- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/07/22
- 0 رائ
تصور خدا، وہ بنیادی عنصر ہے جس پر ہر چیز کا دار و مدار ہے۔ پورا اسلامی ڈھانچہ اسی پر اٹکا ہوا ہے۔ اعتقادات ہو یا عملیات سب کی بنیاد خداوند کا تصور ہے۔ اخلاقی احکام، تمدنی قوانین ان سب کی قدر و قیمت اور اہمیت تصور خدا پر ہے۔ اگر درمیان سے تصور خدا ہٹ جائے تو نہ رسول کی رسالت رہے گی نہ قوانین شریعت کانفاذ، نہ معاد کا تصور ہوگا نہ جزا و سزا کی فکر، نہ اخلاقیات کی عظمت ہوگی اور نہ ان کا تقدس باقی رہے گا، نہ مدنی قوانین کا پاس و لحاظ اور نہ ہی حقوق و واجبات کی معنویت اور پھر پورا اسلامی نظام بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔
اسلامی نظام کا دارومدار تصور خدا و ایمان بالله پر ہے۔ اسلامی نظام میں ایمان بالله کی اہمیت اور اس کا بنیادی عنصرہونا، محض اس حد تک نہیں کہ خداوند موجود ہے۔ ورنہ دنیا کے تمام انسان کسی نہ کسی انداز میں وجود خدا کا اقرار کرتے ہیں۔ بلکہ وجود خدا کا اقرار اسکی تمام صفات ثبوتیہ و سلبیہ کے ساتھ ہونا چاہیے، جس کی بنیاد پر انسان صحیح معنوں میں ایک واقعی خدا پرست بن سکے۔
قرآن کریم وہ واحد کتاب ہے جس نے خدا کا تصور صحیح اور حقیقی معنوں میں پیش کیا ہے، جو دنیاکی کسی اور کتاب یا کسی اور مذہب میں ہمیں نہیں ملتا۔ یہ صحیح ہے کہ دوسری قومیں اور دوسرے مذاہب میں بھی خدا کا تصور پایا جاتا ہے مگر ہر جگہ یا غلط ہے اور یا نامکمل ہے۔ کہیں خدا نام ہے اولیت و واجبیت کا تو کہیں اس سے مبداٴاولیٰ مراد ہے، کہیں قوت و طاقت کا ہم معنی ہے تو کہیں طلب حاجات و اجابت دعوات کا مرکز، کہیں صرف محبت کا مرجع کل، تو کہیں وہ خوف و ہیبت کی کوئی چیز، پھر کہیں قابل تجزیہ و تقسیم تو کہیں تشبیہ سے آلودہ، کہیں وہ آسمانوں پر متمکن ہے اور کہیں انسانی بھیس میں زمین پر اتر کر کشتی بھی لڑ لیتا ہے۔ ان تمام ناقص یا غلط تصورات کی تکمیل یا تصحیح جس کتاب نے کی ہے وہ قرآن کریم ہے۔
قرآن کریم نے ہمیں بتایا، خدا وہی ہو سکتا ہے جو بے نیاز و صمد اور قیوم ہو، ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے، قادر مطلق اور حاکم علی الاطلاق ہو، زمین و آسمان پر اسی کی حکمرانی ہو اسی کےلئے زمین و آسمان کی سلطنت ہو، اس کا علم ہر چیز کو اپنے احاطہ میں لئے ہو اور ہر شیٴ کے ظاہر و باطن جانتا ہو۔کوئی پتہ بھی اس کے علم میں آئے بغیرحرکت نہ کر سکے، چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی اس کے علم سے خارج نہ ہو۔جس کی رحمت کے سب پروردہ ہو۔ بغیر اس کی رحمت کے کوئی ایک سانس بھی نہ لے سکے، جس کی طاقت ہر چیز پر غالب اور جس کی حکمت عالیہ میں نقص کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہ ہو، جس کی عدالت ذرہ ذرہ کا حساب رکھے اور ظلم کا گمان تک نہ ہونے پائے۔ جو لوگوں کو پیداکرنے کے بعد ان کی زندگی کے سروسامان اور رزق کا خود ذمہ دار ہو اور ان کے لئے تمام اسباب مہیا کر دے، جو نفع و ضرر، ساری قوتوں کا خود مالک ہو۔ اس کے بغیر نہ کوئی کسی کو فائدہ پہنچا سکے اور نہ نقصان، اور کوئی دوسرا بھی اس کے نفع ونقصان کو نہ بدل سکے، اس کی بخشش وعطاکے سب محتاج ہوںوہ کسی کا محتاج نہ ہو، اس کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت ہو اور وہی حساب لینے والا اور اسی کو جزا و سزا کا اختیار کل ہو اور پھر خداوند کے یہ تمام اوصاف نا قابل تجزیہ ہو،نہ قابل تقسیم کہ اس بات کا امکان پیدا ہو سکے کہ ایک وقت میں کئی خدا مل کر کارگاہ ہستی پر براجمان ہو۔ اسی طرح تمام صفات نہ زمانی اور وقتی ہوں اور نہ قابل انتقال کہ آج کسی خدا میں ہوں اورکل دوسرے میں۔
