- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/29
- 0 رائ
مصنف: شھید آیت اللہ مرتضی مطھری (رح)
مکتب تشیع میں اخباریت کا رواج
میں یہاں اس خطرناک تحریک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو تقریباً چار صدی قبل شیعہ دنیا میں اجتہاد کے موضوع سے متعلق وجود میں آئی ہے اور وہ “اخباریت” کی تحریک ہے۔ اگر کچھ جید و دلیر علماء نہ ہوتے اور اس تحریک کا مقابلہ کر کے اسے سرکوب نہ کرتے تو نہیں معلوم آج ہماری کیا حالت ہوتی۔ دبستان اخباریت یعنی اخباریت کا سکول کی عمر چار صدی سے زیادہ نہیں ہے‘ اس اسکول کے بانی ملا امین استر آبادی ہیں‘ جو بذات خود بہت ذہین تھے اور بہت سے شیعہ علماء نے ان کا اتباع کیا ہے۔ خود اخباریوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ صدوق کے زمانہ تک کے تمام قدیم شیعہ علماء اخباری تھے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخباریت ایک اسکول اور کچھ معین اصول و قوانین کی شکل میں… جو عقل کی حجیت کی منکر ہو‘ قرآن کی حجیت و سندیت کی‘ یہ بہانہ بنا کر منکر ہو کہ قرآن صرف پیغمبر کے اہل بیت۱ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری فقط اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنا ہے اور اجماع سنیوں کی بدعت ہے‘ لہٰذا ادلہ اربعہ یعنی قرآن‘ سنت‘ اجماع‘ عقل میں سے صرف سنت حجت ہے اور وہ تمام حدیثیں جو کتب اربعہ یعنی “کافی”، “من لایحضرہ الفقیہ”، “تہذیب” اور “استبصار” میں بیان ہوئی ہیں‘ صحیح و معتبر بلکہ قطعی الصدور ہیں یعنی رسول خدا اور آئمہ طاہرین ۱ سے ان کا صادر ہونا یقینی ہے ان اصولوں کا پیرو اسکول… چار سو سال پہلے موجود نہ تھا۔
شیخ طوسی نے اپنی کتاب “عدة الاصول” میں بعض قدیم علماء کو “مقلدہ” کے نام سے یاد کیا ہے اور ان پر نکتہ چینی کی ہے‘ تاہم ان کا اپنا کوئی اسکول و دبستان نہیں تھا۔ شیخ طوسی نے انہیں مقلدہ اس لئے کہا ہے کہ وہ اصول دین میں بھی روایتوں سے استدلال کرتے تھے۔
بہرحال اخباریت کا اسکول‘ اجتہاد و تقلید کے دبستان کے خلاف ہے‘ جس صلاحیت‘ قابلیت اور فنی مہارت کے مجتہدین قائل ہیں اخباری اس کے منکر ہیں۔ وہ غیر معصوم کی تقلید حرام جانتے ہیں‘ اس اسکول کا حکم ہے کہ چونکہ صرف حدیث حجت و سند ہے اور اس میں بھی کسی کو اجتہاد و اظہار نظر کا حق نہیں ہے‘ لہٰذا عوام پر فرض ہے کہ وہ براہ راست حدیثیں پڑھیں اور ان ہی کے مطابق عمل کریں‘ بیچ میں کسی عالم کو مجتہد مرجع تقلید اور واسطہ کے عنوان سے تسلیم نہ کریں۔
ملا امین استر آبادی نے… جو اس دبستان کے بانی ہیں اور بذات خود ذہین‘ صاحِ مطالعہ اور جہان دیدہ تھے‘ انہوں نے… “الفوائد المدینتہ” نامی ایک کتاب تحریر فرمائی ہے‘ موصوف نے اس کتاب میں مجتہدوں سے بڑی سخت جنگ لڑی ہے‘ خاص طور سے عقل کی حجیت کے انکار کے لئے ایڑی چوڑی کا زور صرف فرمایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عقل صرف محسوسات یا محسوسات سے قریب مسائل (جیسے ریاضیات) میں حجت ہے‘ اس کے سوا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
بد قسمتی سے یہ فکر اس وقت سامنے آئی جب یورپ میں حسی فلسفہ نے جنم لیا تھا‘ وہ لوگ علوم(سائنس) میں عقل کی حجیت کے منکر ہوئے اور یہ حضرت دین میں انکار کر بیٹھے‘ اب یہ نہیں معلوم کہ موصوف نے یہ فکر کہاں سے حاصل کی‘ ان کی اپنی ایجاد ہے یا کسی سے سیکھا ہے؟
مجھے یاد ہے کہ ۱۹۴۳ء کے موسم گرما میں بروجرد گیا ہوا تھا اور اس وقت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ بروجرد ہی میں مقیم تھے‘ ابھی قسم تشریف نہیں لائے تھے۔ ایک دن اخباریوں کے طرز فکر کی گفتگو چھڑ گئی‘ آیة اللہ بروجردی نے اس طرز فکر پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ “اخباریوں کے درمیان اس فکر کی پیدائش یورپ میں حسی فلسفہ کی لہر کے زیر اثر عمل میں آئی ہے۔”
یہ بات میں نے ان سے اس وقت سنی تھی‘ جب آپ قم تشریف لائے اور آپ کے درس اصول میں “حجیت قطع” کا موضوع زیر بحث آیا‘ تو مجھے امید تھی کہ آپ دوبارہ وہی بات فرمائیں گے‘ لیکن افسوس! انہوں نے اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ صرف ان کا خیال و گمان تھا جو انہوں نے بیان فرمایا تھا یا واقعاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود تھی۔ خود مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل نظر نہیں آئی ہے اور بعید نظر آتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ حسی فکر مغرب سے مشرق تک پہنچی ہو‘ لیکن آیة اللہ بروجردی بھی کبھی دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت میں نے اس سلسلے میں ان سے سوال کیوں نہیں کیا۔
اخباریت کا مقابلہ
بہر صورت اخباریت عقل کے خلاف ایک تحریک تھی‘ اس اسکول پر عجیب و غریب جمود حکم فرما تھا۔ خوش قسمتی سے وحید بہبہانی… معرف بہ آقا “آل آقا” حضرات آپ ہی کی نسل سے ہیں…آپ کے شاگردوں اور شیخ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ جیسے دلیر و سمجھدار افراد نے اس اسکول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
وحید بہبہانی کربلا میں تھے اس زمانے میں‘ ایک ماہر اخباری‘ صاحب “حدائق” بھی کربلا میں ساکن تھے‘ دونوں کا اپنا اپنا حلقہ درس تھا۔ وحید بہبہانی اجتہادی اسکول کے حامی تھے اور صاحب حدائق اخباری مسلک کے پیرو۔ فطری طور پر دونوں کے درمیان سخت فکری جنگ جاری تھی۔ آخر کار وحید بہبہانی نے صاحب حدائق کو شکست دے دی۔ کہتے ہیں کاشف الغطا بحرالعلوم اور سید مہدی شہرستانی جیسے وحید بہبہانی کے جید شاگرد‘ پہلے صاحب حدائق کے شاگرد تھے‘ بعد میں صاحب حدائق کا حلقہ درس چھوڑ کر وحید کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے۔
البتہ صاحب حدائق‘ نرم مزاج اخباری تھے‘ خود ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مسلک وہی ہے جو علامہ مجلسی کا مسلک تھا‘ ان کا مسلک اصولی و اخباری کے درمیان کی ایک چیز ہے۔ علاوہ بر ایں وہ بڑے مومن‘ خدا ترس اور متقی و پرہیزگار انسان تھے‘ باجودی اینکہ وحید بہبہانی ان کے سخت مخالف تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے‘ لیکن وہ اس کے برعکس‘ کہتے تھے آقای وحید کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے کہتے ہیں موصوف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وحید بہبہانی پڑھائیں۔
اخباریت کے خلاف شیخ انصاری کی جدوجہد کا انداز یہ تھا کہ آپ نے علم اصول فقہ کی بنیادوں کو محکم بنایا۔ کہتے ہیں‘ خود شیخ انصاری فرمایا کرتے تھے کہ اگر امین استر آبادی زندہ ہوتے تو میرا اصول مان لیتا۔
اخباری اسکول اس مقابلہ آرائی کے نتیجے میں شکست کھا گیا اور اب اس مسلک کے پیرو گوشہ و کنار میں خال خال ہی نظر آتے ہیں‘ لیکن ابھی بھی اخباریت کے سارے افکار… جو ملا امین کی پیدائش کے بعد بڑی تیزی سے پھیلے ہیں‘ لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہوئے اور تقریباً دو سو سال تک چھائے رہے… ذہنوں سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ آج بھی آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ حدیث کے بغیر‘ قرآن کی تفسیر جائز نہیں سمجھتے۔ بہت سے اخلاقی و سماجی مسائل بلکہ بعض فقہی مسائل میں بھی اخباریت کا جمود طاری ہے‘ فی الحال ان کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
ایک چیز جو عوام کے درمیان اخباری فکر پھیلنے کا باعث ہوئی وہ اس کا عوام پسند پہلو ہے‘ کیونکہ وہ کہتے تھے ہم تو اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہتے‘ ہم کلام معصوم۱کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں‘ ہمیں صرف “قال الباقر و قال الصادق” سے سروکار ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے معصوم۱کا کلام بیان کرتے ہیں۔
شیخ انصاری “فرائدالاصول” میں “برائت” و “احتیاط” کی بحث میں سید نعمت اللہ جزائری سے…جو اخباری مسلک کے پیرو تھے… نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں:
“کیا کوئی صاحب عقل یہ احتمال دے سکتا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے کسی بندہ (یعنی کسی اخباری) کو حاضر کیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ تم نے کس بنیاد پر عمل کیا؟ وہ جواب دے کہ میں نے معصومین۱کے حکم کے مطابق عمل کیا‘ جہاں کہیں معصوم۱کا فرمان مجھے نہیں ملا میں نے احتیاط کی‘ کیا ایسے شخص کو جہنم میں لے جایا جائے گا اور اس شخص کو بہشت میں جگہ دی جائے گی‘ جو کلام معصوم۱ کو اہمیت نہیں دیتا تھا اور ہر حدیث کسی نہ کسی بہانہ سے ٹھکرا دیتا تھا (یعنی اجتہادی دبستان کا پرو شخص)!! ہرگز نہیں۔”
مجتہدین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس قسم کی اطاعت و تسلیم‘ قول معصوم ۱کی اطاعت اور ان کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نہیں ہے بلکہ جہالت کے آگے سر جھکانا ہے‘ اگر واقعاً یہ معلوم ہو جائے کہ معصوم۱ نے فلاں بات کہی ہے تو ہم بھی اسے بے چون و چرا قبول کرتے ہیں‘ لیکن آپ حضرات یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم سنیں (اس کی سند اور معنی و مفہوم میں تحقیق کئے بغیر) جاہلوں کی طرح اسے قبول کر لیں۔
اب ہم یہاں چند ایک نمونے پیش کر رہے ہیں جس سے اخباریت کے جامہ طرز فکر اور اجتہادی نقطہ نظر کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا۔
دو طرز فکر کا ایک نمونہ
بہت سی حدیثوں میں عمامہ کا تحت الحنک گردن میں لپیٹے رہنے کا حکم دیا گیا ہے‘ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ۔ اس سلسلے کی ایک حدیث یہ ہے:
الفرق بین المومنین و المشرکین التلحی
“مومن و مشرک کا فرق‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹنا ہے۔”
کچھ اخباریوں نے اس طرح کی حدیثوں سے تمسک کر کے کہا ہے کہ تحت الحنک ہمیشہ گلے میں پڑا رہنا چاہئے‘ لیکن ملا محسن فیض مرحوم نے… باوجودیکہ اجتہاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اپنی کتاب “وافی” کے باب “الزی و التجمل” میں اس سلسلے میں ایک قسم کا اجتہاد کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں‘ قدیم زمانہ میں مشرکوں کا شیوہ تھا کہ وہ تحت الحنک عمامہ کے اوپر باندھے رہتے تھے اور اس عمل کو “اقتعاط” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘ اگر کوئی یہ کام کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں مشرکوں کے گروہ میں شامل ہوں‘ چنانچہ یہ حدیث اس عملی و شیوہ کے خلاف مبارزہ کرنے اور مشرکوں کے اس سمبل (Symbol) کی پیروی نہ کرنے کی خاطر ہے‘ لیکن آج جبکہ وہ سمبل ختم ہو چکا ہے تو پھر اس حدیث کا کوئی موضوع باقی نہیں رہا ہے‘ آج چونکہ کوئی شخص تحت الحنک گلے میں نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب تحت الحنک گلے میں لپیٹنا حرام ہے‘ کیونکہ اس صورت میں وہ “لباس شہرت” کی شکل اختیار کر لے گا اور لباس شہرت حرام ہے۔
یہاں اخباریت کا جمود کہتا ہے کہ حدیث میں صرف تحت الحنک لپیٹنے کا حکم بیان ہوا ہے‘ لہٰذا اس کے بارے میں بحث و اجتہاد کرنا فضول ہے‘ لیکن اجتہادی فکر کہتی ہے ہمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے‘ ایک مشرکوں کے سمبل سے اجتناب اور دوسرے لباس شہرت سے پرہیز۔ جس وقت وہ سمبل دنیا میں موجود تھا مسلمین اس سے اجتناب کرتے تھے‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹے رہنا سب پر واجب تھا لیکن آج جب کہ یہ موضوع متنفی ہو چکا ہے۔ اب یہ مشرکوں کا سمبل نہیں رہا ہے اور عملی طور پر اب کوئی بھی تحت الحنک نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب کوئی شخص یہ عمل بجا لاتا ہے تو وہ لباس شہرت کا مصداق ہے اور حرام ہے۔ ایک نمونہ تھا‘ اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔
وحید بہبہانی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ عید کا چاند تواتر کی حد تک ثابت ہو گیا‘ اتنے زیادہ افراد نے میرے پاس آ کر چاند دیکھنے کی گواہی دی کہ مجھے یقین آ گیا۔ چنانچہ میں نے عید کا اعلان کر دیا‘ ایک اخباری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ خود تم نے چاند دیکھا نہیں جن کی عدالت مسلم ہے انہوں نے گواہی بھی نہیں دی‘ پھر تم نے عید کا اعلان کیسے کر دیا؟ میں نے کہا خبر متواتر ہے اور تواتر سے مجھے یقین حاصل ہو گیا ہے۔ کہنے لگے کہ کس حدیث میں ہے کہ تواتر حجت ہے؟
وحید بہبہانی کا بیان ہے کہ
“اخباریوں میں اتناد جمود پایا جاتا ہے کہ اگر بالفرض کوئی مریض کسی امام کے پاس گیا ہو اور امام نے اسے ٹھنڈا پانی پینے کو کہا ہو تو اخباری‘ دنیا کے سارے مریضوں کو ٹھنڈا پانی پینے کا حکم دیں گے اور کہیں گے ہر مرض کا علاج ٹھنڈا پانی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ امام نے یہ حکم اس مریض کے مزاج اور اس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے دیا تھا نہ کہ تمام مریضوں کیلئے۔”
یہ بھی مشہور ہے کہ بعض اخباری میت کے کفن پر شہادتیں اس طرح لکھنے کا حکم دیتے تھے:
اسماعیل یشھد ان لا الہ الا اللہ
“اسماعیل خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔”
وحدانیت کی گواہی اسماعیل کے نام سے کیوں دی جائے؟ اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حضرت امام صادق۱نے اپنے فرزند اسماعیل کے کفن پر یہ عبارت تحریر فرمائی تھی۔
اخباریوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کہ اسماعیل کے کفن میں یہ عبارت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نام اسماعیل تھا۔ اب اگر مثلاً حسن قلی بیگ کا انتقال ہوا ہے تو خود ان ہی کا نام کیوں نہ لکھا جائے؟ اسماعیل کا نام کیوں لکھیں؟!! اخباری کہتے تھے یہ ساری باتیں اجتہاد اور عقل کا استعمال ہیں‘ ہم اہل تعبد و تسلیم ہیں‘ ہمیں صرف “قال الباقر و قال الصادق” سے مطلب ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ناجائز تقلید
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔ ایک وہ تقلید ہے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ہے‘ یہ یقینا ناجائز ہے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ہے:
انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون
“ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔”(زخرف‘ ۲۳)
ہم نے تقلید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے‘ جائز و ناجائز۔ تو ناجائز تقلید ہے‘ مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجداد کے رسم و رواج کی یہی اندھی تقلید ہی نہیں ہے بلکہ عالم کی طرف جاہل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ہے‘ جائز و ناجائز۔
آج کل بعض ایسے افراد سے جو کسی مرجع تقلید کی تلاش میں ہیں‘ یہ سننے میں آتا ہے کہ ہمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں‘ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ہے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولنا اور کھلوانا ہے‘ تقلید اگر سرسپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ہزاروں برائیاں پیدا ہو جائیں گی۔
اس سلسلے میں ایک طویل حدیث ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:
و اما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھواہ مطیعا لامر مولاہ فللقوام ان یقلدوہ
یہ حدیث تقلید و اجتہاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے اور شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے‘ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ہیں۔
یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ہے:
و منھم امیون لا یعلسون الکتاب الا امانی و ان ھم الا یطنون(بقرہ‘ ۷۸)
یہ آیت ان جاہل یہودی عوام کی مذمت کر رہی ہے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یہودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ہوا ہے‘ ارشاد ہوتا ہے:
“ان میں کچھ ایسے جاہل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور وہم و گمان کی پیروی کرتے تھے۔”
ناجائز تقلید اور امام صادق (ع)
مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ہے:
“ایک شخص نے امام صادق۱سے عرض کیا کہ جاہل یہودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ہر بات ماننے پر مجبور تھے‘ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا اس میں ان کی کیا خطا ہے؟ اگر خطا ہے تو وہ یہودی علماء کی خطا ہے۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رہا ہے جو کچھ جانتے ہی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رہے تھے؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ہے تو پھر ہمارے عوام کی بھی مذمت کی جانی چاہئے جو ہمارے علماء کی تقلید کرتے ہیں‘ اگر یہودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نہیں کرنی چاہئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔”
جاری ہے
source : www.sibtayn.com