- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/29
- 0 رائ
مصنف: شھید آیت اللہ مرتضی مطھری (رح)
فتوؤں میں فقیہ کے تصورات کی جھلک
فقیہ اور مجتہد کا کام شرعی احکام کا استنباط و استخراج ہے‘ لیکن موضوعات کے بارے میں اس کی معلومات اور کائنات کے متعلق اس کے تصورات کو اس کے فتوؤں میں بڑا دخل ہوتا ہے‘ جن موضوعات کے متعلق فتویٰ صادر کر رہا ہے‘ ضروری ہے کہ ان کے متعلق بھرپور معلومات رکھتا ہو مگر کسی ایسے فقیہ کو تصور کریں جو گھر یا مدرسہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا موازنہ ایک ایسے فقیہ سے کریں جو زندگی کے مسائل میں دخیل ہے۔ یہ دونوں فقیہ شرعی دلیلوں کی طرف رجوع کرتے ہیں‘ لیکن دونوں کا استنباط اور فتویٰ الگ ہو گا۔
ایک مثال عرض کرتا ہوں‘ فرض کیجئے جس شخص نے تہران میں زندگی گزاری ہو یا تہران ہی جیسے کسی شہر میں زندگی بسر کی ہو‘ جہاں آب کُر اور آب جاری کی فراوانی ہو‘ نہریں اور کنویں موجود ہوں۔ یہ شخص فقیہ ہے اور طہارت و نجاست کے متعلق فتویٰ دینا چاہے تو وہ اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کے پیش نظر جب طہارت و نجاست کی روایتوں کا مطالعہ کرے گا تو اس کا استنباط و احتیاط اور بہت سی چیزوں سے اجتناب کے ہمراہ ہو گا‘ لیکن جب یہی شخص بیت اللہ الحرام کی زیارت کی غرض سے سفر کرے گا اور وہاں پر طہارت و نجاست کی صورت حال‘ نیز پانی کی قلت سے دوچار ہو گا تو طہارت و نجاست کے سلسلے میں اس کا نظریہ بدل جائے گا‘ یعنی اس سفر کے بعد جب وہ طہارت و نجاست سے متعلق روایتوں کا جائزہ لے گا تو ان حدیثوں کا کچھ اور ہی مطلب اس کی سمجھ میں آئے گا۔
اگر کوئی شخص فقہاء کے فتوؤں کا آپس میں موزانہ کرے اور پھر ان کے حالات زندگی‘ نیز زندگی کے مسائل میں ان کے طرز فکر کا جائزہ لے تو اس پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ ایک فقیہ کے ذہنی تصورات اور دنیا کے بارے میں اس کی معلومات کس قدر اس کے فتوؤں پر اثرانداز ہوئے ہیں‘ یہاں تک کہ عرب فقیہ کے فتوؤں سے عربیت کی بو آتی ہے اور عجمی فقیہ کے فتوؤں سے عجمیت کی بو آتی ہے‘ دیہاتی فقیہ کے فتوؤں میں دیہات کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور شہری فقیہ کے فتوؤں میں شہری جلوے نظر آتے ہیں۔
یہ دین‘ دین خاتم ہے‘ کسی خاص علاقہ یا زمانہ سے مخصوص نہیں ہے وہ ہر علاقہ اور ہر زمانہ کے لئے ہ‘ یہ وہ دین ہے جو زندگی کو منظم بنانے اور انسانی زندگی کو ارتقاء دینے آیا ہے‘ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی فقیہ فطری نظاموں اور طبیعی حالات سے بے خبر اور زندگی کے رشد و ارتقاء کا منکر ہونے کے باوجود اس دین حنیف کے اعلیٰ و مترقی احکام کا صحیح طریقے سے استنباط کر سکے جو انہی نظاموں کے لئے آیا ہے اور ان ہی تغیرات و تبدلات‘ نیز رشد و ارتقاء کی ہدایت و رہنمائی اور انہیں صحیح سمت پر لے جانے کا ضامن ہے؟!
ضرورتوں کا ادراک
آج بھی ہماری فقہ میں ایسے موارد موجود ہیں جہاں فقہاء نے صرف کسی موضوع کی ضرورت و اہمیت کے ادراک کے پیش نظر پورے جزم و یقین کے ساتھ اس کے واجب ہونے کا فتویٰ دیا ہے یعنی باوجودیکہ اس موضوع کے متعلق کوئی صریح و واضح حدیث و آیت ہے نہ معتبر اجماع‘ لیکن فقہاء نے استنباط کے چوتھے رکن یعنی عقل دلیل سے استفادہ کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے‘ فقہاء ایسے مقامات پر موضوع کی اہمیت اور روح سے واقفیت کے پیش نظر کہ اسلام‘ اہم موضوعات کے احکام بیان کئے بغیر انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیتا‘ یقین کرتے ہیں کہ اس مقام پر الٰہی حکم ایسا ہونا چاہئے۔ حاکم کی ولایت اور اس کے فروعات سے متعلق فقہاء کے فتوؤں کی اساس یہی ہے‘ اگر انہیں موضوع کی اہمیت کا حساس نہ ہوا ہوتا تو یہ فتوے وجود میں نہ آتے جس حد تک انہیں موضوع کی اہمیت کا حساس ہوا‘ انہوں نے فتوے صادر کئے۔ ایسی ہی دوسری نظیریں بھی دریافت کی جا سکتی ہیں جہاں فتویٰ نہ دینے کی وجہ‘ موضوع کی اہمیت و ضرورت سے بے خبر و لاعلمی رہی ہے۔
ایک اہم تجویز
یہاں میں ایک تجویز پیش کر رہا ہوں جو ہماری فقہ کے ارتقاء کے لئے بے حد مفید ہے‘ یہ تجویز اس سے پہلے آیة اللہ حاجی شیخ عبدالکریم یزدی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ (حوزئہ علمیہ قم کے بانی) پیش کر چکے ہیں‘ میں ان ہی کی تجویز دہرا رہا ہوں۔
جناب موصوف نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ضروری ہے کہ عوام تمام مسائل میں ایک ہی شخص کی تقلید کریں‘ بہتر یہ ہے کہ فقہ کے الگ الگ شعبے قائم کر دیئے جائیں‘ یعنی ہر گروہ‘ فقہ کا ایک عمومی کورس پورا کرنے کے بعد کسی معین شعبہ میں مہارت حاصل کرے اور لوگ اس کی اسی شعبے میں تقلید کریں جس میں اس نے مہارت حاصل کی ہے‘ مثلاً بعض لوگ عبادات کو اپنی مہارت کے شعبہ کے طور پر اختیار کریں تو کچھ لوگ معاملات میں‘ کچھ افراد سیاسیات میں اور کچھ اشخاص احکام میں (احکام‘ فقہی اصطلاح میں) اجتہاد کریں‘ جس طرح علم طب میں شعبے تقسیم کر دیئے گئے ہیں ہر ڈاکٹر طب کے ایک مخصوص شعبہ میں مہارت حاصل کرتا ہے‘ کوئی دل کا ماہر ہے تو کوئی آنکھ کا‘ کوئی کان کا ماہر ہے تو کوئی ناک کا… اگر ایسا ہو جائے تو ہر شخص اپنے شعبے میں زیادہ بہتر طریقے سے تحقیق کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں جناب سید احمد زنجانی کی کتاب “الکلام یجرالکلام” میں یہ بات آیة اللہ حائری یزدی سے نقل ہوئی ہے۔
یہ تجویز بہت اچھی تجویز ہے اور میں اس میں اتنا اور اضافہ کرتا ہوں کہف قہ میں کام کی تقسیم اور فقاہت میں تخصصی شعبوں کی ایجاد‘ تقریباً سو سال سے ایک ضرورت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور موجودہ حالات اس دور کے فقہاء یا فقہ کے تکامل و ارتقاء کو روک دیں‘ اسے موقوف کر دیں اور یا یہ تجویز مان لیں۔
علوم میں شعبوں کی تقسیم
کیونکہ علوم میں کام کی تقسیم‘ علوم کی ترقی کا نتیجہ بھی ہے اور علت بھی‘ یعنی علوم تدریجی طور پر ترقی کرتے ہیں اور پھر اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے تمام مسائل میں تحقیق ایک شخص کے بس کی بات نہیں رہ جاتی‘ لہٰذا اس کی تقسیم اور مختلف شعبے ایجاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے‘ پس کام کی تقسیم اور ایک علم تخصصی شعبوں کی ایجاد اس علم کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف سے جب کام تقسیم ہو جاتا ہے اور تخصصی شعبے قائم ہو جاتے ہیں اور ساری توجہ اپنے اپنے مخصوص شعبوں پر متمرکز ہو جاتی ہے تو علم کو مزید ترقی ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام علوم… طب‘ ریاضیات‘ قانون‘ ادبیات اور فلسفہ… میں تخصصی شعبے قائم ہو چکے ہیں‘ اسی لئے ان علوم نے خوب ترقی بھی کی ہے۔
فقہ کا ایک ہزار سالہ ارتقاء
ایک زمانہ تھا جب فقہ بہت محدود تھی‘ شیخ طوسی سے پہلے کی فقہی کتابوں کا جب جائزہ لیتے ہیں تو وہ بہت ہی چھوٹی اور محدود نظر آتی ہیں۔ شیخ طوسی نے “مبسوط” نامی کتاب لکھ کر فقہ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کیا اور اسے وسعت دی۔ اسی طرح ہر دور کے علماء و فقہاء کی کوششوں اور نئے نئے مسائل شامل ہونے‘ نیز جدید تحقیقات کے نتیجے میں فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی‘ یہاں تک کہ سو سال قبل‘ صاحب جواہر بڑی مشکلوں سے فقہ کا ایک مکمل دورہ لکھنے میں کامیاب ہو سکے۔ کہتے ہیں موصوف نے بیس سال کی عمر سے اس مہم کا آغاز کیا تھا اور اپنی غیر معمولی صلاحیت‘ پیہم کوشش اور طویل عمر کے نتیجے میں زندگی کے آخری لمحات میں فقہ کا دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے‘ جواہر کا مکمل دورہ چھ بڑی اور بہت ہی ضخیم جلدوں میں چھپا ہے۔(اب یہ کتاب ۴۴ جلدوں میں “عام سائز سائز” میں چھپی ہے) شیخ طوسی کی “مبسوط” جو اپنے زمانہ میں مشروح و مفصل فقہ کا نمونہ مانی جاتی تھی‘ جواہر کی ایک جلد کے نصف کے برابر بھی نہیں ہے۔ صاحب جواہر کے بعد شیخ مرتضیٰ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ‘ نے فقہ کی نئی بنیادیں قائم کیں جس کا نمونہ آپ کی کتاب مکاسب اور کتاب طہارت ہے‘ آپ کے بعد کسی کے ذہن میں اتنی تفصیل و تحقیق کے ساتھ فقہ کا مکمل دورہ پڑھانے یا لکھنے کا تصور بھی نہیں آتا۔
اس موجودہ دور میں اور دنیا کے تمام علوم کی طرح ہماری فقہ کی اس ترقی کے بعد… جو ماضی میں علماء و فقہاء کی کوششوں کا نتیجہ ہے… اس دور کے علماء و فقہاء فقہ کی ترقی کو روک دیں اس کے ارتقاء کے راستے مسدود کر دیں اور یا اس سنجیدہ مترقی تجویز کو مان کر تخصصی شعبے ایجاد کریں اور عوام بھی ایک شخص کی تقلید کرنے کی بجائے مختلف شعبوں میں الگ الگ مجتہدین کی تقلید کریں جس طرح وہ اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے الگ الگ ماہرین کے پاس جاتے ہیں
فقہی کونسل
ایک اور تجویز بیان کرنا چاہتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ یہ باتیں جتنا زیادہ بیان کی جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ تجویز یہ ہے‘ باوجودیکہ دنیا میں تمام علوم میں تخصصی شعبے قائم ہو چکے ہیں اور اس کے باعث حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے‘ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک اور کام ہوا ہے جس نے اپنی جگہ پر اس ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ ہر شعبہ کے صف اول کے ماہروں کی امداد باہمی‘ آپسی تعاون اور فکر و نظر کا تبادلہ ہے۔ آج کی دنیا میں ایک شخص کے فردی فکر و عمل کی کوئی قیمت نہیں‘ اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ ہر شعبہ کے ماہرین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں‘ اپنے افکار دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ ایک براعظم کے دانشور دوسرے براعظم کے دانشوروں سے تعاون کرتے ہیں‘ چنانچہ صف اول کے ماہروں کے درمیان اس تبادلہ خیال اور باہمی تعاون کے نتیجے میں اگر کوئی صحیح و مفید نظریہ سامنے آتا ہے تو وہ دنیا میں جلد ہی پھیل جاتا ہے اور اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور اگر کوئی غلط نظریہ ہوتا ہے تو اس کا بطلان جلد از جلد واضح ہو جاتا ہے اور وہ نظریہ دم توڑ دیتا ہے‘ اس نظریہ پرداز کے شاگرد‘ برسوں غلط فہمی میں پڑے نہیں رہتے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک کام کی تقسیم ہوئی ہے نہ تخصصی شعبے قائم ہوئے ہیں اور نہ آپس میں کسی قسم کا تعاون و تبادلہ خیال ہوتا ہے‘ میں یہاں یہ بتانے کے لئے کہ خود اسلام کے اندر اس قسم کے تصورات اور مترقی احکام موجود ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت اور نہج البلاغہ کے چند جملے پیش کر رہا ہوں۔
قرآن مجید میں سورئہ شوریٰ ۳۸ میں ہے: والذین استجابوالربھم واقاموا الصلوة و امرھم شوریٰ بینھم ومما رزقناھم ینفقون
یہ آیت مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کے اوصاف ان لفظوں میں بیان کرتی ہے:
“یہ لوگ حق کی دعوت قبول کرتے ہیں‘ نماز پڑھتے ہیں‘ اپنے کام باہمی ہم فکری اور رائے مشورے سے انجام دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عنایت کیا ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔”
پس اسلامی نقطہ نظر سے تبادلہ خیال اور ہم فکری مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کی زندگی کے اصول میں شامل ہے۔
نہج البلاغہ میں ہے: و اعلموا ان عباد اللہ المسحفطبر علمہ یصونون مصونہ و یفجرون عیونہ یتواصلون بالولایة ویتلاقون بالمحبہ‘ ویساقون بکاس رویة و یصدرون بریة
“جان لو! خدا کے جن بندوں کو الٰہی علم سپرد کیا گیا ہے وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں‘ اس کے چشموں کو جاری کرتے ہیں‘ یعنی علم کے چشموں سے لوگوں کو سیراب کرتے ہیں‘ آپس میں محبت آمیز عواطف اور دوستی کا رشتہ قائم کرتے ہیں‘ کشادہ روئی‘ محبت ار گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنی فکر و علم کے جام سے سیراب کرتے ہیں‘ اپنے نظریات سے ایک دوسرے کو مستفید کرتے ہیں‘ نتیجہ میں سب کے سب سیراب ہو کر باہر آتے ہیں۔”
اگر فقاہت کی علمی کونسل قائم ہو جائے اور تبادلہ خیال کا عمل باقاعدہ طور سے انجام پائے تو فقہ میں رونما ہونے والی ترقی کے علاوہ فتوؤں کا اختلاف بھی کافی حد تک برطرف ہو جائے گا۔
اگر ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہماری فقہ بھی دنیا کے واقعی علوم کا ایک حصہ ہے‘ تو ہمیں بھی ان اسلوبوں سے استفادہ کرنا پڑے گا جس سے دوسرے علوم میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے‘ اگر ہم ان اسلوبوں کو کام میں نہ لائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری فقہ‘ علوم کی صف سے خارج ہے۔
کچھ اور بھی تجویزیں ہیں‘ لیکن انہیں بیان کرنے کا اب وقت نہیں رہا ہے‘ میں نے اس آیت کو سرنامہ کلام بنایا تھا:
قلولا نفرمن کل فرقة منھم طائفہ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلم یحذرون
یہ آیت واضح لفظوں میں حکم دے رہی ہے کہ کچھ مسلمانوں خو دین میں “تفقہ” کر کے دوسروں کو اپنے “تفقہ” سے بہرہ مند کرنا چاہئے۔
“تفقہ”، “فقہ” سے بنا ہے‘ فقہ کا معنی صرف سمجھنا ہی نہیں ہے‘ بلکہ گہرائی اور ایک شئے کی حقیقت کے متعلق بھرپور بصیرت کے ساتھ سمجھنے کو فقہ کہتے ہیں۔ راغب اصفہانی اپنی کتاب “مفردات” میں کہتے ہیں:
الفقہ ھو التوصل الی علم غائب بعلم شاہد
“فقہ ظاہر و آشکار امر کے ذریعے کسی مخفی و پوشیدہ حقیقت کے انکشاف کا نام ہے۔”
تفقہ کی تعریف میں کہتے ہیں:
تفقہ اذا طلبہ فتخصص بہ
“کسی چیز کو تلاش کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی۔”
یہ آیت مسلمانوں سے کہتی ہے کہ دین کی معرفت سطحی نہیں ہونی چاہئے بلکہ گہرائی میں اتر کر غور و فکر کریں اور احکام کی روح و فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
یہ آیت اجتہاد و فقاہت کی دلیل ہے اور یہی آیت ہماری تجویزوں کی سند ہے‘ جس طرح اس آیت کی روشنی میں اسلام میں تفقہ و اجتہاد کی بساط بچھائی گئی‘ اسی طرح اس آیت کے فرمان کے مطابق اس کی بساط میں مزید وسعت دی جائے‘ ضرورتوں پر مزید توجہ دی جائے‘ فقہی کونسل میدان عمل قدم رکھے‘ اجتماع سے کٹ کر انفرادی اقدامات منسوخ قرار دے دیئے جائیں‘ تخصصی شعبے قائم کئے جائیں تاکہ ہماری فقہ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھ سکے۔
(یہ استاد شہید‘ جلیل القدر مفکر حضرت آیة اللہ مرتضیٰ مطہری کی تقریر تھی جو آپ نے ۱۹۶۱ء میں حضرت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ کی وفات کے تین دن بعد کی تھی)۔
source : www.sibtayn.com