تاریخ | تفصیل | مآخذ |
یکم شوال | عید فطر
شوال کا پہلا دن عید الفطر ہے۔ جو کہ عظیم اسلامی تہواروں میں سے ایک ہے، رمضان المبارک کی 29 تاریخ کو چاند نظر آنا، یا رمضان المبارک کے آغاز سے 30 دن گزرنے کےبعد ماہ شوال شروع ہوجاتا ہے جو “عید الفطر” کا دن ہوتا ہے۔ اس دن روزہ رکھنا حرام ہے اور فطرانہ ادا کرنا فرض ہے۔ |
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
تاریخ | تفصیل | مآخذ |
5 شوال | سنہ 36 ہجری
امام علی(ع) کی صفین کی طرف نقل و حرکت امیرالمومنین علی (ع) جب ظاہری خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوں نے الہی نظام قائم کرنے اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے جدوجہد شروع کی، آپ کا پہلا اقدام یہ کیا کہ حکومتی عہدوں پر براجمان نااہل لوگوں کو ہٹا کر متقی اور پرھیزگار لوگوں کو ان مناصب اور عہدوں پر منصوب فرمایا۔ حضرت عثمان بن عفان کے مقرر کردہ تمام حکمران امیرالمومنین(ع) کے اقدامات کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے اور امام نے ان کی جگہ صالح، ماہر اور رحمدل شخصیات کو مقرر فرمایا۔ بہرحال حاکمِ شام نے امیرالمؤمنین (ع) کی اطاعت سے انکار کیا اور تخریب کاری، فساد اور فتنہ پروری کی کوشش کی۔ . معاویہ بن ابی سفیان، جو عمر بن الخطاب اور عثمان بن عفان کی خلافت سے مملکتِ شام میں اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کر چکا تھا، لہذا امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف بغاوت کرڈالی۔ اس نے قتل عثمان کو بہانا بنا کر لوگوں کو امام علی (ع) کے خلاف اکسایا، ان دونوں کے درمیان خط و کتابت کا تبادلہ ہوتا رہا تاھم معاویہ بن عثمان اپنے موقف پر ڈٹا رہا اور فوج تیار کرکے عراق پر حملہ کرنے کی سازش تیار کی، جواب میں امیر المؤمنین علی (ع) نے بھی 36 ہجری کو کوفہ سے ساتھیوں اور لشکر سمیت شام کی سرحدوں کی طرف روانہ ہوئے، صفین کے مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان خونین جنگ لڑی گئی جسے جنگ صفین کہا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 60 ہجری قمری حضرت مسلم بن عقیل کا کوفہ پہنچنا اہل کوفہ نے حضرت امام حسین (ع) کو متعدد خطوط لکھے اور انہیں کوفہ انے کی دعوت دی تو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ کی طرف روانہ کیا ، حضرت مسلم بن عقیل مدینہ آئے، روضہ رسول اور قبور ائمہ (ع) پر حاضری دی اور مدینہ منورہ کو الوداع کہہ کر کوفہ کی جانب رخ کرنے لگے اور 5 شوال کو کوفہ پہنچے۔ |
وقائع الایام: صفحہ103، فیض العلام: صفحہ 69، شرائع الاسلام، جلد1، صفحہ ، صفحہ239 |
تاریخ | تفصیل | مآخذ |
6شوال | سنہ 8 ہجری
جنگ حنین رمضان المبارک 8ہجری کو فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ (ص) نے مشرکین مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تو اس اقدام سے طائف کے مشرکین لرزا بہ اندام اور خائف ہو گئے ، لہذا مشرکینِ طائف ، بالاخص قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے یہاں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور اخرکار بھاری لشکر لے کر رات کی تاریکی میں مکہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ رسول اللہ (ص) کو واقعہ کا علم ہوا تو اسلامی لشکر کو آمادہ و تیار رہنے اور طائف کی طرف روانہ کا حکم دیا، طائف کے کفار اور مشرکین پہلے ہی سے طائف میں مورچہ زن تھے، چنانچہ جوں ہی اسلامی لشکر ’’حنین‘‘ میں داخل ہوا تو دونوں طرف سے کفار اور مشرکین کا لشکر حملہ آور ہوا، جس سے ابتداء میں اسلامی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، اسلامی لشکر کے سپاہی رسول اللہ (ص) کو چھوڑ کو چوٹیوں کے اوپر پناہ لینے لگے، رسول اللہ (ص) نے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ مسلمانوں کو اپنے عہد و پیمان کی یاد دہانئ کرا دو، لہذا اسلامی لشکر رسول اللہ (ص) کے پاس جمع ہونے لگا، اس بار اسلامی لشکر نے کاری ضرب لگائی، کفار اور مشرکین کا لشکر واپس طائف کی جانب بھاگنے لگا، اسلامی لشکر انکی تعقیب کرتے ہوئے طائف میں داخل ہوئے،اس جنگ میں امیرالمؤمنین امام علی (ع) نے اکیلے چالیس کفار کو واصلِ جہنم کیا۔ اس بات پر تمام مؤرخین متفق ہیں کہ جنگ حنین 8 ہجری، شوال کے مہنے میں واقع ہوئی تھی، البتہ اس کے تاریخ میں اختلاف ہے، معروف و مشہور مؤرخ وافدی نے اپنے شہرہ آفاق کتاب ’’المغازی‘‘ میں لکھا ہے کہ اسلامی لشکر6 شوال کو مکہ معظمہ سے روانہ ہوئی تھی اور 10 شوال کو جنگ واقع ہوئی تھی، دوسرے مؤرخ نے جنگ کی تاریخ یکم شوال ذکر کی ہے۔ |
المغازی (وافدی) جلد3، ص889، الارشاد (شیخ مفید) صفحہ125،فرازھای از تاریخ پیامبر اکرم (جعفر سبحانی( صفحہ456، الطبقات الکبری، جلد2، صفحہ 137 |
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
تاریخ | تفصیل | مآخذ |
8شوال | 1344 ہجری
ائمہ اطہار (ع) کی روضہ جات کی مسماری کا دن اس دن وہابیوں اور سلفیوں نے مدینہ منورہ جنت البقیع میں ائمہ اطہار کی روضہ جات اور حضرت حمزہ کی قبر مطہر کو مسمار کیا گیا۔ ائمہ طاہرین(ع) کے علاوہ جن ہستیوں کے روضوں کو مسمار کیا گیا، ان میں حضرت فاطمہ زہرا (س) سے منسوب قبر مطہر، جناب فاطمہ بنت اسد، جناب ام البنین، رسول اللہ کے فرزند ارجمند ابراہیم، امام صادق (ع) کے فرزند اسماعیل، رسول اللہ کی بیٹیوں اور جلیل القدر صحابہ کرام و شہداء کے روضہ جات شامل ہیں۔ |
مستدرك سفينة البحار: جلد6، صفحہ65 – 66/ وقایع الایام، صفحہ 104 |
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
تاریخ | تفصیل | مآخذ |
15 شوال | 3 ہجری
جنگ احد جنگ احد، جنگ بدر کے ایک سال بعد واقع ہوئی، درحقیقت جنگ احد سے مشرکین مکہ کا مقصد جنگ بدر میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنا تھا۔ یہ جنگ احد کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہوئی، شروع میں مسلمانوں بہت زیادہ کامیابیاں ملی تھیں تاھم جب بعض مسلمان گھاٹی پر پہرہ چھوڑ کر مال غنیمت اکھٹا کرنے میں مشغول ہوئے تو مشرکین مکہ نے جوابی حملہ کرکے مسلمانوں کو کافی زیادہ نقصان پہنچایا، اس جنگ میں جناب حمزہ سمیت 69 صحابہ کرام شہید ہوئے۔
252 ہجری حضرت عبدالعظیم حسنی کا یوم وفات حضرت عبدالعظیم حسنی فرزند عبد الله بن على بن حسن بن زید بن حسن بن على بن ابى طالب(ع) 252 یا 255 ہجری کو وفات ہوئے تھے۔ آپ کا شمار بزرگ محدثین اور ثقات میں سے تھاجو تقوی، زہد اور پاکدامنی میں اپنی مثال آپ تھے، آپ امام جواد (ع) اور امام ہادی (ع) سے آحادیث نقل کیا کرتے تھے، کتاب ’’خطب امیرالمؤمنین ‘‘اور کتاب’’ الیوم واللیلہ‘‘ آپ کی مشہور تصانیف ہیں، امام ہادی (ع) کی جانب سے آپکی وثاقت اور فقاھت کے بارے میں متعدد تائیدات نقل ہیں، بنی عباس کے مظالم کے خوف سے آپ ایک ناشناس طور پر ری تشریف لے آئے اور ایک شیعہ و محب اہل بیت (ع) کے گھر زندگی بسر کرنے لگے تاھم رحلت کے بعد جب انہیں غسل دینے لگے تو ان کے ہمراہ ایک نوشتہ ملا جس پر آپکا شجرہ نامہ درج تھا۔ |
