- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/15
- 0 رائ
قرآن کی بعض آیتیں بعض دوسری آیتوں کی تفسیر کرتی هیں: “القرآن یفسّر بعضہ بعضاً” قرآن ایک کھلی هوئی اور روشن کتاب هے۔ خود بھی روشن و واضح هے اور ظاہر و آشکار کرنے والی بھی، خود قرآن کہتا هے کہ مجھ میں دو طرح کی آیتیں موجود هیں، محکمات اور متشابہات۔ آیات محکمات کو قرآن “ام الکتاب” کا نام دیتا هے۔ جو ایک عجیب تعبیر هے: ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ھنّ ام الکتاب واخر متشابھات” متشابہ آیت ایسی آیت هے جس کے مفهوم کو کئی اعتبار سے معنی پہنائے جا سکتے هیں۔ آیت محکمہ سے صرف فقط ایک هی مفهوم اور معنیٰ نکلتا هے۔ قرآن جو آیات محکمات کو “ام” یا ماں کے نام سے یاد کرتا هے، اس کا مطلب یہ هے کہ متشابہ آیات کو محکم آیات کی مدد سے معنی پہنائے جا سکتے هیں۔ اگر قرآن کی کوئی آیت ایسی هو جس کے چند معنی نکلتے هوں تو ہمیں خود اس کے معنی بیان کرنے اور شرح کرنے کا کوئی حق نهیں هے۔ اس کی ایک هی صورت هے۔ وہ یہ کہ اس آیت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرنا هوگا اور اس کی تمام آیات کی روشنی میں هی اس آیت کا مفهوم سمجھا جاسکے گا۔ متشابہ آیت کا مطلب یہ نهیں هے کہ وہ مجمل هے یا اس میں جو لفظیں استعمال کی گئی هیں اس کے معنی ہم نهیں جانتے بلکہ ایسی آیت کا مطلب یهی هے کہ اس کے ایک دوسرے سے قریب اور متشابہ کئی معنی بیان کئے جاسکتے هیں۔
مثلاً قرآن کریم میں پروردگار عالم کی مشیت مطلقہ سے متعلق آیتیں هیں جو ظاہر کرتی هیں کہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت هیں۔ اس میں کوئی استثناء نهیں هے۔ منجملہ ان میں سے یہ آیت هے جو اسی بنا پر متشابہ هے: قل اللّھم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممّن تشاء وتعزّ من تشاء و تذلّ من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیٔ قدیر[۱] ” (اب اس سے زیادہ محکم وبالا تر تاکید نهیں هوسکتی) یعنی کهو کہ اے میرے خدا!تمام ملکوں اور تمام قوتوں کا اصل مالک تو هے۔ جیسے چاہتا هے تو ملک عطا کرتا هے اور جس سے چھیننا چاہتا هے تو چھینتا هے جسے عزت دیتا هے تو بخشتا هے اورجسے ذلیل کرتا هے تو ذلیل کرتا هے۔ خیر و بھلائی صرف اور صرف تیرے ہاتھ میں هے اور تو ہر شۓ پر قادر هے۔” یہ آیت اس اعتبار سے متشابہ هے کہ اس کے کئی طرح سے معنی کئے جاسکتے هیں۔ اجمالاً یہ آیت اتنا هی کہتی هے کہ ہر شیٔ مشیت الٰهی میں هے اور یہ بات دو طرح سے ممکن هے، ایک یہ کہ مشیت الٰهی میں کوئی چیز کسی شیٔ کے لئے شرط نهیں، جیسا کہ بعض لوگوں سے اسی طور پر غلط نتیجہ اخذ کیا هے اورکہا هے کہ ممکن هے وہ تمام حالات و شرائط جنھیں ہم عزت کے شرائط کے نام سے یاد کرتے هیں، فراہم هوجائیں، پھر بھی عزت کے بجائے ذلت ہاتھ آئے، اور یہ بھی ممکن هے کہ ذلت کے تمام حالات و شرائط پیدا هوں لیکن اس کا نتیجہ عزت کی صورت میں سامنے آئے! دنیا و آخرت کی سعادت و نیک بختی هیں کوئی شۓ کسی چیز کے لئے شرط نهیں هے کیونکہ تمام چیز مشیت الٰهی سے وابستہ هے! نتیجہ یہ نکلا کہ ممکن هے کوئی قوم یا کوئی شخص بلا کسی سبب یا بغیر کسی مقدمہ کے دنیا میں عزت و شرف کے کمال پر پہنچ جائے یا بلا کسی سبب کے ایک دم ذلیل و رسوا هوجائے۔ یوں هی ممکن هے آخرت میں کسی قوم کو بلا کسی قید و شرط کے اعلیٰ علّیین کا مرتبہ عطا کردیا جائے اور کسی قوم کو بلا سبب اور بغیر کچھ دیکھے بھا لے جہنم کے درک اسفل میں ڈال دیا جائے۔ افسوس یہ هے کہ بعض مسلمانوں نے جنھیں اشاعرہ کہتے هیں اس آیت سے یهی نتیجہ اخذ کیا هے، اور کہتے هیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نهیں اگر(معاذ اللہ) پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہنم میں چلے جائیں اور ابوجہل جنت میں بھیج دیا جائے کیونکہ خدا نے کہا هے کہ سب کچھ خدا کی مشیت کے تحت هے۔
لیکن یہ آیت سے مفهوم و مطلب نکالنے کا ایک غلط انداز هے۔ آیت صرف اتنا کہہ رهی هے کہ سب کچھ مشیت الٰهی میں هے۔ یہ نهیں بیان کرتی کہ مشیت کسی طرح کار فرماهوتی هے، اور نہ یہ بیان کرتی هے کہ سعادت و شقاوت اور عزت و ذلت وغیرہ کے سلسلہ میں مشیت الٰهی کیا عمل کرتی هے۔ لہٰذا اس آیت سے کئی معنی مراد لئے جاسکتے هیں لیکن جب ہم قرآن کی دوسری آیات کی طرف رجوع کرتے هیں تو وہ محکم یا “ام الکتاب” کی حیثیت سے اس آیت کی تفسیر کرتی نظر آتی هیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت بالکل صاف لفظوں میں کہتی هے: “ذالک بانّ اللہ لم یک مغیّراً نعمۃً انعمھا علیٰ قوم حتّیٰ یغیّروا مابانفسھم[۲] ” یا یہ آیت جو ایک حیثیت سے عمومیت رکھتی هے: انّ اللہ لا یغیّر مابقوم حتّیٰ یغیروا ما بانفسھم[۳] ” ان دونوں آیتوں میں سے ہر ایک جو بات رکھتی هے، وہ دوسری میں نهیں پائی جاتی۔ دوسری آیت یہ کہتی هے:کہ خداوند عالم اس وقت تک کسی قوم سے اس کی کوئی چیز نهیں لیتا جب تک وہ خود سے اس چیز کو سلب نہ کرلیں جو ان کے درمیان موجود هے۔ یہ آیت عمومیت رکھتی هے یعنی خداوند عالم کسی بھی قوم سے اس کی کوئی نعمت سلب نهیں کرتا اور انھیں بدبختی میں مبتلا نهیں کرتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو بدل نہ دیں۔ اسی طرح بدبخت قوم سے اس کی بدبختی دور نهیں کرتا جب تک وہ خود اپنے حالات نہ بدلیں جبکہ پہلی آیت میں فقط نعمتوں کا تذکرہ هے، بدبختی کا کوئی ذکر نهیں هے، ہاں اس میں ایک نکتہ کا اضافہ هے، اور وہ یہ هے کہ ارشاد هوتا هے: “ذالک بانّ اللہ لم یک مغیراً ” یہ اس سبب سے کہ خدا ایسا نهیں هے یا نهیں رہا هے، جیسا کہ وہ قرآن میں فرماتا هے: ماکان اللہ، خدا ایسا نهیں رہا هے۔ یعنی اس کی الوهیت اسے قبول نهیں کرتی کہ وہ کسی قوم سے بلا سبب کوئی نعمت سلب کرلے۔ مشیت پروردگار بلا وجہ اور عبث کارفرما هو اور کسی شۓ کو کسی چیز کے لئے شرط قرار نہ دے یہ وہ فکر هے جو ذات خدا کی حکمت وکمال اور اس کی الوهیت کے سراسر خلاف هے۔ چنانچہ مذکورہ دونوں آیتیں اس آیت کے لئے مادر قرار پائیں جنھوں نے اس کی تفسیر کردی۔ مشیت سے متعلق آیتیں بس اتنا بتاتی هیں کہ تمام چیزیں خدا کے اختیار میں هیں۔ اور یہ دونوں آیتیں بتاتی هیں کہ مشیت خدا دنیا میں اس طرح اور اس قانون کے تحت کارفرما هوتی هے۔ معلوم هوا کہ یہ مطلب قرآن کا بہت هی مناسب بنیادی اور اصلی مطلب هے اور بہت سی آیتوں میں اس بات کو دہرایا گیا هے کہ اگر ہماری نعمت کا شکر بجالاؤ گے یعنی اس سے صحیح فائدہ حاصل کرو گے تو ہم اسے تمہارے لئے باقی رکھیں گے۔ اور اگر ہماری نعمت سے کھیلو گے اورکفران نعمت کرو گے تو ہم اسے تم سے سلب کرلیں گے۔
اس اعتبار سے الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون” کا مطلب یہ هے کہ اب کفار، اسلامی معاشرہ سے باہر (تمہارے دین کو فنا کرنے سے( مایوس هوگئے۔ اب دنیائے اسلام کو ان کی طرف سے کوئی خطرہ نهیں هے۔ اب مجھ سے ڈرو یعنی اے مسلمانو ! اب خود اپنے آپ سے ڈرو۔ اب آج کے بعد سے اگر کوئی خطرہ هوگا تو یہ هوگا کہ تم لوگ نعمت اسلام کے سلسلہ میں بد عمل هوجاؤ اورکفران نعمت کرنے لگو، اس دین سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے نہ اٹھاؤ نتیجہ میں ہمارا یہ قانون تمہارے سلسلہ میں بھی جاری هو: ان اللہ لا یغیّر ما بقوم حتّیٰ یغیروا ما بانفسھم” آج کے دن سے اسلامی معاشرہ کو کوئی باہری خطرہ نهیں رہ گیا۔ اب جو بھی خطرہ هے، داخلی خطرہ هے۔
………………
حواله جات
[۱] سورۂ آل عمران، آیت / ۲۶
[۲] سورۂ انفعال/ ۵۳
[۳] سورۂ رعد/ ۱۱