- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/15
- 0 رائ
رهی یہ بات کہ (قرآن نے صاف طور سے جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا ذکر کیوں نہ کردیا) تو اس کے جواب میں پہلی بات یہ کهی جاتی هے کہ قرآن کا اصول یہ هے کہ وہ مسائل کو ایک اصل کی شکل میں بیان کرتا هے۔ دوسرے نہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نہ خداوندعالم کا منشاء یہ تھا کہ یہ مسئلہ جس میں آخرکار هوا و هوس کے دخل کا امکان هے۔ اس صورت سے سامنے آئے اگر چہ (جو کچھ ذکر کیا گیا) اس میں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے توجیہ و اجتہاد کرکے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نهیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد اصل میں یہ تھا اور وہ تھا۔ یعنی اگر کوئی آیت بھی (اس مسئلہ میں نام کی صراحت کے ساتھ) ذکر هوئی هوتی تو اس کی بھی توجیہ اپنے مطلب کے مطابق کر دی جاتی۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں پوری صراحت کے ساتھ “ھٰذا علی مولاہ” فرمایا، اب اس سے زیادہ صریح اور واضح با ت کیا هوسکتی هے؟! لیکن بہر حال پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صریحی ارشاد کو زمین پر دے مارنے اور قرآن کی ایک آیت سے نام کی صراحت کے باوجود پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دنیا سے اٹھتے هی انکار کردینے اوراس کی غلط توجیہ کرنے میں بڑا فرق هے۔ چنانچہ میں اس جملہ کو کتاب(خلافت و ولایت) کے مقدمہ میں نقل کرچکا هوں کہ ایک یهودی نے حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے زمانہ میں صدر اسلام کے ناخوش آئند حالات کے بارے میں مسلمانوں پر طنز کرنا چاہا (اور حقیقتاً یہ طنز کی بات بھی هے) اس نے حضرت سے کہا: ما دفنتم نبیّکم حتیٰ اختلفتم فیہ” “ابھی تم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن بھی نهیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں جھگڑنے لگے۔ امیر المومنین(علیہ السلام) نے عجیب جواب دیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: انّما اختلفنا عنہ لا فیہ ولٰکنّکم ما جفّت ارجلکم من البحر حتّیٰ قلتم لنبیّکم اجعل لنا الٰہً کما لھم الھۃً فقال انّکم قوم تجھلون۔[۱] ہم نے پیغمبر کے بارے میں اختلاف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختلاف اس دستور و حکم کے سلسلہ میں تھا جو ان کے ذریعہ ہم تک پہنچا تھا، لیکن ابھی تمہارے پاؤں دریا کے پانی سے خشک بھی نہ هوئے تھے کہ تم نے اپنے پیغمبر سے یہ تقاضہ کر دیا کہ وہ دین کی پہلی اور بنیادی اصل یعنی توحید کو هی غارت کر دے، تم نے اپنے نبی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ دوسروں کے خداؤں کی طرح، ہمارے لئے بھی ایک بت بنا دو۔ پس جو کچھ تمہارے یہاں گزرا اور جو ہمارے یہاں پیش آیا ان دونوں میں بہت فرق هے۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اختلاف نهیں کیا بلکہ ہمارا اختلاف یہ تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دستور کا مفهوم اور مطلب کیا هے۔ بڑا فرق هے ان دونوں باتوں میں کہ جس کام کو انھیں بہر حال انجام دینا تھا۔ اس کی توجیہ ظاہر میں اس طرح هو (نہ یہ کہ حقیقتاً ایسا هی تھا) کہ یہ کہا جائے (جو لوگ اس خطا کے مرتکب هوئے) ان کا خیال یہ تھا کہ اصل میں پیغمبر(ص) کا مقصود یهی تھا نتیجہ میں انهوں نے آنحضرت کے قول کی اس شکل میں توجیہ کر ڈالی یا یہ کہا جائے کہ اتنی صریح اور واضح قرآن کی نص کو ان لوگوں نے ٹھکرا دیا یا قرآن کی تحریف کر ڈالی۔
سوال: فلاں ڈاکٹر صاحب نے جو سوال دریافت فرمایا هے اسے میں اس صورت میں پیش کر رہا هوں کہ یہ صحیح هے کہ قرآن میں اصل اور بنیادی قانون هی بیان هونا چاہئے لیکن جانشینی کی اصل اور اسلام میں حکومت کا مسئلہ تو مسلم طور پر بڑی اہمیت کا حامل هے۔ اس لئے چاہئے یہ تھا کہ قرآن میں نام کا ذکر هونے کی حیثیت سے نهیں بلکہ ایک دستور العمل کی حیثیت سے اس مسئلہ کو واضح طور سے بیان کردیتا هے۔ مثلاً پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ وحی هوجاتی کہ تمیہں اپنا جانشین معین کرنا هے۔ اور تمہارا نائب بھی اپنا جانشین خود معین کرے گا۔ اور یوں هی یہ سلسلہ آخر تک قائم رہتا۔ یا دستور یہ هوتا کہ جانشین کا انتخاب مشورہ (شوریٰ) سے هوگا یا انتخاب سے هوگا۔ یعنی اسلام جیسے دین کے لئے جس میں حکومت و حاکمیت لازم و ضروری هے جانشینی کا مسئلہ کوئی ایسی معمولی بات نهیں هے جسے اپنے حال پر چھوڑدیا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے۔ کوئی نہ کوئی جانشینی کا دستور تو هونا هی چاہئے تھا۔ مسئلہ یہ نهیں هے کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے نام کا ذکر کیا جاتا یا نہ کیا جاتا۔ بلکہ جانشینی و حکومت کے طریقہ کار سے متعلق اس قدر اختلافات کو دیکھتے هوئے ایک مستقل دستور العمل کی ضرورت بہر حال محسوس هوتی هے کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! تمہارا فرض هے کہ اپنا جانشین مقرر کردو۔ اب یہاں ممکن هے یہ اختلاف هوتا کہ کون جانشین هے مختلف تفسیریں کی جاتیں۔ لیکن یہ بات تو قطعی اور یقینی هوتی کہ اپنا جانشین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود معین فرمایا تھا۔ اس کا مسلمانوں کی شوریٰ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح جانشین پیغمبر اپنے بعد اپنا جانشین یا امام مقرر کرتا۔ یا لوگوں کا گروہ اس کا انتخاب کرتا یا پھر لوگ اس سلسلہ میں مشورہ کرتے؟ بہر حال میری دانست میں یہ قضیہ قرآن کی روشنی میں بھی مبہم رہ گیا هے۔ اور ہمارے پاس اس سلسلہ میں کوئی صریحی دستور العمل موجود نهیں هے۔
دوسرے یہ کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے اسلام میں حکومت” کے موضوع پر ایک کتاب دیکھی جس میں خود حضرت علی(علیہ السلام) اور دیگر اشخاص کے بہت سے اقوال نقل هیں، جن سے پتہ چلتا هے کہ یہ امر (یعنی امر خلافت) عام مسلمانوں سے مربوط هے اور مسلمانوں کو اس میں فیصلہ کا حق هے۔ ارباب حل و عقد کو اپنی رائے دینا چاہئے۔ امر خلافت میرا مسئلہ نهیں هے۔ ان لوگوں کو مشورہ کرنا چاہئے اور اپنی رائے پیش کرنی چاہئے نیز مصنف نے ایسے بہت سے دلائل اکهٹا کئے هیں جو ثابت کرتے هیں کہ اسلام میں حکومت کا مسئلہ ایک امر انتخابی هے۔ نہ کہ تعیینی کسی کو یہ حق نهیں هے کہ وہ اپنا جانشین خود مقرر کرے اس سلسلہ میں آپ کیا فرماتے هیں؟
تیسرے یہ کہ اگر ہم فرض کر لیں کہ یہ بارہ امام جانشین کے عنوان سے یکے بعد دیگر معین هوئے هیں (اس سے بحث نهیں کہ وحی کے ذریعہ معین هوئے یا کسی اور ذریعہ سے) یہ بتائیں کہ اسلامی معاشرہ میں ہمیشہ کے لئے کلی و قطعی طور پر جانشین کے تعیین کا (نہ کہ انتخاب کا) کیا اصول یا قانون هے۔ یعنی کیا پہلے سے یہ کہا جا چکا تھا کہ وحی الٰهی کے مطابق صرف یہ بارہ ائمہ(علیہم السلام) جو ان خصوصیات کے حامل یعنی معصوم و……هیں یکے بعد دیگرے تعیین هوں گے اور اس کے بعد زمانۂ غیبت میں مثلاً یہ مسئلہ انتخاب کے ذریعہ حل هوگا؟ کیا اس کی وضاحت کی گئی هے؟ یہ استنباط تو خود ہماری طرف سے هے کہ چونکہ اس وقت بارھویں امام (علیه السلام) حاضر و موجود نهیں هیں لہٰذا حکومت کا سربراہ مجتہد جامع الشرائط هوگا یا نہ هو گا۔ لیکن قرآن کو ایک بنیادی دستور العمل مسلمانوں کے حوالہ کرنا چاہئے کہ (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد شروع میں) ہم چند معصوم اشخاص کو خصوصی طور سے تم پر حاکم مقرر کریں گے۔ ان کے بعد تم خود اپنے باہمی مشوروں سے (کسی کا انتخاب کرو) یا فقیہ جامع الشرائط تم پر حاکم هو گا۔ یہ مسئلہ بھی گیاره امام کے بعد سے الجھ جاتا هے اور پھر اشکالات و اختلافات اٹھ کھڑے هوتے هیں شیعی نقطۂ نظر سے اس مسئلہ کا کیا حل هے؟
جواب: ان سوالات کے جوابات ایک حد تک ھم گذشتہ درسوں میں عرض کر چکے هیں۔ آپ نے مسئلہ امامت کو دوبارہ اٹھایا هے۔ وہ بھی صرف مسئلہ حکومت کی شکل میں۔ ہم گزشتہ ہفتوں میں عرض کرچکے هیں کہ مسئلہ حکومت مسئلۂ امامت سے الگ هے۔ اور شیعی نقطۂ نظر سے امام کی موجودگی میں حکومت کا مسئلہ ویسا هی هے جیسا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تھا۔ یہاں حکومت استثنائی حکم رکھتی هے۔ یعنی جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ مسئلہ نهین اٹھتا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے هوتے هوئے حکومت کس کی هوگی یوں هی امام (یعنی اس مرتبہ کا امام جس کے شیعہ قائل هیں) کی موجودگی اور اس کے حضور میں بھی حکومت کا مسئلہ ایک فرعی اور طفیلی حیثیت سے زیادہ وقعت نهیں رکھتا۔ اگر ہم مسئلہ حکومت کو بالکل الگ کرکے پیش کریں تو یہ ایک علاحدہ مسئلہ هے۔ یعنی ایسے زمانہ میں جس میں امام کا وجود هی نہ هو (اور ایسا کوئی زمانہ هے هی نهیں) یا پھر امام غیبت میں هو تو ایسی صورت میں البتہ یہ ایک بنیادی مسئلہ بھی هے۔ اسی بناپر ہم: “امرھم شوریٰ بینھم” کے منکر نهیں هیں۔ لیکن یہ “امرھم شوریٰ بینھم” کہاں عمل میں آئے گا؟ کیا شوریٰ اس مسئلہ میں بھی کار فرما هو گی جس میں قرآنی نصّ موجود هے اور فرائض و وظائف روشن و واضح هیں؟ ظاہر هے کہ ایسا نهیں هے۔ بلکہ شوریٰ ان مراحل کے لئے هے جہاں نہ کوئی حکم الٰهی موجود هو اور نہ کوئی دستور ہم تک پہنچا هو۔
رهی “حکومت در اسلام ” نامی کتاب میں تحریر مسائل کی بات، البتہ میں نے اس پر کامل تحقیق نهیں کی هے افسوس کی بات یہ هے کہ اس کتاب میں اول تو زیادہ تر مسائل یک طرفہ بیان هوئے هیں یعنی دلائل کے ایک رخ کو لکھا گیا هے اور ان کے مخالف دلائل کا کوئی ذکر هی نهیں هے اور یہ اس کتاب کا بہت بڑا عیب هے کیونکہ انسان اگر کچھ لکھتا هے تو اسے ہر پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئے اس کے بعد دیکھنا چاہئے کہ ان تمام دلائل میں کون سی دلیلیں وزنی اور معتبر هیں؟ کونسے اپنانا چاہئے اور کونسے چھوڑنا چاہئے۔؟
اس کتاب کا دوسرا عیب یہ هے کہ اس میں مطالب بیان کرنے کے سلسلہ میں قطع و برید سے کام لیا گیا هے (اگر چہ میں نے خاص طور سے اس کتاب کا مطالعہ نهیں کیا هے، لیکن جن اہل نطر افراد نے اسے پڑھا هے۔ وہ یهی کہتے هیں کہ) اس نے جملوں کو ادھر اُدھر سے کاٹ کر درمیان سے اپنے مطلب کی بات نقل کی هے۔ نتیجہ میں جملہ کا مفهوم هی بدل گیا هے۔ اگر پوری بات نقل کی جاتی تو کبھی یہ معنی و مقصود ظاہر نہ هوتے۔ اس کے علاوہ ان دلائل کا بڑا حصہ ان مسائل سے مربوط هے جو امام کی موجودگی اور ان کے حضور کے زمانہ سے تعلق نهیں رکھتے، اور امام کی عدم موجودگی یا غیبت میں شوریٰ و انتخاب کی اہمیت سے کسی کو انکار نهیں هے۔
…………………
حواله جات
[۱] نہج البلاغہ، حکمت ۳۱۷