- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
مولف: آیة اللّٰہ العظمی الخوئی
جب فضیلتِ قرآن کی بات آئے تو بہتر هے کہ انسان توقف اختیار کرے، اپنے آپ کو قرآن کے مقابلے میں حقیر تصور کرے اور اپنی عاجز ی اورناتوانی کا اعتراف کرے، اس لیے کہ بعض اوقات کسی کی مدح میں کچھ کہنے یا لکھنے کی بجائے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کر لینا بہتر هوتا هے جو انسان عظمت قرآن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاهے بھلا وہ کیا کہہ سکتا هے ؟ یہ کیسے هو سکتا هے کہ انسان (جو ایک ممکن اور محدود چیز هے) لامتناہی ذات کے کلام کی حقیقت کا ادراک کر سکے اور اپنے مختصر اورمحدود ذہن میں اسے جگہ دے سکے ۔
انسان میں وہ کون سی طاقت هے جس کی بدولت وہ اپنے محدود اور ناقص ذہن میں قرآن کی حقیقی قدروقیمت، منزلت اور حیثیت بٹھا سکے اور پھر بیان کر پائے ۔ ایک اہل قلم چاهے کتنا ہی مضبوط هو فضیلت قرآن کے سلسلہ میں لکھ ہی کیا سکتا هے اور ایک خطیب چاهے وہ کتنا ہی شعلہ بیاں هو، زبان سے کیا ادا کر سکتا هے ۔ ایک محدود انسان محدود چیز کے علاوہ کسی لامحدود ہستی کی توصیف کیونکرکر سکتا هے؟
قرآن کی عظمت کے لیے اتنا کافی هے کہ یہ خالق متعال کا کلام هے ۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی هے کہ یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ هے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں ۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا هے اور سعادت کی ضمانت دیتا هے ۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں ۔ ارشاد هوتا هے :
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِيْلِلَّتِی ھِيَاَقْوَمُ۔ (سورہ بنی اسرائیل : ۹ )
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا هے جو سب سے زیادہ سیدھی هے ۔
الٓرٰ کِتَابٌ اَنزَلنٰاہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلیَ النُّورِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیْدِ o ( سورہ ابراہیم: ۱ )
( اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب هے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اسکی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وارِ حمد هے۔ ”
ھَذٰا بَیانٌ لّلِنَّاسِ وَھُدیً وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِینَ۔ (سورہ آلعمران: ۱۳۸ )
یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان(واقعہ ) هے (مگر) اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت هے ۔
اس سلسلے میں رسول اکرم سے بھی روایت منقول هے جس میں آپ فرماتے ہیں :
کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل هے جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر هے ۔ ( ۱ )
یہاں پر اس حقیقت کا راز کھل کر سامنے آجاتا هے جس کاہم نے آغاز کلام میں ہی اعتراف کر لیا تھا، یعنی مناسب یہی هے کہ انسان قرآن کی عظمت اور اس کی فضیلت میں لب کشائی کی جسارت نہ کرے اور اسے ان ہستیوں کے سپرد کر دے جو قرآن کے ہم پلہ اور علوم قرآن میں راسخ اور ماہر ہیں ۔ کیونکہ یہ حضرات سب سے زیادہ قرآن کی عظمت اور اس کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ ہیں ۔ یہی ہستیاں ہیں جو قرآن کی ارزش (قدرومنزلت) اور صحیح حقیقت کی طرف لوگوں کی راہنمائی فرماتی ہیں ۔ یہی ہستیاں فضیلت میں قرآن کی ہمدوش اور ہم پلہ ہیں اور ہدایت و راہبری میں قرآن کی شریک اور معاون و مددگار ہیں ۔ ان حضرات کے جدا مجد وہی رسول اکرم ہیں ۔ جنهوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی وہی رسول اکرم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں، آپ قرآن سے ان حضرات کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں :
اِنِّیِ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کَتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَیتِي وَاَنّھُما لَن تَضِلُّویَفتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الحَوْض( ۲ )
میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا هوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اوریہ ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ هونگے حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے ۔
پس اہل بیت اور عترف پیغمبر ہی ہیں جو قرآن کے راہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں ۔ اس لیے ضرور ی هے کہ ہم انہی کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہی کے ارشادات سے مستفیض هوں ۔ قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار(ع) سے منقول ہیں، جنہیں مجلسی مرحوم نے کتاب بحار الانوار کی ج ۱۶ میں یکجا فرمایا هے ۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پر اکتفا کرتے ہیں ۔
حارث ہمدانی فرماتے ہیں :
میں مسجد میں داخل هوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے هوئے ہیں ۔ چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر هوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی هے؟ میں نے عرض کیا ہاں یا مولا ۔ آپ نے فرمایا: اے حارث! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے هوئے سنا هے: عنقریب فتنے برپا هوں گے ۔ میں نے عرض کیا مولا! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ هے؟ آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی هے ۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں ۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بٓاسانی تمیز دے سکتی هے ۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں ۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا هے ۔ جو شخص غیرِقرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاهے، خالق اسے گمراہ کر دیتا هے ۔ یہ (قرآن ) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیزذکر هے ۔ یہ صراط مستقیم هے ۔ یہ وہ کتاب هے جسے هوا و هوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں ۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں ۔ علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں هوتے ۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں هوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم هونے میں آتے ہیں ۔ یہ وہ کتاب هے جسے سن کر جن یہ کهے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا هے ۔ یہ وہ کتاب هے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی هوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل هو گا ۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور هو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا هے اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔(۳)
اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیں جن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں ۔ رسول اکرم فرماتے ہیں: فیہ نباء من کان قبلکم و خبر معادکم
قرآن میں گزشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں ۔
اس جملے کے بارے میں چند احتمال دےئے جا سکتے ہیں ۔
۱ اس کا اشارہ عالمِ برزخ اور روزِ محشر کی خبروں کی طرف هو، جس میں نیک اور برُے اعمال کا محاسبہ هو گا، شائد یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی هو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی هوتی هے، جس میں آپ فرماتے ہیں ۔
اس قرآن میں گزشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں ۔ ( ۴ )
۲ ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ هو جن کی قرآن نے خبر دی هے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما هوں گے ۔
۳ ان سے مراد گزشتہ امتوں میں رونما هونے والے واقعات هوں جوبعینہ اس امت میں بھی رونما هوں گے ۔
گویایہ حدیث اس آئیہ شریفہ کے ہم معنی هے ۔
لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبقٍ o ( سورہ انشقاق : ۱۹ )
تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے ۔
یا اس حدیث کی ہم معنی هے جو آنحضرت سے منقول هے آپ فرماتے ہیں :
” لَتَرْکَبَنَّ سُنَنٌ مِنْ قَبْلِکُمْ۔
تم بھی گزشتہ لوگوں کی غلط اورگمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے ۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا: مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبّٰارٍ قَصَمَةُ اللّٰہُ
جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اور اسے پسِ پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا ۔
شاید اس جملے میں رسول اکرم اس بات کی ضمانت دے رهے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اور اس پر عمل ترک هو جائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا هے ۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ هے کہ قرآن ہمیشہ تحریف سے محفوظ رهے گا ۔
حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی هے لاتزیغ بہ الاھواء۔ ” خواہشات اسے کج، زنگ آلودہ نہیں کر سکتیں” یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں هو سکتا ۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی هے کہ قرآن کے، خود ساختہ اور اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ هے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائیگا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پائیں گے ۔
ہاں! اگر مسلمانوں میں احکام اور حدودِ قرآن کا نفاذ هوتا اور اسکے اشارات اور ارشادات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت ِ پیغمبر کی معرفت بھی حاصل هو جاتی جنہیں رسول اکرم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا هے ۔ ( ۵) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپکا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ هوتے، ان پر ذلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھا جاتیں ۔ احکام خدا میں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ هوتا، نہ کوئی شخص راہِ راست سے بھٹکتانہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوں نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات ِ نفساتی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافرگرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خدا وندی کا وسیلہ سمجھنے لگے ۔ قرآن کے متروک هونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا هو سکتی هے ۔ امیر المومنین قرآن کی تعریف میں یوں فرماتے ہیں:
پھر آپ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور هے جس کی قندیلیں گل نہیں هوتیں، ایسا چراغ هے جس کی لو خاموش نہیں هوتی، ایسا دریا هے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ هے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن هے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں ) ایسا امتیاز کرنے والی هے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی هے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا هے کہ جس کے هوتے هوئے، روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتا سر عزت و غلبہ هے ۔ جس کے یارو مددگار شکست نہیں کھاتے،وہ سراپا حق هے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز هے اس سے علم کے چشمے پھوٹنے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس هے حق کی وادی اور اس کاہموار میدان هے ایسا دریا هے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے وہ ایسا گھاٹ هے کہ اس میں اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا وہ ایسی منزل هے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں وہ ایسا نشان هے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں هوتا، وہ ایسا ٹیلہ هے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکیوں کی راہ گز رکے لیے شاہراہ قرار دیا هے ۔ ( ۶) یہ ایسی دوا هے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور هے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی هے جس کی پناہ گاہ محفوظ هے، جو اس سے وابستہ رهے اس کے لیے پیغام صلح و امن هے، جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے ہدایت هے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت هے جو اس کی رو سے بات کرے اس کے لیے دلیل و برہان هے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ هے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لیے فتح و کامرانی هے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا هے جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لیے مرکب(تیز گام) هے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان هے، (ضلالت سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح هو اس کے لیے سپر هے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باند ھ لے اس کے لیے علم ودانش هے، بیان کرنے والے کے لیے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کے لیے قطعی حکم هے ۔
یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل هے ان سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی هے ۔
امیر المومنین کے ارشاد لایخبوتوقدہ ”قرآن ایسا چراغ هے جس کی لو خاموش نہیں هوتی“ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ هے کہ قرآن کے معانی لامتناہی اور ابدی ہیں ۔