مہجوریت قرآن(۳)

مہجوریت قرآن(۳)

2023-01-03

180 بازدید

”دعوت مطالعہ“
قرآن کریم کا مقصد اور نصب العین نوع بشر کی ہدایت اور معنوی تکامل ہے۔ قرآن کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں فزکس، کیمسٹری، فلکیات وغیرہ سے بحث کی جائے یا سائنسی نظریات بیان کئے جائیں تاہم قرآن مجید نے بعض موارد میں اس کائنات اور اس کے اندر موجود اسرار و رموز کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ان میں سے چند موارد کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کہ یہ کائنات اور اس کے اندر موجود ساری موجودات (کتاب تکوین) بھی اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہیں اور قرآن کریم نے کتاب تکوین کی مطالعے اور غوروفکر کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے کائنات اور تمام مخلوقات کے اندر غور و فکر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت کا ضامن ہے وہ آیات جن میں مظاہر فطرت کی تحقیق اور مطالعے کی دعوت دی گئی ہے ان میں سے بعض آیات درج ذیل ہیں۔
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقُ(عنکبوت:۲۰)
” آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح ابتداء سے خلق کیا “
قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (یونس:۱۰۱)
آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو اور دیکھو کیا کیا چیزیں ہیں آسمانوں اور زمینوں میں“
فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ(طارق: ۵)
دیکھنا چاہیے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے“
وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ o وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ o وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ o فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ o لَسْتَ عَلَیْہِمْ ِمُصَیْطِرٍ o اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ o فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ o اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَہُمْ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَہُمْ o(الغاشیہ: ۱۷،۲۶)
” کیا اونٹ کو نہں دیکھتے کہ کس طرح عجیب طور پر خلق کیا گیا ہے اور آسمانوں کو نہیں دیکھتے کیونکر بلند کئے گئے اور پہاڑوں کی طرف، کہ وہ کیونکر گاڑے گئے اور زمین کی طرف، کہ اسے کس لئے بچھائی گئی ہے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا مطالعہ فطرت کی دعوت دی جا رہی ہے ایک تحقیق کے مطابق ۷۵۰ سے زیادہ آیات میں کائنات اور مخلوقات خداوندی کے بارے میں غورو فکر کرنے، تحقیق و مطالعہ کی تاکید کی گئی ہے۔“
مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کائنات اور مظاہر فطرت کے بارے میں تحقیق کرنا اور ان تحقیقات کے نتیجے میں مختلف علوم کو پروان چڑھانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ آسمانوں کے مطالعے کی دی گئی ہے اگر اس موضوع پر تحقیق کرتے تو علم نجوم وفلکیات وجود میں آتے، زمین کے مطالعے کی دعوت سے علم الارض وجود میں آتا۔ جانوروں کے مطالعے سے علم الحیوان وجود میں آتا، اسی طرح سے سینکڑوں موضوعات ہیں جن میں تحقیق، غور و فکر کی براہ راست دعوت دی گئی ہے عقل وفکر کو بروئے کار لانے کا حکم دیا ہے۔ بنابریں ان آیات کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ فریضہ بنتا تھا کہ وہ خالق کائنات کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کائنات کی مطالعے میں لگ جاتے اور جس کے نتیجے میں تمام اختراعات ایجادات اور انکشافات کے مالک مسلمان ہوتے۔ جدید سے جدید ترین ٹیکنالوجی مسلمانوں کی طرف سے یورپ میں صادر ہوئے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان انہی آسمانی کتاب کی تعلیمات سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے صورت حال اس کے برعکس ہو گیا ہے۔
غیروں نے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ترقی وتمدن کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا اور مسلمان قرآنی تعلیمات کی طرف سے عدم توجہ کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ سائنسی پیشرفت اور ٹیکنالوجی میں اہل یورپ کے دست نگر بن گئے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی اقتصادی دیگر امور می فیصلوں کے حق سے محروم ہو گئے۔ اپنے جائز اور بنیادی حقوق کے لئے ان کے آگے جھولی پھیلانے پر مجبور ہوئے۔ سیاسی، اقتصادی خودمختاری ان سے چھن گئی۔
امیر المومنین نے اس خطرے کی نشاندہی کر دی تھی۔ فرمایا:
اللّٰہ اللّٰہ فی القرآن لا یبقکم بالعمل بہ غیرکم۔ (نہج البلاغہ:۴۷)
” قرآن کے بارے میں ڈرتے رہنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں“
و کان من آیاتہ فی السموٰت والارض یمرون علیہا وهم عنہا معرضون۔(یوسف:۱۰۵)
”اور بہت سی نشانیاں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے“
مسلمان آج جس ذلت اور خواری میں مبتلا ہیں اس کا اصل سبب قرآن سے ان کا رشتہ اور تعلق کا ہونا ہے ترقی کی دوڑ میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا اصل سبب ان کے قرآن کے ساتھ ریاکاری ہے کیونکہ مسلمان زبانی طور پر قرآن کو بڑی اہمیت دیتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں قرآن کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔
رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے اس موضوع کے بارے میں پڑھئیے۔
” ذرا مسلمانوں کی عملی زندگی کی طرف توجہ کیجئے ان کا قرآن کے ساتھ کیا رشتہ ہے کیا آپ کو مسلمانوں کی سیاسی اداروں میں قرآن کی معمولی جھلک نظر آتی ہے؟ کیا مسلمانوں کے اقتصادی اداروں میں اور ان کے اقتصادی مذاہب میں قرآن کی خوشبو ہے؟ کیا مسلمان اپنے بھائیوں کے ساتھ روابط کے حوالے سے قرآن سے رجوع کرتے ہیں؟ اور مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ کیسا رابطہ ہونا چاہیے اس کے بارے میں قرآن سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ کیا ان کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں قرآن کے لئے کوئی مقام ہے؟ کیا اسلامی ممالک غیر مسلم ممالک کے ساتھ روابط اور دوستی قائم کرتے وقت قرآنی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا مسلمان قومی دولت و ثروت کو قوم کے مختلف طبقوں میں تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میں قرآن سے راہنمائی لیتے ہیں؟ کیا ہمارے حکمران رفتار کردار، اخلاق، رہن سہن، محافل ومجالس میں قرآنی احکام پر کاربند نظر آتے ہیں؟ کیا مسلمان حکمرانوں کی نجی زندگی میں قرآن کا کوئی حص ہے؟ ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ جتنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ نے قرآن سے تمسک کرنے اور قرآنی سانچے میں ڈھلنے کی تاکید فرمائی ہے اتنا ہی مسلمان قرآن سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں“
”آج سے سو سال قبل عظیم مصلح اور مفکر اسلام سید جمال الدین افغانی اس بات پر خون کے آنسو روتے تھے کہ نام نہاد مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ کیا کیا ظلم روا رکھا ہے، کیونکہ اسے اصل مقصد سے ہٹا کر گفٹ کے طور پر دینے، لائبریریوں کی زینت بنانے، قبور پر فاتحہ خوانی کے کام میں لایا جاتا ہے اور آخر کار طاق نسیان میں نفیس غلاف چڑھا کر رکھ دیا جاتا ہے“
اہل تشیع و تسنن اور قرآن
مفسر کبیر علامہ محمد حسین طباطبائی نے قیل کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرمایا:
ان اہل السنة اخذ والکتاب وترکوا العترة وترکوا الکتاب لقول النبی انہما یفترفا وان الشیعہ اخذوا العترة وترکوا الکتاب قال ذلک من ہم الی ترک العترة لقولہ ان ہما لس یفترفا فترکت الامة الکتاب والعترة معاً۔
”اس پیرا گراف کا مفہوم یہ ہے کہ اہل سنت نے قرآن کو اخذ کیا اور عترت رسول کو ترک کر دیا، جس کے نتیجے میں دامن قرآن بھی ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی کیونکہ آنحضور نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں (قرآن وعترت) کبھی جدا نہیں ہوں گے اور شیعہ حضرات نے عترت رسول کو لیا اور قرآن کو چھوڑ دیا اس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ سے عترت رسول کا دامن بھی چھوٹ گیا کیونکہ آنحضور نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے۔ بنابرایں اس طرح سے گویا پوری امت مسلمہ نے قرآن اور عترت دونوں کو چھوڑ دیا ہے“
