- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
امام محمد تقیؑ کے علمی و اخلاقی فضائل
پیغمبراکرم اور اهل بیت , آپ کے اخـلاقی فضــائل , حضرت امــام جــــواد(ع)- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : ٹیکنیکل فنکار
- 2024/06/07
- 0 رائ
اسلام ایک کامل دین ہے، جس کی تشریح کےلیے شارح دین کا کامل ہونا لازم ہے۔ نبوت کے بعد امامت اسی کا عنوان جدید ہے۔ سلسلہ امامت میں وہ امام جنکی عمر شریف سب سے کم اور مدت امامت سب ائمہؑ کی نسبت کوتاہ ہے، وہ امام محمد تقیؑ کی شخصیت ہے۔ کم ترین زمانے میں مشکل ترین شبہات اور سوالات سے نبرد، دین کی ترویج، علومِ قرآن کی تبیین اور سیرتِ عملی سے مکتب قرآن و اہلبیتؑ کی جانب رہنمائی کرنا امام محمد تقیؑ کا خاصہ رہا ہے۔
علم الہیٰ کا مخزن
علم الہیٰ کی ترویج اور امامت کےلیے عمر کے کم یا زیادہ ہونے کو میعار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ قرآن و سنت و سیرت سے مشخص ایک امر ہے، جب امام محمد تقیؑ نو سال کی عمر میں امامت کے منصب پر منصوب ہوئے تو داخلی اور خارجی طور پر یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ ایک نو سال کا بچہ کس طرح سے امامت مسلمین و مومنین کے منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔
شیخ کلینیؒ کی نقل کے مطابق ایک شخص نے امام محمد تقیؑ سے سوال کیا: مولاؑ! بعض افراد آپ کی کمسنی کے متعلق سوال اٹھاتے ہیں تو انکا کیا جواب ہے؟ امامؑ نے جواب دیا: خدا نے داودؑ کو وحی فرمائی کہ سلیمانؑ کو اپنا وصی مقرر کر دو، حالانکہ سلیمانؑ اس وقت بچے تھے اور بھیڑ بکریوں کو چراتے (اور ان سے کھیلتے) تھے۔[1]
اسی طرح امام محمد تقیؑ نے امیرالمومنینؑ کے کم سن ہونے سے استدلال کرتے ہوئے علی ابن حسان کی روایت میں فرمایا: علیؑ کے سوا کسی نے بھی اس وقت نبی اکرمؑ کی پیروی نہیں کی تھی، جب آیت قل ھذا سبیلی ادعوا الی اللہ[2] نازل ہوئی تھی، اس وقت علیؑ نو سال کے تھے اور میں بھی نو سال کا ہوں۔
اثبات علمی مقام امامت
امام محمد تقیؑ بچپن میں ہی اپنے زمانہ کے تمام علماء میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، علماء آپ کے مناظروں، فلسفی، کلامی اور فقہی گفتگو سے متأثر ہو کر آپ کو مانتے تھے اور سات سال کی عمر میں ہی آپ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کی فضیلت عام ہو گئی۔
جب مامون نے اپنی بیٹی کا امام سے عقد کرنے کا ارادہ کیا، تو اُس نے عباسیوں کو بلایا، اُنھوں نے مامون سے امام کے امتحان کا مطالبہ کیا تو مامون نے قبول کر لیا۔ اس نے امام محمد تقیؑ کے امتحان کے لیے بغداد کے قاضی یحییٰ بن اکثم کو مقرر کیا اور یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ امام کو ناکام کردے اور وہ جواب نہ دے سکیں تو اس کو بہت زیادہ مال و دولت دیا جائے گا۔ یحییٰ اس محفل میں پہنچا جس میں وزراء اور حکام موجود تھے۔ سب کی نظریں امام پر لگی ہوئی تھیں، چنانچہ اس نے امام سے عرض کیا: کیا مجھے اجازت ہے کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں؟ امام محمد تقیؑ نے فرمایا: ’’اے یحییٰ! جو چاہو پوچھو!‘‘