طبری، تاریخ، جلد2، صفحہ534/ وقایع الایام ، صفحہ , 107مسار الشیعه: صفحہ 15 بحار الانوار: جلد20، صفحہ18
مستدرک سفینه البحار: جلد 6 صفحہ 66/ وقایع الشهور: ص201 / مراقد المعارف: جلد2 صفحہ52 / مستدرکات علم رجال الحدیث: جلد2، صفحہ 424 |
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
تاریخ | تفصیل | مآخذ |
17 شوال | 5 ہجری قمری
جنگ خندق (جنگ احزاب) اس دن جنگ خندق (احزاب) واقع ہوئی تھی اور عمر بن عبدود امیرالمؤمنین کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے ، اس جنگ میں 3000مسلمانوں نے حصہ لیا تھا جن میں سے 6 درجہ شہادت پر فائز ہوئے تھے جبکہ کفار کی تعداد 10000 تھی تاھم انکے مقتولین کی تعداد تاریخ کی کتابوں میں درج نہیں ہے. عبدالرحمن بن عوف نے کہا: ’’اگر عمر بن عبدود ہمارے اوپر حملہ آور ہو جائے تو وہ سب کو قتل کرے گا، لہذا بہترین راہ حل یہ ہے کہ حضرت محمد (ص) کو دست بستہ انکی تحویل میں دیدیں‘‘ اس موقع پر رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ’’ کوئی ہے جو اس دشمن کا کام تمام کرے؟’’ امیرالمؤمنین نے اٹھ کر فرمایا: اجازت ہو تو میں اس کا سر قلم کروں؟ رسول اللہ (ص) نے تین مرتبہ حاضرین پر اتمام حجت کیا اور تینوں مرتبہ صرف امیرالمؤمنین نے جنگ کی آمادگی ظاہر کرلی، اخرکار اسے جنگ کی اجازت مل گئی، ابھی امیرالمؤمنین عمر بن عبدود کے مقابلے میں نکلے ہی تھے کہ رسول اللہ (ص) کی زبان مبارک سے بے ساختہ یہ کلمات جاری ہوئے ’’ برز الایمان کلہ الی الشرک کلہ’’ پورا ایمان پورے شرک کے مقابلے میں نکلا ہے۔ حیدر کرار نے میدان کارزار میں قدم رکھے، عمربن عبدود کو اسلام کی دعوت دی لیکن عمر بن عبدود نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، عمر بن عبدود نے امیر المؤمنین پر وار کیا جسے آپ نے روکا اور ایسا جوابی وار کیا کہ تکبیر کی صدائیں آسمان میں بلند ہوئیں، عمر بن عبدود واصل جہنم ہوا۔ مسلمانوں کو فتح ملی اور کفر و شرک سرنگون ہوا، اس موقع پر رسول اللہ (ص) نے ایک جملہ فرمایا ’’ امیرالمؤمنین کی ایک ضربت مسلمانوں کو قیامت تک کے اعمال سے افضل ہے‘‘ |
1-فيض العلام: صفحہ76 / قلائد النحور: ج شوال، صفحہ107/ وقایع الایام ، صفحہ111 2-كشف الغمة: جلد1 صفحہ150 / بحار الانوار: جلد20، 176 |
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
تاریخ | تفصیل | مآخذ |
20 شوال | 179 ہجری قمری
امام موسی کاظم (ع) کی اسیری کا دن اس دن عباسی خلیفہ ھارون الرشید زیارت کے بہانے مسجد النبی (ص) آیا اور امام موسی بن جعفر(ع) کو اپنے ساتھ حج لے گئے، درحقیقت اس کا مقصد امام (ع) کو لوگوں سے دور کرکے زندان میں ڈالنا تھا، لہذا فریضہ حج انجام دینے کے فوری بعد امام (ع) کو بصرہ کی زندان میں پابندِ سلاسل کر دیا۔ |
کافی: جلد2 صفحہ 507/ بحارالانوار: جلد48 صفحہ206 |
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
تاریخ | تفصیل | مآخذ |
25 شوال | 148ہجری،
امام صادق (ع) کا یوم شہادت اس دن امام صادق(ع) 25 شوال، 148 ہجری کو عباسی خلیفہ منصور دوانقی کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے، امام صادق (ع) کے یوم شہادت کے حوالے سے یہ قول مشہور ہے[1] البتہ دیگر اقوال کے مطابق امام صادق(ع) کا یوم شہادت 15 رجب یا 15 شوال بھی ذکر ہوا ہے۔[2] آپ کی شہادت زہرآلود آنگور کے ذریعہ ہوئی تھی۔[3] شہادت کے وقت آپکی عمر مبارک 65 سال اور آپکی مدت امامت 34سال تھی، اس دوران 5 اموی خلیفہ (هشام بن عبدالملک ، ولید بن یزید بن عبدالملک ، یزید بن ولید ، ابراهیم بن ولید و مروان حمار) اور دو عباسی خلیفہ (سفاح اور منصور دوانیقی) گزرے تھے۔ آپکی اولاد میں حضرت موسی بن جعفر (علیه السلام) ، اسماعیل ، عبدالله ، محمد دیباج ، اسحاق ، علی عریضی ( علی بن جعفر مدفون قم ) عباس اور دو بیٹیاں اسماء فاطمہ اور ام فروہ ہیں۔ |
[1]۔ قلائد النحور: شوال ، صفحہ139 / اعلام الوری: جلد1 ص 514 / جنات الخلود: صفحہ27 / مستدرک سفینة البحار: جلد6، صفحہ66 ، کافی : جلد2 صفحہ377 / ارشاد : جلد2 صفحہ 180
[2] ۔ شرح احقاق الحق :جلد28 ، صفحہ507 [3] ۔ مناقب ابن شهر آشوب: جلد4، صفحہ280 |
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اس دن کے لئے کوئی مناسبت ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
برای این بخش اعمالی ثبت نشده است
مناسبت | اعمال کی تفصیل | مآخذ |
مہینے کی پہلی رات (عید الفطر کی رات) | یکم شوال کی رات با برکت راتوں میں سے ہے، اس کی فضیلت، بیداری، عبادت اور ثواب سے متعلق بہت سی احادیث وارد ہوئیں ہیں، حضرت رسول(ص) سے مروی ہے کہ یہ رات مرتبے میں شب قدر سے کچھ کم نہیں اور اس میں چند ایک اعمال ہیں(۱)
پہلا: غروب آفتاب کے وقت غسل کرے.(2) ……………………………………………. دوسرا: شب بیداری یعنی نماز، دعا، استغفار اور خدا سے طلب حاجات کرتے ہوئے مسجد میں جاگ کر رات گزارے۔، جیسا کہ امام علی ابن الحسین علیہ السلام نے کیا کرتے تھے۔(3) ……………………………………………. تیسرا: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: نماز مغرب، عشاء، فجر اور نماز عید کے بعد یہ تکبیریں پڑھے: اَللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ، لا اِلـهَ اِلاَّ اللهُ، وَ اللهُ اَکْبَرُ، اَللهُ اَکْبَرُ، و وَلِلَّهِ الْحَمْدُ، اَللهُ اَکْبَـرُ عَلى ما هَـدانـا، وَ لَهُ الشُّکْرُ عَلى ما أَوْلانا.(4) ……………………………………………. چوتھا: امام صادق علیہ السلام کی روایت کے مطابق نماز مغرب کے فرائض و نافلہ کے بعد ہاتھوں کو بلند کر کے کہے: یا ذَا الْمَنِّ وَالطَّوْلِ، یا ذَا الْجُودِ، یا مُصْطَفِىَ مُحَمَّد وَناصِرَهُ، صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد، وَاغْفِرْ لى کُلَّ ذَنْب اس کے بعد سجدے میں جاکر سو مرتبہ کہے: اَتُوْبُ اِلَی ﷲ پس اب خدا سے جو حاجت بھی طلب کرے انشاء ﷲ پوری ہوگی۔(5) ……………………………………………. پانچواں: امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھے ۔ کہ اس کی فضیلت بہت زیادہ ہے اور آج [عید الفطر] کی رات امام حسین- کی مخصوص زیارت باب زیارت میں آئے گی۔ ………………………………………….. چھٹا: دس رکعت نماز پڑھے دس رکعت نماز (پنج نماز دو رکعتی)، که در هر رکعت سوره «حمد» را یک بار، و «قل هو اللّه احد» را ده بار، و در هر یک از رکوع و سجود ده مرتبه بگوید: سُبْحَانَ اللَّهِ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَ اللَّهُ أَکْبَرُ و هنگامی که از ده رکعت فراغت یافت هزار مرتبه استغفار کند و پس از استغفار سر به سجده گذارد و در حال سجده بگوید: یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ یَا ذَا الْجَلالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا رَحْمَانَ الدُّنْیَا وَ الْآخِرَةِ وَ رَحِیمَهُمَا یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ یَا إِلَهَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَ تَقَبَّلْ صَوْمِی وَ صَلاتِی وَ قِیَامِی رمضان کے اخری شب میں ہے
