- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
اب تک ھمیں یہ اجمالاً معلوم ھوگیا ھے کہ قرآن خدا کا کلام اور معجزہ ھے لہٰذا اِس کے بعد اُس کے معجزہ ھونے کی صورتوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
الف ۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت۔
قرآن کے اعجاز کی پھلی صورت اس کی فصاحت و بلاغت ھے یعنی خداوند متعال نے اپنے مقصود کو بیان کرنے کے لئے خوبصورت اور پرُ معنی ترین الفاظ کے ذریعہ منظم اور بہترین ترکیب کے ساتھ پیش کیا ھے تا کہ معنی مقصود کو آسان اور بنحو اَحسن اپنے مخا طبین کو سمجھا سکے، لہٰذا ایسے الفاظ کا انتخاب اور انھیں بلند معانی کے لئے مناسب جملوں کی خوبصورت لڑیوں کی ترکیب صرف اُسی ذات کے بساط میں ھے کہ جو پوری طرح الفاظ کی خصوصیات، معانی کے دقائق، اور ان دونوں میں موجود رابطوں پرتسلط ھو، نیز معانی کی بلندیاں اور مقام و محل کی رعایت کرتے ھوئے بہترین الفاظ اور عبارتوں کا انتخاب کرنے اور ایسا وسیع احاطہ، وحی اور الھام الٰھی کے بغیر کسی بھی انسان کے لئے میسر نھیں ھے۔
قرآن کا ملکوتی طرز سخن اور لاجواب لحن نیز الفاظ ومعانی کی وسعت و گھرائی ،عربی زبان سے آشنا نیز فن فصاحت و بلاغت کے ماھر ین کے لئے قابل درک ھے ، لیکن فصاحت و بلاغت کے معجزہ ھونے کی تشخیص اُنھیں لوگوں کے بس میں ھے جو مختلف فنون میں ید طو لی سے سرفراز ھوں، قرآن کے مقابلہ میں دوسری فصیح و بلیغ عبارتوں کے علاوہ اپنی توانائیوں اور مھارتوں کو آزماچکے ھوں، اور یہ کام صرف عرب کے ماھر اور زبردست شعرا کرسکتے تھے، اِس لئے کہ عربوں کے لئے سب سے بڑا ھنر شعر گوئی تھی جو آ نحضرت( ص) کی بعثت کے دوران اپنے عرو ج پر پھنچ چکی تھی، شعرا اپنے بہترین اشعار کو ادبی تنقید وں کے بعد اُسے بہترین ھنر کے عنوان سے پیش کرتے تھے۔
بنیادی اعتبار سے حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ کسی بھی نبی کا معجزہ اُس زمانہ کے علم و ھنر کے تناسب و تقاضے کے مطابق ھو ، تا کہ اُس زمانہ کے لوگ اُس معجزہ کے اعجاز کو علوم بشری کے مقابلہ میں درک کرسکیں، جیسا کہ امام ھادی علیہ السلام سے جب ابن سکیت، نے سوال کیا کہ کیوں خدا نے حضرت موسی علیہ السلام کا معجزہ ، ید بیضاء ،اور عصا کو اژدھا میں تبدیل کردینا، اور اِسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ، بیماروں کو شفا دینا ،اور حضرت رسول اکرم( ص) کا معجزہ ،قرآن کو قرار دیا“؟ تو آپ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا، ”حضرت موسی علیہ السلام کے زمانہ میں رائج ھنر ،سحر اور جادو تھا، اِسی وجہ سے خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ،جادو سے مشابہ قرارا دیا ،تا کہ وہ لوگ معجزہ جیسے عمل کی ناتوانی کو درک کرسکیں ،اور حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں طبابت اپنے عروج پر تھی لھذا خدا نے حضرت عیسی علیہ السلام کا معجزہ لا علاج بیماروں کو شفا دینا قرار دیا، تا کہ لوگ اِس معجزہ کے اعجاز کو بخوبی درک کرسکیں، لیکن آنحضرت( ص)کے دور میں رائج ھنر سخن سرائی اور شعر گوئی تھی، لہٰذا خدا نے قرآن کو بہترین اسلوب کے ساتھ ناز ل کیا، تا کہ قرآن کے ا عجاز کی برتری کو بخوبی درک کیا جا سکے ۔[۱]
