- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/10/27
- 0 رائ
علوم قرآن کے مباحث میں سے کچھ بہت مشکل اورپیچیدہ ہیں جسکی بناء پر اسلامی مکاتب فکر اورمحققین نے ہزاروں زحمتیں اٹھا کر فہم قرآن کی خاطر شب وروز ان مسائل کی شرح اورتوضیح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہی مسائل میںسے ایک اعجاز قرآن کا مسئلہ ہے جس کے بارئے میںعلماء اورعلوم قرآن کے ماہرین نے مفصل بہت بڑئے حجم کی کتابیں اور تحقیقی مقالات ہر دور میںپیش کئے ہیں تاکہ قرآن پر ہونے والے اشکالات اورشبہات کا ازالہ ہو سکے ۔
لہذا اعجاز قرآن پر جتنے بھی اشکالات وارد ہوئے ہیں سب کا جواب ہر دور میں بہت ہی مستدل اور اچھے طریقے پر دیاگیاہے ،رجوع کے لئے بہترین کتاب استاد محترم حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ ،المد خل التفسیر،المیزان ج١۔البیان فی تفسیر القرآن کافی ہے ۔
لیکن کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اتنے سارئے مقالات اورکتب کے باوجود اس موضوع پر قلم اٹھانا مفید نہیں ہے !کیونکہ ہمارا مقصد علوم قرآن کا اجمالی تعارف اردو زبان میں بیان کرنا ہے تاکہ اس وقت کے مفسرین جان لیں کہ تفسیر بالرای شریعت اسلام میںممنوع ہے اورتفسیر قرآن لکھنے کے لئے فقط پیسے اوراثر ورسوخ کا فی نہیں ہے بلکہ علوم قرآن کو سیکھنے کے بعد علوم قرآن کے نتائج کی حیثیت سے تفسیر قرآن پیش کریں لہذا اعجاز قرآن کا اجمالی تعارف کرانا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے جس کوذکر کررہے ہیں ۔
اعجاز قرآن کے بارے میں تین نظریے قابل تصور ہیں :
الف : قرآن معجزہ نہیں ہے یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا ناممکن نہیں ہے !
اس نظریے کو برسوں سال پہلے خود قرآن کریم نے ہی بہت ہی زیبا اورادبی الفاظ میں جواب دیاہے جیساکہ : فأتو ابمثلہ ،”اور کبھی یوں ارشاد فرمایا ”اس کی مانند دس سورئے لاسکتے ہو تو لاؤ!اور کبھی فرمایا ”جن وانس مل کر اس قرآن کی مانند پر اتفاق کریں تو بھی نہیں لاسکیں گے ”ان جیسی اور بھی بہت سی آیات موجود ہیں ، جیسے سورہ انعام ،نحل،بقرہ ،بنی اسرائل ،کی بعض آیات تحدی کا ضرور مطالعہ کیجیے ،مرحوم علامہ طباطبائی المیزان ج ١ میںمعجزہ کی حقیقت اورکمیت و کیفیت کو بہت ہی اچھے انداز میںبیان فرمایا ہے اورتمام شبہات واعتراضات کا منہ توڑ جواب دیاہے ۔
ب: جو لوگ قرآن کو معجزہ یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانے کو ناممکن نہیں سمجھتے ہیں ان میں سے کچھ نظریہ صرف کے قائل ہیں یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا عقل کی روسے ناممکن نہیں ہے لیکن جب بھی انسان قرآن کی مانند لانا چاہتا ہے تو اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ،لہذا عقلا اس کی مانند لانا ممکن سمجھتے ہیںلیکن عملا نہیں لاسکتے چونکہ اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ۔ !
اس نظریے کے قائلین بھی اسلامی مکاتب فکر میںکم نہیں ہیں ،جناب استاد محترم ڈاکٹر رجبی دام عزہ اپنے لیکچر میں سات نفر کا نام لیا تھاکہ یہ لوگ اعجاز قرآن کے بارئے میں صرف کے قائل ہیں۔
ذراسا توجہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ نظریہ آیات تحدی کے ظہور اوردلیل عقل کے ساتھ ساز گار نہیں ہے کیونکہ ایک طرف سے اس کی مانند لانے کوممکن سمجھنا تودوسری طرف سے عملا لاکر دکھانے میںقاصر کے قائل ہوجانا !یہ دو باتیں اعجاز قرآن کے بارئے میں آئی ہوئی ادلۃ کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں ۔ !
