- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
مولف: آیة اللّٰہ العظمی الخوئی
مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام شخص یا قوم کے بارے میں نازل هوئی مگر وہ آیہ اس مقام شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام هوتے ہیں اور یہ ہر جگہ ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق هوتی هے ۔ عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر سے آیہ ”وَلِکُلِّ قومٍ ھادٍ” ( ۱۳ :۷) ” ہر قوم کے لیے ایک ہادی هوا کرتا هے“ کی تفسیر کے بارے میں روایت کی هے ۔ آپ نے فرمایا :
عَلِیٌ :الھادي، ومنا الہادی فقلت فانت جعلت فِدٰاک اَلْھٰادِي؟ قَالَ صَدَّقْتَ اَنَّ الْقُرآن حَيٌ لاٰیَمُوتُ وَالاَیةُ حَیَّةً لاٰتَمُوتُ، فَلَوْ کاٰنَتْ الآِیةُ اِذٰا نَزَلَتْ فِیْ اِلاَقْوٰامِ وَمٰاتُوا اِمَاتَتْ الاَیةُ لَمٰاتَ الْقُرآن وَلٰکِنَّ ھِیَ جاٰرِیَةٌ فِيْ الْبٰاقینَ کَمٰا جَرَتْ في المٰاضینَ۔
اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب ہیں اور ہادی ہم ہی میں سے هوا کرے گا ۔ راوی کہتا هے میں نے کہا: میں آ پ پر نثار هوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں بھی اس کا مصداق هوں ۔ قرآن ہمیشہ زندہ رهے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ وَلکلً قَومٍ ھادٍ بھی زندہ هے اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مرجائے تو اس کا مطلب یہ هوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں هوسکتا بلکہ قرآن جس طرح گزشتہ اقوام پرمنطبق هوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق هو گا ۔
امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
اِنَّ الْقُرآن حيٌلَمْ یُمُتْ، وَاِنَّہُ یَجْْري کَمٰا یَجْري اللَّیْلُ وَالنَّھٰارُ، وَکَمٰاتَجْري الشَّمْسُ، وَیَجْري عَلَیٌ آخِرِنٰا کَمٰا یَجْري عَلَیٰ اَوَّلِنٰا ۔
قرآن زندہ و جاوید هے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رهے گا اورسورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رهے گا ۔ ”
اصول کافی میں هے جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق سے آیت کریمہ:وَ الذیِنَ یَصِلونَ مَا امَرَ اللّٰہ ُ بِہ اَن یُّوْصَلَ (سورہ ۱۳: آیت ۲۱) کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا: ھٰذِہ نَزَلَتْ فیْ رَحِمِ آلِ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلہِ وَقَدْ تَکُوْنُ فی قَرٰابَتِکَ، فَلٰاَ تَکُوَنَنَّ مِمَّنْ یَقُوْلُ لِلشَّیٍ اِنَّہُ فی شَيْءٍ وٰاحِد۔
یہ آیت کریمہ ہم آل محمد کے بارے میں نازل هوئی هے، لیکن یہی آیہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق هو سکتی هے، تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو ایک خاص مقام اور چیز پر نازل شدہ آیت کو اس مقام اور چیز سے مختص کر دیتے ہیں ۔
تفسیر فرات میں هے:
و لوان الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات اولئک ماتت الآیة لمابقي من القرآن شيء ولکن القرآن یجري اولہ علی آخرہ مادامت السماوات والارض ولکل قومٍ آیة یتلوھاہم منہا من خیراواشر۔
اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل هو پھرو ہ قوم مر جائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مر جائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رهے گا ۔ اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود هے جس میں ان کی اچھی یا برُی سر نوشت وتقدیر اور انجام کا ذکر هے ۔
اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں ۔ ( ۷) یہاں پر ہم امیرالمومنین کے کلام کے عربی متن کے بعض جملوں کی مختصر وضاحت کریں گے ۔
ومنھاجا لایضل نجہ
قرآن وہ سیدھا راستہ هے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا ۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا هے ۔ قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا هے جو اس کی پیروی کرے ۔
وتبیاناً لا تھدم ارکانہ۔ اس جملے میں دو احتمال ہیں :
ا ۔ پہلا احتمال یہ هے کہ علوم و معارف اور دیگر قرآنی حقائق جن ستونوں پر استوار ہیں وہ مضبوط اور مستحکم ہیں ان میں انہدام اور تزلزل کا سوال تک پیدا نہیں هوتا ۔
ب۔ دوسرا احتمال یہ هے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں هو سکتا هے ۔ اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رهے ہیں کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ هے ۔
و ریاض العدل وغدرانہ
اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں ۔
اس جملے کا مطلب یہ هے کہ عدالت چاهے عقیدہ کے اعتبار سے هو یا عمل کے اعتبار سے یا اخلاق کے اعتبار اس کے تمام پہلو قرآن میں موجود ہیں ۔ پس قرآن عدالت کا محور اور اس کی مختلف جہات کا سنگم هے ۔
وَاَثَّافی اْلاِسْلاٰمِ۔ ( ۸ )
اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس هے
اس جملے کا مطلب یہ هے کہ اسلام کو جو استحکام اور ثبات حاصل هوا هے وہ قرآن ہی کی بدولت هے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل هوتا هے جو اس کے نیچے رکھے هوتے ہیں ۔
واودیة الحق و غیطانہ۔
حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان هے
اس جملے کا مطلب یہ هے کہ قرآن حق کا سرچشمہ هے اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پُرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی هے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی هے جواس سرزمین پر اگی هوں کیونکہ قرآن کے علاوہ کہیں اورسے حق نہیں مل سکتا ۔
وبحر لاینزفہ المنتزفون
وہ ایسا دریاهے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے
اس جملے اور اس کے بعد والے جملوں کا مطلب یہ هے کہ جو معانی قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا ۔ کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیت کی طرف بھی اشارہ هے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع هوہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں هوتا ۔
وآکامٌّ لاٰیَحوز عنھا القاصدون۔
وہ ایسا ٹیلہ هے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے ۔
اس کا مطلب یہ هے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کوسمجھنا چاہتے ہیں و ہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز نہیں کر سکتے ۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ هے کہ قرآن کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل هے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں هو سکتی۔
اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا هے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لیے کہ انہیں مکمل طور پر اپنی مراد مل جاتی هے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں ۔
تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب:
قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموس الہیٰ هے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا هے ۔ قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان هے ۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند هے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ هونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے ۔
قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جدا مجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من قٰرأ عَشَرَ آیاتٍ فی لَیْلَةٍ لَمْ یَکْتُب مِنَ الْغٰافلین وَمَنْ قَرأَ خَمْسْینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ وَمَنْ قَرأَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ وَمَنْ قَرءَ مَائَتَیْ آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین ومن قرأ ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ وَمَنْ قَرأَ خَمْسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجْتَھدِینَ وَمَنْ قَرأَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَہُ قِنْطٰارٌ مِنْ تَبَرٍ۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گااور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دو سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع هوں) میں لکھا جائے گا اور جوشخص تین سو آتیوں کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے، وہ ایسا هے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا هو
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
اَلْقُرٰانُ عَھْدُ اللّٰہ اِلٰی خَلْقِہ، فَقَدْ یَنْبغَيلْلِمَرءِ المُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فی عَھْدِہِ، وَاَنْ یَقْرأمِنْہُ فی کُلِّ یَوْمٍ خَمْسینَ آیةً۔
قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہدو میثا ق هے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے
آپ نے مزید فرمایا: مٰایَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِہِ اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِہِ اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَہُ مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأھٰا عشر حسنات ویمحی عنہ عَشَرَ سَےِّئٰات؟
جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ هو کر گھرواپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورة کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی هے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں ۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا :
عَلَیْکُمْ بِتِلٰاِوَةِ القُرْآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرْآن، فَاِذٰاکٰانَ یَوْمَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی الْقُرآنَ اِقْرَأْوَاِرْقِ، فَکُلَّمٰا قَرَأَ آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً۔
قرآن کی تلاوت ضرورکیاکرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات هوں گے ۔ جب قیامت کا دن هو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند هوتے چلیں جائیں گے ۔
حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایا ت کو یکجا کر دیا هے شائقین ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور بحار الانور کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں ان میں بعض روایات کے مطابق قرآن دیکھ کر تلاوت کرنا زبانی اور ازبرتلاوت کرنے سے بہتر هے ۔
ان میں سے ایک حدیث یہ هے :
اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی :
جُعْلتُ فِدٰاکَ اِنّي اَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَھْرِ قَلْبي فَاْقرأُہُ عَنْ ظَھْرَ قَلْبِي اَفْضَلُ اَوْ اُنْظُرُ فی الْمُصْحَفِ قٰاَل: فَقٰالَ لِي لَاٰ بَلْ اقرأَہُ وَانْظُر فی الْمُصْحَفِ فَھُوَ افْضَلُ اَمٰا عَلِمْتَ اِنَ النَّظُرَ فی الْمُصْحَفِ عِبٰادَةٌ۔ مِنْ قراالقُرْآنَ فی المُصْحَفِ مَتَّعَ بِبَصَرِہِ وَخَفَّفَ عَنْ وٰالِدَیْہِ وَاِنَ کٰانا کافِرین۔ ( ۹ )
میری جان آپ پر نثار هو میں نے قرآن حفظ کر لیا هے ۔ اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا هوں یہی بہتر هے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کے تلاوت کیا کرو یہ بہتر هے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت هے جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض هوتی هے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی هے ۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ هوں ۔