- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : محقق نمبر ایک
- 2025/01/07
- 0 رائ
مقالہ حاضر میں کوشش کی جائے گی کہ جناب محمد بن حنفیہ کی شخصیت، خاندانی پس منظر، زندگی نامہ، اہل بیت (ع) کی نسبت وفاداری، شجاعت و بہادری کو معتبر کتابوں سے نقل کرتے ہیں اور ان شبہات کو بھی ساتھ ذکر کریں جو جناب محمد بن حنفیہ کے بارے میں رائج ہیں۔ اگر تاریخ کے حقیقی دریچے سے دیکھ لیا جائے تو محمد بن حنفیہ کی ذات، ان تمام غلط بیانیوں سے مبرا نظر آتی ہیں۔
محمد بن حنفیہ کی شخصیت
محمد بن حنفیہ، حضرت علی (ع) کے بیٹے تھے اور ان کی کنیت مشہور طور پر “ابوالقاسم” تھی، جو رسول اللہ (ص) کی کنیت تھی۔ ایک روایت کے مطابق ان کی کنیت “ابوعبداللہ” بھی تھی۔[1]
تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ تین افراد کو رسول اللہ (ص) کے نام و کنیت کو اختیار کرنے کی اجازت دی گئی، جن میں محمد بن حنفیہ، محمد بن ابی بکر، اور محمد بن طلحہ شامل ہیں۔ تاہم، بعض مورخین نے اس بات کو مسترد کیا ہے۔ شیعہ مؤرخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضرت علی (ع) کی نسل صرف ان کے پانچ بیٹوں سے باقی رہی، جن میں حضرت حسن (ع)، حضرت حسین (ع)، محمد بن حنفیہ، عمر اکبر، اور عباس شامل ہیں۔[2]
حضرت علی (ع) کی وہ اولاد جو حضرت فاطمہ زہرا (س) کے علاوہ دیگر بیویوں سے پیدا ہوئی، انہیں عموماً ان کے مادری نسب سے نسبت دی جاتی ہے۔ یہ احترام رسول اللہ (ص) کی نسل کی پاکیزگی کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ محمد بن حنفیہ کو ان کی والدہ کی نسبت سے “بن حنفیہ” کہا جاتا ہے۔
محمد بن حنفیہ کا خاندانی پس منظر
محمد بن حنفیہ، حضرت علی (ع) کے بیٹے تھے اور ان کی والدہ کا نام خولہ بنت جعفر بن مسلمہ تھا۔ خولہ کا تعلق قبیلہ بنی حنفیہ سے تھا، اور ان کی زندگی کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں۔ مشہور روایت کے مطابق، حضرت علی (ع) نے ان سے اس وقت شادی کی جب وہ مدینہ میں اسیر کی حیثیت سے لائی گئیں۔[3]
خولہ کی اسیری کے بارے میں مختلف روایات
ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ خولہ جنگِ یمامہ کے دوران اسیر ہوئیں۔ اس جنگ میں بنی حنفیہ کو شکست دی گئی تھی کیونکہ وہ مسیلمہ کذّاب کو نبی مان چکے تھے۔ حضرت علی (ع) کو، خولہ غنیمنت کے حصے میں مل گئی اور انہوں نے ان سے شادی کی۔
دوسری روایت کے مطابق، خولہ اس وقت اسیر ہوئیں جب حضرت علی (ع) کو رسول اللہ (ص) نے یمن کی طرف بھیجا تھا۔ یہاں خولہ علی (ع) کے حصے میں آئیں اور ان سے شادی ہوئی۔[4]
تاہم، سب سے مشہور اور معتبر روایت کے مطابق، خولہ اس وقت اسیر ہوئیں جب خلیفہ اول کے دور میں بنی اسد نے بنی حنفیہ پر حملہ کیا۔ خولہ کو بعد میں حضرت علی (ع) کے پاس لایا گیا۔ ان کے قبیلے والوں نے مدینہ آ کر خولہ کی حیثیت کو بیان کیا، جس کے بعد حضرت علی (ع) نے انہیں آزاد کیا اور ان سے باقاعدہ نکاح کیا۔[5]
خولہ کی اسیری پر شیعہ مؤرخین کا موقف
کچھ شیعہ مؤرخین، جیسے علامہ مجلسی، کا کہنا ہے کہ بنی حنفیہ شیعہ تھے اور اسی وجہ سے خلیفہ وقت کے عمال کو زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ ان کے اس انکار پر انہیں حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ علامہ مجلسی کے مطابق، خولہ کو جب اسیر کر کے مدینہ لایا گیا تو انہوں نے رسول اللہ (ص) کے مزار پر فریاد کی کہ ان پر یہ ظلم اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ وہ اہل بیت (ع) سے محبت کرتے ہیں۔[6]
محمد بن حنفیہ کی ولادت و وفات
مشہور ںظریہ یہی ہے کہ تیرہویں ہجری کے لگ بھگ علی بن ابی طالب (ع) کے ہاں اپنی بیوی خولہ سے ایک بچہ پیدا ہوا جس نام محمد رکھا گیا۔[7] امام جعفر صادق (ع) کے مطابق، محمد بن حنفیہ کی وفات سنہ 84 ہجری میں ہوئی۔ مختلف مورخین نے ان کی وفات کا سال 73 سے 93 ہجری کے درمیان بیان کیا ہے۔[8]
ان کے وفات کی جگہ کے حوالے سے اختلاف ہے؛ کچھ طائف، مدینہ، اور رضوی وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں۔ البتہ ان کی تدفین کی جگہ کے بارے میں کم اختلاف پایا جاتا ہے، اور بیشتر روایات کے مطابق وہ مدینہ کے بقیع میں مدفون ہیں، جبکہ بعض نے طائف کو ان کی تدفین کی جگہ بتایا ہے۔[9]
محمد بن حنفیہ کی خدمات
حضرت محمد بن حنفیہ کو شجاعت و شهامت امام علی (ع) سے ورثے میں ملی تھی، کہتے ہیں کہ کبھی کبھی محکم و مضبوط زرہوں کو ہاتھ سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے تھے، یہی وجہ تھی جنگ جمل میں امام علی (ع) نے اسلام کے پرچم کو ان کے سپرد کر دیا۔
جنگ صفین میں آپ کے بائیں ہاتھ کے فوجی دستوں کی سالاری حضرت محمد بن حنفیہ (رض) اور حضرت محمد بن ابی بکر (رض) اور ہاشم مرقال (رض) کر رہے تھے۔ آپ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے بہت محبت کرتے اور ان کی نسبت انتہائی احترام و متواضع رہتے تھے اور دیگر فرزندان علی (ع) و فاطمہ (س) کا بھی بہت احترام کرتے تھے۔
ایک دن کسی نے آپ سے کہا کہ امام علی (ع) آپ کو خطرناک ترین جنگوں میں بھیج دیتے ہیں اور حسن (ع) و حسین (ع) کو بٹھائے رکھتے ہیں، جب کہ وہ بھی آپ کے بھائی ہیں، آپ نے ان کو جواب دیا: حسن (ع) و حسین (ع)، امیر المؤمنین (ع) کی آنکھوں کی طرح ہیں اور میں آپ کے بازوؤں کی طرح ہوں اور انسان ہمیشہ طاقتور بازوؤں کی مدد سے ہی اپنی آنکھوں کی حفاظت اور دفاع کرتا ہے۔[10]
محمد بن حنفیہ کے بارے میں غلط نظریات
چند شیعہ فرقے محمد بن حنفیہ کو موعود آخرالزمان اور امام مہدی (عج) مانتے تھے جو غیبت میں ہیں۔ تاہم، یہ نظریہ باطل ہے اور شیعہ اعتقاد کے مطابق بارہ امام (ع) ہیں اور بارہویں امام (ع) ہی غیبت میں ہیں۔ امام محمد باقر (ع) نے ان لوگوں کو جو محمد بن حنفیہ کی حیات پر یقین رکھتے تھے، فرمایا کہ ان کے والد امام زین العابدین (ع) نے خود ان کی وفات، غسل، کفن، نماز اور تدفین کا مشاہدہ کیا تھا۔[11]
بعض نے آپ پر تہمت لگائی کہ امام حسین (ع) کی شہادت عظمٰی کے بعد آپ نے امامت کا دعوی کیا، یہاں تک کہ دعوائے مہدویت بھی کر ڈالا، لیکن شیخ مفید نے اس بارے میں روشن و واضح کر دیا کہ حضرت محمد بن حنفیہ نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا، اور نہ کبھی کسی کو اپنی طرف بلایا، بلکہ دوسروں نے آپ کی نسبت ایسی جھوٹی باتیں کی ہیں، اور ان جھوٹے لوگوں (جیسے کیسانیہ) نے اپنی طرف سےآپ کے لئے امامت کا دعوی کیا۔
محمد بن حنفیہ کے فضائل
آپ کے مقام عظمت و جلالت میں ہے کہ حضرت امام حسین (ع) جب مدینے سے مکے کی طرف روانہ ہونے لگے تو مدینے میں آپ کو اپنا نمائندہ اور اپنا وصی بنایا تا کہ وہاں کی خبریں آپ تک پہنچاتے رہیں اور اپنے الہی وصیت نامے کو جو کہ معروف ہے، اور مقاتل میں موجود ہے، حضرت محمد بن حنفیہ (رض) کے سپرد فرمایا۔[12]
محمد بن حنفیہ، اہل بیت عصمت و طہارت (ع) کے خانوادے میں پرورش پانے کی وجہ سے کمالات اور فضائلِ نفسانی سے بھرپور تھے۔ حضرت علی (ع) کی تربیت اور امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کے ساتھ زندگی گزارنے نے انہیں ایک ممتاز شخصیت بنا دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ عوام و خواص میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کے فضائل اس حد تک نمایاں تھے کہ بعض لوگوں نے انہیں امام مان لیا اور یہاں تک کہ مہدی موعود بھی سمجھا۔[13]
ابن ابی الحدید کے بیان کے مطابق جنگِ جمل میں امام علی (ع) نے محمد بن حنفیہ کو پرچم تھمایا اور حملے کا حکم دیا۔ محمد نے تیر بارش کے سبب حملہ کرنے میں تھوڑی دیر کر دی، جس پر امام علی (ع) نے ان پر تنقید کی اور خود دشمن پر حملہ کیا۔ بعد ازاں، انھوں نے دوبارہ پرچم محمد کو سونپا اور کہا کہ پہلی سستی کو دور کرو۔ محمد نے انصار کے ہمراہ شدید جنگ کی اور دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے بعد محمد کی بہادری اور استقامت کا ذکر کئی مقامات پر کیا گیا۔[14]
محمد بن حنفیہ کی عدالت، ورع، تقویٰ اور علمی مقام کا ذکر امام رضا (ع) نے حضرت علی (ع) کے حوالے سے کیا۔ ان کے علمی مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ائمہ کرام (ع) نے ان سے احادیث اور تفاسیر نقل کیں۔ وہ علوم غیبی پر بھی دسترس رکھتے تھے اور بعض اوقات ان کا اظہار بھی کرتے، جس سے ان کی شخصیت کے اسرار بھی نمایاں ہوتے۔[15]
ابن جنید کے مطابق حضرت علی (ع) سے صحیح احادیث سب سے زیادہ محمد بن حنفیہ کے ذریعے نقل ہوئی ہیں۔ ان کی شجاعت، دلیری، علم، فصاحت و بلاغت اور حلم کی گواہی کئی مواقع پر ملتی ہے۔ ایک مرتبہ جب رومی شہنشاہ نے عبدالملک بن مروان کو جزیہ کے لئے دھمکی دی تو عبدالملک نے محمد بن حنفیہ سے مدد طلب کی۔ محمد کے حکمت سے بھرپور جواب نے رومیوں کو حیران کر دیا۔[16]
ان کی علمی اور روحانی تربیت ان کے فرزندوں اور شاگردوں میں بھی نظر آتی ہے، جو ان کے علمی اور اخلاقی مقام کا ثبوت ہے۔ امام جعفر صادق (ع) کے بقول، محمد بن حنفیہ دلیر اور شجاع انسان تھے۔ ان کے اقوال و خطبے فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کے بارے میں نقل کردہ متعدد واقعات ان کی ایمانی قوت اور علمی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔[17]
محمد بن حنفیہ کا مقام امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جیسا نہیں تھا، تاہم ان کے مقام و فضیلت کو تسلیم کیا گیا۔ اہل بیت (ع) اور دیگر افراد نے ان کے بلند مقام کو احترام سے یاد کیا، اور ان کے خصائل اور روحانی مقامات کے معترف رہے۔
امام علی (ع) اور محمد بن حنفیہ
امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) اور محمد بن حنفیہ کے درمیان نہ صرف ایک باپ بیٹے کا تعلق تھا، بلکہ مراد و مرید کا ایک مضبوط رشتہ بھی قائم تھا۔ محمد بن حنفیہ اپنے والد کو امام اور پیشوا مانتے تھے اور ہمیشہ ان کے حق میں اور ان کے دفاع میں پیش پیش رہتے تھے۔
دوسری جانب حضرت علی (ع) بھی اپنے اس فرزند سے خصوصی محبت رکھتے تھے اور اس کی تربیت و پرورش پر خاص توجہ دیتے تھے۔ وہ کبھی نصیحت کے ذریعے اور کبھی سختی سے انہیں راہِ راست پر استوار رکھتے۔ محمد بن حنفیہ نے کبھی اپنے والد کی ولایت و امامت میں شک و شبہ نہیں کیا اور کبھی کسی اور کی خلافت و امامت کو تسلیم نہیں کیا۔
ان کے اس پختہ عقیدے کے پیچھے ان کی ماں خولہ کی تربیت کا اہم کردار تھا۔ خولہ نہ صرف پاکدامن خاتون تھیں، بلکہ اہل بیتِ اطہار (ع) سے محبت اور عشق کی بنا پر ہر طرح کے مظالم سہتی رہیں۔ محمد بن حنفیہ کی شیعیت بھی اسی تربیت کا نتیجہ تھی۔ ابن سعد نقل کرتے ہیں کہ جب ابن منذر کی موجودگی میں محمد وضو کرنے لگے تو انہوں نے شیعہ طرز پر وضو کیا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے پاؤں پر مسح کیا۔[18]
ایک روایت کے مطابق، جب عبد اللہ بن زبیر نے حضرت علی (ع) کے خلاف خطبہ دیا تو محمد بن حنفیہ فوراً وہاں پہنچے اور اس کا رد کیا۔ ان کے بیان سے ان کی حضرت علی (ع) سے محبت اور ان کی شجاعانہ خطابت کی جھلک نمایاں تھی۔ انہوں نے کہا: “اے عرب کے لوگو! تمہارے چہرے بدشکل ہوں! کیا علی کی موجودگی میں کوئی ان کی توہین کر سکتا ہے؟ علی (ع) تو خدا کے دشمنوں پر خدا کی تلوار تھے۔ ان کے دشمنوں نے ان کے ساتھ حسد اور بغض رکھا۔”[19]
محمد بن حنفیہ نے ہر موقع پر اپنے والد کی عزت و احترام اور دفاع کیا۔ ان کی محبت اور وفاداری کے گہرے جذبات کا اندازہ اس وقت بھی ہوتا ہے جب امام علی (ع) نے اپنے بیٹوں حسن و حسین (ع) کو محمد کی محبت و خیال رکھنے کی وصیت کی۔ امام علی (ع) اپنے بیٹے محمد سے محبت کرتے تھے اور ان کی راہنمائی کرتے تھے۔ اگر کبھی ان میں سستی دیکھتے تو انہیں سرزنش کرتے اور اگر غمگین ہوتے تو تسلی دیتے۔
جب خطرہ محسوس ہوتا تو ان کا دفاع کرتے اور کبھی ان کے حوصلے کو بڑھاتے۔ تاہم، وہ کبھی بھی محمد کو غرور کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ محمد بن حنفیہ ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ رہے۔ مدینہ سے کوفہ کی ہجرت کے وقت بھی وہ ساتھ تھے اور جنگوں میں بھی شجاعت کے ساتھ شریک رہے۔ جنگ جمل، صفین اور نہروان میں ان کا کردار نمایاں رہا۔ یوں محمد بن حنفیہ نے اپنی پوری زندگی میں ولایتِ علوی کا تحفظ کیا۔[20]
جنگ جمل اور صفین میں محمد بن حنفیہ کی شرکت
جنگ جمل، محمد بن حنفیہ کے لئے کارزار اور جنگ کا پہلا تجربہ تھا۔ اس جنگ میں، جہاں وہ اپنی زندگی کے 25 سال مکمل کر چکے تھے، انہوں نے ایمان، فداکاری، اور غیرت دینی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سیکھا کہ مؤمن صرف نرم دل نہیں ہوتا بلکہ خدا کی راہ میں جرأت مندی اور تلوار چلانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
امام علی (ع) نے اپنے بیٹے کو جنگ کے دوران تربیت دیتے ہوئے، انہیں غیرت اور عزم کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کا درس دیا۔ جنگ جمل میں امام علی (ع) نے محمد بن حنفیہ کو پرچم اٹھانے کی ذمہ داری سونپی اور انہیں اپنے شجاعانہ کردار سے سبق دینے کی کوشش کی۔ محمد بن حنفیہ نے جنگ کے دوران اپنی فنی صلاحیتوں کو بہتر بنایا اور امام علی (ع) کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے دشمن کے خلاف شجاعانہ جنگ کی۔
جنگ کے دوران، انھوں نے ایک دشمن کو شکست دی اور اپنی بہادری کا لوہا منوایا۔ تاہم، جب امام علی (ع) نے اسے شتر عائشہ کو قتل کرنے کا حکم دیا، تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ امام علی (ع) نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اس میں شرم کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ علی (ع) کے بیٹے ہیں۔[21]
جنگ صفین میں بھی انہوں نے شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس جنگ میں وہ امام علی (ع) کے ساتھ شامل ہوئے اور کئی اہم کارروائیوں میں حصہ لیا۔ جب امام علی (ع) نے انہیں دشمن کی صفوں میں حملہ کرنے کا حکم دیا، تو محمد بن حنفیہ نے اپنی پوری طاقت سے جنگ کی اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا۔ ایک بار، جب محمد بن حنفیہ اور عبید اللہ بن عمر بن خطاب کے درمیان مقابلہ ہونے والا تھا، امام علی (ع) نے اسے روکا اور خود میدان میں آ کر اس مقابلے کا سامنا کیا، کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ محمد کو خطرہ نہ ہو۔
محمد بن حنفیہ نے جنگ صفین میں کئی بار دشمنوں کو شکست دی اور امام علی (ع) کی ہدایات پر عمل کیا۔ ان کی بہادری اور شجاعت نے ان کی شخصیت کو مزید نکھارا اور ان کا کردار تاریخ میں نمایاں رہا۔ جنگ کے دوران، امام علی (ع) نے محمد کی فدائیت اور جرأت کو سراہا اور انہیں اپنی دعاؤں سے نوازا۔[22]
خاتمہ
محمد بن حنفیہ، امام علی (ع) کے فرزندان گرامی میں سب سے زیادہ اختلافی شخصیت ہے۔ دشمن ان کو بزدل اور امام حسین (ع) کی نسبت بے وفا سمجھتے ہیں جبکہ ان کے ناداں دوستوں، ان کے مقام کو مہدویت تک پہنچا دیتے ہیں جب کہ حقیقت میں دونوں غلط ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مکتب امامت کا حقیقی وفادار رہا ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ ذہبی، تاریخ الاسلام، ج۶، ص۱۸۶۔
[2]۔ مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۱۱۱۔
[3]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۱۸۔
[4]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۴۴۔
[5]۔ بلاذری، انساب الأشراف، ج۳، ص۲۶۹۔