ج : قرآن معجزہ ہے ، جسکی حقیقت اورکمیت وکیفیت کو سمجھنے کے لئے رجوع کیجیے ۔(ا )
اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن معجزہ ہے تاقیامت کوئی قرآن کی مانند اورمثل نہ اب تک لاسکا ہے اورنہ ہی لاسکے گا ، لہذا نزول قرآن کے دور میں ہی تمام فصحاوبلغا جمع ہوگئے ۔سب نے اعتراف کیا کہ اس سے فصیح اور بلیغ کوئی کلام نہیں ہوسکتا جب یہودیوں کا دور شروع ہوا تو سورہ کوثر ،سورہ حمد ، سورہ عادیات ، سورہ انشقاق
کی مانند سورتوں کو بنا کر قرآن میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ، خوش قسمتی سے نہ فقط خود ساختہ سورتوں کو قرآن میں شامل نہیں کیاجاسکا ،بلکہ اپنی نادانی اورجہالت کااعتراف بھی کرنا پڑا ،اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے جملات جو آج کاغذوں پر ثبت ہیں ان کی ملامت کرتے ہیں ۔ مرحوم علامہ طباطبائی نے المیزان جلد اول میں اعجاز قرآن کی بحث میںاعجاز قرآن کے مسئلہ کو بہت ہی مفصل اورعلمی،فلسفی اورعقلی اصول وقواعد کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔
لہذا قارئین محترم کو حقیقت اعجاز پر کئے ہوئے علمی اورعقلی اشکالات کا بہت ہی اچھے طریقے سے جواب دیا گیاہے مزید اس موضوع کے بارئے میں قارئین سے وقت لینا مناسب نہیںسمجھتا لہذا اختصار کے طور پر علامہ مرحوم طباطبائی کے تحقیقاتی اور علمی مطالب میںسے کچھ ذکرکرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔
علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن من جمیع الجہات جو قابل تصور اورتعقل ہے معجزہ ہے ، یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن فقط فصاحت وبلاغت کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا نظم وضبط اورترکیب وتحلیل کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا ادبی نکات اوراصول وضوابط کے حوالے سے معجزہ ہے ،بلکہ قرآن تمام جہات کے اعتبار سے معجزہ ہے ،علمی ،سیاسی ،ثقافتی ،اجتماعی ،انفرادی،اقتصادی ،تربیتی ،اخلاقی ،ادبی ،فقہی ،عقلی ،فصاحت وبلاغت ،نظم وضبط وغیرہ کے حوالے سے معجزہ ہے کوئی بھی مادی انسان مادی نظام کی روشنی میں اپنی گفتگو چاہے اقتصادی اورمعاشیات کے ماہر ہوں یا سیاسی اورعلمی ثقافتی اوراجتماعی اورادبی بلاغت وفصاحت نظم وضبط تحلیل وتفسیر کے جس مرحلے پر فائز ہوں قرآن کی مانند اورمثل نہیں لاسکتے
لہذاوہ آیات جس میں اللہ نے بشر کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قرآن کی مانند اورمثل انسان اورجن باہم مل کر لانا چاہیں تو بھی نہیں لاسکیں گے ایسی آیات ہر جہات سے چیلنج کرتی ہیں ،کہ تاقیامت کوئی اس کی مانند ایک سورہ ،یا ایک آیت کی بات تو دور کی بات ہے ،ایک جملہ بھی نہیںلاسکتے اور یہی قیامت تک کے لئے سب سے بڑا معجزہ ہے (۲ )
جسکو ثابت کر نے کے لئے مرحوم طباطبائی نے آیات کے علاوہ علمی وعقلی برہانوں سے استدلال کیاہے ،یعنی قرآن کریم میںجو علمی اوراخلاقی اورتربیتی یا دیگر مسائل کو جس انداز میں اللہ نے بیان کیاہے اس انداز میںکوئی انسان پیش نہیں کرسکتا اوریہ قرآن کی عظمت اوراعجاز کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
تبھی تواسلام کے ساتھ صدر اسلام سے اب تک اتنی عداوت اوربغض کے باوجود کبھی بھی قرآن کو نہیں مٹا سکے ، یہ اللہ کی بڑی منت ہے کہ جس نے قرآن کو ایسے مطالب اورالفاظ پر ناز ل فرمایا کہ جس کی دنیاکی کوئی بھی طاقت مقابلہ نہیں کرسکتی
لہذا شاید” انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ”کا اشارہ ایسے مطالب کی طرف ہو تبھی تو سورہ کوثر کے مقابلہ میں” انااعطینا ک الجواہر فصل لربک وجاہر ولا تعتمد قول ساحر۔!یا سورہ حمد کے مقابلے میں” الحمد لرحمن رب الاکوان ملک الادیان لک العبادۃ وبک المستعان اہدنا صراط الایمان ”!!!
