- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- 2022/01/09
- 0 نظر
قرآنی آیات اور متواتر روایات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے كہ انسان موت كے بعد یكبارگی عالم قیامت كبریٰ میں منتقل نھیں ھوجاتا ھے بلكہ اس كو دنیا وآخرت كے درمیان ایك مرحلے سے گزرنا پڑتا ھے جس كا نام “برزخ” ھے۔
لغت میں بزرخ دو اشیاء كے درمیان فاصلے كو كہا جاتا ھے۔ یھی وجہ ھے كہ موت سے قیامت تك كے درمیانی فاصلہ كو برزخ كہا جاتا ھے۔
طریحی، مجمع البحرین (ج۷۲، ص۴۳۰) میں لكھتے ھیں: موت سے قیامت كے درمیانی فاصلے كو برزخ كھتے ھیں۔ لھٰذا مرنے كے بعد ھر شخص وارد برزخ ھوتا ھے۔ علی بن ابراھیم قمی اپنی تفسیر (ج۲، ص۹۴) میںفرماتے ھیں: دو اشیاء كے درمیانی فاصلے كو برزخ كہا جاتا ھے اور جس سے مقصود، دنیا وآخرت كا ثواب وعذاب ھے ۔ علامہ مجلسیۺ اپنی كتاب بحارالانوار (ج۶، ص۲۱۴) میں فرماتے ھیں: برزخ دو امروں كے درمیان ایك امر ھے اور جس سے مراد دنیا وآخرت كے درمیان ثواب و عذاب ھے۔
قرآن مجید میں اس لفظ كااستعمال تین مقامات پر ھوا ھے جن میں سے ایك موت وقیامت كے درمیان فاصلے سے مربوط ھے:
یھاں تك كہ جب ان میں كسی كو موت آگئی تو كھنے لگا كہ پروردگار مجھے پلٹا دے۔ شاید اب میں كوئی نیك عمل انجام دوں۔ ھرگز نھیں! یہ ایك بات ھے جو یہ كھہ رھا ھے اور ان كے پیچھے ایك عالم برزخ ھے جو قیامت كے دن تك باقی رھنے والاھے۔
یہ آیت اس بات كو روشن كرتی ھے كہ موت كے بعد انسان اظھار پشیمانی كرتا ھے اور خدا سے چاھتا ھے كہ اسے دوبارہ دنیا میں لوٹا دے لیكن اس كی درخواست رد كردی جاتی ھے۔
بھت سی آیات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ھے كہ انسان موت وقیامت كے درمیانی فاصلے میں ایك طرح كی زندگی گزارتا ھے اور اس حالت میں اس كے حواس باقاعدہ اپنا عمل انجام دے رھے ھوتے ھیں مثلاً بولتا ھے، سنتا ھے، لطف اندوز ھوتا ھے، رنجیدہ ھوتا ھے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایك ایسی حالت ھوتی ھے جس میں اس پر یا تو عذاب نازل ھو رھا ھوتا ھے یا خدائی رحمتیں۔ یہ آیتیں جن كی تعداد پندرہ ھے، چنداقسام كی ھیں:
۱) ایسی آیتیں جن میں صالح و نیك یا فاسد وبدكار انسانوں كو موت كے بعد فرشتوں سے گفت و شنید كرتے ھوئے پیش كیا گیا ہے:
جن لوگوں كو ملائكہ نے اس حال میں اٹھایا كہ وہ اپنے نفس پر ظلم كرنے والے تھے ان سے پوچھا كہ تم كس حال میں تھے تو انھوں نے كہا كہ ھم زمین میں كمزور بنادئے گئے تھے۔ ملائكہ نے كہا كہ زمین خدا وسیع نھیں تھی كہ تم ھجرت كرجاتے۔ ان لوگوں كا ٹھكانہ جہنم ھے اور وہ بدترین منزل ھے۔
یہ آیت ان افراد سے متعلق ھے جو غیر مناسب معاشرے میں زندگی بسر كرتے ھیں اور اس فساد اور غلط معاشرے كو اپنے عذر كے طور پر پیش كرتے ھیں۔ فرشتے ان كی روح قبض كرنے كے بعد ان سے گفتگو كرتے ھیں اور انكے عذر كو غیر قابل قبول بتاتے ھیں كیونكہ یہ افراد كم از كم اتنا تو كر ھی سكتے تھے كہ ھجرت كرجاتے۔ (سورہٴ مومنون كی آیت نمبر:۱۰۰ جو گزر چكی ھے وہ بھی اسی قسم میں شمار ھوتی ھے۔)
۲) دوسری قسم میں وہ آیتیں آتی ھیں جن كے مطابق فرشتے گفت وشنید كے بعد نیك بندوں سے كھتے ھیں كہ جاؤ اب نعمات الٰھی سے لطف اندوز ھو۔ ان آیات كے مطابق خدا كے نیك بندے قیامت كبریٰ كے برپا ھونے سے پھلے بھی الٰھی نعمتوں سے بھرہ ور ھوتے رھتے ھیں:
جنھیں ملائكہ اس عالم میں اٹھاتے ھیں كہ وہ پاك وپاكیزہ ھوتے ھیں اور ان سے ملائكہ كھتے ھیں كہ تم پر سلام ھو اب تم اپنے نیك اعمال كی بنا پر جنت میں داخل ھوجاؤ۔
خیال رھے كہ موت كے بعد اھل نجات كے لئے كوئی ایك بھشت فراھم نھیں كی گئی ھے بلكہ جنت بھت سے انواع باغات اور بھشتوں كا نام ھے اور روایات كے مطابق ان میں سے كچھ باغات كو فقط عالم برزخ سے مخصوص كردیا گیا ھے۔ لھٰذا اس آیت میں لفظ “الجنة” اس بات كی دلیل نھیں ھے كہ یہ آیتیں قیامت سے متعلق ھیں۔