مسئلہ فلسطین شہید قاسم سلیمانی کی پہلی ترجیح تھا، شیخ ماہر حمود

مسئلہ فلسطین شہید قاسم سلیمانی کی پہلی ترجیح تھا، شیخ ماہر حمود

2023-01-21

208 بازدید

کوئی ٹیگز نہیں۔

مزاحمتی علماء کی عالمی یونین کے صدر شیخ ماہر حمود نے شہید قاسم سلیمانی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے عرب دنیا، اسلامی دنیا اور دنیا میں بہت سے انقلاب دیکھے ہیں لیکن وہ دس سال گزرنے کے بعد ہی چھوٹے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک خاص ملک، سیاسی جماعت یا حکومت تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جبکہ ایران میں اسلامی انقلاب اب تک اپنے اہداف پر باقی ہے اور اس بات کی دلیل شہید قاسم سلیمانی کی جدوجہد ہے۔ وہ بہت زیادہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ فلسطین سے بہت متاثر تھے اور مسئلہ فلسطین ان کیلئے پہلی ترجیح رکھتا تھا جیسا کہ ایران کیلئے بھی پہلی ترجیح کا حامل ہے۔
شیخ ماہر حمود نے شہید قاسم سلیمانی سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں دو بار شہید قاسم سلیمانی سے بیروت میں ملا ہوں۔ اگر ان کے بارے کچھ کہنا چاہوں تو سب سے پہلے ان کی تواضع اور انکساری کی طرف اشارہ کروں گا۔ ان کی تصاویر امریکہ کے بڑے میگزینز کے پہلے صفحے پر شائع ہوتی تھیں لیکن جب ان کے ساتھ بیٹھتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ایک عام شخص کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ حتی وہ مہمان سے بھی بڑھ کر اس کا احترام کرتے تھے۔ ان کا شعبہ فوجی تھا اور میں اس بارے میں ان سے بات نہیں کرتا تھا لیکن لبنان اور شام کے حالات کے بارے میں ان سے بات ہوتی رہتی تھی اور ان میں پائی جانے والی بصیرت، سچائی اور اعلی اہداف نے انہیں ایک تاریخی کمانڈر بنا ڈالا تھا۔

مزاحمتی علماء کی عالمی یونین کے صدر شیخ ماہر حمود نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد بھی مزاحمت پہلے کی طرح طاقتور ہے۔

امریکہ جانتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے جواب میں عین الاسد فوجی اڈے پر میزائل حملہ ایک خاص جواب تھا۔ اگرچہ وہ اس کا ذکر نہیں کرتے لیکن صرف امریکی حکام جانتے ہیں کہ عین الاسد پر حملہ کیا معنی رکھتا تھا۔ ہم ابھی تک اس حملے کا معنی و مفہوم نہیں جانتے۔ یہ مزاحمت کی حکمت عملی ہے جس کی جانب میڈیا میں زیادہ اشارہ نہیں کیا جاتا لیکن دشمن اس کا مطلب بہت اچھی طرح جانتا ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ 2019ء میں ایران پر ڈرون حملہ کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ایران کے میزائل اس تک نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن اس کے تصور کے برخلاف ایرانی میزائلوں نے ڈرون طیارے مار گرائے اور ٹرمپ نے ایران پر براہ راست حملے کی پالیسی ترک کر دی۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے