- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/27
- 0 رائ
اس بحث اور گفتگو کا نتیجہ اور افادیت وہاں ظاہر ہو جاتی ہے جہاں کسی نے نماز میں یا عام عادی حالت میں کچھ آیات کی تلاوت کرنے کی نذر کی ہے وہاں آیت کی حد بندی کا اثر ظاہر ہو جاتا ہے،لہذا اس بحث کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ بھی ہوسکتاہے کہ جس طرح دیگر مباحث میں علمی نتائج کے علاوہ عملی نتائج او رافادیت سے مالا مال ہے، اس طرح یہ بحث بھی
سورتوں کی حد بندی :
جس طرح کلمہ آیہ کا دو معنی قابل تصور ہے اس طرح کلمہ سورہ کے بھی دو معنی ہیں :
١۔ لغوی
٢۔اصطلاحی
کلمہ ”سورۃ ”لغت عرب میں کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ۔
١۔ جناب صاحب قاموس نے فرمایا کہ کلمہ سورہ منزلت کے معنی مےں آیا ہے ۔
جیسے : الم تران اللہ اعطاک سورہ تری کل ملک حولہ یتذبذب
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تجھے کیا مقام و منزلت عطا کیا ہے کہ جس کے سبب ہر بادشاہ کی رفت و آمد کا مرکز بنا۔
٢۔ علامت اور نشانی کے معنی میں آیا ہے ۔
٣۔ دیوار بلند یعنی شہر کی دیوار کو بھی سورہ کہا جاتا ہے ۔
٤۔ نیز سورہ قوت اور طاقت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ۔
اس کے علاوہ اور بھی معانی میں استعمال ہواہے جس کی تفصیل اس مختصر کتیبہ میںنقل کرنے کی گنجایش نہیں۔لہذا لسان العرب و مجمع البحرین ،تاج العروس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
٢۔ اصطلاح علوم قرآن میں سورہ متعدد ایسی آیات کے مجموعہ کا نام ہے ، جس کی طبیعت ،لحن اور نظم وضبط او ر سیاق و سبق یقینا دوسرے سورہ کی سیاق و سبق سے فصاحت و بلاغت کے حوالے سے متفاوت ہے، اگر چہ کبھی کبھار ایک ہی سورہ کی آیات کے مابین قبل و بعد کے حوالے سے یا سبق و سیاق کے لحاظ سے مختلف نظر آتا ہے، جیسے آیہ تطہیر قبل و بعد کے حوالہ سے دیکھا جائے تو آیت قبلی اور بعدی زوجات سے مربوط ہیں، لیکن درمیان میں آیہ تطہیر جو اہلبیت ؑ کا تذکرہ کر رہی ہے بظاہر متفاوت نظر آتی ہے، ایسی کیفیت پر ہونے والی آیہ کو ادبی اصطلاح میں جملہ معترضہ کہا جاتا ہے لیکن اگر ہم سورہ احزاب کے آغاز اور انجام تک کی آیات کے سبق و سیاق کو غور کریں تو آیہ تطہیر اور دیگر آیات کا سیق و سبق ملتا جلتا ہے ۔
لہذا اگر مختصر الفاظ میں سورہ کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ ہے: ایسی آیات کے مجموعے کا نام سورہ ہے، جو سبق و سیاق اور نظم و نسق فصاحت وبلاغت کے حوالے سے ایک ہی طبیعت کے ہو دوسرے مجموعہ آیات کی طبیعت سے مختلف ہو نیز تمام امت مسلمہ کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن مجید میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں کہ جن کی نام گذاری بھی ایک نظریہ کی بنا پر جس طرح قرآن مجید میں اسوقت موجود ہے اس طرح خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے ہوئی ہے، تبھی تو سورتوں کی نامگذاری بھی آیات کی ترتیب اور نظم و نسق کی مانند توقیفی ہے، جسمیں نظر اور اجتہاد یا قیاس کے ذریعہ تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے جس پر کئی صحیح السند احادیث عامہ اور خاصہ کی کتابوں میں مختلف مضامین کے ساتھ موجود ہے جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تمام سورتوں کا نام معین کیا ہے ۔(١ )
اور سورتوں کی موجودہ ترتیب بھی خود پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے ہوئی ہے یعنی جس طرح آیات کی ترتیب توقیفی ہے اسی طرح سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب بھی توقیفی ہے جس میں اعمال نظر کی گنجایش نہیں ہے ،لیکن اس مشہور و معروف نظریے کے مقابل میں کچھ دوسرے محققین کا عقیدہ ہے کہ سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان سے نہیں ہوئی ہے کیونکہ اگر نفس رسول خدا ؐ کی طرف سے سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب ہوتی تو اصحاب کے مصاحف میں سورتوں کی ترتیب اور نام گذاری کے حوالے سے مختلف نہیں ہونا چاہیے، جبکہ اصحاب کے مصاحف میں بہت بڑا اختلاف موجودہے، لہذا سورتوں کی نام گذاری اورترتیب توقیفی نہیں ہے،البتہ اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے بعض محققین نے اس نظریہ کے قائلین کو دو جواب دیئے ہیں ۔
الف :اصحاب کے مصاحف میں اختلاف کا پائے جانے کی بات، دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہوئی ہے ۔
ب: بالفرض ثابت بھی ہوا ہو تو ہم احتمال دے سکتے ہیں کہ اصحاب کے مصاحف پیغمبر اکرم (ص )
کی زبان سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب دینے سے پہلے ہے ۔(۲ )
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ کچھ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے جبکہ دیگر کچھ سورتوں کی
ترتیب توقیفی نہیں ہے ۔ اس عقیدے پر کئی برہان بیان کئے گئے ہیں لیکن کتاب اوروقت کے دامن میں گنجایش نہ ہونے کے حوالے سے اقوال کے تذکرہ پر اکتفاء کروںگا۔
قرآن کریم کے سورتوں کے احکام میں سے ایک یہ ہے کہ ہر سورہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ سورہ کا جز اور مستقل ایک آیہ ہے یا اس کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہیں ہے؟
چنانچہ ہر مکتب فکر اس مسئلہ سے با خبر ہے کہ بسم اللہ کے بارے میں امامیہ اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف ہے امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے ، لہذا نماز میں سورہ حمد کے آغاز میں یا دیگر سورتوں جو حمد کے بعد پڑھا جاتا ہے ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کی قرائت اور تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ نماز باطل ہے، جبکہ اس مسئلہ کے باے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ قرآنی نہیں ہے ،لہذا نمازوں میں سورہ حمد یا دیگر سورتوں کی تلاوت کے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی مرحوم شیخ طوسی نے تفسیر التبیان میں اس مسئلہ کے بارے میں ایک دلچسپ گفتگو کی ہے رجوع کریں۔ (۳ )
لیکن اگر مکا تب فکر سیاسی اور مذہبی لگاو اور افادیت سے ہٹ کر علم کے اصول و ضوابط کی رو سے اس سلسلہ کے متعلق غور و خوض کریں ، تو یہ بات معقول نہیں ہے کہ بسم اللہ
الرحمن الرحیم ہر مصحف میں موجود ہو، اور ہر وقت ہر سورہ کے آغاز میں جس طرح دیگر آیات کی تلاوت کرتے تھے، اس طرح پیغمبر اکرم (ص) اور اصحاب و تابعین اور قراٰء تلاوت کریں ، اور دوسری طرف سے قرآن پاک میں تحریف یعنی کمی و بیشی نہ ہونے کے قائل بھی ہوں تو ہم بسم اللہ کو ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہ ماننا نا انصافی کے علاوہ متضاد رویہ ہے ۔