یحییٰ نے امام محمد تقیؑ سے کہا: حالت احرام میں شکار کرنے والے شخص کا کیا حکم ہے؟ امام نے یحییٰ سے سوال کیا کہ تم نے کونسی شق پوچھی ہے؟ پھرآپ نے فرمایا: اُس نے حدود حرم سے باہر شکارکیا تھا یا حرم میں، شکار کرنے والا مسئلہ سے آگاہ تھا یا نہیں۔ اس نے عمدا ًشکار کیا ہے یا غلطی سے۔ شکار کرنے والا آزاد تھا یا غلام، وہ بالغ تھا یا نابالغ۔ اُس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا بار بار شکار کر چکا تھا۔ شکار پرندہ تھا یا کوئی اور جانور، شکار چھوٹا تھا یا بڑا۔ شکاری شکار کرنے پر نادم تھا یا مُصر، شکار رات کے وقت کیا گیا ہے یا دن میں اور اس نے حج کےلیے احرام باندھا تھا یا عمرہ کےلیے؟
یحییٰ عاجز ہو گیا، چونکہ اُس نے اپنے ذہن میں اتنی شقیں سوچی بھی نہیں تھیں اور سب پر یہ آشکار ہو گیا کہ اللہ نے اہل بیتؑ کو علم و حکمت اسی طرح عطا کیا ہے، جس طرح انبیاء اور رسل کو عطا کیا ہے۔ امام محمد تقیؑ نے اس مسئلہ کی متعدد شقیں بیان فرمائیں جبکہ ان میں سے بعض شقوں کا حکم ایک تھا، جیسے شکار رات میں کیا جائے یا دن میں ان دونوں کا حکم ایک ہے۔
لیکن امام نے اس کی دشمنی کو ظاہر کرنے اور اسے عاجز کرنے کے لیے ایسا کیا تھا چونکہ وہ آپ کا امتحان لینے کی غرض سے آیا تھا۔ مامون نے اپنے خاندان والوں کی طرف متوجہ ہو کران سے کہا: ہم اس نعمت پر خدا کے شکرگذار ہیں، جو کچھ میں نے سوچا تھا وہی ہوا، کیا تمھیں اُن کی معرفت ہو گئی جن کا تم انکار کر رہے تھے؟
مامون عباسیوں سے مخاطب ہوا: کیا تم میں کوئی اس مسئلہ کا جواب دے سکتا ہے؟ نہیں، خدا کی قسم! نہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اہل بیتؑ عام مخلوق نہیں ہیں؟ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ حضرت علیؑ نو سال کی عمر میں رسول اللہؐ پر ایمان لائے، اور اللہ و رسولؐ نے ان کا ایمان قبول کیا اور ان کے علاوہ کسی کا ایمان قبول نہیں کیا؟ نہ ہی رسول اللہؐ نے آپ کے علاوہ کسی اور کو دعوت دی۔ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ اس ذریت میں جو حکم پہلے پر نافذ ہوگا، وہی حکم آخری پر نافذ ہو گا۔ [3]
علم حقائق
ابن ارومہ کی روایت ہے کہ میرے پاس ایک مومنہ خاتون آئی اور کچھ درہم مع چند کپڑوں کے مجھے دیے تاکہ میں وہ امام محمد تقیؑ کی خدمت میں پہنچا دوں، ابن ارومہ کا خیال تھا کہ وہ مال اسی ایک خاتون کا ہے۔ جب وہ مال اور باقی مومنین کا مال لے کر امام کی خدمت میں پہنچا تو امام نے اس کو قبول کرنے کے بعد، ایک خط لکھا اور ابن ارومہ کو دیا، امام محمد تقیؑ نے اس خط میں لکھا:
فلاں اور فلاں شخص کی جانب سے جو کچھ بھیجا گیا، وہ ہم نے موصول کر لیا اور اسی طرح اُن دو خواتین کی جانب سے بھی موصول کر لیا ہے۔ خدا اس مال کو تم سب کی جانب سے قبول فرمائے اور تم سب کو دنیا اور آخرت میں ہمارے ساتھ قرار دے۔
ابن ارومہ نے اس بات پر تعجب کیا اور حتیٰ بہ نقل روایت امامؑ کے خط پر شک کیا، چونکہ اسکی دانست میں ایک خاتون کا مال تھا اور امام نے دو خواتین کا ذکر کیا تھا۔ جب یہ اپنے وطن واپس پلٹا تو وہ خاتون اس کے پاس آئی اور اس سے سوال کیا کہ کیا میرا اور میری بہن کا مال ہمارے مولاؑ کی بارگاہ میں پہنچا دیا ہے؟ اس نے حیرت سے سوال کیا، کیا وہ صرف تمہارا مال نہیں تھا؟ تو خاتون نے جواب دیا نہیں! وہ میرا اور میری بہن کا مال تھا۔ [4]
جوابِ شبہات و احقاقِ حق
ایک مرتبہ یحییٰ ابن اکثم قاضی حکومتِ عباسیہ نے امام محمد تقیؑ سے سوال کیا۔ اے فرزند رسولؐ! اس روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبرائیلؑ بارگاہ رسالت میں آئے اور پیغام لائے، اے رسولؐ! خدا کا کہنا ہے کہ میں ابوبکر سے راضی ہوں، اس سے پوچھیں کیا وہ بھی مجھ سے راضی ہے؟
امام محمد تقیؑ مسکرائے اور فرمایا، اے یحییٰ ابن اکثم! میں ابوبکر کی اس فضیلت کا انکار نہیں کر رہا مگر ہمیں اس روایت کو اس حدیثِ رسولؐ سے مقایسہ کرنا ہوگا، جو آپؐ نے حجۃ الوداع میں بیان فرمائی تھی کہ مجھ پر بہت زیادہ جھوٹ باندھا جا رہا ہے اور مستقبل میں بھی میرے نام پر جھوٹ باندھا جائے گا۔
پس آگاہ رہو، جس نے بھی مجھ پر عمداً جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، جب بھی میری کوئی بات تمہارے پاس پہنچے تو اسکو قرآن اور میری عملی سنت و سیرت سے موازنہ کر کے دیکھو، اگر وہ بات ان میعارات کے مطابق ہو تو قبول کر لو اور اگر ایسا نہ ہو تو اسکو ٹھکرا دو، کیونکہ وہ میری بات نہیں ہے۔
اے قاضی! یہ روایت جو تم نے ابوبکر کی فضیلت میں ذکر کی ہے، یہ روایت مندرجہ بالا میعار کے مطابق قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن میں پروردگار عالم کا فرمانا ہے: ہم نے انسان کو خلق فرمایا ہے کہ اس کے دل میں پیدا ہونے والے تمام خیالات و تصورات سے آگاہ ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں[5]۔ اس لیے یہ عقلاً محال ہے کہ ابوبکر کے دل کا حال خدا سے پوشیدہ اور مخفی ہو، جس کو جاننے کےلیے اسے جبرائیل کو ارسال کرنے کی ضرورت پیش آئے۔[6]
پھر یحییٰ ابن اکثم نے کہا، یہ روایت بھی موجود ہے کہ ابوبکر و عمر زمین پر ایسے ہی ہیں، جیسے آسمان پر جبرائیل و میکائیل ہیں۔ اس کے جواب میں امام محمد تقیؑ نے فرمایا: اے قاضی! جبرائیل و میکائیل خدا کے دو مقرب و مقدس فرشتے ہیں، جنہوں نے اپنی خلقت کے لمحے سے آج تک کبھی ایک لحظے کےلیے بھی خدا کی کوئی نافرمانی نہیں کی۔
جبکہ ابوبکر و عمر نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ خدا کی مخالفت اور شرک کرتے ہوئے بسر کیا ہے اور پھر مختصر مدت حیات کو اسلام کے تحت گزارا ہے۔ پس یہ مقایسہ و تقابل ہی درست نہیں ہے، جس کے تحت ابوبکر و عمر کو جبرائیل و میکائیل کے برابر قرار دیا جا سکے۔[7]
یحییٰ نے کہا، ایک اور روایت بھی موجود ہے کہ ابوبکر و عمر جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔ امام محمد تقیؑ نے جواباً فرمایا: یہ بھی نادرست ہے کیونکہ اہل جنت کی صفات میں سے یہ ہے کہ وہ سب کے سب جوان ہوں گے اور وہاں کوئی سن رسیدہ نہیں ہوگا۔ جب وہاں کوئی سن رسیدہ نہیں ہوگا تو وہاں سن رسیدہ کے سردار کس وجہ سے ہوں گے۔
اس کے بعد یحییٰ ابن اکثم نے ایک اور کوشش کی، کہنے لگا فرزندِ رسولؐ! ایک اور روایت موجود ہے کہ عمر اہل جنت کےلیے چراغ ہیں۔ امام محمد تقیؑ مسکرائے اور آپؑ نے فرمایا: اے قاضی! وہ جنت جہاں اللہ کے تمام مقرب فرشتے موجود ہیں، جہاں آدمؑ سے لے کر محمد مصطفیٰؑ تک سب انبیاءؑ موجود ہیں، یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ انکا نور جنت کو روشن نہ کرے اور جنت کو عمر کے چراغ کی اضافی ضرورت پیش آئے۔
اب یحییٰ فضائل عمر پر آ گیا۔ کہنے لگا فرزند رسولؐ! یہ روایت بھی موجود ہے کہ سکینۃ الہیہ (اطمینان الہیٰ یا صندوق عہد) عمر کی زبان سے بات کرتا اور ظاہر ہوتا ہے۔ امام محمد تقیؑ مسکرائے اور فرمایا: قاضی یحییٰ! میں عمر کےلیے اس فضیلت کا منکر نہیں ہوں مگر ابوبکر تو عمر سے زیادہ برتر تھا، جبکہ ابوبکر نے منبر پر جا کر کہا تھا:
میرے ساتھ میرے نفس میں شیطان ہے، جو مجھ کو بار بار ورغلاتا ہے، پس اگر میں کہیں پر غلط راہ پر چل پڑؤں تو میری اصلاح کرنا۔ جب عمر سے برتر انسان کا یہ حال ہے تو عمر کس طرح ترجمان عہدِ الہیٰ بن سکتا ہے۔
یحییٰ نے کہا، فرزند رسولؐ! ہمارے پاس یہ حدیث بھی پہنچی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: اگر میں مبعوث بہ رسالت نہیں ہوتا تو میری جگہ پر عمر مبعوث ہوتا۔ امام محمد تقیؑ نے اس کے جواب میں فرمایا: تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسکی نسبت، اللہ کی کتاب سب سے زیادہ سچ بولنے والی کتاب ہے۔ قرآن میں خدا کا فرمان ہے کہ ’’بتحقیق ہم نے نبیوں سے پہلے سے ہی میثاق لے لیا تھا‘‘۔
اے ابن اکثم! کس طرح ممکن ہے کہ خدا نے جو عہد عالم ملکوت میں لے لیا ہے، اسکو تبدیل کیا جاسکے، جبکہ وہ عہد ان سے لیا گیا تھا، جنہوں نے لمحہ بھر کےلیے بھی شرک نہیں کیا۔ ان کی صف میں کیسے خدا ایک ایسے انسان کو مبعوث بہ رسالت کر سکتا ہے، جس کی زندگی کا اکثر حصہ شرک میں گزرا ہو اور اسکے علاوہ خود رسول اکرمؐ کا اپنا فرمان ہے ’’میں اس وقت بھی نبی تھا، جب آدمؑ مٹی اور پانی کے درمیان تھے‘‘۔ [8]
اخلاق امام محمد تقیؑ
فرد اور معاشرے کی اصلاح کےلیے جن اقدار اور ارزشوں کی ضرورت ہوتی ہے، انکو اخلاق کہا جاتا ہے، جن کی بنا پر اپنے اعمال و اقدامات کو سنوار کر ایک سماج یا فرد تکامل کی راہیں طے کرتے ہوئے سعادت دارین کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ اس اخلاق کا کتبی منشور جہاں قرآن مجید کی صورت میں موجود ہے، وہیں اس کا عملی اسوہ محمدؐ و آلؑ محمدؐ کی صورت میں انسانیت کو عطیہ کیا گیا۔ تاکہ وہ جو قرآن میں لفظی ہے، انکے وجود ہائے مبارکہ میں عملاً دیکھیں اور انکی پیروی کریں۔