……………………………………………. ساتویں: شب جمعہ کے اعمال میں مذکورہ دعا یا دائم الفضل دس مرتبہ پڑھے: یا دائِمَ الْفَضْلِ عَلَى الْبَرِیَّةِ، یا باسِطَ الْیَدَیْنِ بِالْعَطِیَّةِ، یا صاحِبَ الْمَواهِبِ السَّنیَّةِ، صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ آلِهِ خَیْرِ الْوَرى سَجِیَّةً، وَ اغْفِرْ لَنا یا ذَالْعُلى فی هذِهِ الْعَشِیَّةِ.(6) ……………………………………………. آٹھواں: دو رکعت نماز معروف بہ نماز عید ادا کرے; جس کی پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک ہزار مرتبہ سورہ توحید پڑھے، اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد ایک مرتبہ سورہ توحید پڑھے نماز کا سلام دینے کے بعد سر سجدے میں رکھے اور سو مرتبہ کہے : أَتُوبُ إلَی ﷲ پھر کہے : یا ذَا الْمَنِّ وَالْجُودِ، یا ذَا الْمَنِّ وَالطَّوْلِ، یا مُصْطَفِىَ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ، صَلِّ عَلى مُحَمَّد وَ آلِهِ، وَ افْعَلْ بى کَذا وَ کَذا وَافْعَلْ بِی کَذا کی بجائے اپنی حاجت طلب کرے۔. روایت ہے کہ امیر المؤمنین -یہ نماز اسی طریقے سے بجالاتے تھے اور جب سر سجدے سے اٹھاتے تو فرماتے کہ اس خدا کے حق کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو بھی شخص یہ نماز پڑھ کر خدا سے اپنی کوئی حاجت طلب کرے گا تو وہ یقینا پوری ہوگی اور اسکے گناہ اگر ریت کے ذرات کے برابر بھی ہوں تو معاف کر دیئے جائیں گے۔ (7)
ایک اور روایت میں اس نماز کی پہلی رکعت میں ایک ہزار کی بجائے ایک سو مرتبہ سورہ توحید پڑھنے کا ذکر آیا ہے لیکن اس صورت میں اس نماز کو نافلہ مغرب کے بعد بجا لانا ہوگا۔. (8) (دونوں نمازیں اچھی ہیں) مرحوم شیخ و سید نے اس نماز کے بعد پڑھنے کے لیے یہ دعا نقل کی ہے: یا اَللهُ یا اَللهُ یا اَللهُ، یا رَحْمنُ یا اَللهُ، یا رَحیمُ یا اَللهُ، یا مَلِکُ یا اَللهُ، یا قُدُّوسُ یا اَللهُ، یا سَلامُ یا اَللهُ، یا مُؤْمِنُ یا اَللهُ، یا مُهَیْمِنُ یا اَللهُ، یا عَزیزُ یا اَللهُ، یا جَبّارُ یا اَللهُ، یا مُتَکَبِّرُ یا اَللهُ، یا خالِقُ یا اَللهُ، یا بارِئُ یا اَللهُ، یا مُصَوِّرُ یا اَللهُ، یا عالِمُ یا اَللهُ، یا عَظیمُ یا اَللهُ، یا عَلیمُ یا اَللهُ، یا کَریمُ یا اَللهُ،یا حَلیمُ یا اَللهُ، یا حَکیمُ یا اَللهُ، یا سَمیعُ یا اَللهُ، یا بَصیرُ یا اَللهُ، یا قَریبُ یااَللهُ، یا مُجیبُ یا اَللهُ، یا جَوادُ یا اَللهُ، یا ماجِدُ یا اَللهُ، یا مَلِىُّ یا اَللهُ، یاوَفِىُّ یا اَللهُ،یا مَوْلى یا اَللهُ،یا قاضى یا اَللهُ، یا سَریعُ یا اَللهُ، یا شَدیدُ یا اَللهُ،یا رَؤُوفُ یا اَللهُ، یا رَقیبُ یا اَللهُ،یا مَجیدُ یا اَللهُ،یا حَفیظُ یا اَللهُ، یا مُحیطُ یا اَللهُ، یا سَیِّدَ السّادَةِ یا اَللهُ، یا اَوَّلُ یا اَللهُ،یا اخِرُ یا اَللهُ،یا ظاهِرُ یا اَللهُ،یا باطِنُ یا اَللهُ،یا فاخِرُ یا اَللهُ، یا قاهِرُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ،یا رَبّاهُ یا اَللهُ،یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا وَدُودُ یا اَللهُ، یا نُورُ یا اَللهُ، یا رافِعُ یا اَللهُ، یا مانِعُ یااَللهُ، یادافِعُ یا اَللهُ، یا فاتِحُ یااَللهُ، یا نَفّاعُ یا اَللهُ، یا جَلیلُ یا اَللهُ، یا جَمیلُ یا اَللهُ،یا شَهیدُ یا اَللهُ، یا شاهِدُ یا اَللهُ، یا مُغیثُ یا اَللهُ، یا حَبیبُ یا اَللهُ، یا فاطِرُ یااَللهُ، یا مُطَهِّرُ یا اَللهُ، یا مَلِکُ یا اَللهُ، یا مُقْتَدِرُ یا اَللهُ، یا قابِضُ یا اَللهُ، یا باسِطُ یا اَللهُ، یا مُحْیى یا اَللهُ، یا مُمیتُ یا اَللهُ، یا باعِثُ یا اَللهُ، یا وارِثُ یا اَللهُ، یا مُعْطى یا اَللهُ، یا مُفْضِلُ یا اَللهُ، یا مُنْعِمُ یا اَللهُ، یا حَقُّ یا اَللهُ، یا مُبینُ یا اَللهُ، یا طَیِّبُ یا اَللهُ، یا مُحْسِنُ یا اَللهُ، یا مُجْمِلُ یا اَللهُ،یا مُبْدِئُ یا اَللهُ،یا مُعیدُ یا اَللهُ،یا بارِئُ یا اَللهُ،یا بَدیعُ یا اَللهُ، یا هادى یا اَللهُ، یا کافى یا اَللهُ،یاشافى یا اَللهُ، یا عَلِىُّ یا اَللهُ، یا عَظیمُ یا اَللهُ، یا حَنّانُ یا اَللهُ، یا مَنّانُ یا اَللهُ،یا ذَاالْطَّوْلِ یا اَللهُ،یا مُتَعالى یا اَللهُ، یا عَدْلُ یا اَللهُ، یا ذَا الْمَعارِجِ یا اَللهُ، یاصِدْقُ یااَللهُ، یا دَیّانُ یا اَللهُ، یا باقى یا اَللهُ، یا واقى یا اَللهُ، یا ذَا الْجَلالِ یا اَللهُ، یا ذَا الاِْکْرامِ یا اَللهُ، یا مَحْمُودُ یا اَللهُ، یا مَعْبُودُ یا اَللهُ، یا صانِعُ یا اَللهُ، یا مُعینُ یا اَللهُ، یا مُکَوِّنُ یا اَللهُ، یا فَعّالُ یا اَللهُ، یا لَطیفُ یا اَللهُ، یا جَلیلُ یا اَللهُ، یا غَفُورُ یااَللهُ، یا شَکُورُ یااَللهُ، یا نُورُ یا اَللهُ، یا قَدیرُ یااَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ،یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، یا رَبّاهُ یا اَللهُ، اَسْئَلُکَ اَنْ تُصَلِّىَ عَلى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد، وَتَمُنَّ عَلَىَّ بِرِضاکَ، وَتَعْفُوَ عَنّى بِـحِلْمِکَ، وَتُـوَسِّعَ عَلَىَّ مِـنْ رِزْقِکَ الْحَلالِ الطَّیِّبِ، وَمِنْ حَیْثُ اَحْتَسِبُ وَمِنْ حَیْثُ لا اَحْتَسِبُ، فَاِنّى عَبْدُکَ لَیْسَ لى اَحَدٌ سِواکَ، وَلا اَحَدٌ اَسْئَلُهُ غَیْرُکَ، یا اَرْحَمَ الرّاحِمینَ، ما شآءَ اللهُ لا قُوَّةَ اِلاَّ بِاللهِ الْعَلِىِّ الْعَظیمِ * سپس به سجده مى روى و مى گویى: یااَللهُ یااَللهُ،یا رَبِّ یا اَللهُ، یا رَبِّ یا اَللهُ، یا رَبِّ یا اَللهُ، یا اَللهُ یا اَللهُ، یا رَبِّ یا رَبِّ یا رَبِّ، یا مُنْزِلَ الْبَرَکاتِ،بِکَ تُنْزَلُ کُلُّ حاجَة، اَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْم فى مَخْزُونِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ، وَالْأَسْمآءِ الْمَشْهُوراتِ عِنْدَکَ، اَلْمَکْتُوبَةِ عَلى سُرادِقِ عَرْشِکَ، اَنْ تُصَلِّىَ عَلى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد، وَاَنْ تَقْبَلَ مِنّى شَهْرَ رَمَضانَ، وَتَکْتُبَنى مِنَ الْوافِدینَ اِلى بَیْتِکَ الْحَرامِ، وَتَصْفَحَ لى عَنِ الذُّنُوبِ الْعِظامِ، وَتَسْتَخْرِجَ یا رَبِّ کُنُـوزَکَ یا رَحْمـنُ.(9) ……………………………………………. نویں: چودہ رکعت نماز بجا لائے کہ ہر رکعت میں سورہ الحمد و آیۃ الکرسی کے بعد تین مرتبہ سورہ توحید پڑھے تاکہ اسے ہر رکعت کے بدلے میں چالیس سال کی عبادت کا ثواب ملے نیز اس شخص کے برابر مزید ثواب بھی حاصل ہوگی کہ جس نے ماہ رمضان کے پورے روزے رکھے ہوں اور عبادت کی ہو۔.(10) ……………………………………………. دسواں: مرحوم «شیخ طوسى» نے «مصباح المتهجّد» میں فرمایا ہے: کہ آخر شب غسل کرے اور مصلائے عبادت پر رہے (اور خدا کا ذکر پڑھیں) یہاں تک کہ صبح صادق ہوجائے۔ (11) |
1 . اقبال، صفحه 274 و زادالمعاد، صفحه 220 .
2 . زادالمعاد، صفحه 220 و کافى، جلد 4، صفحه 167، حدیث 3.
6 . مصباح کفعمى، صفحه 647.
8 . اقبال، صفحه 272.
|
عید الفطر کے دن کی فضیلت اور اعمال | عید الفطر مسلمانوں کے لیے بہت اہم دن ہے۔ کیونکہ ایک ماہ کے روزے اور تہجد اور عبادت کے بعد وہ اجر الٰہی حاصل کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ دن ایک طرف خوشی اور مسرت کا باعث ہے، کیونکہ ہر مسلمان اپنے الٰہی فریضہ کی ادائیگی پر خوش ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف چونکه یہ الٰہی ثواب حاصل کرنے کے دن کی طرح ہے، تو انسان خوف و ہراس میں مبتلا هوتا ہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے ایک ماہ کے کتنے اعمال قبول ہوئے؟
امام باقر (علیہ السلام) نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب شوال کا پہلا دن آتا ہے تو ایک منادی پکارتا ہے: که اے ایمان والو! اپنے اجر و ثواب حاصل کرنے میں جلدی کرو! پھر امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کے انعامات بادشاہوں کے انعامات کی طرح نہیں ہیں (یعنی اس کا اجر بہت عظیم اور روحانی ہے اور اطاعت اور رضائے الٰہی کی قبولیت ہے۔ آخر میں انہوں نے تاکید کی: “شوال کا پہلا دن انعامات وصول کرنے کا دن ہے۔ (1) 1- کافی، جلد 4، صفحه 168، حدیث 3
شوال کے پہلے دن کے اعمال شوال کے پہلے دن کے لئے کچھ اعمال مذکور ہیں: پہلا: نماز فجر کے بعد اور نماز عید کے بعد وہ تکبیریں پڑھے جو شب عید کے اعمال میں ذکر ہوچکی ہیں ……………………………………………. دوسرا: نماز عید سے قبل گھر کے ہر چھوٹے بڑے فرد کی طرف سے زکات فطرہ ادا کرے کہ جس کی مقدار فی کس ایک صاع یعنی ۲/۱ ۳ چھٹانک جنس یا اس کی قیمت بتائی گئی ہے، اس کی تفصیل کے لیے کتب فقہ کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ واضح رہے کہ زکات فطرہ واجب مؤکد ہے جو ماہ مبارک کے روزوں کی قبولیت اور سال آئندہ تک حفظ وامان کا سبب ہے۔ خدا نے سورہ اعلیٰ میں زکات کا ذکر نماز سے پہلے کیا ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَر اسْمَ رَبِّهِ فَصَلّٰی کامیاب ہؤا وہ جس نے زکوٰۃ دی اور اپنے پروردگار کو یاد کیا پھر نماز پڑھی۔(1)(2) ……………………………………………. تیسرے: غسل کرے اور بہتر ہے کہ نہر میں غسل کیا جائے۔ اس کا وقت طلوع فجر سے نماز عید پڑھنے سے قبل تک ہے۔(3) شیخ فرماتے ہیں کہ یہ غسل چھت کے نیچے کرنا زیادہ مناسب ہے، غسل کرتے وقت یہ کہے: اَللّٰهُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَتَصْدِیْقاً بِکِتَابِکَ وَ اِتِّبَاعَ سُنَّةِ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلیٰ ﷲ عَلَیْهِ وَآلِهٰ بسم ﷲ پڑھ کر غسل شروع کرے اور غسل کے بعد کہے: اَللَّهُمَّ اجْعَلْهُ کَفَّارَةً لِذُنُوْبِیْ وَطَهِّرِدِیْنِی اَللَّهُمَّ اِذْهَبْ عَنِّی الدَّنَسَ(4) ……………………………………………. چوتھا: عمدہ لباس پہنے اور خوشبو لگائے۔ مکہ مکرمہ کے سوا کسی اور مقام پر ہو تو نماز عید صحرا میں کھلے آسمان تلے ادا کرے ۔.(5) ……………………………………………. پانچواں: عید سے پہلے دن کے آغاز میں افطار کرے،(6) اور بہتر ہے کہ کھجور افطارسے ہو،.(7) شیخ مفید رحمهالله فرماتے ہیں کہ افطار میں تھوڑی سی خاک شفا کھائے تو وہ ہر بیماری سے شفا کا موجب بنے گی.(8) ……………………………………………. چھٹا: جب نماز عید کے لیے تیار ہوجائے تو طلوع آفتاب کے بعد گھرسے نکلے پس از طلوع آفتاب براى نماز عید حرکت کند (جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے)(9) اور وہ دعائیں پڑھے جو سید نے کتاب اقبال میں نقل کی ہیں۔ اس ذیل میں ابو حمزہ ثمانی نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ عید فطر، عید قربان اور جمعہ کے روز جب نماز کے لیے نکلے تو یہ دعا پڑھے: اَللّـهُمَّ مَنْ تَهَیَّأَ فى هذَا الْیَوْمِ اَوْ تَعَبَّأَ، اَوْ اَعَدَّ وَاسْتَعَدَّ لِوِفادَة اِلى مَخْلُوق، رَجآءَ رِفْدِهِ وَنَوافِلِهِ، وَفَواضِلِهِ وَعَـطـایـاهُ، فَـاِنَّ اِلَـیْـکَ یـا سَیِّدى تَهْیِئَتى وَتَعْبِئَتى، وَاِعْدادى وَاسْتِعْدادى، رَجآءَ رِفْدِکَ وَجَوائِزِکَ، وَنَوافِلِکَ وَفَواضِلِکَ، وَفَضآئِلِکَ وَعَطایاکَ، وَقَدْ غَدَوْتُ اِلى عید مِنْ اَعْیادِ اُمَّةِ نَبیِّکَ، مُحَمَّد صَلَواتُ اللهِ عَلَیْهِ وَعَلى آلِهِ، وَ لَمْ اَفِدْ اِلَیْکَ الْیَوْمَ بِعَمَل صالِح اَثِقُ بِهِ قَدَّمْتُهُ، وَلا تَوَجَّهْتُ بِمَخْلُوق اَمَّلْتُهُ، وَلکِنْ اَتَیْتُکَ خاضِعاً، مُقِرّاً بِذُنُوبى، وَ اِسآئَتى اِلى نَفْسى، فَیا عَظیمُ یا عَظیمُ یا عَظیمُ، اِغْفِرْ لِىَ الْعَظیمَ مِنْ ذُنُوبى، فَاِنَّهُ لایَغْفِرُ الذُّنُوبَ الْعِظامَ اِلاَّ اَنْتَ، یا لا اِلهَ اِلاَّ اَنْتَ، یا اَرْحَمَ الرّاحِمینَ.(10) ……………………………………………. ساتواں: عید کی نماز۔ ہمارے زمانے میں عید کی نماز پڑھنا مستحب ہے۔ ماز عیددو رکعت ہے، پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ اعلیٰ پڑھے اور پانچ تکبیریں کہے کہ ہر تکبیر کے بعد یہ قنوت پڑھے:: اَللّـهُمَّ اَهْلَ الْکِبْرِیآءِ وَ الْعَظَمَةِ، وَاَهْلَ الْجُودِ وَ الْجَبَرُوتِ، وَ اَهْلَ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ، وَاَهْلَ التَّقْوى وَالْمَغْفِرَةِ، اَسْئَلُکَ بِحَقِّ هذَا الْیَومِ، اَلَّذى جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمینَ عیداً، وَلِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ ذُخْراً ]وَشَرَفاً [وَمَزِیداً، اَنْ تُصَلِّىَ عَلى مُحَمَّد وَ آلِ مُحَمَّد، وَاَنْ تُدْخِلَنى فى کُلِّ خَیْر اَدْخَلْتَ فیهِ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّد، وَاَنْ تُخْرِجَنى مِنْ کُلِّ سُوء اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّد، صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلَیْهِمْ، اَللّـهُمَّ اِنّى اَسْئَلُکَ خَیْرَ ما سَئَلَکَ مِنْهُ عِبادُکَ الصّالِحُونَ، وَاَعُوذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعاذَ مِنْهُ عِبادُکَ الصّالِحُونَ. (اگر قنوت نہ پڑھ سکے تو کوئی اور قنوت پڑھ سکتا ہے) پھر چھٹی تکبیر کہہ کررکوع و سجود کرے۔ دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد سورہ الشمس پڑھے اور چار تکبیریں کہے ، ہر تکبیر کے بعد وہی قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کہہ کر رکوع و سجود کرے:(11) اور تشہد و سلام کے بعد تسبیح فاطمہ الزهرا پڑھے (12) نماز عید کے بعد پڑھنے کی بہت سی دعائیں منقول ہیں اور ان میں سب سے بہتر صحیفہ کاملہ کی چھیالیسویں دعا ہے۔ مستحب ہے کہ نماز عید زیر آسمان ایسی زمین پرپڑھے، جس کا فرش نہ کیا گیا ہو۔ (13 اس روز اپنے لیے اور اپنے دینی بھائیوں کیلئے جو دعا بھی مانگے گا قبول ہوگی۔ ……………………………………………. آٹھواں: دعائ ندبہ پڑھے کہ جس کا ذکرباب زیارت میں آئے گا، سید ابن طاؤس کہتے ہیں کہ یہ دعائ پڑھنے کے بعد سجدے میں سر رکھے اور کہے: اَعُوذُ بِکَ مِنْ نار حَرُّها لایُطْفى،وَجَدیدُها لایَبْلى،وَعَطْشانُها لایُرْوى * پھر دائیاں رخسار سجدے کی جگہ پر رکھ کر کہے۔: اِلهى لاتُقَلِّبْ وَجْهى فِى النّارِ بَعْدَ سُجُودى، وَتَعْفیرى لَکَ بِغَیْرِ مَنٍّ مِنّى عَلَیْکَ، بَلْ لَکَ الْمَنُّ عَلَىَّ پھر اپنا بایاں رخسار رکھ کر کہے: اِرْحَمْ مَنْ اَسآءَ وَاقْتَرَفَ وَاسْتَکانَ وَاعْتَرَفَ پھر سجدے کی طرف لوٹ کر کہے: اِنْ کُنْتُ بِئْسَ الْعَبْدُ، فَاَنْتَ نِعْمَ الرَّبُّ، عَظُمَ الذَّنْبُ مِنْ عَبْدِکَ،فَلْیَحْسُنِ الْعَفْوُ مِنْ عِنْدِکَ یا کَریمُ. آخر میں سو بار کہیں: اَلْعَفْوَ الْعَفْوَ. |
1- سوره اعلى، آیه 14 و 15 2- زاد المعاد، صفحه 224 3- مصباح المتهجّد، صفحه 653 4- اقبال، صفحه 279 5- مصباح المتهجّد، صفحه 653 6-اقبال، صفحه 280 7-. اقبال، صفحه 281 8-مسار الشیعه، صفحه 31 9- اقبال، صفحه 281 10-همان مدرک، صفحه 280 11-مصباح المتهجّد، صفحه 654 12- مصباح المتهجّد ، صفحه 655 13- اقبال، صفحه 285 |
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔
اس دن کے لیے اعمال ذکر نہیں کی گئی ہے۔