لہذا امامیہ اور شافعی مذہب کا عقیدہ ہے کہ ہر بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے جس پر کئی احادیث واضح الفاظ میں دلالت کرتی ہیں: جیسے من ترکہا فقد ترک مائۃ و اربع عشرۃ آیۃ من کتاب اللہ تعالی(۴)
ابن عباس نے کہا اگر کوئی بسم اللہ کو ترک کرے تو اس نے اللہ کی کتاب سے ایک سو چودہ آیات چھوڑئی ہے ۔
سورتوں کا مکی اور مدنی ہونے کی وضاحت :
علوم قرآن کے ماہرین اور مفکرین نے ایک سو چودہ قرآنی سورتوں کو دو قسموں میں تقسیم کی ہے، مکی اور مدنی اور قرآن کے تمام سورہ کے آغاز میں ہذہ السورۃ مدنیہ یامکیہ کی تعبیر موجود ہے ،اور علوم القرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں سورے مکی اور مدنی ہونے کے ملاک اور اصول و ضوابط بھی بیان کئے ہیں ، اورمکی ومدنی ہونے کے
اصول وظوابط کا خلاصہ در ج ذیل ہے
١۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ جوآیات اور سورہ ہجرت سے پہلے نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے و ہ مدنی ہے ۔
٢۔ جو مکہ میں نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو مدینہ میںنازل ہوا ہے وہ مدنی ہے، اور جو مکہ ومدینہ کے گرد ونواح میں نازل ہوا ہے وہ بھی مدنی ہے ۔
٣۔ جن آیات کا مخاطب اہل مکہ ہیںوہ مکی ہے جن آیات کا مخاطب اہل مدینہ ہیں و ہ مدنی ہے ۔
٤۔ ہر وہ سورتیں جن میں سجدہ اور لفظ کلا ہے وہ مکی ہے، لیکن جن سورتوں میں سجدہ اور کلمہ کلا نہیں ہے وہ مدنی ہے ۔
٥۔ جہاں یا ایہاالناس کا خطاب ہے و ہ مکی ہے باقی مدنی ہے مگر سورہ حج اس ملاک اورمعیار سے خارج ہے کیونکہ اس کے آخری آیہ” یاایہاالذین آمنوا ارکعوا والسجدو ا” ایا ہے اس کے باوجود اکثر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ مکی ہے نہ مدنی۔
٦۔ ہر وہ سورتیں کہ جن میں انبیاء سلف کے قصے اور امم سابقہ کی کہانی اور عبرتوں پر مشتمل ہے وہ مکی ہے باقی مدنی اس ملاک اور قانون سے سورہ بقرہ کو خارج کیا گیا ہے ۔
٧۔ ہر وہ سورتیں جن میں حضرت آدم اور ابلیس کا قصہ بیان کیا گیا ہے وہ مکی ہے باقی سورتیں مدنی ہیں۔
٨۔ ہر وہ سورتیں جن کاآغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے وہ مکی ہے، اور وہ سورتیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے نہیں ہوا ہے وہ مدنی ہے،(۵) لیکن اگر دانشمند حضرات اور مکاتب فکر سورتوںکے مکی اور مدنی ہونے کے مسئلہ کو کڑی نظر سے غور کریں تو علمی نتائج اورمعلومات کے علاوہ عملی نتائج بھی ہیں جن پرغور کیجئے تاکہ علمی نتائج اور معلومات کے علاوہ نذر اور ناسخ و منسوخ کی تشخیص اورتعیین کے موارد میںکام آئے، لہذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے سورتوں کے دیگر مباحث جیسی آیات کی تعداد اور فصاحت و بلاغت کے حوالے سے کونسا سورۃ دیگر سورتوں پر بیش قدم ہے، وغیرہ کے بارے میں علوم قرآن کے موضوعات پر لکھی ہوئی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔(۶ )
………………….
حواله جات
( ١ ) شناخت قرآن ص١٠٣ علی کمالی )
( ۲ ) شناخت قرآن ص١٠٥ علی کمالی )
( ۳ ) تفسیر التبیان ج١ص٢٤ )
( ۴ ) کشاف ،ج١،ص١،در منثور ،ج١، دیگر تفاسیر
(۵ ).( شناخت قرآن .
(۶ ) شناخت قرآن ص٢٩٦ علی کمالی )