- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : محقق نمبر تین
- 2024/11/23
- 0 رائ
اسلامی قوانین چاہے جتنے بھی روشن و واضح ہوں پھر بھی ان کی توضیح و تفسیر ضروری ہے۔ حتیٰ وہ بھی جو پیغمبر اکرم (ص) کی زبان سے نقل ہوئے ہیں، توضیح و تفسیر سے مستثنٰی اور بے نیاز نہیں ہیں۔ قرآن و سنت میں کئی ایسے ابہام ہیں جس کے لئے ایک صحیح مفسر اور دین شناس معصوم عن الخطا امام کا موجود ہونا لازمی امر ہے۔
کیا اسلام کے ابدی و جاودانی قوانین، جو کہ قرآن و سنت کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ ہیں، کو ایسے کسی پیشوا کی ضرورت نہیں ہے جو پیغمبر اکرم کے علوم کا وارث ہو اور اختلاف کے موارد میں سب کے لئے حجت ہو؟ اور کیا اختلافات دور کرنے، فاصلوں کو کم کرنے اور اسلامی اتحاد بر قرار کرنے کے لئے ایسے جانشین کا تعین لازم و ضروری نہیں تھا؟
عمر کو دور خلافت میں ایک اختلافی مسئلہ
عمر کی خلافت کے دوران ایک شخص نے اسلامی عدالت میں شکایت کی کہ میری بیوی کے یہاں چھ ہی مہینے میں بچہ پیدا ہو گیا ہے۔ قاضی نے حکم دے دیا کہ لے جاؤ اس عورت کو اور سنگسار کر دو۔ راستے میں اس عورت کی نگاہ حضرت (ع) پر پڑی اس نے چیخ کر کہا: اے ابو الحسن میری فریاد کو پہنچئے۔ میں ایک پاک دامن عورت ہوں اور میں نے اپنے شوہر کے علاوہ کسی سے قربت نہیں کی ہے۔
حضرت (ع) جب واقعے سے آگاہ ہوئے تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قاضی نے فیصلہ قرآن و سنت کے خلاف کیا ہے۔ آپ (ع) نے ماموروں سے مسجد واپس چلنے کو کہا اور مسجد میں جا کر خلیفہ سے پوچھا کہ تم نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے؟ خلیفہ نے کہا کہ شوہر سے اس عورت کی قربت کو صرف چھ ماہ گزرے ہیں۔ کیا کہیں چھ مہینے میں بچہ پیدا ہوتا ہے؟ حضرت (ع) نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا جس میں آیا ہے ”وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا“[1]۔
یعنی اس کا حمل اور دودہ پلانے کا زمانہ تیس ماہ ہے۔ خلیفہ نے جواب دیا درست ہے۔ پھر حضرت علی نے فرمایا: کیا قرآن نے دودہ پلانے کا زمانہ دو سال نہیں معین کیا ہے، کہ ارشاد ہوتا ہے: ’’وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ“[2]۔ یعنی مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودہ پلائیں۔ خلیفہ نے جواب دیا: سچ فرمایا: اس پر حضرت علی نے فرمایا: کہ اگر دودہ پلانے کے چوبیس مہینوں کو تیس مہینوں سے کم کرو تو چھ ہی ماہ باقی رہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملگی کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے اور عورت اس مدت میں سالم بچہ پیدا کر سکتی ہے۔
حضرت امیر المومنین علی (ع) نے دو آیتوں کو باہم ضمیمہ کر کے ایسا قرآنی حکم استنباط کیا جس سے اصحاب واقف نہیں تھے۔ اب کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اس الٰہی کتاب، قرآن مجید کی وضاحت کے لئے جو ایک جاوید رہنما اور ابدی قانون کی حیثیت رکھتی ہے، اپنے بعد کوئی اقدام نہیں فرمایا ہے؟
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ قرآن و سنت میں ایسے نادر مسائل میں اختلاف سے، جو انسانی زندگی میں بہت کم پیش آتے ہیں، پورے اسلامی معاشرے کے اتحاد کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا، تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ قرآن و سنت کے، اختلاف اس طرح کے نادر مسائل سے مخصوص نہیں ہیں۔
بلکہ یہ اختلاف مسلمانوں کے روز مرہ اور بنیادی فرائض و وظائف سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر روز کے مسائل میں مسلمانوں کے اختلاف و تفرقہ سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔ اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے سارے مسائل میں اختلافات سے مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی پر کوئی ضرب نہیں پڑتی ہے۔
قرآن مجید نے سورہ مائدہ آیت نمبر چھ میں وضو کرنے کی کیفیت مسلمانوں سے بیان کی ہے۔ اور صدر اسلام میں مسلمان ہر روز اپنی آنکھوں سے پیغمبر اسلام (ص) کو وضو کرتے ہوئے دیکھتے تھے، لیکن پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد قرآن و سنت دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلے اور علماء کے اوپر قرآنی آیات میں اجتہاد و تفکر کا دروازہ کھلا اور فقہی احکام سے متعلق آیات پر رفتہ رفتہ بحث و تحقیق ہوئی۔
لیکن سر انجام کیفیت وضو سے متعلق آیت اور پیغمبر کی سنت کو سمجھنے میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ اور آج یہ اختلاف باقی اور رائج ہے۔ کیوںکہ شیعہ علماء اپنے ہاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے ہیں اور پیروں کا مسح کرتے ہیں لیکن علمائے اہل سنت ان کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ہیں۔
امامِ معصوم عن الخطا کی معاشرے میں موجودگی
