- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : محقق نمبر چار
- 2024/11/06
- 0 رائ
آئیے ہم آپ کو کتب احادیث میں پیغمبر (ص) اور اہل بیت اطہار (ع) سے قرآن مجید کی تلاوت کی فضیلت، اس کے معنوی آثار اور اجر و ثواب کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں، جس کے متعلق بکثرت احادیث مروی ہیں. ان احادیث میں قرآن مجید کی قرائت کی مختلف جہات، مثلا تلاوت کے فلسفے، اس کے ثواب اور بعض سورتوں اور آیات کی تلاوت کے آثار و برکات و غیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے. ہم ان احادیث کے سلسلے میں مندرجہ ذیل عناوین کے تحت بحث و تحقیق کریں گے.
قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام
پیغمبر اسلام (ص) اور اہل بیت اطہار نے مسلمانوں کو تلاوت قرآن کی مسلسل اور پر زور سفارش کی ہے. اس لئے ہر مسلمان، خاص کر اہل بیت اطہار کے پیروکاروں کو چاہئے کہ قرآن مجید کی تلاوت کو اپنے روزمرہ کے مستقل پروگرام اور فرائض کا حصہ قرار دیں.
کلینی نے اپنی سند کے ساتھ، امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ: پیغمبر (ص) نے اپنی وصیت میں حضرت علی (ع) سے فرمایا: ہر حال میں قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرو.[1]
امیرالمؤمنین حضرت علی (ع)، حضرت امام حسن (ع) کے نام اپنی وصیت میں قرآن مجید کی مسلسل تلاوت کی یادآوری کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں تمہیں تقوائے الہی، وقت پر نماز قائم کرنے اور زکات کی درست ادائیگی کی سفارش کرتا ہوں اور تمہیں (دوسروں کے) گناہوں سے درگزر کرنے، غصے پر قابو پانے، صلہ رحمی، جاہل کے مقابل بردباری دکھانے، دین کو سمجھنے میں جدوجہد، کام میں احتیاط برتنے، قرآن مجید کا اہتمام و لحاظ رکھنے، ہمسایوں سے حسن سلوک کرنے، امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنے اور تمام برائیوں سے (جومعصیت خدا ہیں) پرہیز کرنے کی سفارش کرتا ہوں.[2]
امام جعفر صادق (ع) بھی قرآن کی تلاوت کو ہر مسلمان کا فرض جانتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن مجید خداوند متعال کا اپنے بندوں کے ساتھ عہد و پیمان ہے. اس لئے مناسب ہے کہ ہر مسلمان اپنے عہد و پیمان پر نظر ڈالے اور ہر روز اس کی پچاس آیتوں کی تلاوت کرے.[3]
ان احادیث میں، قرآن مجید کی تلاوت پر خاص توجہ مبذول کرنے، یعنی ہر مسلمان کا اسے اپنا مستقل فریضہ اور روزمرہ کے کاموں کا حصہ قرار دینے کا حکم دینے کے علاوہ اس کام کے فلسفہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے.
امام زین العابدین (ع) قرآن مجید کی مستقل اور پابندی کے ساتھ تلاوت کو انسان کا بلندترین عمل شمار کرتے ہیں.
زہری کہتے ہیں: میں نے امام علی بن حسین (ع) سے پوچھا: سب سے برتر عمل کیا ہے؟ امام (ع) نے فرمایا: جو نیچے اتر کر کوچ کرے. میں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: قرآن کو شروع کرنا اور اسے اس طرح ختم کرنا کہ جب بھی قرآن کو شروع کرے تو اسے ختم کر کے ہی دم لے.[4]
قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب اور اس کے معنوی اثرات
بہت سی احادیث میں قرآن مجید کی تلاوت کی قدر و منزلت اور اس کے ثواب کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے. قرآن مجید کے ہر حرف کو پڑھنے کا ثواب دس حسنات ہیں یعنی یہ عمل دس کار خیر شمار ہوتے ہیں. یہ ثواب ان لوگوں کے لئے ہے جو عام حالت میں قرآن پڑھیں اور اگر نماز کی حالت میں قرآن پڑھیں تو اس کا ثواب بہت زیادہ ہے.
