- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/19
- 0 رائ
مولف: آیت اللہ شہید مرتضی مطہری (ره)
اس لئے ہم توبہ کریں اور واقعی ہمیں تو بہ کرنا چاہئے۔ اس جرم اور بد دیانتی کی وجہ سے جس کا ارتکاب ہم حضرت امام حسین علیہ السلام، ان کے اصحاب، دوستوں اور ان کے اہل خاندان کے متعلق کر رہے ہیں اور ان کا اعزاز اور افتخار چھین رہے ہیں۔ ہم کو چاہئے کہ پہلے توبہ کریں اور پھر اس مکتب کی تربیت سے فیض اٹھائیں۔
قابل اعتبار مقاتل کی کتابوں میں جس طرح لکھا ہے عبّاس علیہ السلام بن علی علیہ السلام کی زندگی میں کیا کمی ہے؟ ابو الفضل علیہ السلام کو صرف ایک فخر حاصل نہیں تھا اور وہ یہ کہ کسی کو ان سے کوئی غرض نہیں تھی، کوئی سر وکار نہیں تھا۔ امام حسین علیہ السلام کے علاوہ ان سے کسی کو کوئی غرض نہیں تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا کہ ان لوگوں کو صر ف میری ذات سے غرض ہے اگر یہ مجھے مار ڈالیں تو پھر انہیں کسی سے کوئی سر وکار نہیں ہو گا۔ جس وقت شمر بن ذی الجوشن کوفہ سے کربلا کے لئے روانہ ہونے لگا اس وقت حاضرین میں سے ایک شخص نے ابن زیاد سے بیان کیا کہ میرے بعض ننھیال والے حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام کے ساتھ ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے لئے ایک معافی نامہ لکھ دے۔ ابن زیاد نے لکھ بھی دیا۔ شمر کا قبیلہ جناب ام البنین کے قبیلے سے دور کی قرابت رکھتا تھا۔ وہ یہ پیغام نویں محرم کو عصر کے وقت کربلا میں لایا، یہ پلید، امام حسین علیہ السلام کے خیمے کے قریب پہنچا اور زور سے چلاّیا: ”این بنو اختنا“۱۳ (میرے بھانجے کہاں ہیں؟) ابو الفضل علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے پاس بیٹھے تھے۔ ان کے بھائی بھی وہاں موجود تھے۔ جو اب میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ یہاں تک کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اجیبوہ وان کان فاسقاً“ (جواب تو دیدو، فاسق آدمی ہی سہی۔) آقا علیہ السلام نے اجازت دی تو جواب دیا، فرمایا: ”ما تقول“ (تو کیا کہتا ہے؟) تمہارے لئے خوش خبری لایا ہوں۔ تمہارے لئے خوش خبری لایا ہوں۔ تمہارے لئے امیر عبیداللہ بن زیاد سے معافی لایا ہوں۔ تم آزاد ہو۔ اگر ابھی چلے جاؤ گے تو تمہاری جان بچ جائے گی۔ آپ نے کہا خدا تجھ پر، تیرے امیر ابن زیاد پر اور اس معافی نامہ پر جو تو لایا ہے، لعنت کرے۔ کیا ہم اپنے امام علیہ السلام، اپنے بھائی کو صرف اس لئے چھوڑ دیں کہ ہم بچ جائیں؟
عاشور کی رات کو جس نے سب سے پہلے حسین علیہ السلام کی حمایت کا اعلان کیا وہ آپ کے سعادت مند بھائی ابو الفضل العبّاس علیہ السلام تھے۔ ان حماقت آمیز مبالغوں کو چھوڑئیے جو لوگ کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ میں یہ تو مسلّم ہے کہ ابو الفضل العبّاس علیہ السلام بہت پختہ طبیعت، بہت شجاع، بہت حوصلہ والے، بلند قامت اور خوبصورت تھے۔”و کان ید عیٰ قمر بنی ہاشم“۱۴ (انہیں لوگوں نے قمر بنی ہاشم کا لقب دیا تھا۔) یہ حقیقت ہے۔ شجاعت انہوں نے علی علیہ السلام سے ورثہ میں پائی تھی۔ ان کی ماں کا قصّہ بھی سچا ہے کہ علی علیہ السلام نے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ میرے لئے ایک بیوی تلاش کرو جو ”ولدتھا الفحولہ“۱۵ بہادروں کے یہاں پیدا ہوئی ہو۔ عقیل، ام البنین کا انتخاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہوئی خاتون ہیں جیسی آپ چاہتے ہیں۔ ”لتلد لی فارساً شجاعاً“۱۶ (میرا دل چاہتا ہے کہ اس بیوی سے میرے لئے ایک بہادر بیٹا پیدا ہو۔ یہاں تک سچا ہے۔ علی علیہ السلام کی تمنا عبّاس علیہ السلام کی صورت میں پوری ہوگئی۔