اگر امت کے درمیان ایک ایسا معصوم اور تمام اصول و فروع سے آگاہ رہبر موجود ہو، کہ سب کے سب اس کی بات تسلیم کریں، اور اس کی پیروی کرتے ہوں تو قرآن و سنت میں ہر گز ایسا اختلاف جو مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دے پیش نہیں آئے گا۔ اور پورا اسلامی معاشرہ اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دہی میں یک رنگ و یک شکل ہو جائے گا۔
قرآن و سنت کی تفسیر میں اختلاف
اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ہاتھ کاٹنے کا قانون ہے جو اپنی شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقہی کتابوں میں درج ہے ابھی ابھی دو تین صدی پہلے تک، جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن و سنت سے حاصل کرتی تھیں۔ اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نہیں پہنچے تھے، چور کی تنہا سزا اس کا ہاتھ کاٹنا تھی۔ لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ہے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلے میں ایک نقطہ پر متحد نہیں ہو سکے۔
معتصم عباسی کا دور اور اختلافی مسئلہ
معتصم عباسی کے زمانے میں جبکہ ہجرتِ پیغمبر اکرم (ص) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے، علماء میں اسلام کے درمیان ہاتھ کاٹنے سے متعلق قرآن و سنت کی تشریح میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ وہ لوگ یہ طے نہیں کر پارہے تھے کہ چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹنا چاہئے۔ ایک کہتا تھا: ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کہتا تھا: ہاتھ کہنی سے کاٹا جائے گا۔ تیسرا کہتا تھا: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آخر کار خلیفہ وقت نے، جو کہ شیعوں کے نویں امام محمد تقیؑ کے علمی و اخلاقی فضائل سے خوب واقف تھا، سے بھی دریافت کیا۔ آپ (ع) نے فرمایا: چور کے ہاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی۔ جب آپ (ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ہے تو آپ (ع) نے فرمایا کہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے: وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا“[3]۔ سجدے کی جگہیں خدا کے لئے ہیں اور اس سے متعلق ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ہتھیلی بھی ہے جسے سجدے کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ہے اور جو چیز خدا سے متعلق ہو اسے کاٹا نہیں جا سکتا۔
اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن و حدیث شناس موجود ہو جو قرآن و سنت کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجا و مرکز قرار پائے، اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاہر ہے کہ بہت سے اختلافات آسانی سے دور ہو جائیں گے اور امت ایک ہی سمت میں ایک ہی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔ نہ مسلمانوں کا قیمتی وقت ضائع ہوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریز اختلاف اور ٹکراؤ پایا جائے گا۔
قرآن مجید ہر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ہے۔ اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نہیں کر سکتی۔ اگر دوسرے ماخذ میں باہم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باہم ٹکراو رکھتی ہوں تو ہم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ہوگی۔
لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آیتیں ایک جیسی ہیں اور کیا قرآن و سنت میں سرے سے کوئی ایسی بات ہے ہی نہیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ہو؟ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو قرآن و سنت سے زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن و سنت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ صحیح ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ہیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ہوتی ہیں اور وہ قرآنی آیات بھی جو مبہم ہیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ہو جاتی ہیں۔
امام علی (ع) بھی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ہیں: ”كِتابُ اللَّهِ تُبْصِرُونَ بِهِ، وَ تَنطِقُونَ بِهِ، وَ تَسْمَعُونَ بِهِ، وَ يَنْطِقُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ، وَ يَشْهَدُ بَعْضُهُ عَلى بَعْضٍ“، اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ہیں جو یا نزول کے وقت سے ہی مبہم ہیں یا زمانہ وحی سے دوری کی وجہ سے مبہم ہوگئی ہیں۔ اس قسم کی آیات چاہے ان کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو کیسے حل کی جا سکتی ہیں؟
کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکزی شخصیت موجود نہیں ہونی چاہئے جو اس قسم کی آیات کا ابہام دور کر کے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں؟
حضرت علی (ع) نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انہیں یہ حکم دیا تھا کہ: ”لَا تُخَاصِمْهُمْ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّ الْقُرْآنَ حَمَّالٌ ذُو وُجُوهٍ تَقُولُ وَ يَقُولُونَ“ یعنی ان سے ہرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا، کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ہیں۔ تم ان سے بعض آیات سے استدلال کرو گے اور وہ تمہیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔
یہ مسلم ہے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نہیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پہلو والی ہیں، اور بظاہر روشن و واضح نہیں ہیں اور ان کا مفہوم و مفاد قطعی نہیں ہے۔
اس اعتبار سے امت کے درمیان ایک امامِ معصوم کا وجود جو اسلام کے اصول و فروع سے پوری طرح آگاہ ہو، قرآن کریم کے علوم پر کامل تسلط رکھتا ہو اور امت کے درمیان ایک علمی و فکری پناہگاہ ہو، اختلافات دور کرے اور اس کی بات فیصلہ کن ہو، لازم و ضروری ہے ورنہ دوسری صورت میں اختلافات بڑھتے جائیں گے۔ بلکہ بعض احکام اور قرآنی آیات کی تفسیر غلط کی جائے گی جو مسلمانوں کے قرآنی حقائق سے دور ہو جانے کا باعث ہوگی۔
ہشام ابن حکم کا مناظرہ
ہشام، امام جعفر صادق کے زبردست شاگرد اور دوسری صدی ہجری میں علم مناظرہ اور علم کلام کے استاد تھے۔ انہوں نے امت کے درمیان اختلاف دور کرنے اور صحیح فیصلے کے لئے امام کے وجود کی ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ نے ایک روز فرقہ معتزلہ کے سردار اور بصرہ کے پیشوا ’’عمرو بن عبید‘‘ سے امت کے درمیان امام معصوم کے وجود کی ضرورت پر بحث شروع کی اور اس سے درخواست کی کہ میرے سوالوں کے جواب دو۔ عمرو بن عبید نے بھی قبول کیا۔ ہشام نے پوچھا:
تمہاری آنکھ ہے؟
ہاں۔
اس سے کیا کام لیتے ہو؟
اس سے لوگوں اور چیزوں کو دیکھتا ہوں اور رنگوں کی تشخیص دیتا ہوں۔
تمہارے کان ہیں؟
ہاں؟
اس سے کیا کام لیتے ہو؟
اس سے آواز سنتا ہوں۔
تمہاری ناک ہے؟
ہاں۔
اس سے کیا کام لیتے ہو؟
اس سے بو سونگھتا ہوں۔
اس کے بعد ہشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمرو بن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔
پھر ہشام نے پوچھا: تمہارا دل ہے؟ ہاں، انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ہے؟ عمرو بن عبید نے جواب دیا کہ جو کچھ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ہیں قلب کے ذریعے انہیں تشخیص دیتا ہوں۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ہے، یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ہوتا ہے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے شک کو دور کردیتا ہے۔
اس وقت ہشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ہوئے کہا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضاء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناہ گاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی معاشرے کو یوں ہی اس کے حال پر چھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رہبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک، حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے![4]۔
امام جعفر صادق (ع)، جانشین پیغمبر (ص) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ہے جو الٰہی احکام کو ہر طرح کے گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے۔[5]۔ ہشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق (ع) کی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرے کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ہر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ہے؟
اس نے کہا: ہاں! اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (ص) کی سنت یعنی ان کی احادیث ہیں۔ ہشام نے پوچھا: کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ہیں؟ اس نے جواب دیا ہاں! تو ہشام نے کہا اگر کافی ہیں تو پھر ہم دونوں جو ایک مذہب رکھتے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں، آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟ اور ہم میں سے ہر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ہے جو دوسرے کے خلاف ہے؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔[6]۔
نتیجہ
اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس اور مفسر امام موجود ہو، جو قرآن و سنت کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہی رکھتا ہو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجا و مرکز قرار پائے، اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں، تو ظاہر ہے کہ بہت سے اختلافات آسانی سے دور ہو جائیں گے اور امت ایک ہی سمت میں ایک ہی مقصد کے ساتھ قدم بڑھے گی۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ: احقاف، آیت ۱۵۔
[2]۔ سورہ: بقرہ، آیت ۲۳۲۔
[3]۔ سورہ: جن، آیت ۱۸۔
[4]۔ کلینی، اصول کافی، ج ۱، ص ۱۷۰۔
[5]۔ کلینی، اصول کافی، ج ۱، ص ۱۷۲۔
[6]۔ کلینی، اصول کافی، ج ۱، ص ۱۷۸۔
فہرست منابع
۱۔ قرآن کریم۔
۲۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الاصول من الکافی، تھران، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ھ ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، پانچویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