خدا کا یہ کامل اور صحیح، عقلی اور فطری تصور پیش کرنے کے بعد قرآن کریم ایک منفرد انداز میں انتہائی زور بیانی کے ساتھ یہ ثابت کر رہا ہے کہ کائنات کی جتنی اشیاء، طاقتیں اور قوتیں ہیں ان میں سے کسی ایک پرخدا کا یہ مفہوم صادق نہیں آتا ہے۔ کیونکہ موجودات عالم تمام کے تمام محتاج ہیں اس لئے کہ سب مخلوق، فانی اور مسخر ہیں نفع بخش اور مضر ہونا تو درکنار خود اپنی ذات سے ضررکو دفع کرنے اور جلب منفعت پر قادر نہیں ہیں کسی کو خلق کرنے کی کیا بات خود اپنی خلقت میں خالق کل کے محتاج ہیں اور خلقت کے بعد بقاء میں بھی بے نیاز نہیں بلکہ ہر لحظہ اور ہر پل خالق مطلق کی عنایتوں کے محتاج اور اسی کے رحم و کرم پر نگاہ احتیاج جمائے رہتے ہیں اور اگر سر چشمہ کل سے ایک (مائکروسکن micro second) کے لئے بھی رابطہ ٹوٹ جائے تو فنا اور ختم ہو جائیں۔
قرآن کریم اس نفی کے بعد الوہیت کو صرف ایک ذات کے لئے ثابت کرتا ہے اور وہ الله سبحانہ کی ذات اقدس ہے لاالہ الاالله۔ الله کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے اور اسی کے بعد قرآن تمام انسانوں سے الله سبحانہ پر ایمان لانے کامطالبہ کرتا ہے اوراسی کے آگے سرتسلیم خم کرنے، اسی کی تعظیم کرنے اور اسی سے محبت اور اسی پر توکل کرنے کا حکم دیتا ہے، اسی کو اٹھتے بیٹھتے کروٹیں بدلتے ،یاد رکھنے کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ یہ ذہن نشین رہے کہ ایک دن اس کی بارگاہ میں حاضری دینی ہے جہاں ایک ایک ذرے کا حساب دینا ہے۔
الوہیت کے اثرات
قرآن کی روشنی میں الله سبحانہ تعالیٰ کے خدا ہونے کا اقرار نفسیاتی اور فطری طور پر انسان کی پوری زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کی نظر و فکر بدل جاتی ہے ہر ہر قدم پر رفتار و کردار میں تغیر رونما ہوتا ہے اس کی نگاہ معرفت اتنی وسیع ہو جاتی ہے جس کا اندازہ بغیر لاالہ الاالله کو بیان کئے ممکن ہی نہیں اب وہ دنیا کی ہر شیٴ کو اپنے ہی جیسا پاتا ہے کیونکہ جو اس کا خالق ہے وہی دنیاکی تمام اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے اور جس کی وہ عبادت کرتا ہے ساراجہان اسی کی عبادت کرتا ہے۔
#ساتوں آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب خدا ہی کی تسبیح کرتے ہیں (الاسراء/۴۴)
اور جب سب اسی کی مخلوق ہیں اور اسی کی طرف دست نیاز پھیلائے ہوئے ہیں تو اب ایک مومن عزت نفس کی بنیاد پرغیرالله کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتاکیونکہ سارا جہان اسی کی طرح خدائے واحدکی مخلوق ہے۔
جن کو تم پکارتے ہو وہ تمہارے ہی طرح الله کے بندے ہیں(اعراف/۱۹۴)
مومن کسی اور سے مدد کا طالب نہیں ہوتا کیونکہ غیرخدا کسی کی نصرت نہیں کرسکتے۔ جو لوگ الله کے علاوہ کسی کو پکارتے ہیں وہ کسی دوسرے بندے کی مدد نہیں کرسکتے اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں(اعراف/۷ ۱۹)
تمام قوتیں الله کے لئے ہیں(بقرہ /۱۶۵)
اسی کوحکم دینے کااختیارہے (انعام/۵۷)
وہی صاحب امر ہے (الرعد/۳۱)
وہی رازق ہے (الذاریات/۵۸)
زمین و آسمان کی کنجیاں اسی کے پاس ہے (الزمر/۶۵)
موت و حیات کا تنہا وہی مالک ہے (ق/۴۳)
لوگوں کے فائدے و نقصان اسی کے دست قدرت میں ہے (الانبیاء /۶۶)
خداوند عالم کی بے پناہ نعمات کے پیش نظر ایک مرد مومن جہاں غیر خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تیار نہیں ہے وہیں خدائے واحد کے سامنے سراپا خاضع وخاشع دکھائی دیتا ہے اور چلتے پھرتے بھی اس کی یہ صفت نمایاں رہتی ہے۔
رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان کو مخاطب کرتے ہیں (یعنی ان سے جاہلانہ باتیں کرتے ہیں) تو وہ سلام کہہ کر(ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں)(الفرقان /۱۶۳)
خدائے واحد کاصحیح تصور انسان کے تمام بے جا و غلط توقعات کوختم کر دیتا ہے یہ اور بات ہے معرفت الہٰی سے محروم یا متعصب افراد یہ کہتے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے خدا الله کے نزدیک ہماری شفاعت کریں گے(یونس/۱۸)
اسی طرح یہود و نصاریٰ کہتے ہیں ہم الله کے بیٹے اور دوست ہیں(المائدہ /۱۸)
یعنی یہود و نصاریٰ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم الله کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں تو ہمیں اختیار ہے کہ ہم جو چاہیں کریں عذاب و سزا ہمارے لئے نہیں ہے۔
قرآن کریم اس غلط فکر کو سرے سے ختم کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ (تم بھی ان میں سے ایک ہو سب کو اسی نے پیدا کیا ہے (المائدہ /۱۸)
ہمارے نزدیک دوستی و بزرگی کا ملاک صرف اور صرف تقویٰ ہے (الحجرات/۱۳)
خدا کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ شریک (الاسراء /۱۱۱)
اور کوئی بھی بغیر اس کی اجازت کے شفاعت کر ہی نہیں سکتا ہے (بقرہ /۲۵۵)
خداوند عالم کی الوہیت کا اقرار انسان میں حوصلہ اور اطمینان قلب پیدا کر دیتا ہے کہ پھر وہ اب کسی سے نہیں ڈرتا۔ حالات سے گھبرانے کے بجائے پوری استقامت صبر و تحمل و شجاعت و دلیری کے ساتھ تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ اور بڑے سے بڑے چیلنج کاسامنا کرنے کے لئے ہر آن تیار رہتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر وقت اور ہر جگہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔
# میرے بندے جب میرے بارے میں سوال کریں(تو ان سے کہہ دیں)کہ میں ان سے قریب ہوں اور ان کی دعاوں کو سنتا ہوں (بقرہ/۱۸۶)
جو لوگ الله سبحانہ کو اپنا پروردگار مانتے ہیں اور پھر اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ڈرنے و رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے (فصلت/۳۰)
#آگاہ ہ وجاوٴ! ذکر خدا سے دلوں کو سکون ملتا ہے(الرعد/۲۸)
جس نے طاغوت کا انکار کیا اور خدا پر ایمان لایا اس نے ایسی مضبوط رسی پکڑ لی ہے جوٹوٹنے والی نہیں ہے (بقرہ /۲۵۶)
ایمان بالله ہی کی بنیاد پر جناب ہود فرماتے ہیں: تم سب مل کر اپنی چالیں چلو اور مجھے ذرا بھی مہلت نہ دو میں نے تو خداوندعالم پر بھروسہ کیا ہے جو ہمارا اور تمہارا پروردگار ہے اور کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جو اس کے قبضے میں نہ ہو(ہود/۵۶)
یاخود مرسل اعظم ﷺابوبکر سے کہتے ہیں (جب وہ ایک سانپ کو دیکھ کر رونا شروع کر دیتے ہیں) کہ ڈرو نہیں الله ہمارے ساتھ ہے (التوبہ/۴۰)
یہی نہیں کہ ایک مرد مومن غیر خدا کی طاقت سے صرف ڈرتا نہیں بلکہ اس کے مقابل اس کے ایمان میں اضافہ ہوتاہے جب لوگ کچھ ان سے کہتے ہیں کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہو گئے ہیں ان سے ڈرو(تو ڈرنے کے بجائے) ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں الله ہمارے لئے کافی اور بہترین سرپرست ہے (آل عمران/۱۷۳)
یا جب شمع ایمانی ساحران قوم فرعون کے دلوں میں روشن ہو جاتی ہے اور اس کی حرارت ان کی زبان تک آجاتی ہے تو پھر وہ کہتے ہیں اے فرعون تو ہمیں اپنی سزا سے ڈرا مت۔ ہمیں تیری سزا کی کوئی پرواہ نہیں، ہم اپنے پروردگار کی طر ف جانے والے ہیں اور ہماری بس یہ تمنا ہے کہ خدا ہمارے گناہوں کو معاف کر دے اور بخش دے ( شعراء /۵۰۔۵۱) اسی طرح ایک حقیقی و واقعی مومن نہ کسی سے عزت افزائی کاخواہشمند ہوتا ہے اور نہ کسی کی تذلیل کی پروا کرتا ہے کیونکہ نور ایمان کی روشنی میں اب اس کے سامنے قرآنی فلسفہ عزت و ذلت موجود ہے کہ الله تو جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل و رسوا کر دے تیری ہی قدرت میںتمام چیز ہے اور تو ہی ہر چیز پر قادر ہے(آل عمران /۲۰۶)
اسی طرح خدا کا ایک نیک بندہ ہر جگہ خدا کو حاضر و ناظر جانتا اور مانتا ہے جس کا نتیجہ اس کی روز مرہ کی زندگی میں آشکار و ظاہر ہوتا ہے اور وہ ہر عمل یہ سوچ کر انجام دیتا ہے کہ میرا پروردگار میرے اس عمل کو دیکھ رہا ہے اور اس سے میرا عمل پوشیدہ نہیں ہے یقیناخدا سے زمین و آسمان کی کوئی شیٴ پوشیدہ نہیں ہے( آل عمران /۵)
ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے نفس کے وسوسہ کو بھی جانتے ہیں اور اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں(ق/۱۶) کوئی سرگوشی تین آدمیوں میں ایسی نہیں جس میں وہ چوتھا نہ ہو۔ اور کوئی سرگوشی پانچ آدمیوں میں ایسی نہیں جس میں وہ چھٹا نہ ہو یا اس سے زیادہ یاکم آدمیوں کاکوئی اجتماع ایسا نہیں جس میں وہ نہ ہو چاہے وہ اجتماع کہیں بھی ہو (المجادلة/۷)
جو خدا کا اقرار کر لیتا ہے اور ہمہ وقت تصور خدا اس کے دماغ میں ہوتا ہے تو اس میں کہیں سے کوئی انحراف، کج رفتاری وکج فکری آہی نہیں سکتی ایسا انسان عقیدہ و عمل دونوں میدان میں صراط مستقیم پرگامزن رہے گا۔ اور واقعی بعنوان ایک انسان کامل بن جائے گا جو مطلوب خدا ہے اور پھر اگر تمام انسان یونہی قرآن کی روشنی میں خدا کا اقرار کر لیں تو ایک بہترین سماج خودبخو وجود میں آ جائے گاجہاں نہ ظلم ہوگانہ ستم نہ برائیاں ہونگی نہ خرابیاں: ہر طرف صدق وصفا، عدل و انصاف اور مساوات و برادری کا ماحول ہوگا جہاں حکومت صرف اور صرف اچھائیوں کی ہوگی برائیاں شہر بدر ہونگی۔
آج انسانی سماج میں جتنی برائیاں اور خرابیاں ہیں۔جتنے خرافات، بدعتیں، جتنے مظالم اور نا انصافیاں ہیں سب کی واحد اور ایک بنیاد یہی ہے کہ یا ہمارے یہاں خدا کا کوئی تصور نہیں اس کی الوہیت کااقرارنہیں یا اگر ہے تو ہم اپنی عملی زندگی میں اس کو خدا تسلیم نہیں کیا ہے۔ یا اگر تسلیم کیا ہے تو اس کی صفات میں غیرخدا کو شریک مانا ہے۔