[6]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۸۵، ص۴۲۔
[7]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۲۴۴۔
[8]۔ طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۱۶۳ (ان کے سال وفات کے بارے میں کافی اختلاف ہے)۔
[9]۔ ملاحظہ فرمائیں: قاموس الرجال از شوشتری، سفینۃ البحار از شیخ عباس قمی و شرح نہج البلاغہ از ابن ابی الحدید۔
[10]۔ شوشتری، قاموس الرجال، ج۸، ص۱۶۰۔
[11]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۲، ص۱۰۶۔
[12]۔ کلینی، اصول کافی، ج۱، ص۳۰۳۔
[13]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۲، ص۲۳۲، ح۱۲۔
[14]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۷، ص۱۴۸و ۱۴۹۔
[15]۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۴، ص۱۱۵۔
[16]۔ ابن جنید، تهذیب الکمال، ج۱۷، ص۸۰۔
[17]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۲، ص۱۰۶، ح۳۳۔
[18]۔ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۴، ص۱۲۷۔
[19]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۴، ص۶۲و۶۳.
[20]۔ طبری، تاریخ طبری، ج۶، ص۶۸۔
[21]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۳۲، ص۱۸۷، ح۱۳۷۔
[22]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۲، ص۱۰۵و ۱۰۶۔
منابع و مآخذ
۱۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبۃ الله، شرح نهج البلاغة، بغداد عراق، دار الکتاب العربي، ۱۴۲۸ھ ۔ ۲۰۰۷ء۔
۲۔ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، مصر، دار المعارف، ۱۹۷۸ء۔
۳۔ حافظ مزی، یوسف بن عبد الرحمن، تهذيب الکمال في أسماء الرجال، بیروت لبنان، مؤسسة الرسالة، ۱۹۸۵ء۔
۴۔ ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاهیر و الأعلام، بیروت لبنان، دار الکتاب العربي، ۱۴۰۹ھ۔
۵۔ ذهبی، محمد بن احمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت لبنان، مؤسسة الرسالة، ۱۴۱۴ھ۔
۶۔ شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم ایران، جامعه مدرسین حوزه علمیه قم (دفتر انتشارات اسلامی)، ۱۴۱۰ھ۔
۷۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت لبنان، مؤسسة عزالدين، ۱۴۱۳ھ۔
۸۔ قمی، عباس، سفينة البحار و مدينة الحکم و الآثار مع تطبیق النصوص الواردة فیها علی بحار الأنوار، مشهد مقدس ایران، آستان قدس رضوی؛ بنياد پژوهشهای اسلامى، ۱۳۸۸ش – ۱۴۳۰ھ۔
۹۔ کلینی، محمد بن یعقوب، و آخوندی، محمد، الکافي، تهران ایران، دار الکتب الإسلامیة، ۱۳۶۳ش۔
۱۰۔ مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال في علم الرجال، قم ایران، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۳۱ھ۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
۱. مکارم شیرازی، ناصر اور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی (ع) (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۴۰۰ تا ص۴۰۱۔
۲. مؤمن پور، فاطمہ، نقش محمد حنفیه در صدر اسلام، فرهنگ کوثر، شمارہ ۷۷ و ۷۸۔