اپنے آباء طاہرینؑ کی مانند امام محمد تقیؑ بھی اسی اسوہ حسنہ کے مالک تھے، آپؑ نے اپنی حیات میں اخلاق محمدیؐ کے ایسے نمونے پیش کیے، جو انسان کےلیے راہِ سعادت پر سفر کرنے کےلیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
احسان اور اخلاق کا رابطہ
امام محمد تقیؑ نے امیرالمومنینؑ سے روایت نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ہر کسی کی قیمت اتنی ہی ہے، جس قدر وہ دوسروں سے نیکی اور احسان کرتا ہے‘‘۔ [9]
مدد کرنے والا زیادہ محتاج ہے
معاشرے میں کسی ضرورت مند کی مدد کرنے والے کو محتاج اور جو مدد کر رہا ہے اسکو غنی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن امام محمد تقیؑ نے اخلاق اہلبیتؑ کے خوبصورت اصول تعلیم دیتے ہوئے، مدد کرنے والوں کی تربیت اخلاقی کےلیے بیان فرمایا:[10]
’’وہ جو نیکی کر تے ہیں، وہ نیک کام سرانجام دینے کے زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہیں، ان لوگوں کی نسبت جو انکی نیکی کی احتیاج رکھتے ہیں۔ اس لیے جو بھی کسی دوسرے کے ساتھ نیکی کرتا ہے، وہ خود اپنے نفع میں یہ کام انجام دیتا ہے۔ اس لیے جو کام تمہارے اپنے فائدے میں کیا گیا ہے، اسکو انجام دینے پر دوسروں سے شکریہ اور تعریف کا طلب گار ہونا شائستہ اور سزاوار نہیں ہے‘‘۔[11]
مودب ہونا
اخلاق کا ایک اہم جزو آداب ہیں، جو کہ اخلاق ہی سے نمو پاتے ہیں۔ معاشرہ ہمارے عملی رویوں سے ہمارے اخلاق کا پتہ لگاتا ہے۔ باادب ہونا اور زندگی کو اخلاق کی بنیاد پر، آداب سے آراستہ کرنا کس قدر اہم اور اسکا کتنا اجر ہے؟ اس بابت امام محمد تقیؑ کا فرمان ہے کہ ’’کہیں پر بھی کوئی ایسے دو افراد جمع نہیں ہوتے، مگر یہ کہ ان میں سے اللہ کی بارگاہ میں نزدیک تر وہ ہوتا ہے، جو ان میں سے زیادہ باادب ہوتا ہے‘‘۔[12]
مؤمن کی دل جوئی
عصرِ حضورِ ائمہؑ کی تمام تر جغرافیائی، سیاسی، سماجی اور ریاستی مشکلات کے باوجود اہلبیتؑ نے اپنے چاہنے والوں کو نہ تو خود کبھی تنہا چھوڑا اور نہ ہی انکو ایسی تربیت دی کہ خدانخواستہ ایک دوسرے سے غافل ہوجائیں۔ ولایت تکوینی کے علاوہ، عمومی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے، مومنین کی خبرگیری کرتے اور ان کو احساسِ تنہائی نہیں ہونے دیتے تھے۔ مثلاً اختیار معرفۃ الرجال طوسی کے مطابق امام محمد تقیؑ اپنے ان شیعوں سے، جو دورافتادہ مقامات پر رہائش پذیر تھے اور مدینہ تک انکی رسائی آسان نہیں ہوتی تھی، ان سے باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعے انکی دل جوئی فرماتے اور انکی رہنمائی کرتے۔[13]
مثلاً ایک مومن کے بیٹے کا انتقال ہو گیا تو امام محمد تقیؑ نے اسکو خط لکھا، اسکی دل جوئی فرمائی اور دعا فرمائی کہ خدا اس کو اس فرزند کے بدلے میں ایک اور بیٹا عطا فرمائے۔[14]اسی طرح جب ہمدان ابن احمد حضینی کے بھائی کا انتقال ہوا، تو امام محمد تقیؑ نے حمدان کو خط لکھا، اس کو تسلی دی اور اسکے بھائی کو اپنے مقرب شیعوں میں سے شمار فرمایا۔[15]
جہاں ایک جانب یہ عمل تھا، وہیں دوسری جانب اچھے اور مباح کاموں میں مومنین کی حوصلہ افزائی کرنا اور انکو خشک اور تشدد پسندانہ مذہبی رویوں سے دور رکھنے کےلیے بھی ائمہؑ نے انتہائی بہترین اقدامات فرمائے۔