یہ یاد رہے کہ مندرجہ بالا مطالب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے قرآن وعترت کا انکار کیا کیونکہ نہ ہی اہل سنت مقام وشرف وعظمت اہل بیت اطہار کے منکر ہیں اور نہ شیعہ کلام اللہ مجدی کے (نعوذ باللہ) منکر ہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے۔ بلکہ یہ دونوں جنہیں رسول اللہ نے ثقل اصغر اور ثقل اکبر سے تعبیر کیا تھا اور دونوں کے ساتھ بیک وقت متمسک رہنے کی بہت تاکید فرمائی تھی اسے مسلمانوں نے فراموش کر دیا ہے اور ان دونوں کو مسلمانوں کے نذدیک جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا اور مسلمانوں نے ان کا حق ادا نہیں کیا، شیعہ میں سے بعض حضرات مجالس ومحافل پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور ان سے جو کچھ سننے کو ملتا ہے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ ان کی مثال اس مریض کی سی ہے جو حاذق ڈاکٹر کو تلاش کرنے میں تو کامیاب ہو تے ہیں مگر اس کے نسخوں کو کام میں نہیں لاتے۔ جب تک معصومین کے فرامین پر عمل پیرا نہیں ہوں گے وہ نہ قرآن کا حق ادا کرسکتے ہیں اور نہ اہل بیت اطہار کا اور اہل سنت کی مثال اس مریض کی سی ہے جو طبیب کی تلاش میں دور دور کی مسافت طے کرکے اس طبیب سے رجوع کرتا ہے جو کہ راسخون فی العلم نہیں ہے۔ بنابر ایں دونوں کے مرض میں افاقہ کا امکان نہیں ہے۔
امام زمانہ اور قرآن
امیرالمومنین امام زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
یحیی میت من الکتاب والسنة۔
” وہ (امام زمانہ) جب ظہور فرمائے گا آپ مردہ قرآن و سنت کی احیاء فرمائیں گے“
رسول اللہ فرماتے ہیں:
انہ شافع مشفع و ماحل مصدق
”قرآن شفاعت کرے گا تو اس کی شفاعت قبول کی جائے گی (اس کے بارے میں جو اس پر عمل کرے گا) اور قرآن لوگوں کی برائیوں کے بارے میں بھی بتائے گا تو اس کی تصدیق کی جائے گی“
قرآن غیروں کی نگاہ میں
جان ژاک روسو:
فرانس کے ایک مشہور دانشور کہتے ہیں: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اے قرآن لانے والے، آوٴ ہمارے ہاتھوں کو تھام لو، باغ، چمن، صحرا وبیاباں جہاں تو چاہے لے جاؤ، اگر تو ہمیں بلا اور مصائب کے سمندر میں لے جاؤ تو بھی ہم تیار ہیں کیونکہ تو ہماری زندگی وحیات کے بارے میں خوب جانتا ہے“
پرنس جاپانی بودگیز:
اسٹالب کے ایک موٴرخ لکھتے ہیں:
”جونہی مسلمانوں نے قرآن کی پیروی اس کا مطالعہ اور اس کے قوانین پر عمل پیرا ہونے میں سستی کی ہے سعادت اور خوش بختی جہان بانی اور ریاست کا فرشتہ ان سے دور ہو گیا ہے اور وہ عزت، قدرت، خوشحالی اور عظمت اور بندگی نے لی ہے اور دشمنوں نے ان کے معاشرے کے گرد گھیرا تنگ کیا اور آج اس ناگفتہ بہ حالت میں لا کھڑا کر دیا ہے“
واکسٹن آف اسکاٹ لینڈ:
کافی عرصے سے حقیقت کی تلاش تھی یہاں تک کہ اس حقیقت کو میں نے اسلام کے اندر پایا، پھر قرآن کو پایا اس کا مطالعہ شروع کیا، یہی قرآن ہی تو ہے جس نے میرے ذہب میں ابھرنے والے تمام سوالوں کا جواب دیا قرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ انسان کے دل میں خوف خدا جانگزین کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ جو کچھ اس میں تحریر ہے وہ صحیح ہے۔
فرانس کے سابق مقتدر بادشاہ ناپلیئون :
کہتے ہیں کہ:
”صرف اور صرف قرآن بشر کی سعادت کا ضامن ہے میں امیدوار ہوں کہ وہ زمانہ دور نہیں کہ میں پوری دنیا کے دانشمندوں کو متحد کروں اور ایک ہم آہنگ نظام قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصولوں پر مبنی نظام دنیا میں رائج کر کے انسانیت کو سعادت اور خوش بختی کی طرف راہنمائی کروں“
ہنری کاربن:
فرانس کے ایک مشہور فلسفی کاکہنا ہے:
اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افکار خرافات ہوتے اور قرآن وحی نہ ہوتی تو بشر کو علم ومعرفت کی دعوت ہر گز نہ دیتے۔ کسی انسان یا کسی مکتب نے محمد اور قرآن کی طرح علم ومعرفت کی طرف دعوت نہیں دی قرآن میں ۹۵۰ مرتبہ علم وفکر وتعقل کے بارے میں گفتگو موجود ہے“
بقول علامہ اقبال:
نقش قرآن در این عالم نشست
نقشہائے کانہاں تاپا شکست
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتاب نیست چیزی دگر است
چوں بجاں رفت جان دگر شود
جان چو دگر شد جہاں دگر شود
منابع:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ نہج البلاغہ
۳۔ بحارالانوار
۴۔ کنزالعمال
۵۔ آشنائی با واژہ ہائے قرآن
۶۔ وسائل الشیعہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے