- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- 2022/02/23
- 0 نظر
صحیح بخاری کے ایک باب میں ایک عنوان ہے : “فی الرّکاز الخمس”(دفینے میں خمس ہے)۔ مالک اور ابن ادریس کہتے ہیں کہ رکاز وہ مال ہے جو قبل از اسلام دفن کیا گیا تھا ۔ یہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں خمس ہے ۔جبکہ معدنی ذاخائر رکاز یا دفینہ نہیں ہیں ۔رسول اللہ ص نے فرمایا ہے کہ رکاز میں خمس ہے ۔(۱)
ابن عباس کہتے ہیں کہ عنبر رکاز نہیں ہے ۔ وہ تو ایک چیز ہے جسے سمندر پھینکتا لیکن حسن بصری کہتے ہیں کہ عنبر اور موتی میں بھی خمس ہے۔(۲) اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ غنیمت کا وہ مفہوم جس پر اللہ تعالی نے خمس واجب کیا ہے دار الحرب سے مخصوص نہیں کیونکہ رکاز یا دفینہ وہ خزانہ ہے جو زمین کے اندر سےنکالا جائے ۔ یہ خزانہ ملکیت ہوتا ہے اسی کی جو اس کو نکالے لیکن اس پر خمس کی ا دائیگی واجب ہے اس لیے کہ دفینہ بھی مال غنیمت ہے ۔ اسی طرح عنبر اور موتی جو سمندر سے نکالے جائیں ان پر بھی خمس نکالنا واجب ہے ، کیونکہ وہ بھی مال غنیمت ہیں ۔بخاری نے اپنی صحیح میں جو روایات بیان کی ہیں ان سے اور مذکور بالا احادیث سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اہل سنت کے اقوال اور ان کے افعال میں تضاد ہے ورنہ بخاری تو اہل سنت کے معتبر ترین محدث ہیں ، ان کی روایات پر عمل نہ کرنے کے کیا معنی ؟شیعوں کی ہمیشہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہے ۔ اس میں نہ کوئی تضاد ہوتا ہےنہ اختلاف ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ اپنے عقائد میں بھی اور احکام میں بھی ائمہ اہلبیت ع کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کی شان میں آیہ تطہیر اتری ہے اورجن کو رسول اللہ نے کتاب اللہ کے ہمدوش قرار دیا ہے۔ پس جس نے ان کا دامن پکڑ لیا وہ گمراہ نہیں ہوسکتا اور جس نے ان کی پناہ حاصل کرلی وہ محفوظ ہو گیا ۔علاوہ ازیں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے ہم جنگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔یہ بات اسلام کی وسیع النظری اور صلح پسندی کے خلاف ہے۔ اسلام کوئی سامراجی حکومت نہیں ہے جس کامقصد دوسری قو موں کا استحصال کرنا، ان کے وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور انھیں لوٹنا ہو ۔ یہ تو وہ الزام ہےجو اہل مغرب ہم پر لگاتے ہیں ۔ جو اسلام اور پیغمبر اسلام کا ذکر حقارت کے ساتھ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام طاقت اور تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس کا مقصد غیر قوموں کے وسائل پر ناجائز قبضہ کرنا ہے۔
مال زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔خصوصا ایسی حالت میں جبکہ اسلام کا اقتصادی نظریہ یہ ہے کہ لوگوں کو معاشی تحفظ کی ضمانت دی جائے جسے آج کال کی اصطلاح میں سوشل سیکیورٹی کہا جاتا ہے اور ہر فرد کی ماہوار یا سالانہ کفالت کا انتظام کیاجائے نیز معذوروں اورحاجت مندوں کو باعزت روزی کی ضمانت فراہم کی جائے۔
ایسی حالت میں اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس آمدنی پر انحصار کرے جو اہل سنت زکات کے نام سے نکالتے ہیں جس کی مقدار زیادہ زیادہ ڈھائی فیصد ہوتی ہے ۔یہ تناسب اتنا کم ہوتا ہے کہ حکومت کی ایسی ضروریات کے لیے ناکافی ہے مثلا افواج کو کیل کانٹے سے لیس کرنا ، اسکول اور کالج بنانا ، ڈسپنسر یاں اور ہسپتال قائم کرنا ، سڑکیں اور پل تعمیر کرنا وغیرہ ۔ حالانکہ حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شہر کو اتنی آمدنی کی ضمانت دے جو اس کے گزربسر کے لیے کافی ہو ۔ اسلامی حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی اور اپنے اداروں اور افرادکی بقا اورترقی کے لیے خوں ریز جنگوں پن انحصار کرے یا ان مقتولین کی قیمت پر ترقی کرے جو اسلام میں دلچسپی نہ رکھنے کی پاداش میں قتل کر دیے گئے ہوں ۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سب بڑی اور ترقی یافتہ حکومتیں تمام اشیائے صرف پر ٹیکس لگاتی ہیں جس کی مقدار تقریبا بیس فیصد ہوتی ہے ، خمس کی بھی اتنی ہی مقدار اسلام نے اپنے ماننے والوں پر فرض کی ہے ۔ اہل فرانس جو T.V.A ادا کرتے ہیں اس کی مقدار 1865 فیصد ہوتی ہے ۔ اسے کے ساتھ اگر انکم ٹیکس کا اضافہ کرلیا جائے تو یہ مقدار 20 فیصد یا کچھ زیادہ ہوجاتی ہے ۔
