- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : محقق نمبر ایک
- 2025/01/18
- 0 رائ
نہج البلاغہ کی فصاحت و بلاغت پر محققین کے نظریات
اس مقالے میں نہج البلاغہ کی فصاحت و بلاغت کے بارے میں ادییوں اور بزرگوں کے کلمات پر نظر ڈالتے ہیں۔ وہ نہج البلاغہ کے حسن و زیبائی، شیریں تعبیرات، فن فصاحت و بلاغت کی کرشمہ سازیوں سے متأثر ہو کر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مقالہ سید رضی کی شخصیت سے شروع ہوتا ہے؛ چونکہ امام علی (ع) کے فرامین کو فصاحت و بلاغت کے سانچے میں پیش کرنے میں بڑا کردار، سید رضی کا ہے۔ اس مقالے میں دو شارحین نہج البلاغہ، کچھ دوسرے ادیب حضرات اور دو اہم عیسائی محققین کی نہج البلاغہ کی کرشماتی فصاحت و بلاغت پر اعترافات کو ذکر کئے جائیں گے۔
1. سید شریف رضی
جب ہم نہج البلاغہ کے جمع کرنے والے (یعنی سید رضی) کے بارے میں غور کرتے ہیں جو خود میدان فصاحت و بلاغت کے بے نظیر شخصیت ہیں اور جنہوں نے اپنی عمر مبارک نہج البلاغہ کی جمع آوری میں لگا دی کہ ’’ڈاکٹر زکی مبارک‘‘ مصر کے معروف قلم کار “عبقریة الشریف الرضی‘‘ میں لکھتے ہیں:
جب ان کی نثر کو دیکھتے ہیں تو نثر خود گواہی دیتی ہے کہ وہ ادباء میں سے ہیں اور جب ان کے اشعار پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے ایک بلند پایہ اور با ذوق شاعر ہیں، جبکہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک ہی شخص ادب کے دونوں پاروں یعنی نثر و شعر میں مہارت رکھتا ہو۔ نہایت افسوس ہے کہ ان کے تمام آثار ہماری دسترس میں نہیں، اگر ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ وہ مؤلفوں کی صف میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔[1]
سید شریف رضی نہج البلاغہ کے مقدمے میں فرماتے ہیں:
کانَ أمیرُ الْمُؤمِنینَ (علیه السلام) مَشْرِعَ الْفَصاحَةِ وَمَوْرِدَها وَمَنْشَأ الْبلاغَةِ وَمَوْلِدَها وَمِنْهُ ظَهَرَ مَکْنُونُها وَعَنْهُ أخذَتْ قوانینُها وَعَلى أمْثِلَتِهِ حَذا کُلُّ قائِل خَطیب وَبِکلامِهِ اسْتَعانَ کُلُّ واعِظ بَلیغ وَمَعَ ذلِک فَقَدْ سَبَقَ وَقَصَّرُوا وَقَدْ تَقَدَّمَ وَتَأخّرُوا
امیر المؤمنین (ع) سر چشمہ فصاحت ہیں اور بلاغت نے آپ سے نشاط پائی ہے۔ آپ سے اسرار بلاغت آشکار ہوئے۔ قوانین و دستور بلاغت آپ سے حاصل کئے گئے۔ آپ کی طرز سے ہر خطیب نے طاقت پائی۔ آپ کے کلام سے ہر خطیب، توانا خطیب بنا، اور وہ میدان خطابت میں ایسے آگے بڑھا کہ دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
پھر نہج البلاغہ کے بارے میں مزید بیان کرتے ہیں: لأَنَّ كَلَامَهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ الْكَلَامُ الَّذِي عَلَيْهِ مَسْحَةٌ مِنَ الْعِلْمِ الْإِلهِي وَفِيهِ عَبْقَةٌ مِنَ الکَلامِ النَّبَوِيِ
امیر المؤمنین (ع) کا کلام علم الہی کی نشانی اور رسول اکرم (ص) کے کلام کی خوشبو رکھتا ہے۔
2. ابن ابی الحدید معتزلی
