن مجید کی صفات کا تذکرہ ۸۰ سے زائد عناوین سے ملتا ہے، جنہیں جامع طور پر آٹھ بڑے عناوین میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ آٹھ عناوین قرآن مجید کی عظمت اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، اور ہمیں اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، یہ عناوین درج ذیل ہیں۔
1۔ قرآن مجید کی علمی جامعیت
قرآن مجید کی ایک واضح ترین خصوصیت یہ ہے کہ وہ کائنات اور انسان کے وجودی پہلوؤں کی شناخت کے سلسلےمیں انسان ساز معارف کا حامل ہے۔ اہل بیت (ع) نے انسانی ضرورت کے تمام معارف کے زاویے سے قرآن مجید کے جامع ہونے کی پرزور تائید فرمائی ہے۔
حضرت علی (ع) قرآن مجید کی علمی جامعیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
وہ ان کے لئے ایک ایسا نسخہ لائے جس میں سابقہ کتابوں کی تعلیمات موجود ہیں۔ یہ گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور حلال و حرام کو بیان کرنے والا ہے۔ وہ نسخہ یہی قرآن مجید ہے۔ اس سے سوال کرو تا کہ وہ تمہیں جواب دے۔
البتہ وہ ہرگز تمہارے ساتھ گفتگو نہیں کرے گا بلکہ میں تمہارے لئے قران کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ قرآن مجید میں ماضی کا اورقیامت تک کا علم اور تمہارے درمیان انجام پانے والے امور کا حکم اور تمہارے اختلافی مسائل کا بیان موجود ہے۔ اگر تم لوگ ان سب چیزوں کے بارے میں مجھ سے سوال کرو گے تو میں تمہیں آگاہ کروں گا۔[1]
یقیناً قرآنِ پاک کی عظمت اور اس کی علمی جامعیت کو ایک مختصر مقالے میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ ’’قرآن مجید کی علمی جامعیت‘‘ کے بارے میں مکمل تفصیل اس تحریر میں موجود ہے۔۔
2۔ قرآن مجید کا خالق و مخلوق کے درمیان وسیلہ ہونا
بعض منقولات کی بنا پر، قرآن مجید کی صفات اس اہم نکتہ کو بیان کرتی ہیں کہ مادی دنیا میں انسان ایک قابل اعتماد سہارے کا محتاج ہے جو اسے شرک اور مختلف قسم کی گمراہیوں کے اندھیرے کنویں میں گرنے سے بچالے اور اسے عالم غیب کے معنوی فیوضات سے مستفیض کرے نیز اسے اس دنیا سے بلندتر منازل کی طرف ہجرت کرنے کے لئے آمادہ کرے۔ اس سلسلے میں ذکر کی جانے والی بعض قرآن مجید کی صفات حسب ذیل ہیں:
الحبل المتين[2]، سبب اللّه الامين[3]، حبل وثيق عروته[4]، العصمة للتمسک[5]، النجاة للمتعلق[6]، العروة الوثقی[7]، شافع مشفّع[8]، ما حل مصدّق[9]، قائل مصدّق[10]
احادیث میں ذکر شدہ قرآن مجید کی صفات سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید ایک مضبوط رسی ہے۔ انسان اس کا سہارا لے کر خود کو مادی دنیا کی ہولناک موجوں اور تاریک گرداب میں غرق ہونے سے نجات دے سکتا ہے۔
حدیث ثقلین میں قرآن مجید کی صفات
”حبل ممدود من السماء الی الأرض” (آسمان سے زمین کی طرف آویزاں رسی) اس تعبیر سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید عالم مادہ و طبیعت اور عالم ملکوت کے درمیان اتصال اور رابطے کا ایک مضبوط وسیلہ ہے اور تمام بندے اپنی نجات کے لئے اس کا سہارا لے سکتے ہیں اور اس سے تمسک کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید کا واضح حکم: ”خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو” بھی قرآن کی اس خصوصیت کی خبر دیتا ہے۔
3۔ قرآن مجید کا شرعی احکام اور ضروری قوانین پر مشتمل ہونا
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل قرآن مجید کی صفات قابل ذکر ہیں:
آمر زاجر[11]، منهاج لا يضل نهجه[12]، رياض العدل وغد رانه[13]، اثافی الاسلام وبنيانه[14]، أودية الحق وغيطانه[15]، حکم لمن قضی[16]، الفضيلة الکبری[17]، السعادة العظمی[18]، الدرجة العليا[19]، الطريقة المثلی[20]
قرآن مجید کی صفات جو تشریعی پہلو کی طرف اشارہ کرنے والی بالا، مذکورہ صفات میں سے ہر صفت چند خصوصیات کو بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر”آمر و زاجر” (حکم دینے والا اور روکنے والا) اور”حکم لمن قضی” (قضاوت کا عہدہ سنبھالنے والے کے لئے حکم اور فرمان) کی صفات اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قرآن مجید اعتقادی مباحث اور چند اخلاقی ہدایات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ خاص احکام، اوامر و نواہی اور عدلیہ سے متعلق ضروری قوانین پر بھی مشتمل ہے۔
ان میں سے بعض قرآن مجید کی صفات مثلا: ”الطريقة المثلی، السعادة العظميٰ وغيره” اس نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ عدل و انصاف اور منزل کمال کا تشنہ انسان ہمیشہ جس مثالی نظام اور مدینہ فاضلہ کی تلاش میں تھا وہ قرآن مجید کے بغیر اسے حاصل نہیں کرسکتا۔
خلاصہ یہ کہ قرآن مجید کی صفات، اعتقادی و اخلاقی اصولوں، فقہی احکام اور انفرادی آداب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشرتی، اجتماعی، اقتصادی اور قانونی نظاموں نیز بین الاقوامی روابط کو بھی بیان فرماتا ہے۔ ان نظاموں میں لازم الاجرا قوانین کے علاوہ وہ اخلاقی ہدایات بھی موجود ہیں جو قوانین کا تکمیلی رول ادا کرتی ہے۔
امیرالمؤمنین علی (ع) اور قرآن مجید کی صفات
امیر المؤمنین علی (ع) قرآن مجید کی صفات اور اس کی عظمت کے بارے میں فرماتے ہیں: تمہارے پروردگار کی کتاب تمہارے درمیان ہے جو حلال و حرام، واجب و مستحب، ناسخ و منسوخ، مباح و ممنوع، خاص و عام، نصائح و امثال، مطلق و مقیّد اور محکم و مشتابہ کو بیان کرنے والی ہے۔ یہ اپنی مجمل و مبہم عبارتوں کی تفسیر اور پیچیدہ نکات کی وضاحت خود کرتی ہے۔ ان میں وہ واجبات ہیں جن سے آگاہی کا پیمان لیا گیا ہے اور وہ مستحبات ہیں جن کا جاننا ضروری نہیں ہے۔ دینی احکام کا ایک حصہ قرآن مجید میں واجب شمار کیا گیا ہے۔
ان کا ناسخ پیغمبر اکرم (ص) کی سنت میں آیا ہے۔ ان میں سے بعض پیغمبر (ص) کی سنت میں واجب قرار پائے ہیں جبکہ خدا کی کتاب میں ان کو ترک کرنا جائز تھا۔ بعض واجبات کا وقت محدود تھا جو بعد میں ختم ہوا ہے۔ خدا کے محرمات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے بعض گناہان کبیرہ ہیں جن پر جہنم کا وعدہ دیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض گناہان صغیرہ ہیں جن کے بارے میں بخشش کا وعدہ دیا گیا ہے۔ بعض اعمال وہ ہیں جن کا تھوڑا حصہ قبولیت کی شرط ہے اور باقی حصے کو انجام دینے یا نہ دینے کی آزادی ہے۔[21]
آپ (ع) مزید فرماتے ہیں: بیشک خداوند متعال نے ہدایت کرنے والی کتاب بھیجی ہے اور اس میں نیکی و بدی کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ پس نیکی کی راہ اپناؤ تاکہ ہدایت پاؤ نیز برائی سے پرہیز کرو تاکہ سیدھے راستے پر قرار پاؤ۔[22]
4۔ قرآن مجید کا محور ہدایت و تربیت ہونا
قرآن مجید کی صفات انسان کی ہدایت و تربیت میں اس کتاب کے کردار سے مربوط ہیں۔ مندرجہ ذیل قرآن مجید کی صفات اسی نوعیت کی ہیں:
هادٍ مرشد[23]، واعظ ناصح[24]، النّاصح الذی لا يغشالهادی[25]، الذی لا يضل[26]، هدیً لمن ائتمّ به[27]، عهد قدّمه اليکم[28]، عهد الله[29]، دواء ليس بعده دواء[30]، الامام المشفق[31]، حاملاً لمن حمله[32]، مطية لمن أعمله[33]، المؤدي الی الجنة المنجی من النار[34]، شفاء لا تخشی أسقامه[35]، الشفاء الاشفی[36]، الشفاء النافع[37]
انسان کی تربیت و ہدایت میں قرآن مجید کی صفات اور اس کے کردار کے حوالے سے اہل بیت (ع) کے کلام میں بیان شدہ مذکورہ بالا اوصاف چند خصوصیات کو بیان کرتی ہیں۔ ان اوصاف میں سے بعض مثلا: ”منهاج لايضل نهجه” ایک واضح راستہ جس پر چلنے والا گم نہیں ہوتا، قرآن مجید کی صفات تشریحی پہلو سے متعلق ہیں۔ یعنی قرآن مجید سیدھے راستے کو باطل راستے کے مقابلے میں اس طرح سے بیان کرتا ہے کہ اگر کوئی قرآن مجید کی صفات کی معرفت اور اس کا پیروکار ہو تو اسے حق کا راستہ پہچاننے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
”منھاج” سے مراد ہے: واضح اور وسیع راستہ۔ قرآن مجید کی صفات میں سے ایک صفت منہاج ہے یعنی وہ انسان کی کامیابی کے راستے کو اس طرح واضح اور وسیع پیمانے پرنمایاں کرتا ہے کہ اس کے پیروکار کسی پریشانی اور سختی کے بغیر اسے پہچان کر اس پر چل سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی صفات: ”منازل لا يضل تهجه المسافرون” (ایسے منازل جن کا راستہ مسافر گم نہیں کرتے) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی راہ پر چلنے والے اپنے سفر کے دوران ہمیشہ آگے بڑھتے رہتے ہیں اور وہ اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے جب ایک مدت کے بعد ایک منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو رکتے نہیں بلکہ بلند تر منزلوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
قرآن مجید کی صفات جو قرآن مجید کی راہ پر چلنے والوں کی مدد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ گویا قرآن مجید صرف رہنمائی پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ ایک نگران ساتھی اور مربّی کے طور پر منزل کمال کے راہی کا ساتھ دیتا جاتا ہے اور راستہ طے کرنے میں اس کی مدد کرتا رہتا ہے۔ لہذا فرماتا ہے: ”مطيّه لمن اعمله حامل لمن حمله” یعنی قرآن مجید اپنے حامل اور اس پر عمل کرنے والے کی سواری ہے۔
قرآن مجید کی صفات جو شفا ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کی وضاحت یوں ہے کہ دل، جو انسان کی روح اور اس کی حقیقی شخصیت کی تعبیر ہے، اگر سالم ہو تو وہ کائناتی حقائق خاص کر نفس سے مربوط حقائق کو درک کرسکتا ہے، اپنے پروردگار اور قیامت پر ایمان لاسکتا ہے، نیکیوں کی طرف میلان پیدا کرسکتا ہے اور کمال انسانی تک پہنچنے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں خاص کر کفر و شرک سے بچ سکتا ہے۔
قرآن مجید کی صفات کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث میں بیان کی گئی خصوصیات سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی صفات میں سے ایک صفت، روحانی بیماریوں کا سب سے جامع اور سب سے مؤثر نسخہ ہے۔ اسی لئے قرآن مجید کی صفات میں سے ایک اور صفت: ”دواء ليس بعده دواء” (ایسی دوائی جس سے بڑھ کر کوئی دوا نہیں) سے کی گئی ہے۔ پس اگر کسی بیماری کی شفاء قرآن مجید میں نہ مل سکے تو کوئی اور دوائی اس کا علاج نہیں کرسکتی اور اس بیماری سے افاقہ کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: دل کو بھی لوہے کی طرح زنگ لگ جاتا ہے۔ سوال کیا گیا: یارسول اللہ! دلوں کے زنگ کی جلا کیا ہے؟ فرمایا: قرآن مجید کی تلاوت اور موت کا ذکر۔[38]
اسی طرح انس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ان سے فرمایا: اے ابن ام سلیم! صبح و شام قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے غفلت نہ برتنا! کیونکہ قرآن مجید مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے۔[39]
قرآن مجید کی صفات میں سے ”عهدالله” ایک صفت ہے۔ عہد اس حکم اور فرمان کو کہا جاتا ہے جسے حاکم اپنے ماتحتوں اور گماشتوں کے نام صادر کرتا ہے۔[40] ”عهداللہ” کا وصف اس نکتے کی وضاحت کرتا ہے کہ قرآن مجید تمام بندوں کے لئے خدا کا دستور العمل ہے۔ انہیں ہمیشہ اسے اپنا نصب العین قرار دینا چاہیئے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کا نظام منظم کرنا چاہئیے۔
5۔ قرآن مجید کے پیغام کا ابدی ہونا
قرآن مجید کے معانی کا مستحکم، مضبوط اور ابدی ہونا اس الٰہی کتاب کی ایک خصوصیت ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت اطہار (ع) کے کلام میں ذکر شدہ بعض قرآن مجید کی صفات ان خصوصیت کو بیان کرتی ہیں:
بيت لا تهدم أرکانه[41]، بقية استخلفها عليکم[42]، برهان لمن تکلم به[43]، فلج لمن حاجَّ به[44]، شاهد لمن خاصم به[45]، فرقان لا يخمد برهانه۔[46]
قرآن مجید کی مکان سے تشبیہ ’’بيت لا تهدم ارکانه‘‘سے ہم قرآن مجید کے معارف و احکام کے اجزاء کی ہمآہنگی اور انسجام کو سمجھ سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی ہر آیت اور اس کی آیات میں بیان شدہ ہر حکم ان اینٹوں کے مانند ہے جن سے دین کی مضبوط اور مستحکم عمارت کو بنانے میں استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کا مجموعہ وہ ابدی عمارت ہے جس کی بنیادیں اور ارکان ہمیشہ قائم اور استوار رہیں گے۔
”بقية استخلفها عليکم” کا وصف (پوری تاریخ بشریت میں) قرآن مجید کے پیغام کی بنیادوں کے استحکام مستحکم اور پائیداری کے زاویے سے اس مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ خداوند متعال نے قرآن مجید بھیجنے سے پہلے لوگوں کی ہدایت کے لئے کئی کتابیں نازل کی ہیں لیکن ان میں سے ہر کتاب ایک مدت کے بعد لوگوں کے ہاتھوں سے خارج ہوگئی۔
ان کتابوں کا آخری نمونہ قرآن مجید ہے جو ان سب کتابوں کی یادگار اور ان کا جانشین ہے۔ جو شخص ان آسمانی پیغامات کے مفاہیم سے دلچسپی اور محبت رکھتا ہو اسے اپنے پورے وجود کے ساتھ قرآن مجید کے پاس آنا چاہئے تاکہ ان سب پیغامات کی دل انگیز خوشبو کو اس کتاب (قرآن مجید) میں پاسکے۔
بعد والے اوصاف جیسے: ”برهان لمن تکلم به” (اس کی باتوں سے استدلال کرنے والے کی برہان) اور ”فلج لمن حاجّ به” (یہ اس سے استدلال کرنے والوں کے لئے باعثِ غلبہ ہے) قرآن مجید کے معارف کے استحکام کو بیان کرتے ہیں کیونکہ ان معارف کی بنیاد برہان یعنی واضح دلیل پر قائم ہے۔ چنانچہ ہر اصولی انسان ان کے صحیح ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔
6۔ اپنے پیروکاروں کی کامیابی اور قرآن مجید کا کردار
قرآن مجید اپنے پیروکاروں کو باعزت اور کامیاب زندگی عطا کرتاہے۔ اس الہی کتاب کے بعض اوصاف اس خصوصیت کی وضا حت کر تی ہیں:
معقل منيع ذروته[47]، عزلا تهزم أعوانه[48]، عز لمن تولاه[49]، عزلا تهزم أنصاره[50]، جنة لمن استلام[51]، حق لا تخذل اعوانه[52]، غنیً لا غنیً دونه[53]
یقینا کسی راہ کے انتخاب میں انسان کو لاحق خدشات میں سے ایک اس کی سعی و کوشش کی انفرادی یااجتماعی ناکامی کا خوف ہے۔ اسی لئے وہ کوشش کرتا ہے کہ ایک ایسا راستہ اختیار کرے جس کے نتیجے سے وہ مطمئن ہو یا اس میں شکست اور ناکامی کا احتمال کم ہو۔
قرآن مجید کی جن خصو صیات کا اہل بیت (ع) نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن مجیدنے انسان کے لئے جوراستہ تجویز کیا ہے وہ اس کے پیروکاروں کے لئے ہمیشہ عزت وسر بلندی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس میں ان کے لئے کبھی ناکامی اورذلت و خواری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کی راہ میں وہ جس قدر کوشش کرتے ہیں اسی قدر وہ کمال کی راہ میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
7۔ قرآن کے پیغام کا فصیح ہونا
قران مجید مستحکم و مضبوط مفاہیم اور عمیق باطن کا حامل ہونے کے علاوہ ظاہری طور پر بھی ایک دل نشیں اور فصیح کلام ہے جس میں ایک واضح پیغام ہے۔ کوئی کلام اس کی فصاحت و بلاغت کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس میں سودمند ترین داستانیں بھی ہیں اور رسا ترین نصیحتیں بھی۔ قرآن مجید کی خصوصیات جو معصومین (ع) کے کلام میں ذکر ہوئی ہیں قرآن مجید کے اس پہلو کی طرف اشارہ کر تی ہیں:
ناطق لا يعيا لسانه[54]، صامت ناطق[55]، أنفع القصص[56]، أحسن الحديث[57]
8۔ قرآن مجید کا حجّت ہونا
قرآن مجید اُن دو گراں بہا چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں پیغمبر خدا ﷺ نے اپنی امت کے لئے چھوڑا ہے تا کہ ان دونوں سے تمسک کے سائے میں لوگ اسلام کے راستے کو پہچان لیں اور گمراہ نہ ہوں۔ یہ دو چیزیں خدا کی کتاب قرآن مجید اور اہل بیت (ع) ہیں۔
اہل بیت قرآن کو بیان کرنے والے اور قرآن مجید سے تمسک کی کیفیت کی رہنمائی کرنے والے ہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن مجید اور اہل بیت (ع) کی پیروی نہ کرے اور حق کے راستہ سے بھٹک جائے تو خداوند متعال قیامت کے دن اپنی عدالت میں قرآن مجید اور اہل بیت (ع) کے ذریعے حجت پیش کرے گا اور اسے مغلوب کرے گا۔
قرآن مجید کا لوگوں پر حجت ہونے سے یہی مراد ہے۔ شاید یہ قرآن مجید کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہو کیونکہ یہی خصوصیت تمام انسانوں کو سہارا دیتی ہے اور انہیں فیصلہ کن ذمہ داریوں کے روبرو لا کھڑا کرتی ہے۔ اس ذمہ داری کے ساتھ انسان کے رویے کی کیفیت انسان کی ابدی سعادت یا شقاوت کا خاکہ کھینچتی ہے۔ مندرجہ ذیل صفات قرآن مجید کی اسی خصوصیت کو بیان کر تی ہیں:
الثقل الاکبر[58]، حجة الله علی خلقه[59]، محاجّ لطرق الصلحاء[60]، حجيج وخصيمٍ[61]، عذراً لمن انتحله[62]
نتیجہ
قرآن مجید کی صفات عالیہ سے یہ علم حاصل ہو تا ہے کہ تمام علوم کا سر چشمہ، ہدایت کا منبع، خدا اور انسان میں رابطے کا وسیلہ، قوانین خدا کا بیانگر، پیغام ابدی، اپنے پیروکاروں کی سر بلندی کا محافظ، اور حجت خدا ہے جو بھی اس سے متمسک ہوگا سعادت ابدی اور زندگی کے تمام شعبوں میں کامیاب ہوجائے گا اور ہرگز گمراہ نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
[1]۔ کلینی، الکافی، ج2، ص598۔
[2]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص23؛ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ156، خطبہ176۔
[3]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ176۔
[4]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[5]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ156۔
[6]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ156۔
[7]۔ کلینی، کافی، ج2، ص599۔
[8]۔ کلینی، کافی، ج2، ص599؛ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ176۔
[9]۔ کلینی، کافی، ج2، ص599۔
[10]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ176۔
[11]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ183۔
[12]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ183۔
[13]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ183۔
[14]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ183۔
[15]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ183۔
[16]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[17]۔ مجلسی، بحارالانوار، ج89، ص31۔
[18]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج 89، ص31۔
[19]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج 89، ص31۔
[20]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج98، ص14۔
[21]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ1۔
[22]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ127۔
[23]۔ طوسی، امالی، ص 235۔
[24]۔ طوسی، امالی، ص 235۔
[25]۔ طوسی، امالی، ص 235۔
[26]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ176۔
[27]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[28]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج29، ص241۔
[29]۔ کلینی، اصول کافی، ج2، ص609۔
[30]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[31]۔ طوسی، امالی، ص235۔
[32]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[33]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[34]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[35]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[36]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص31۔
[37]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ156۔
[38]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج10، ص23؛ محمودی، نہج السعادہ، ج8، ص407۔
[39]۔ محمودی، نہج السعادہ، ج8، ص407۔
[40]۔ خلیل فراہیدی، العین، ج1، ص102۔
[41]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ133۔
[42]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص13۔
[43]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[44]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[45]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[46]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[47]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ198۔
[48]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٣٣۔
[49]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٣٣۔
[50]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٣٣۔
[51]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٣٣۔
[52]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٩٨۔
[53]۔ طبرسی، مجمع البیان، ج١، ص١٥۔
[54]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٣٣۔
[55]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٨٣۔
[56]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١١٠۔
[57]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١١٠۔
[58]۔ ابنبابویه، الخصال، ص٦٦۔
[59]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٨٣۔
[60]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٩٨۔
[61]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ٨٣۔
[62]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ١٩٨۔
فہرست منابع
1۔ القرآن الکریم۔
2۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ھبة اللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، منشورات مکتبة آیة اللہ مرعشی، 1404ق۔
3۔ ابن بابویه، محمد بن علی، خصال شيخ صدوق، تہران، کتابچی، 1377ش۔
4۔ شریف رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغة، قم، الہادی، 1387ش۔
6۔ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان في تفسیر القرآن، بیروت، دار العلوم، 1426ق۔
7۔ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافة، 1414ق۔
8۔ فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، قم، دار الھجرہ، 1409ق۔
9۔ کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ق۔
10۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، قم، موسسة الوفاء، 1403ق۔
11۔ محمودی، محمد باقر، نہج السعادة، بیروت، مؤسسة التضامن الفکری، 1387ق۔
مضمون کا مآخذ (ترمیم و تلخیص کے ساتھ)
ترابی، مرتضی، اہل بیت (ع) کی قرآنی خدمات؛ ترجمہ: سید قلبی حسین رضوی، ج1، ص82 تا 92، اہل البیت (ع) عالمی اسمبلی قم، 1442ق۔