یا دیگر سورتوں کو بنانے والے کے جملات ہی ان کی ملامت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہیں جملات اورکلمات سے ہی ان کی علمی صلاحیت اورفہم ودرک اورقرآن کے ساتھ عداوت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں آپ غور کیجیے ایسے افراد کتنی جہالت اورتاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ سورہ کوثر میں” انا ””اوراعطیناک ”کو عین قرآن کے الفاظ میں تکرار کیا ہے جبکہ اسکا دعوی ہے کہ ہم اس کا مثل لائینگے ،اسی طرح ”کوثر ”کی جگہ ”جواہر” کاکلمۃلایا ہے ”جواہر” اور”کوثر ”کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کلمہ” اعطا ”کے متعلق ”جواہر” کو قرار دینے اور”کو ثر” کو قرار دینے میں ادبی اورفصاحت وبلاغت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا فرق ہے ، پھر” فصل لربک” کی جگہ عین الفاظ قرآن کو تکرار کیا ہے جبکہ اس کی پوری کوشش اس کی مانند لانا ہی ہے ،”والنحر”کی جگہ ”جاہر” ،”انا شانئک ہو الابتر” کی جگہ ”ولاتعتمد قول ساحر ”لانے سے فقط اپنی ضمیر کی عکاسی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،کیونکہ ان دوجملوں کے الفاظ اورمعانی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اور ادبی حوالے سے ان دونوں کے درمیان مقائسہ کرنا ہی غلط ہے ۔ !
نیز سورہ حمد کے مقابلے میں خود ساختہ سورہ کو سورہ حمد سے مقایسہ کیجیے کہ کلمہ” الحمد” عین وہی لفظ ہے جو قرآن میں آیاہے جبکہ اس کا ہدف اس کی مانند اور مثل لاکر اللہ کے عجز کوثابت کرنا ہے ،”للہ” کی جگہ” للرحمن” لا یا جبکہ” للرحمن” اولا قرآن کے ہی الفاظ میں سے ایک ہے ،ثانیا اللہ کا لفظ علم ہے اور لفظ رحمن اس کی صفت ہے کلمہ الحمد کے ساتھ للرحمن لانے اورالحمد کے ساتھ للہ لانے میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اگرکسی کو معلوم نہ ہو تو اس صورت میں اس شخص کو عالم کہلانے کے بجائے اس کا علاج کروانا چاہیے ۔
اسی طرح کلمہ” رب ”کو عین قرآن ہی کا ایک لفظ ہے تکرار کیا ہے اوررب کے بعد عالمین کی جگہ” اکوان” کو لا یا ہے” اکوان” کلمۃ”کون ”کا جمع ہے ۔
جبکہ’ ‘ عالمین ”کے بارئے میں اختلاف ہے ، یہ کسی مفرد کی جمع نہیں ہے کیونکہ عالم متعدد نہیں ہیں ،البتہ کچھ مفسرین نے فرمایا ہے کہ کلمہ ”عالمین” ”عالم ”کی جمع ہے” عالم” اس کا مفرد ہے اس نظریے کی بناء پر بھی” اکوان” اور”عالمین ”کے معنی لغوی اوراصطلاحی میں فرق پایاجاتا ہے ”کون” افعال عموم میں سے ایک ہے جبکہ ”عالم” افعال مخصوص میں سے ان کے متعلقات اورقیودات کے اعتبار سے قابل جمع نہیں ہے کیونکہ یہ دو لفظ مترادف نہیںہیں۔
ثانیا” اکوان” جمع مکسر ہے جبکہ عالمین جمع سالم ہے ان کے معانی اور فصاحت اور بلاغت کے اعتبار سے بھی قابل جمع نہیں ہے ۔
قرآن کے مثل لانے کے دعویدار کو چاہیے کہ وہ وہی کمیت اور کیفیت کے ساتھ الفاظ کو لا ئیں جو سورۃ حمد میںموجود ہیں ،اگر کو ئی جمع سالم کی جگہ جمع مکسر کو استعمال کرے یا مفرد کے بدلے میں جمع استعمال کرے یا جمع کی جگہ تثنیہ کو استعمال کرے تو یہ اسکی جہالت کی علامت سمجھا جائےگا ۔
مالک یوم الدین کی جگہ ملک الادیان کو لا یا گیا ہے اگر ان دوجملوں کو باہم معنی اورنظم وضبط اورفصاحت وبلاغت کے حوالے سے مقائیسہ کریں تو بخوبی ایسے افراد کی جہالت اور کم علمی کے ساتھ بے انتھا ئی پستی کا بھی انداز ہ کیا جاسکتا ہے ۔
مزید ہمیں ان باتوں کی تحلیل وتفسیر کرتے ہوئے اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرناچاہیے۔
حواله جات
( ١ ) ١لمیزان ج١بحث اعجاز قرآن بہت ہی مفصل اورمفیدہے ، مدخل التفسیر ابحاث حول اعجاز القرآن ، حضرت استاد محترم فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ )
( ۲ ) المیزان ج١بحث قرآن ،طباطبائی )