بہت سے شارحین نہج البلاغہ میں سے ایک جنہوں نے ایک مدت نہج البلاغہ کی شرح و تفسیر میں لگائی اور جو نہج البلاغہ کے بارے میں کافی آگاہی رکھتے ہیں اور اس کی گہرائی اور دقائق سے آشنا ہیں، اہل سنت کے مشہور علماء میں سے ہیں اور ساتویں صدی ہجری کی شخصیت یعنی عز الدین عبد الحمید ابن ابی الحدید معتزلی نے نہج البلاغہ کی شرح کے دوران بار بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ فصاحت و بلاغت کی اس منزلت پر ہیں کہ یہاں سرتسلیم خم ہو جاتا ہے۔[2] وہ ایک جگہ خطبہ ۲۲۱ کے ذیل میں مولاعلی (ع) کے کلام کی شرح کے بعد برزخ کے بارے میں کہتے ہیں:
وَيَنْبَغِي لَوِ اجْتَمَعَ فَصَحَاءُ الْعَرَبِ قَاطِبَةً فِي مَجْلِسٍ وَتُلِيَ عَلَيْهِمْ أَنْ يَسْجُدُوا لَهُ كَمَا سَجَدَ الشُّعَرَاء لِقَوْلِ عَدِي ابْنِ الرُّقَاعِ: قَلَمَ أَصَابَ مِنَ الدَّوَاةِ مِدَادَهَا … فَلَمَّا قِيلَ لَهُمْ فِي ذَلِكَ قَالُوا إِنَّا نَعْرِفُ مَوَاضِعَ السُّجُودِ فِي الشَّعْرِ كَمَا تَعْرِفُوْنَ مَوَاضِعَ السُّجُودِ فِي الْقُرْآنِ
اگر عرب کے تمام فصحاء کو ایک جگہ جمع کر کے خطبے کے اس حصے کو ان کے سامنے پڑھا جائے، تو حق یہ ہے کہ تمام کے تمام اس کے لئے سجدے میں گر جائیں کہ عرب کے معروف شاعر عدی بن الرقاع کے اس شعر کو سن کر ادیوں نے اس کے لئے سجدہ کیا اور جب ان سے سوال کیا کہ سجدے کی کیا وجہ تھی؟ تو جواب دیا ہم جانتے ہیں کہ کسی شعر پر سجدہ کیا جائے، جس طرح تم جانتے ہو کہ آیات سجدہ کون سی ہیں۔[3]
ایک مقام پر حضرت امام علی (ع) کے کلام کا موازنہ چوتھی ہجری کے مشہور خطیب “ابن نباتہ‘‘[4] سے کرتے ہوئے کہتے ہیں:
فَلْيَتَامَّلُ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِعِلْمِ الْفَصَاحَةِ وَالْبَيَانِ هَذَا الْكَلَامَ بِعَيْنِ الإِنْصَافِ يَعْلَمُوا أَنَّ سَطراً وَاحِداً مِنْ كَلَامِ نَهجِ الْبَلَاغَةِ يُسَاوِي أَلْفَ سَطْرٍ مِنْهُ بَلْ يَزِيدُ وَيُرْبِي عَلَى ذَلِكَ
علم فصاحت و بلاغت سے واقف لوگ، اگر حضرت علی (ع) کے کلام کو انصاف کی نگاہ سے دیکھیں، تو نہج البلاغہ کی ایک سطر، ابن نباتہ کی ہزار سطروں کے برابر ہے، بلکہ ان پر برتری رکھتی ہے۔[5]
اس مقام پر ایک اور عجیب تعبیر موجود ہے، جہاں ابن نباتہ کے ایک خطبے میں (جو جہاد کے بارے میں ہے اور جسے فصاحت و بلاغت کا کمال تصور کیا جاتا ہے) حضرت کا ایک جملہ شامل کیا گیا ہے:
ما غُزِيَ قَومٌ قَطُّ في عُقْرِ دارِهِم إلّا ذَلّوا
’’کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس پر ان کے گھروں میں حملہ ہو اور وہ ذلیل و خوار نہ ہوئی ہو۔‘‘
علم فصاحت و بلاغت کے ماہر اگر حضرت کا یہ جملہ انصاف کی نگاہوں سے دیکھیں تو حضرت کی ایک سطر ابن نباتہ جیسے معروف خطیب کی ہزار سطروں پر بھاری ہے اور یہاں ابن ابی الحدید کہتے ہیں، اس ایک جملے کو دیکھا جائے تو فصاحت و بلاغت جاننے والے خود اعتراف کریں گے کہ یہ ایک جملہ اس خطبے کا نہیں ہے، جیسے کسی خطبے یا تحریر میں قرآن کی آیت کو لکھا جاتا ہے تو وہ پورے کلام میں منفر د ہوتی ہے۔[6]
ابن ابی الحدید معتزلی کے ان کلمات پر بحث کو ختم کرتے ہیں، جو انھوں نے کتاب کے مقدمے میں بیان کئے ہیں:
وَأَمَّا الْفَصَاحَةُ فَهُوَ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِمَامُ الْفَصَحَاءِ وَسَيِّدُ الْبُلَغَاءِ وَفِي كَلَامِهِ قِيلَ: دُونَ كَلَامِ الْخَالِقِ وَفَوْقَ كَلَامِ الْمَخْلُوقِينَ وَمِنْهُ تَعَلَّمَ النَّاسُ الْخِطَابَةَ وَالْكِتَابَةَ
رہی فصاحت تو حضرت امیر المؤمنین (ع) فصحاء کے رہبر اور بلغاء کے سردار ہیں؛ ان کے کلام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ خدا کے کلام سے نیچے اور مخلوق کے کلام سے بالا آپ کا کلام ہے، لوگوں نے آپ سے خطابت اور تحریر کا ہنر سیکھا ہے۔[7]
3. شیخ محمد عبدہ
اہل سنت کے بزرگ عالم، شارح نہج البلاغہ شیخ محمد عبدہ، اپنی کتاب کے مقدمے میں اعتراف کرنے کے بعد کہ اتفاقاً نہج البلاغہ سے آشنائی ہوئی، فرماتے ہیں کہ یہ بات سوچنے کی ہے کہ جب نہج البلاغہ کے بعض صفحات پر نظر ڈالی، بعض عبارات پر غور کیا، اس کے مختلف عناوین پر توجہ کی تو ایسا لگا، گویا اس کتاب میں جنگیں برپا ہیں، مگر ان پر فصاحت کی حکومت اور بلاغت کا اختیار ہے اور وہم و خیالات باطل پر سپاہ خطابت نے حملہ کر دیا ہے اور توہمات کے لشکر پر فصاحت و بلاغت نے فتح حاصل کر لی ہے۔[8]
بنابر نقل اور مضبوط اور قوی دلائل نے وسوسوں پر حملہ کر کے انھیں شکست دے دی ہے، اور جو قدرت باطل کو ہر جگہ ختم کر رہا ہے، شک و تردد کو شکست دے رہا ہے، اوہام کے فتنوں کو مٹا رہا ہے، وہ حاکم اور دلاور امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) ہی ہیں۔
4. جاحظ
جاحظ جو علماء و نوابغ عرب میں شمار ہوتے ہیں اور جنہوں نے تیسری صدی ہجری کے اوائل میں زندگی گزاری، اپنی معروف کتاب ’’البیان والتبیین‘‘ میں امیر المؤمنین (ع) کے کلمات قصار نقل کرتے ہوئے اُن کی مدح کرتے ہیں اپنی کتاب کی پہلی جلد میں امام (ع) کے اس کلمے کو بیان کرتے ہیں ’’قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ‘‘ انسان کی قیمت وہ (ہنر) ہے، جسے وہ اچھی طرح جانتا ہے اور کر سکتا ہے۔[9]
وہ لکھتا ہے اگر پوری کتاب میں صرف یہ ہی جملہ ہوتا تو کافی تھا، بلکہ اس سے زیادہ کفایت کرتا ہے۔ بہترین کلام وہ ہے جو مختصر ہو اور مفید ہو اور اس کا مفہوم روشن ہو۔ گویا خداوند عالم نے اس کلام کو جلالت و عظمت کا لباس پہنایا ہے اور اسے نور حکمت عطا کیا ہے۔ جو پاک نیت و صاحب تقویٰ کہنے والے (علی) کی طرح بے نظیر ہے۔
5. امیر یحیی علوی
’’الطراز‘‘ کا مولف امیر یحیی علوی اپنی کتاب میں جاحظ کا یہ جملہ نقل کرتے ہوئے کہ ’’یہ مرد میدان، فصاحت و بلاغت کا بے مثال شخص ہے، مزید اس طرح بیان کرتے ہیں۔ خدا اور رسول کے بعد کوئی کلام میرے کانوں نے نہیں سنا جو بے مثل ہو، سوائے امیر المؤمنین (ع) کے کلام کے۔ میں نے ان کے کلام کا دیگر کاموں سے موازنہ کیا مگر کسی کو ان کے کلام کے مقابل نہیں پایا، مثلاً یہ جملے:
مَا هَلَكَ امْرُ عَرَفَ قَدْرَهُ
جو اپنی قدر جانتا ہوں کبھی ہلاک نہیں ہوگا۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ عَرَفَ رَبَّهُ
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
الْمَرْءُ عَدُوٌّ مَا جَهِلَ