پیغمبر (ص) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: قرآن مجید خداوند متعال کی رسّی، واضح نور، نیز شفا بخش اور فائدہ مند (دوا) ہے.
پھر آپ (ص) نے فرمایا: قرآن کو پڑھو کیونکہ خداوند متعال قرآن کے ہر حرف کی تلاوت کے بدلے میں دس حسنات کا اجر دیتا ہے. جان لو کہ میں یہ نہیں کہتا: ”الم“ کے دس حسنات ہیں بلکہ ”الف“ کے دس حسنات، ”لام“ کے دس حسنات اور ”ميم“ کے دس حسنات ہیں.[5]
امیرالمؤمنین (ع) اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو نماز کی حالت قیام میں قرآن پڑھے، اسے پڑھے جانے والے ہر حرف کے بدلے میں سو حسنات ملتے ہیں. بیٹھ کر پڑھے تو پچاس حسنات، نماز کے بغیر با وضو ہوکر پڑھے تو بیس حسنات اور اگر بے وضو ہو تو دس حسنات عطا کئے جاتے ہیں. میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ یہ حسنات ”المر“ کے لئے ہیں، بلکہ اس کے ”الف“ کے لئے دس حسنات، ”لام“ کے لئے دس حسنات، ”ميم“ کے لئے دس حسنات اور ”راء“ کے لئے بھی دس حسنات شمار کئے جاتے ہیں.[6]
قرآن مجید کی تلاوت اور گناہوں سے چھٹکارا
بیشک بعض نیکیاں وہ قدر و منزلت رکھتی ہیں کہ اجر و ثواب کا سبب بننے کے علاوہ انسان کے دل سے گناہوں کے آثار کو مٹانے اور گزشتہ برائیوں کے برے نتائج سے نجات دلانے میں بھی مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں.
یہ اثر اس صورت میں بھی مرتب ہو سکتا ہے جب یہ نیکیاں انسان کے باطن میں ایک تحول پیدا کر کے اس کے لئے یہ موقع فراہم کریں کہ وہ اپنی گزشتہ برائیوں سے پشیمان ہو کر توبہ کرے اور ان کی تلافی کی کوشش کرے نیز اس صورت میں بھی کہ خود یہ عمل قدر و منزلت کے لحاظ سے اتنا بلند ہو کہ انسان کے برے اعمال کو مٹا کر عفو و بخشش کا سبب بن جائے.
اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آداب کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے ساتھ انس و محبت انسان کے باطن میں تبدیلی اور تحوّل پیدا کرنے کے علاوہ اپنی ذاتی قدر و منزلت کے باعث، گناہ کے آثار زائل کرنے اور مغفرت الٰہی تک پہنچنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے.[7]
قیامت کے دن قرآن مجید کی شفاعت کے بارے میں نقل کی گئی متعدد احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے. بہت سی روایتوں کے مطابق قیامت کے دن قرآن مجید اپنے قاریوں اور اس پر عمل کرنے والوں کا شفیع قرار پائے گا اور انہیں قیامت میں خدا کے عذاب سے نجات دلا کر بہشت کے بلند مقامات تک پہنچا دے گا. پیغمبر (ص) کی مندرجہ ذیل حدیث سے مؤمن کے دل میں بےانتہا امید پیدا ہوجاتی ہے. یہ انسان اور اس کے ماں باپ کی مغفرت میں تلاوت قرآن مجید اور ختم قرآن کی تاثیر سے مربوط ہے.
امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں: قیامت کے دن قرآن مجید بہترین صورت میں ظاہر ہوگا اور مسلمانوں کے پاس سے گزرے گا تو سب کہیں گے یہ شخص ہم میں سے ہے. ان سے گزر کر انبیاء کے پاس پہنچے گا تو وہ بھی کہیں گے یہ شخص ہم میں سے ہے. ان سے گزر کر مقرب فرشتوں کے پاس پہنچے گا تو وہ بھی کہیں گے یہ ہم میں سے ہے.
یہاں تک کہ پروردگار عالم کی خدمت میں پہنچے گا اور عرض کرے گا: اے میرے اللہ! میں نے فلاں بن فلاں کو گرم دنوں میں پیاسا رکھا اور دنیا میں اسے راتوں کو بیدار رکھا اور فلاں بن فلاں کو نہ دنوں کو پیاسا رکھا اور نہ راتوں کو بیدار رکھا. تو خداوند متعال فرمائے گا: انہیں اپنے درجات کے مطابق بہشت میں جگہ دیدو. قرآن مجید اٹھ کھڑا ہوگا اور وہ سب اس کے پیچھے چلیں گے. قرآن مجید مؤمن سے کہے گا: پڑھو اور اوپر جاؤ! یہاں تک کہ ہر مومن اپنے لئے معین کی گئی جگہ پر پہنچ کر وہاں قرار پائے گا.[8]
بعض احادیث میں قرآن مجید کی تلاوت کے اثرات کا اس حد تک ذکر ہوا ہے کہ اس سے کافر ماں باپ کے عذاب میں تخفیف ہوگی.
امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: دیکھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا قاری کے ماں باپ کے عذاب میں تخفیف کا سبب بنتا ہے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں.[9]
درجات کی بلندی میں قرآن مجید کی تلاوت کا کردار
پیغمبر خدا (ص) فرماتے ہیں: جو شخص ایک رات کو قرآن مجید کی دس آیتیں پڑھے گا وہ غافلوں میں شمار نہیں ہوگا اور جو شخص پچاس آیتیں پڑھے گا وہ ذاکرین میں شمار ہوگا. جو سو آیتیں پڑھے گا وہ قانتین میں سے ہوگا. جو دو سو آیتیں پڑھے گا وہ خاشعین میں لکھا جائے گا اور جو تین سو آیتیں پڑھے گا وہ نجات پانے والوں میں سے ہوگا اور جو پانچ سو آیتیں پڑھے گا وہ مجتہدین میں شمار ہوگا اور جو ایک ہزار آیتیں پڑھے گا اس کے حق میں ایک قنطار لکھا جائے گا.
ایک قنطار پندرہ ہزار مثقال کے برابر ہے اور ایک مثقال چوبیس قیراط کے برابر ہے. اس کا سب سے چھوٹا حصہ کوہ احد کے مانند اور سب سے بڑا حصہ آسمان و زمین کے درمیان کی وسعت کے برابر ہے.[10]
انسان کے معنوی درجات کو ارتقاء بخشنے میں قرآن مجید کی تلاوت کے اثرات، جو عالم آخرت میں بہشت کے درجات کو بلند کرنے کا سبب بنتے ہیں، بے شمار احادیث میں بیان ہوئے ہیں.
قرآن مجید جاننے والا جب بہشت میں داخل ہوگا تو اس سے کہا جائے گا: پڑھو اور اوپر جاؤ! جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے تھے (یہاں بھی) ترتیل کے ساتھ تلاوت کرو، کیونکہ تمہاری منزل اس آخری آیت کے پاس ہے جسے تم پڑھو گے.[11]
امام زین العابدین (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: قرآن مجید پڑھو کیونکہ خداوند متعال نے بہشت کو اپنے طاقتور ہاتھوں (قدرت) سے پیدا کیا ہے. اس کی اینٹ سونے اور چاندی کی، اس کا گارا مشک، خاک زعفران اور کنکریاں موتی ہیں اور اس کے درجات قرآن مجید کی آیات کے برابر ہیں. قرآن مجید اپنے پڑھنے والے سے کہے گا: پڑھو اور اوپر جاؤ (درجات حاصل کرتے جاؤ). بہشت میں انبیاء و صالحین کے علاوہ کسی کا درجہ ان سے بلندتر نہیں ہوگا.[12]
امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: میں تمہیں قرآن کی تلاوت کی تلقین کرتا ہوں کیونکہ بہشت کے درجات قرآن مجید کی آیات کی تعداد کے برابر ہیں. قیامت برپا ہونے پر قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا: پڑھو اور اوپر جاؤ (ارتقاء حاصل کرو) وہ ہر آیت کی تلاوت پر ایک درجہ اور بلندی حاصل کرے گا…[13]
امام جعفر صادق (ع) قرآن مجید کی تلاوت کے بعد یوں دعا کرتے تھے: خدایا مجھے ان لوگوں میں قرار دے جنہیں تو ہر آیت (کی تلاوت) کے ذریعے عالی ترین مقام تک اوپر لے جاتا ہے.[14]
ان احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت انسان کے معنوی مقامات و درجات کو بلند کرتی ہے. یہ مقامات، وضعی اور اعتباری درجات جیسے نہیں ہیں بلکہ یہ انسان کی روح کے اندر کی ایک حقیقت ہے جس کے نتیجے میں انسان خداوند متعال کا خاص فیض حاصل کرنے کے لائق بنتا ہے. یہ حقیقت ہمیشہ انسان کے ہمراہ ہوتی ہے. اس حقیقت کی حفاظت کرنے کی صورت میں انسان اس درجے سے کبھی محروم نہیں ہوتا.
امام (ع) نے فرمایا: بہشت کے درجات کی تعداد، قرآن مجید کی آیات کے برابر ہے.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید بذات خود بہشت کے درجات کا معیار ہے اور انسان کے مقامات و درجات کی بنیاد جو بھی ہو، انہیں اسی معیار پر پرکھا جائے گا اور بنیادی طور پر انسان کے دوسرے اعمال کی قدر و منزلت بھی اسی بات پر مبنی ہے کہ وہ قرآن مجید کی آیات سے مطابقت رکھتے ہوں.
انسان کے معنوی درجات کے ارتقاء میں تلاوت قرآن اور حفظ قرآن کے اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ بعض احادیث میں قاری کا معنوی مقام اس شخص کے مانند بیان ہوا ہے جو نبوت و پیغمبری کے مقام تک پہنچا ہو.
قبولیت دعا میں قرآن مجید کی تلاوت کا اثر
دل کو گناہ کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی صورت میں قرآن مجید اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان خلوص اور نیک نیتی سے خداوند متعال کی طرف رجوع کرے. یہ امر یعنی شرک اور گناہ کی آلودگیوں سے پاک ہونا اور خداوند متعال کی طرف دل سے رجوع کرنا، دعا کی قبولیت کی ضروری شرط ہے، اور اس حالت میں، بندہ اور خدا کے درمیان حائل پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں اور انسان کی آواز میں قبولیت دعا کی قابلیت پیدا ہوجا تی ہے.
امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: جو کوئی قرآن مجید کی سو آیتوں کو جہاں سے بھی چاہے پڑھے اور اس کے بعد سات مرتبہ ”یا اللہ“ کہے اور ایک بہت بڑے پتھر کو اپنی جگہ سے اٹھانے کے لئے دعا کرے تو انشاء اللہ اسے اپنی جگہ سے اٹھا لے گا.[15]
امام حسن (ع) فرماتے ہیں: جو قرآن مجید کی تلاوت کرے تو اس کی ایک دعا فوراً یا تاخیر کے ساتھ مقبول ہے.[16]
امام محمد باقر (ع) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: پانچ مواقع پر دعا کو غنیمت سمجھو: قرآن مجید کی تلاوت کے دوران، اذان کے دوران، بارش کے دوران، دو فوجوں (لشکرِ کفر و ایمان) کے درمیان شہادت کے لئے ٹکراؤ کے دوران اور مظلوم کی دعا کے دوران، کہ اس وقت عرش سے پردہ اٹھا لیا جاتا ہے.[17]
قرآن مجید کی تلاوت اس امر کا بھی سبب بنتی ہے کہ بندہ، خدا کے لطف و کرم کو اس قدر اپنی طرف متوجہ کر لے کہ خداوند متعال سوال کئے بغیر اس کی ہر ضرورت کو پوری کر دے.
خداوند متعال نے حدیث قدسی میں فرمایا ہے: قرآن مجید کی تلاوت، جسے بھی دعا کرنے اور مجھ سے مانگنے سے باز رکھے، میں اُسے شکر گزاروں کی سب سے بڑی اجرت عطا کروں گا.[18]
قرآن مجید کی تلاوت کے دنیوی آثار و برکات
خداوند متعال نے اپنی وسیع، ہمہ گیر اور لامتناہی رحمت کے تقاضے کے مطابق اپنے بندوں کے لئے اپنی رحمت کے تمام اسباب اور وسائل پیدا اور مہیّا کر رکھے ہیں. یہ جو بعض اوقات بندے نسیم رحمت الٰہی سے محروم رہ جاتے ہیں، یہ ان کے گناہ اور نافرمانی کا نتیجہ ہے. پس اگر گناہ کم ہوں تو رکاوٹیں دور یا کم ہوجاتی ہیں اور نزول رحمت کے اسباب فراہم ہو جاتے ہیں.
قرآن مجید کی تلاوت فرد اور معاشرے کی سطح پر گناہ کے عوامل کے کمزور ہونے اور ایمان و تقویٰ میں بالیدگی پیدا ہونے کا سبب بنتی ہے. یہ امر نزول رحمت کے موانع برطرف ہونے اور خداوند متعال کی رحمت و برکات نازل ہونے کا موجب بن جاتا ہے.
اس کے علاوہ گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا اہل خانہ پر برکات نازل ہونے کا سبب بنتی ہے. اس سلسلے میں اہل بیت اطہار (ع) سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں. ہم یہاں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں.
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: قرآن مجید سے اپنے گھروں کے لئے استفادہ کرو، کیونکہ اگر کسی گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو وہ اہل خانہ کے لئے آسانی کا سبب بنتی ہے. اس گھر میں خیر فراواں اور ساکنین کی تعداد زیادہ ہوگی. اگر کسی گھر میں قرآن مجید کی تلاوت نہ کی جائے تو وہ گھر اہل خانہ کے لئے تنگ اور اس کا خیر کم ہوجاتا ہے اور اس گھر کے افراد کی تعداد گھٹنے لگتی ہے.[19]
امیرالمؤمنین علی (ع) فرماتے ہیں: جس گھر میں قرآن پڑھا جاتا اور خدا کا ذکر کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں. شیاطین اس گھر سے بھاگتے ہیں اور وہ گھر اہل آسمان کو روشنی بخشتا ہے جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو روشنی بخشتے ہیں. بیشک جس گھر میں قرآن کی تلاوت نہ ہوتی ہو اور اس میں خدا کو یاد نہ کیا جاتا ہو تو اس کی برکت کم ہوجاتی ہے، فرشتے اس سے دور بھاگتے ہیں اور اس میں شیاطین حاضر ہو جاتے ہیں.[20]
ان احادیث کی روشنی میں واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اہل خانہ کے لئے معنوی سکون اور دین و ایمان کی تقویت کا باعث ہے. یہ بذات خود گھریلو نظام کی بقاء کا ایک سبب ہے کیونکہ یہ گھر کے افراد کے درمیان الفت پیدا کرتی ہے اور انہیں زندگی کی مشکلات کے مقابلے میں مضبوط بناتی ہے.
امام موسیٰ کاظم (ع) فرماتے ہیں: جو کوئی قرآن مجید کی ایک آیت کے ذریعے مشرق سے مغرب تک تحفظ و کفایت طلب کرے تو وہ اس کے لئے کافی ہے بشرطیکہ یقین کے ساتھ ہو.[21]
بحث کا نتیجہ
اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث کے مطابق قرآن مجید کی تلاوت کی فضیلت اور اس کے آثار معنوی اور مادی، انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی میں، نزول برکات میں قرآن مجید کی تلاوت کا اثر ایک مسلّمہ امر ہے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں. چنانچہ بعض احادیث میں ان اثرات کی نوعیت تک کی طرف اشارہ ہوا ہے.
حوالہ جات
[1]. حرعاملی، وسائل الشیعہ، ج٢، ص١٨٦.
[2]. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ص٢٢٢.
[3]. کلینی، اصول کافی، ج٢، ص٦٠٩.
[4]. مجلسی، بحارالانوار، ج٨٩، ص٢٠٤.
[5]. حرعاملی، وسائل الشیعہ، ج٦، ص١٩١.
[6]. حرعاملی، وسائل الشیعہ، ج٦، ص١٩٧.
[7]. قرآن مجید کے اوصاف کی بحث میں پیغمبر خدا کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: دلوں کو لوہے کے مانندزنگ لگ جاتا ہے. سوال کیا گیا: اے رسول خدا! دل کی جلا کیا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: قرآن کی تلاوت اور موت کی یاد (ملاحظہ ہو یہی کتاب).
[8]. کلینی، کافی، ج٢، ص٦٠١.٦٠٢.
[9]. کلینی، الکافی، ج٢، ص٦١٣.
[10]. کلینی، الکافی، ج٢، ص٦١٢.
[11]. حرعاملی، وسائل الشیعہ، ج٦، ص١٩١.
[12]. مجلسی، بحار الانوار، ج٨٩، ص١٩٨.
[13]. مجلسی، بحارالانوار، ج٦٦، ص٣٧٠. وسائل الشیعہ، ج١٥، ص٢٠٠.
[14]. مجلسی، بحارالانوار، ج٨٩، ص٢٠٧.
[15]. صدوق، ثواب الاعمال، ص١٠٤، یہی مضمون امام صادق سے بھی نقل ہوا ہے. دیکھئے: شیخ طبرسی: مکارم الاخلاق، ص٣٤٣.
[16]. مجلسی، بحار الانوار، ج٩، ص٣١٣.
[17]. صدوق، مالی، ص٣٣٧.
[18]. مجلسی، بحارالانوار، ج٨٩، ص٢٠٠.
[19]حرعاملی، وسائل الشیعہ، ج٦، ص٢٠٠
[20]کلینی، الکافی، ج٢، ص٦١٠.
[21]کلینی، الکافی، ج٢، ص٦٢٣.
فہرست منابع
- حرعاملی، محمد بن الحسن، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت، قم، 14116ہجری قمری.
- ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، موسسہ النشر الاسلامی، قم، 1404 ہجری قمری.
- کلینی، ابو جعفر محمد بن یعقوب، اصول کافی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1407ہجری قمری.
- مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، موسسہ الوفا، قم، 1403 ہجری قمری.
- صدوق، ابن بابویہ محمد بن علی، ثواب الاعمال، دار الشریف الرضی، قم، 1406 ہجری قمری.
- صدوق، ابن بابویہ محمد بن علی، امالی، کتابچی، تہران، 1376ش
مضمون کا مآخذ (ترمیم اور تلخیص کے ساتھ)
ترابی، مرتضی، اہل بیت کی قرآنی خدمات، ترجمہ سید قلبی حسین رضوی، مجمع جهانی اہل البیت، قم، ج1، ص 97 تا 120، 1442 ہجری قمری.