مثلاً جب بھی کوئی مومن امام محمد تقیؑ کی بارگاہ میں اظہارِ عقیدت کے طور پر کوئی مدح لکھ کر ارسال کرتا تو امام نہ صرف اسکو قبول فرماتے بلکہ اسکی حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے۔ اسی طرح جب کوئی مومن امام محمد تقیؑ سے اس بات کی اجازت طلب کرتا کہ وہ آپکے لیے کوئی منقبت لکھے تو امامؑ اس کی درخواست کو قبول فرماتے تھے۔ [16]
نتیجہ
امام محمد تقیؑ کی حیات نہایت مختصر تھی اور اس مختصر حیات کے بھی تمام احوال آج ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ لیکن امام محمد تقیؑ کا کم سنی اور شدید دباؤ کے باوجود علم و اخلاق اہلبیتؑ کو آشکار کرنا، ایک تاریخی امر تھا۔ جو نقل شدہ اقوال و روایات کی روشنی میں انسان مؤمن کو ایک بہتر مؤمن بننے کےلیے ایک مشعل راہ ہیں۔
حوالہ جات
[1] کلینی، الکافی، ج1، ص383۔ گراوند، مہدی پور، بررسی نقش علمی امام جوادؑ، ص7۔
[2] کلینی، الکافی، ج1، ص384۔ گراوند، مہدی پور، بررسی نقش علمی امام جوادؑ، ص8۔
[3] تحف العقول، ص452۔ وسائل الشیعہ، ج9 ص188۔ ارشاد، ص312۔
[4] مجلسی، بحار الانوار، ج5، ص52۔
[5] سورہ ق، آیت16۔
[6] طبرسی، الاحتجاج، ج4، ص210۔
[7] طبرسی، الاحتجاج، ج4، ص210۔
[8] طبرسی، الاجتجاج، ص214 و 213۔
[9] صدوق، الامالی، ص532۔
[10] غفوری، اخلاق اجتماعی امام جوادؑ، ص7۔
[11] اربلی، کشف الغمہ، ص347۔
[12] کلینی، اصول کافی، ج1، ص496۔
[13] طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ج2، ص798۔
[14] کلینی، اصول کافی، ج3، ص205۔
[15] طوسی، اختیار معرفۃ الرجال، ج2، ص835۔
[16] حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج 10، ص 468
فهرست منابع
1. القرآن الکریم
2. ابن شعبه، حسن بن علی؛ تحف العقول عن آل الرسول؛ تھران؛ علميه اسلامیہ؛ 1363 ش
3. اربلی، علی بن عیسی؛ كشف الغمة في معرفة الأئمة؛ قم؛ الشريف الرضي؛1421 ق
4. حر عاملی، محمد بن حسن؛ وسائل الشیعة؛ قم؛ مؤسسة النشر الإسلامي؛ 1424 ق
5. صدوق، محمد بن علی؛ امالی شیخ صدوق؛ تھران؛ کتابچی؛ 1376 ش
6. طبرسی، احمد بن علی؛ الاحتجاج؛ بیروت؛ مؤسسة الأعلمي للمطبوعات؛ 1421 ق
7. غفوری، محمد؛ اخلاق اجتماعی امام جوادؑ؛ مجموعه مقالات همایش سیره و زمانه امام جواد؛ قم؛ مرکز مدیریت حوزه های علمیه؛ 1396 ش
8. کشی، محمد بن عمر؛ اختیار معرفة الرجال؛ قم؛ مؤسسة آل البیت (علیهم السلام) لإحیاء التراث؛ 1404 ق
9. کلینی، محمد بن یعقوب؛ الکافی؛ تھران؛ دار الکتب الإسلامیة؛ 1407 ق
10. گراوند، مجتبی؛ بررسی نقش علمی امام جوادؑ؛ مجموعه مقالات همایش سیره و زمانه امام جواد؛ قم؛ مرکز مدیریت حوزه های علمیه؛ 1396 ش
11. مجلسی، محمد باقر؛ بحارالانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار؛ تھران؛ انتشارات كتاب نشر؛ 1986 ش
12. مفید، محمد بن محمد؛ الارشاد؛ قم؛ المؤتمر العالمي لألفية الشيخ المفيد؛ 1413 ق