انسان اس چیز کا دشمن ہے جسے نہیں جانتا۔
وَاسْتَغْنِ عَمَنْ شِئْتَ تَكُنْ نَظِيرَهُ
جس کا نظیر بنا چاہتے ہو اس سے بے نیاز رہو۔
وَأَحْسِنُ إِلَى مَنْ شِئْتَ تَكُنْ أَمِيرَهُ
اور جس کا امیر بننا چاہتے ہو اس کے ساتھ نیکی کرو۔
وَ احْتَجْ إِلَى مَنْ شِئْتَ تَكُنُ أَسِيرَهُ
اور جس کسی کا نیازمند رہنا چاہتے ہو تم اس کے اسیر بن جاؤ گے۔
پھر مزید لکھتا ہے کہ جاحظ اگر انصاف سے پڑھے تو اسے ماننا پڑے گا کہ حضرت علی (ع) نے اس کے کانوں کے پردے ہلا دئے ہیں اور فصاحت و بلاغت کے معجزے سے اس کی عقل حیران کر دی ہے اور جب جاحظ جیسا زبر دست ادیب علی (ع) کے سامنے ایسا ہو تو پھر دوسروں کا حال تو واضح ہے کہ کیا ہوگا‘‘۔[10]
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہی زیدی دانشمند (صاحب کتاب الطراز) اس بات پر حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ بزرگ علمائے علم معانی و بیان خدا اور رسول کے کلام کے بعد علی کے کلام کو نظر انداز کرتے ہوئے شعرائے عرب اور خطبائے عرب کے دیوانوں اور آثار پر بھروسا کرنے لگے، جبکہ جانتے ہیں کہ فصاحت و بلاغت کی بلندترین کیفیت کہ جس میں جو چاہیں میسر ہے، استعارہ، کنایہ، تمثیل خوبصورت مجاز اور گہرے مفاہیم سب اس نہج البلاغہ میں موجود ہیں۔[11]
6. محمد غزالی
محمد غزالی ’’نظرات فی القرآن‘‘ کے مشہور مصنف اپنے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إِذَا شِئْتَ أَنْ تَفُوْقَ أَفْرَانَكَ فِي الْعِلْمِ پ وَصَنَاعَةِ الْإِنْشَاء فَعَلَيْكَ بِحِفْظِ الْقُرْآنِ وَ نهج البلاغة[12]
اگر چاہتے ہو علم و ادب میں برتر ہو تو قرآن اور نہج البلانہ کو حفظ کرو۔
7. شہاب الدین آلوسی
مفسر قرآن شہاب الدین آلوسی جب نہج البلاغہ کے نام پر پہنچے تو کہتے ہیں:
اس کتاب کا نام اس لئے نہج البلاغہ ہے کہ یہ اس کے کلام پر مشتمل ہے جس کے بارے میں انسان تصور کرتا ہے، یہ کلام مخلوق سے بلند اور کلام خالق سے نیچے ہے۔ یہ کلام معجزنما ہے، حقیقت و مجاز ہے، رمز واستعارات سے بھرا ہے۔[13]
8. محی الدین عبد الحمید
استاد محمد محی الدین عبد الحمید، نہج البلاغہ کی توصیف میں لکھتے ہیں:
یہ ایسی کتاب ہے جو اپنے اندر سے فصاحت و بلاغت و فنون کے چشمے جاری کر رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس پھل ’’نہج البلاغہ‘‘ کی شیرینی اور لذت سے استفادہ کیا جائے۔ یہ اُس کا کلام ہے جو مخلوق خدا میں بعد از رسول (ص) سب سے بہتر ہے۔ جس کا لغات اور منطق پر مکمل تسلط ہو کہ جیسے چاہیں الفاظ کو استعمال کر لیں۔
ایسے حکیم ہیں کہ ان کے فنون حکمت بیان سے باہر ہیں۔ ایسے خطیب ہیں کہ سحر بیان دلوں کو ہلا کر رکھ دیں اور ایسے عالم اور دانشور ہیں کہ نبی مکرم (ص) کی ہم نشینی، کتابت وحی، تلوار و زبان سے دین کا دفاع کیا، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے تک آپ کی خدمات نے آپ میں ایسی صلاحیت ایجاد کر دی جو کسی اور میں نہیں ہو سکتی۔[14]
9. سبط ابن جوزی
سبط ابن جوزی جو خود مؤرخ و مفسر اہل سنت ہیں، ’’تذکرة الخواص‘‘ میں ایک جاذب جملہ لکھتے ہیں:
وَ قَدْ جَمَعَ اللهُ لَهُ بَيْنَ الْحَلَاوَةِ وَالْمَلَاحَةِ والظُّلاوَةِ وَ الْفَصَاحَةِ لَمْ يَسْقُطُ مِنْهُ كَلِمَةٌ وَلَا بَارَتْ لَهُ حُجَّةٌ الْجَزَ النَّاطِقِينَ وَحَازَ قَصَبَ السَّبْقِ فِي السَّابِقِيْنَ الْفَاظُ يُشْرِقُ عَلَيْهَا نُوْرُ النُّبُوَّةِ وَ يُخَيَّرُ الْأَفْهَامَ وَالْأَلْبَابَ[15]
اللہ نے شیرینی و نمکینی و خوبصورتی اور فصاحت کی تمام خصوصیات حضرت علی (ع) میں جمع کر دیں۔ کوئی بات آپ کے کہنے سے رہی نہیں۔ سخنوروں کو ناتواں کر دیا۔ یہ ایسے کلمات ہیں، جن پر نور نبوت چمک رہا ہے اور عقلیں حیران و پریشان ہیں۔
اب یہاں پر دو اہم عیسائی محققین کی نہج البلاغہ کی کرشماتی فصاحت و بلاغت پر اعترافات کو ذکر کئے جائیں گے۔
10. جارج جرداق
جارج جرداق، لبنان کا مشہور عیسائی قلم کار اپنی بیش بہا کتاب ’’الامام على؛ صوت العدالۃ الانسانیۃ‘‘ کی آخری فصل میں حضرت علی (ع) کی شخصیت کے بارے میں لکھتا ہے: بلاغت میں سب سے اونچا مقام آپ کی بلاغت کا ہے، گویا قرآن ہے جو اپنے مقام سے کچھ نیچے آگیا ہے۔ آپ کا کلام عربی زبان کی تمام گزشتہ اور آئندہ خوبصورتیوں کو سمیٹے ہوئے ہے اور اس کے لکھنے والے یعنی حضرت علی (ع) کے بارے میں لکھتا ہے خدا کے کلام سے نیچے اور مخلوق کے کلام سے بلند آپ کا کلام ہے۔[16]
11. میخائیل نعیمہ
عربی زبان کے معروف مسیحی مفکر میخائیل نعیمہ لکھتے ہیں:
اگر علی ابن ابی طالب (ع) صرف اسلام کے لئے تھے تو کیوں ایک عیسائی ۱۹۵۶ء میں ان کی زندگی پر غور و خوض کرتا ہے (اشارہ ہے جارج جرداق لبنانی مسیحی مؤلف: كتاب الإمامُ عَلى صَوْتُ الْعَدَالَةِ الْإِنْسَانِيَّةِ کی جانب) اور ایک دل باختہ شاعر کی طرح جو دلفریب واقعات پر مغز حکایات اور تعجب آور کارناموں کو غزلیہ انداز میں نظم کر رہا ہے، کیونکہ امام علی (ع) کی پہلوانی صرف میدان جنگ میں نہیں تھی، بلکہ بالغ نظری، طہارت قلبی، بلاغت سحر بیانی، عظیم اخلاقیات، ایمانی جذبہ، بلند ہمت، مساکین کی امداد، نا امیدوں کی امید اور حق و صداقت کی پیروی، بلکہ تمام صفات حسنہ میں پہلوان تھے۔[17]
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
اس نابغہ عرب نے جو سوچا وہ کر دکھایا، خدا کی قسم ایسے ایسے معاملات ہیں جنہیں نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور اس سے کہیں زیادہ حقیقت ہے جسے مؤرخوں نے قرطاس و قلم کے ذریعے محفوظ کیا ہے، گویا ہم کتنی ہی تعریف کریں وہ پھر بھی کم ہوگی۔[18]
خاتمہ
اس مقالے میں نہج البلاغہ کی فصاحت و بلاغت کو مختلف ادیبوں، محققین اور علما کے خیالات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے، جنہوں نے اس کے ادبی حسن، شیریں بیان اور فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ سید رضی نے امام علی (ع) کے فرامین (خطبے، مکتوبات اور اقوال زرّیں) کو منفرد انداز میں ’’نہج البلاغہ‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ نہج البلاغہ کے شارحین، جیسے ابن ابی الحدید معتزلی اور شیخ محمد عبدہ، کے ساتھ دیگر معروف ادیبوں، جاحظ اور غزالی، کے تأثرات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، عیسائی محققین جارج جرداق اور میخائیل نعیمہ کی آراء بھی پیش کی گئی ہیں، جو نہج البلاغہ کی فصاحت کی گواہی دیتی ہیں۔
حوالہ جات
[1]۔ زکی مبارک، عبقریۃ الشریف الرضی، ص۲۰۵ تا ۲۰۹ (تلخیص)۔
[2]۔ یہ کتاب ۲۰ جلدوں پر مشتمل ہے، جو امیر المومنین (ع) کے دور خلافت کے برابر تقریباً پانچ سال میں مکمل ہوئی۔
[3]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱۱، ص۱۵۳۔
[4]۔ اس کا نام ابویحیی عبد الرحیم بن محمد بن اسماعیل بن نباتہ ہے جس نے سن ۳۷۴ء میں وفات پائی۔
[5]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۷، ص۲۱۴۔
[6]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۲، ص۸۴۔
[7]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۲۴۔
[8]۔ عبده، شرح نہج البلاغۃ، ص۹ و ۱۰۔
[9]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، قصار الحکم، شماره۸۱۔
[10]۔ مؤید، الطراز، ج۱، ص۱۶۵ تا ۱۶۸۔
[11]۔ مؤید، الطراز، ج۱، ص۱۶۵ تا ۱۶۸۔
[12]۔ غزالی، نظرات في القرآن، ص۱۵۴، نقل از شرح نہج البلاغۃ، ج۱، ص۹۱۔
[13]۔ الجديرة الغیبۃ، نقل از حسینی، مصادر نہج البلاغۃ، ج۱۔
[14]۔ حسینی، مصادر نہج البلاغۃ، ج۱،ص۹۶۔
[15]۔ ابن جوزی، تذکرة الخواص، باب۶،ص۱۲۸۔
[16]۔ جرداق، الإمام علي علیه السلام؛ صوت العدالۃ الانسانیۃ، ج۱، ص۴۷۔
[17]۔ جرداق، ترجمہ و انتقاد از کتاب امام علی، ندای عدالت انسانیت، ص۲۔
[18]۔ جرداق، ترجمہ و انتقاد از کتاب امام علی، ندای عدالت انسانیت، ص۳۔
منابع و مآخذ
۱۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبۃ الله، شرح نہج البلاغۃ، بغداد عراق، دار الکتاب العربي، ۱۴۲۸ھ۔ ۲۰۰۷ء۔
۲۔ ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تَذکِرَةُ الخَواصّ مِنَ الأمّة فی ذِکرِ خَصائص الأئمة، قم ایران، الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔
۳۔ جاحظ، عمرو بن بحر، البیان و التبیین، بیروت لبنان، دار و مکتبۃ الهلال، ۲۰۰۲ء۔
۴۔ الجديرة الغیبۃ، نقل از حسینی، مصادر نہج البلاغہ۔
۵۔ جرداق، جورج، الإمام علي؛ صوت العدالۃ الانسانیۃ، النجف الأشرف عراق، دار الأندلس، ۱۴۳۶ھ۔ ۲۰۱۰ء۔
۶۔ جرداق، جورج، ترجمه و انتقاد از کتاب الامام علی، ندای عدالت انسانیت، مترجم و منتقد ابو الحسن شعرانی، تہران ایران، کتابفروشی اسلامیه، ۱۳۳۷ش۔
۷۔ حسینی، عبد الزهراء، مصادر نہج البلاغہ و أسانیده، بیروت لبنان، دار الزهراء، ۱۴۰۹ھ۔ ۱۹۸۸ء۔
۸۔ زکی مبارک، محمد، عبقریۃ الشریف الرضي، بیروت لبنان، دار الجيل، ۱۴۰۸ھ۔
۹۔ سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم ایران، هجرت، ۱۴۱۴ھ۔
۱۰۔ عبده، محمد، شرح نہج البلاغہ (عبده)، قاهره مصر، مطبعۃ الاستقامۃ، بغیر تاریخ کے۔
۱۱۔ غزالی، محمد، نظرات في القرآن، قاهره مصر، نهضۃ مصر، ۲۰۰۵ء۔
۱۲۔ مؤید، یحیی بن حمزه، الطراز، بیروت لبنان، المکتبۃ العصريۃ، ۱۴۲۳ھ۔ ۲۰۰۲ء۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
مکارم شیرازی، ناصراور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۳۹ تا ص۴۵۔