روز عاشورا آتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق عبّاس علیہ السلام سامنے آتے ہیں۔ عرض کرتے ہیں بھائی جان! مجھے بھی اجازت دیدیجئے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ اب برداشت نہیں ہوتا۔ چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد آپ پر اپنی جان فدا کر دوں ۔ میں نہیں جانتا کہ امام علیہ السلام نے کس مصلحت سے عبّاس علیہ السلام کو یہ جواب دیا، خود آنحضرت ہی بہتر جانتے تھے۔ فرمایا: بھائی! جانا ہی چاہتے ہو تو جاؤ بلکہ ہو سکے تو میرے بچوں کے لئے تھوڑا سا پانی بھی لا دو۔”سقّا“ یعنی بہشتی کا لقب پہلے ہی عبّاس علیہ السلام کو مل چکا تھا۔ کیونکہ پچھلی راتوں میں ایک یا دو بار عبّاس علیہ السلام دشمنوں کی صفیں چیر کر حسین علیہ السلام کے بچوں کے لئے پانی لے کر آئے تھے ایسا نہیں کہ ان لوگوں نے تین دنوں اور تین راتوں تک پانی نہیں پیا تھا۔ نہیں۔ (بلکہ) تین راتیں اور تین دن گذرے تھے جو پانی کی ممانعت ہوئی تھی۔ لیکن اس دوران بھی ایک دو بار پانی لایا گیا۔ ایک بار شب عاشور بھی پانی آیا تھا ۔لوگوں نے غسل بھی کیا تھا۔ اپنے بدن بھی دھوئے تھے۔ ابوالفضل علیہ السلام نے فرمایا: سر آنکھوں پر۔ دیکھئے کتنا شاندار منظر ہے۔ کتنی عظمت، کتنی شجاعت ہے، کتنی حوصلہ مندی، کتنی انسانیت ہے، کتنا شرف، کتنی معرفت اور جانثاری ہے۔ تن تنہا ایک ہجوم پر جا پڑتے ہیں۔ جن دشمنوں نے پانی کی ناکہ بندی کر رکھی تھی ان کی تعداد چار ہزار لکھی ہے۔ نہر فرات میں اترے گھوڑے کو پانی میں ڈالا (یہ سب لکھا ہے) سب سے پہلے وہ مشک بھرتے ہیں جو ساتھ لائے تھے اور کندھے پر لٹکا لیتے ہیں۔ پیاسے ہیں۔ ہوا گرم ہے۔ لڑے ہوئے ہیں۔ بدستور گھوڑے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پانی گھوڑے کے پیٹ سے لگا ہے۔ پانی میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ چلو میں پانی بھر کر ہونٹوں تک لے جاتے ہیں۔ جو دور سے دیکھ رہے تھے انہوں نے کہا ہے کہ تھوڑی دیر رُکے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ پانی پئے بغیر نکل آئے۔ پانی فرات میں ڈال دیا۔ کوئی نہیں سمجھ پایا کہ ابوالفضل علیہ السلام نے اس وقت پانی کیوں نہیں پیا۔ لیکن جب باہر آئے تو رجز پڑھا، اس رجز میں دوسروں کو نہیں، خود کو مخاطب کیا۔ اس رجز سے لوگ سمجھے کہ پانی کیوں نہیں پیا؟
اے ابوالفضل علیہ السلام کے نفس! میں حسین علیہ السلام کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتا ۔ حسین علیہ السلام موت کا شربت پینے والے ہیں۔ حسین علیہ السلام علیہ السلام خیموں کے پاس پیاسے کھڑے ہوں اور تو پانی پئے؟ مروّت کہاں گئی؟ شرافت کہاں چلی گئی؟ محبت اور ہمدردی کو کیا ہو گیا؟ کیا حسین علیہ السلام تیرے امام نہیں ہیں؟ کیا تو ان کا ماموم نہیں ہے؟ کیا تو ان کے پیچھے چلنے والا نہیں ہے؟۱۷
میرا دین مجھے اس کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ میری وفا داری مجھے اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتی۔ ابوالفضل علیہ السلام نے واپسی میں اپنا راستہ بدل دیا۔ نخلستانوں میں سے ہو کر آئے تھے پہلے سیدھی راہ سے آئے تھے۔ اب چونکہ یہ سمجھتے تھے کہ ساتھ میں ایک بیش قیمت امانت ہے اس لئے اپنا راستہ تبدیل کر دیا اور پوری پوری کوشش یہ رہی کہ پانی سلامتی کے ساتھ پہنچ جائے کیونکہ اس بات کا امکان تھا کہ کوئی تیر آکر مشک چھید ڈالے اور پانی بہہ جائے اور منزل تک نہ پہنچ جائے۔ اسی حال میں تھے کہ دیکھا ابوالفضل علیہ السلام کا رجز بدل گیا۔ معلوم ہوا کوئی نیا حادثہ پیش آگیا ہے فریاد کی:
واللہ ان قطعتم یمینی
انی احامی ابداً عن دینی
و عن امام صادق الیقین
نجل النّبیّ الطاہر الامین۱۸
خدا کی قسم! اگر تم میرا دایاں ہاتھ بھی کاٹ ڈالو گے تو بھی میں حسین علیہ السلام کا دامن نہیں چھوڑ دونگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد رجز بدل گیا:
یانفس لا تخش من الکفار
وابشری برحمة الجبّار
مع النّبیّ السیّد المختار
قد قطعوا ببغیہم یسری۱۹
اس رجز میں آپ نے یہ بتا دیا کہ آپ کا بایاں ہاتھ بھی کٹ چکا ہے۔ لکھتے ہیں کہ اسی ترکیب سے بڑی مشکل کے ساتھ آپ نے مشک کو گھمایا اور اس پر جھک گئے۔ میں اپنی زبان سے نہیں کہہ سکتا ہوں کہ کیا حادثہ پیش آیا۔ کیونکہ کہ بہت دل ہلا دینے والا ہے۔ نویں تاریخ کی شب یہ دستور ہے کہ اس عظیم ہستی کی مصیبت بیان کی جاتی ہے۔
میں یہ بھی عرض کر دوں کہ حضرت عبّاس کی والدہ گرامی امّ البنین علیہ السلام کربلا کے حادثہ کے وقت زندہ تھیں لیکن کربلا میں نہیں مدینہ میں تھیں۔ انہیں لوگوں نے خبر پہنچائی کہ کربلا کے حادثے میں آپ کے چاروں بیٹے شہید ہوگئے۔ یہ بزرگ خاتون جنّت البقیع کے قبرستان میں آتی تھیں اور اپنے بیٹوں پر روتی تھیں۔ لکھتے ہیں کہ ان بی بی کے بین اس قدر درد ناک ہوتے تھے کہ جو آجاتا تھا رونے لگتا تھا ۔ یہاں تک کہ مروان بن حکم بھی جو سخت ترین دشمن تھا اپنی نوحہ سرائی میں کبھی آپ کے تمام بیٹوں کو اور کبھی ان میں سے سب سے بڑے بیٹے کو خاص طور پر یاد کر لیتا تھا۔ ابوالفضل العبّاس علیہ السلام عمر کے لحاظ سے بھی اور روحانی اور جسمانی کمالات کے اعتبار سے بھی ان کے بیٹوں میں سب سے زیادہ قابل تھے۔ میں ان بی بی کے دو مرثیوں میں سے ایک مرثیہ جو مجھے بہت پسند ہے آپ کو سناتا ہوں۔ یہ کوکھ جلی ماں ان مرثیوں کو خود (عام طور پر مرثیہ بڑے دلدوز انداز میں کہتے ہیں) اس طرح پڑھتی تھیں:
یا من رای العبّاس کرّ علیٰ جماھیر النقد
و وراہ من ابناء حیدر کل لیث ذی لبد
انبئت انّ النّبیّ اصیب براٴسہ مقطوع ید
ویلی علیٰ شبلی آمال براٴسہ ضرب العمد
لو کان سیفک فی یدیک کما دنیٰ منہ احد۲۰
اے دیکھنے والی آنکھ، اے وہ آنکھ جو کربلا میں تھی اور ان مناظر کو دیکھ رہی تھی، اے وہ شخص جس نے وہ وقت دیکھا جب میرے شیر بچے ابو الفضل علیہ السلام نے پہلے اور میرے دوسرے شیر بچوں نے اس کے پیچھے اس ذلیل جماعت پر حملہ کیا تھا۔ مجھ سے لوگوں نے بیان کیا ہے، میں نہیں جانتی سچ ہے یا جھوٹ! کہا ہے جس وقت میرے بچے کے ہاتھ کٹ گئے تھے میرے پیارے بیٹے کے سر پر لوہے کا گرز مارا گیا تھا۔ کیا یہ سچ ہے؟ پھر کہتی ہیں: ابوالفضل علیہ السلام! اے میرے بیٹے! میں خود سمجھتی ہوں اگر تیرے ہاتھ سلامت ہوتے تو دنیا میں کوئی ایسا نہ تھا جو تیرے سامنے ٹھہر پاتا۔ ان لوگوں نے اتنی جسارت محض اس وجہ سے کی کہ تیرے ہاتھ بدن سے جدا ہوگئے تھے۔
لا حول ولا قوّۃ الّا باللہ العلی العظیم
……………………..
حواله جات:
۱۳. مقتل الحسین مقرم صفحہ ۲۵۲، بحار الانوار جلد ۴۴ صفحہ ۳۹۱، اللہوف صفحہ ۳۷
۱۴. ’العبّاس‘ تالیف: عبد الرزاق الموسوی المقرم/ص: ۸۱۔ مناقب ابن شہر آشوب/ج: ۴/ ص: ۱۰۸
۱۵. ’العبّاس‘ تالیف: عبد الرزاق الموسوی المقرم/ ص: ۶۹۔
۱۶. ابصار الحسین علیہ السلام فی انصار الحسین علیہ السلام/ ص:۲ ۶
۱۷. ینابیع المؤدة/ج:۲/ص: ۱۶۰۔ بحارالانوار/ ج: ۴۵/ ص: ۴۱
۱۸. بحا رالانوار/ ج: ۴۵/ ص: ۴۰
۱۹. بحا رالانوار/ ج: ۴۵/ ص: ۴۰
۲۰. منتھی الآمال جلد ۱ صفحہ ۳۸۶