- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : ابوالحسن
- 2024/11/04
- 0 رائ
قرآن کریم قیامت تک پیش آنے والے ہر مسئله کا حل رکھتا ہے۔ لہذا نبی اکرم (ص) کے بعد صحیح راستہ بھی وہی بتائے گا۔ ہم اس مختصر تحریر میں چند آیات بیان کریں گے کہ جن میں حضرت علی (ع) کے وہ فضائل بیان ہوئے ہیں، جو کسی بھی امّتی میں نہیں پائے جاتے۔ لہذا یہ بات بلکل واضح ہوجائے گی کہ حضرت علی (ع) رسول خدا (ص) کے بلا فصل خلیفہ ہیں۔
۱- حضرت علی (ع) مباہلہ میں نفس رسول (ص)
{فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ}[1]
پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں.
مدینہ میں رسول اکرم (ص) اور نجران کے مسیحیوں کے درمیان مناظرہ ہوا تها۔ کافی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے کہ وہ جھوٹوں پر عذاب نازل کرے۔
پیغمبر اکرم (ص) مباہلہ کے لئے اپنے دونوں نواسے، جو جوانان جنت کے سردار اور آیت میں “ابنائنا” کا مصداق ہیں۔ اور حضرت فاطمہ زہرا (ع) جو تمام عورتوں کی سردار، جن کی رضا میں خدا کی رضا اور جن کے غضب میں خدا کا غضب ہے. اس آیت میں “نسائنا” کا مصداق ہیں۔
حضرت علی (ع) جو رسول خدا (ص) کے بھائی اور “نفس رسول” کا مصداق ہیں۔ جس طرح رسول اللہ (ص) تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہیں، اسی طرح ان کا نفس بھی سب سے افضل ہوگا۔ جس طرح پیغمبر کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کے لئے خلافت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح ان کے بعد بھی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لئے کہ نفس رسول موجود ہے جو افضل مخلوقات ہے۔ پس نفس رسول کے ہوتے ہوئے، کیسے نبی کے بعد خلافت کو غیر کے سپرد کر دیا گیا؟ ان کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی بھی اس مقام پر فائز نہیں تھا۔
اس کے علاوہ یہاں پر ایک اور اہم بات قابل ذکر ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) جب نصاریٰ نجران سے مباہلہ کے لئے گئے، تو صرف حضرت علی، فاطمہ، امام حسن اور امام حسین (ع) کو لے کر گئے تھے، کیونکہ میدان مباہلہ میں ایسوں کو لے جانا تھا جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی جھوٹ بولنا تو دور کی بات، بلکہ اس کا تصور بھی نہ کیا ہو۔
٢- حضرت علی (ع) بلا فصل خلیفہ رسول (ص)
{إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ}[2] آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے.
ابن عباس کا بیان ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، تو رسول خدا (ص) نے اپنا ہاتھ سینہ پر رکھ کر فرمایا: “أَنَا المُنذِرُ وَ لِکُلِّ قَومٍ ھَاد” اور حضرت علی (ع) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “اَنتَ الھَادِی بِکَ یَھْتَدِیْ المُھتَدُوْنَ بَعْدِیْ” اے علی (ع) آپ میرے بعد ہادی ہیں، آپ کے ذریعہ ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے.
اس آیت میں خدا کا یہ کہنا کہ آپ صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے، اس بات کا ثبوت ہے کہ خود ہادی کا انتخاب کرنا بھی اللہ کی ذمہ داری ہے. اور اپنے رسول (ص) کے ذریعہ اس بات کا اعلان بھی کرائے کہ ان کے بعد کون امت کا امام ہوگا۔
لہذا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول خدا (ص) نے حضرت علی (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: اے علی تم اس امت کو ہدایت کرنے والے اور گمراہی سے نجات دینے والے ہو۔
٣- آیت واعیہ میں حضرت علی (ع)
خداوند عالم کا ارشاد ہے: {وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ}[3] اور محفوظ رکھنے والے کان.
حضرت علی (ع) کا بیان ہے کہ رسول خدا(ص) نے آپ سے فرمایا: “سَألٔتُ رَبِّي أَنْ یَجعَلھا اُذُنَکَ یَا عَلِی.. قَال: فَمَا نَسِیْتُ شَیْئاً بَعدُ، وَمَا کَانَ لِيْ أَنْ أَنسیٰ”[4] اے علی میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی ہے کہ وہ”اذن واعیہ” آپ کے کانوں کو قرار دے۔
لہذا حضرت علی (ع) فرما تے ہیں کہ میں نے اس وقت سے آج تک کسی چیز کو فراموش نہیں کیا ہے. جو میری شان کے لئے سزاوار بھی نہیں ہے۔
٤- آیت اہل ذکر کے مصداق حضرت علی (ع)
خداوند عالم کا ارشاد ہے: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}[5] اہل ذکر سے سوال کرو اگر تم کو علم نہیں ہے۔ جابر جعفی نے نقل کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی، حضرت علی (ع) نے فرمایا: “نَحْنُ أھلُ الذِّکرِ“ہم اہل ذکر ہیں۔
٥- حضرت علی (ع) معصوم اولی الامر
خداوند عالم کا فرمان ہے: {إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ}[6] ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں.
جناب ابوذر فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول خدا (ص) کے ساتھ نماز ظہر ادا کر رہا تھا، اسی وقت مسجد میں ایک فقیر نے لوگوں سے سوال کیا۔ لیکن کسی نے بھی اس کو کچھ نہ دیا.
اس نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا: “اللَّھُمَّ اشْھَد سألتُ فِی مَسجِد الِرَّسُولِ فَمَا أعْطَانِی أحْد شئیا” خدایا! تو گواہ رہنا کہ میں نے رسول کی مسجد میں لوگوں کے سامنے دست نیاز پھیلایا مگر کسی نے مجھے کچھ نہ دیا۔ حضرت علی (ع) اس وقت رکوع میں تھے، لہذا آپ نے اسے اشارہ کیا، تو سائل نے آپ کے ہاتھ سے انگوٹھی اتار لی۔
رسول خدا (ص) نے اس منظر کو دیکھ کر فرمایا: “أللَّھُمَّ اِنَّ أخِی مُوسیٰ بنَ عِمْرَان سَألکَ، قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَ يَسِّرْ لِي أَمْرِي وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي وَ اجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي وَ أَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي”[7]
خدایا! میرے بھائی موسیٰ بن عمران نے تجھ سے سوال کرتے ہوئے، عرض کی پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے، میرے کام کو آسان کردے، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دے دے، ہارون کو جو میرا بھائی بھی ہے، اس سے میری پشت کو مضبوط کردے، اسے میرے کام میں شریک بنادے.
فَأنزَلْتَ عَلَیْہِ قُراناً ناطقاً {قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِآَيَاتِنَا أَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ}[8] اللَّھم، اِنِّي مُحَمّد نبِیُّکَ وَ صَفِیُّک، اللّھُمَّ فَاشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَیَسِّرْ لِيْ أمْرِيْ وَاجعل لِيْ وَزِیْرَاً مِنْ أهلِيْ، عَلِیاً أشدُدْ بِہ ظَھْرِيْ.
لہذا تو نے ان پر وحی نازل کی کہ ہم تمہارے بازؤں کو تمہارے بھائی سے مضبوط کر دیں گے اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قرار دیں گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں اور ہماری نشانیوں کے سہارے تم اور تمہارے پیروکار ہی غالب رہیں گے۔
“اللّٰھُمَّ وَاِنِّي مُحَمَدٌّ نَبِیُّکَ وَصَفِیُّکَ، اللّٰھُمَّ فَاشْرَحْ لِي صَدْرِي، وَیَسِّرْ لِي اَمْرِي، وَاجْعَلْ لِي وَزِیْراً مِن اَھْلِي عَلِیّاً أشدُد بِہ ظَھْرِيْ” بارالہا میں محمد تیرا نبی اور منتخب ہوں، پروردگارا میرے سینہ کو کشادہ فرما، میرے کام کو آسان کر دے، میرے اہل سے میرے بھائی حضرت علی (ع) کو میرا وزیر قرار دے دے اور اس کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط فرما۔
ابوذر کہتے ہیں کہ ابھی پیغمبر (ص) کی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی[9]: {إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ}[10] ایمان والوں! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں. اس آیت میں ولایت، الله، رسول اور حضرت علی (ع) کی ذات سے مخصوص کر دیا ہے۔
شاید آپ سوال کریں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سے مراد صرف حضرت علی (ع) ہیں، جبکہ آیت میں “الذِّیْنَ” جمع کا لفظ ہے. اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ کی عظمت و جلالت کی بنا پر جمع کا لفظ ذکر کیا ہے. جس طرح خود خداوند عالم ایک ہے مگر اس نے قرآن میں اپنے کو “نَحنُ” اور “اِنّا” یعنی “ہم” سے تعبیر کیا ہے۔
آیت میں ایک خاص علمی نکتہ یہ ہے کہ یہ جملہ اسمیہ حرف (اِنَّمَا) کے ساتھ استعمال ہوا ہے، جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ اللہ نے تمام مسلمانوں کو صرف حضرت علی (ع) کی ولایت اور امامت کی تاکید فرمائی ہے۔
6- حضرت علی (ع) سب سے پہلے رسول (ص) کی تصدیق کرنے والے
قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: {وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ، أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ}[11] اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں وہی اللہ کے مقرب ہیں. تمام مفسرین کے نزدیک امت مسلمہ میں “سابقین” سے مراد حضرت علی (ع) ہیں۔[12]
7- شب ہجرت رضائے الٰہی کے خریدار، حضرت علی (ع)
خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ}[13] اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔
شب ہجرت جب کافروں نے رسول خدا (ص) کے قتل کا منصوبہ بنایا، تو آپ نے خدا کے حکم سے حضرت علی (ع) کو اپنے بستر پر سلایا اور آپ مکہ سے ہجرت کر گئے۔
تاریخ اسلام میں صرف حضرت علی (ع) سب سے پہلے وہ شخص ہیں، جو رسول اسلام (ص) پر اپنی جان فدا کرنے کے لئے تلواروں کے سایہ میں سکون سے سوئے، تو آپ کی شان میں اللہ نے یہ آیت نازل کی۔[14]
8- حضرت علی (ع) سے محبت واجب
اہلبیت (ع) کی شان میں نازل ہونے والی آیات میں سے یہ آیت مودت بھی ہے: {قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ}[15] آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدرداں ہے.
تمام مفسرین نے “قربیٰ” جن کی محبت کو اللہ نے مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے، حضرت علی، امام حسن، امام حسین اور حضرت فاطمہ زہرا (ع) بیان کیا ہے۔ اور “اقتراف حسنہ” سے مراد ان کی مودت اور محبت ہے۔
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں: ایک روز ایک اعرابی نے رسول خدا (ص) کی خدمت میں عرض کیا: “یا رسول اللہ اِعْرض علَیَّ الاِسْلَام” مجھے اسلام سے شرفیاب فرما دیجئے۔
آپ نے فرمایا: “تَشْھد أَنْ لا إلَہ إلا اللَّہُ وَحْدَہُ لا شَرِیْکَ لَہ وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَ رَسُولُہُ” گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے. اور بیشک محمد (ص) اس کے بنده اور رسو ل ہیں۔
اس نے کہا: تسَأَلَنِي عَلَیْہ أَجرَاً؟ کیا آپ اس کا کچھ اجر چاہیں گے؟
آپ نے فرمایا: اقربا سے محبت۔
اس نے کہا: “قرُبای أَمْ قرُبَاک” اپنے رشتہ داروں سے یا آپ کے؟
آپ نے فرمایا: “بَلْ قُرْبَایَ” میرے اقرباء سے۔
اس نے فورا کہا: “هَاتِ أُبَایعُک،َ فَعَلیٰ مَنْ لا یُحِبُّکَ وَلا یُحِبُّ قَرَابتَکَ لعنَةُ اللَّہ” اپنا ہاتھ بڑھائیے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں، جو آپ سے اور آپ کے اقربا سے محبت نہ کرے، اس پر خدا کی لعنت ہو۔ پیغمبر اسلام نے اس پر آمین کہا۔[16]
شافعی نے آل محمد (ص) کی مدح میں کہاہے:
“يا آلَ بَيتِ رَسولِ اللَهِ حُبَّكُمُ فَرضٌ مِنَ اللَهِ في القُرآنِ أَنزَلَهُ”[17]
اے اہلبیت رسول، اللہ نے آپ کی محبت کو قرآن میں واجب قرار دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت علی (ع) اور آپ کے اہلبیت (ع) سے محبت کرنا، اس اجر رسالت کو ادا کرنا ہے، جو پیغمبر نے امت کو شرک و کفر کی ظلمتوں سے نکالنے میں زحمتیں برداشت کی تھیں۔
9- حضرت علی (ع) کا معصوم ہونا
اللہ کا ارشاد ہے: “إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا“[18] بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت (ع) کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے.
یہ آیت حضرت علی، امام حسن، امام حسین، اور حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ام سلمیٰ کا بیان ہے کہ جس وقت حضرت علی، حضرت فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین (ع) میرے گھر میں تھے، پیغمبر (ص) نے اپنی چادر ان کو اوڈھائی اور فرمایا: اللَّهُمَ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيرا[19] پروردگارا! یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں ان سے رجس کو دور رکھ، اور ان کو پاک رکھ جس طرح پاک رکھنے کا حق ہے ۔
یہ فقرہ کئی مرتبہ زبان رسالت پر جاری ہوا، جس کی وجہ سے جناب ام سلمیٰ بھی پوچھ بیٹھیں: کیا میں بھی آپ کے ساتھ ہوں؟ یہ کہہ کر چادر کا گوشہ پکڑ کر اٹھایا، لیکن رسول خدا (ع) نے فوراً چادر کھینچ لی اور فرمایا: “إِنَّكِ إِلَى خَيْر”[20] تم خیر پر ہو لیکن اہلبیت (ع) میں شامل نہیں ہو۔
ابن عباس کہتے ہیں: آیت تطہیر کے نازل ہونے کے بعد میں نے رسول خدا (ص) کو مسلسل سات مہینہ تک ہر روز نماز پنجگانہ کے وقت، حضرت علی (ع) کے دروازے پر یہ فرماتے سنا ہے: “اے اہل بیت تم پر سلا م اور اللہ کی رحمت و بر کت ہو، بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت (ع) کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے. نماز کا وقت ہے خدا تم پر اپنی رحمت نازل کرے[1]۔ یہ آیت اہلبیت (ع) کی عصمت پر دلالت کرتی ہے”[21]
اس آیت میں چند باتیں غور طلب ہیں:
١۔ آیت کے شروع میں لفظ “اِنّما” آیا ہے، جو کسی چیز کی حد کو ہر طرف سے محدود کر دیتا ہے یعنی اہلبیت (ع) ان افراد کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔
٢۔ اس کی خبر میں لام ہے (لِیُذْھِبَ عَنْکُم) ۔
٣۔ لفظ طہارت دوبار آیا ہے: یُطَھِّرَ، تَطْھِیراً.
پس اہلبیت رسول(ص) وہ افراد ہیں جن سے ہر طرح کا رجس و گناہ دور ہے۔ اسی کو شیعہ عصمت کہتے ہیں۔
یہ آیات حضرت علی (ع) کے مہم فضائل اور آپ کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ آپ کا اور آپ کے اہلبیت (ع) کا معصوم ہونا ہے۔ لہذا آپ تمام حضرات ایمان، کردار اور سیرت کے اعتبار سے تمام مسلمانوں سے برتر ہیں۔ اہلبیت (ع) کا صاحب فضائل و کمالات ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں ہے ۔
نتیجہ
ذکر کی گئی آیات ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جس شخص کو رسول خدا (ص) نے حکم خدا کے مطابق ہر قدم پر اپنے ساتھ رکھا ہو اور ہر موقع پر بار بار اس کے فضائل و مناقب بیان کئے ہوں، وہی منصب خلافت کی لیاقت رکھتا ہے۔ ان تمام آیات میں حضرت علی (ع) کا وجود ہر صاحب بصیرت اور بصارت پر سورج کی طرح روشن ہے۔
حوالہ جات
[1] . آل عمران: 61.
[2] . رعد: 7.
[3] . حاقه: 12.
[4] . طبری، تفسیر طبری، ج۲۹، ص۳۵؛ فخر رازی، تفسیر رازی، ج۳۰، ص۱۷۰؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ج۱۸، ص۲۶۴؛ آلوسی، تفسیر آلوسی، ج ۲۹، ص۴۳؛ نصیبی، مطالب السوؤل، ص١٢٠؛ مجلسی، بحار الانوار، ج ۳۵، ص۳۲۸۔
[5] . نحل: 43.
[6] . مائده: 55.
[7] طه: 25-32.
[8] . قصص: 35.
[9] . فخر رازی، تفسیر رازی، ج۱۲، ص۲۶؛ طبری، تفسیر طبری، ج۶، ص۱۸۶؛ ثعلبی، تفسیر ثعلبی، ص٨١٤۔
[10] . مائده: 55.
[11] . واقعه: 10-11.
[12] . مظفر، دلائل الصدق، ج٢، ص١٠٢۔
[13] . بقره: 207.
[14] . حاکم نیشاپوری، مستدرک الحاکم، ج٣، ص٤۔
[15] . شوری: 23.
[16] . هيثمي، مجمع الزوائد، ج۷، ص١٠٣؛ طبری، ذخائر العقبیٰ، ص٢٥؛ اصفهانى، حلیة الاولیاء، ج۳، ص١٠٢۔
[17] . شبلنجی، نور الابصار، ص۱۰۴؛ علوی، نصائح الکافیہ، ص ٢٢٤؛ دمياطى، اعانة الطالبین، ج۱، ص٢٠٠؛ الصالحى، سبل الہدی والرشاد، ج١١، ص۱۱۔
[18] . احزاب: 33.
[19] . امینی، الغدیر، ج۲، ص٣١٠؛ شرف الدين، النص والاجتہاد، ص٨١۔٨٢؛ قمى، الکنی والالقاب، ج ۳، ص١٦٦۔
[20] . حاکم نیشاپوری، مستدرک الحاکم، ج۲، ص۴۱۶؛ ابن الأثير، اسد الغابۃ، ج۵، ص۵۲۱؛ المتقي الهندي، کنز العمال، ج۱۳، ص٦٤٥؛ الثعلبی، تفسیر ثعلبی، ج۸، ص٣١١؛ الطبری، ذخائر العقبی، ص٢١؛ حسكاني، شواہد التنزیل، ج۲، ص۶۱۔
[21] . سيوطى، الدرّ المنثور، ج۵، ص۱۹۹؛ حسكاني، شواہد التنزیل، ج۲، ص۴۶؛ القرطبی، تفسیر القرطبی، ج۱۱، ص۲۶۳۔
منابع
- قرآن کریم
- ابن اثير، علي، أسد الغابة في معرفة الصحابة، قاهرة، 1280 ه/ 1863م.
- اربلى، على، كشف الغمة في معرفة الأئمة، تبريز، بنى هاشم، 1381 ق.
- اصفهانی، احمد، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، قاهرة، دار ام القراء، بغیر تاریخ.
- امینی، عبدالحسین، الغدير في الكتاب و السنة و الأدب، قم، مرکز الغدير للدراسات الإسلامية، ۱۴۱۶ ق.
- آقا جمال خوانسارى، محمد، شرح بر غرر الحكم و درر الكلم، تهران، دانشگاه تهران، 1366 ش.
- آلوسى، محمود روح المعاني في تفسير القرآن العظيم و السبع المثاني بيروت دار الكتب العلمية، منشورات محمد علي بيضون 1415 ق.
- آلوسى، محمود، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم و السبع المثاني، بيروت، دار الكتب العلمية، بغیر تاریخ.
- ثعلبى، احمد، الكشف و البيان بيروت، دار إحياء التراث العربي، 1422 ق.
- حسكاني، عبيد الله شواهد التنزيل لقواعد التفضيل تهران، مجمع إحياء الثقافة الإسلامية 1411 ق.
- دمياطى، محمد شطا، اعانة الطالبين على حَلّ الفاظ فتح المعين، بيروت، دار احياء التراث العربى، 1412، ق.
- رشيد رضا، محمد تفسير القرآن الحكيم، بيروت، دار المعرفة، 1414 ق.
- سيوطى، عبدالرحمن، الدر المنثور فى التفسير بالماثور قم كتابخانه عمومى حضرت آيت الله العظمى مرعشى نجفى 1404 ق.
- شرف الدين، عبد الحسين، النص والاجتهاد، قم، سيد الشهداء عليه السلام 1404 ه.
- صالحى، محمد، سبل الهدى والرشاد، بيروت، دارالكتب العلمية، 1414 ق.
- طبری، احمد، ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربی، قم، دار الکتاب الإسلامي، ۱۳۸۶ ه.ش.
- طبرى، محمد، جامع البيان فى تفسير القرآن، بيروت، دار المعرفة، 1412 ق.
- فخر رازى، محمد، التفسير الكبير، بيروت، دار احياء التراث العربى، 1420 ق.
- فيروزآبادى، محمد، صائر ذوى التمييز فى لطائف الكتاب العزيز، قاهره، المجلس الاعلى للشئون الاسلامية، 1416، ق.
- قرطبى، محمد، الجامع لأحكام القرآن، تهران، ناصر خسرو، 1364 ش.
- قمى، عبّاس، الكنى و الالقاب، صيدا، مطبعة العرفان، 1353ش.
- متقي هندي، علي، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، بيروت، مؤسسة الرسالة، 1989م.
- مظفر، محمد حسن، دلائل الصدق لنهج الحق، قم، مؤسسة آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۲۲، ق.
- مفيد، محمد، إيمان أبي طالب، قم، المؤتمر العالمي للشيخ المفيد، 1413، ق.
- نصیبی، محمد، مطالب السؤول، لبنان، مؤسسة البلاغ، ۱۴۱۹ ق.
- هیثمی، علی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، بيروت، دار الفكر، 1412، ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ۱۴۴۲ھ۔ ق،۲۰۲۱م۔