ائمہ اہل بیت ع کو قرآن کے مقاصد کا دوسروں سے زیادہ علم تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ وہ ترجمان قرآن تھے ۔ اسلامی حکومت کی اقتصادی اور اجتماعی حکمت عملی وضع کرنا ان کا کام تھا بشرطیکہ ان کی بات مانی جاتی مگر افسوس کہ اقتدار اور اختیار دوسروں کے ہاتھ میں تھا ، جنھوں نے طاقت کے بل پر زبردستی خلافت پر قبضہ کرلیا تھا اور متعدد صحابہ صالحین کو قتل کردیا تھا اور اپنی سیاسی اور دنیوی مصلحتوں کے مطابق اللہ کے احکام میں ردّ وبدل کردیا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ نتیجۃ امت پستی کے تحت الثری میں گرگئی جس سے وہ آج تک نہیں ابھرسکی ۔
ائمہ کی تعلیمات نے ایسے افکار اور نظریات کی شکل اختیار کر لی جن پر شیعہ آج بھی یقین رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی تطبیق کی کوئی صورت نہ رہی شیعوں کو مشرق ومغرب میں ہر طرف دھتکار دیا گیا ۔ اموی اور عباسی صدیوں تک ان کا پیچھا کرتے رہے ۔
جب یہ دونوں حکومتیں ختم ہوگئیں تب جاکر شیعوں کو ایسا معاشرہ قائم کرنے کا موقع ملاجس میں وہ خمس ادا کرسکتے تھے ۔ پہلے وہ خمس خفیہ طور پر ائمہ علیھم السلام کو ادا کرتے تھے ، اب وہ اپنے مرجع تقلید کو امام مہدی علیہ السلام کے نائب کی حیثیت میں اداکرتے ہیں ۔ اور مراجع تقلید اس رقم کو شرعی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ مثلا وہ اس رقم سے دینی مدارس ،علمی مراکز ، اشاعت اسلام کے لیے اشاعتی ادارے نیز خیراتی ادارے ، پبلک لائبریاں اور یتیم خانے وغیرہ قائم کرتے ہیں ۔دینی علوم کے طالب علموں کو ماہانہ وظائف وغیرہ بھی دیتے ہیں ۔
اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ شیعہ علماء حکومت کے دست نگر نہیں اس لیے کہ خمس کی رقم ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں بلکہ وہ خود مستحقین کو ان کے حقوق پہنچاتے ہیں ۔ اس لیے وہ حکمرانوں کا تقرّب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اس کے بر خلاف ، علمائے اہل سنت حکام وقت کے دست نگر اور ان کے ملازم ہیں ۔ حکام اپنی مصلحت کے مطابق جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں نظر انداز کرتے ہیں ۔ اس طرح علماء کا تعلق عوام سے کم اور ایوان اقتدار سے زیادہ ہوگیا ہے ۔
اب آپ خود دیکھیے کہ خمس کے حکم کی تاویل کا امت کے معاملات پر کیا اثر پڑا ۔ اس صورت میں ان مسلمان نوجوانوں کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے جنھوں نے اسلام کو چھوڑ کر کمیونزم کا راستہ اس لیے اختیار کرلیا کہ انھیں کمیونزم کے نظریہ میں اس نظام کی نسبت جو ہمارے یہاں رائج ہے ،دولت کی تقسیم قوم کے تمام افراد میں زیادہ منصفانہ نظرآئی۔
ہمارے یہاں تو ایک ظالم طبقہ ایسا ہے جو ملک کی ساری دولت پر قبضہ جمائے ہوئے ہے جبکہ ملگ کی غالب افلاس میں دن گزار رہی ہے ۔ جن دولت مندوں کے دل میں تھوڑا بہت اللہ کا خوف ہے ، وہ بھی سال میں ایک مرتبہ زکات نکالنے کو کافی سمجھتے ہیں جو فقط ڈھائی فیصد ہوتی ہے اور جس سے غریبوں کی سالانہ ضرورت کا دسواں حصہ بھی پورا نہیں ہوتا ۔
“صراط عليّ حقّ ٌ نمسّكه”
حواله جات
———————–
(۱) صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 134 باب فی الرّکاز الخمس
(5) صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 136 باب ما یستخرج من البحر