ھاں اُس دور کے زبردست ادباء جیسے ،ولید بن مغیرہ مخزومی، عقبہ بن ربیعہ، اور طفیل بن عمرو، نے قرآن کی فصاحت و بلاغت اور بشر کے بہترین کلاموں پر اُس کی برتری کا اقرارا کیا[۲] یھاں تک کہ ایک صدی کے بعد ابن ابی العوجاء، ابن مقفع، ابو شاکر دیصانی ،اور عبد الملک بصر ی، جیسے افراد نے قرآن کے مقابلہ میں زور آزمائی کرنے کی کوشش کی اور مسلسل ایک سال تک اس کا جواب لانے میں سعی و کوشش کرتے رھے لیکن وہ جواب میں ایک حرف بھی پیش نہ کر سکے، یھاں تک کہ مجبور ھو کر قرآن کی عظمت کے مقابلہ میں گھٹنے ٹیک دئے، اور جب وہ لوگ مسجد الحرام میں اپنی ایک سال کی زحمتوں کا نتیجہ جمع کرنے کے لئے اکٹھا ھوئے تو اسی ھنگام امام صادق علیہ السلام ان لوگوں کے پاس سے گذرے اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:
قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الاِ نسُ وَ الجِنُّ عَلی اَن یَاٴتُوا بِمِثلِ ہَذَا القُرآنِ َلا یَاٴتُونَ بِمِثلِہِ وَلَوکَانَ بَعضُہُم لِبَعضٍ ظَہِیراً[۳]
اے رسول!( ص) اِن سے کھدو کہ اگر دنیا کے سارے جن و انس اس بات پر اکٹھے ھو جائے کہ اِس قرآن کا مثل لے آئیں تو اِس کا مثل نھیں لاسکتے اگر چھاس بابت ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔
ب۔ قرآ ن لانے والے کا اُمیِّ ھونا۔
قرآن اپنے معمولی حجم کے باوجود فردی و اجتماعی احکام و قوانین نیز اسلامی معارف کا سمندر کو اپنے اندر سمیٹے ھوئے ھے، جنھیں جمع کرنے اور ا س سلسلہ میں تحقیق کے لئے علو م و فنون میں ماھر افراد کی ایک جماعت کی ضرورت ھے جو سالھا سال اس مسئلہ کے تحت جستجو و تحقیق کریںاور آھستہ آھستہ اِس میں موجود اسرارہ سے پردہ گشائی کریں اگر چہ اس کے تمامحقائق اور اسرار سے پردہ کشائی فقط انھیں لوگوں کے بساط میں ھے کہ جو علم الٰھی کے مالک اور خدا کی جانب سے تائید شدہ ھوں
قرآن میںموجود بلند معارف کے مجموعے، اخلباقی دستورات کے باارزش خزانے، عادلانہ اور منظم قوانین، عبادتوں کے باب میں فردی و ا جتما عی احکامات کا حکمت کی بنیاد پر استوار ھونا، مفید ترین نصیحتیں ،عبرتوں سے بھر پور داستانیں، تعلیم و تربیت کے طور طر یقے، یا ایک جملہ میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ یہ قرآن اُن تمام اصول و قوانین پر مشتمل ھے جو انسان کی دنیوی و آخروی سعادتوں کے لئے ضروری ھیں، جسے بہترین اسلوب کے ساتھ اس طرح جمع کردیا ھے کہ جس سے ایک سماج کے مختلف افراد اپنی استعدادکے مطابق سمجھ سکیں۔
حقائق و معارف کے ایسے مجموعہ کو جمع کرنا عادی انسانوں کی بساط کے باھر ھے لیکن جو چیز آنکھوں کو خیرہ کردیتی ھے وہ یہ کہ ایسی با عظمت کتاب ایک ایسے شخص کے ھاتھوں پیش کی گئی ھے جس نے نہ مکتب دیکھا، نہ قلم کو ھاتھ لگایا ، بلکہ ایسے سماج میں تربیت پائی جو تمدن سے کوسوں دور تھا، اور اس سے بھی عجیب غریب بات یہ ھے کہ بعثت سے پھلے چالیس سال تک ایسا کوئی کلام بھی اُس ذات سے سننے میں نھیں آیا، اور رسالت کے دوران جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے پیش کیا، ایک ایسے مخصوص اسلوب و ترکیب پر مشتمل تھا جو ا سے دوسرے کلاموں کے درمیان ممتاز کردیتا تھا یھاں تک کہ خود وحی اور آنحضرت( ص) کے ذاتی کلام میں فرق واضح و روشن رہتا تھا۔
قرآن اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ھو ے فرماتا ھے:
<وَمَا کُنتَ تَتلُوا مِن قَبلِہِ مِن کِتٰبٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِینِکَ اِذًا لَّارتَابَ المُبطِلُونَ>[۴]
اے رسول! قرآن سے پھلے نہ تو تم کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ھاتھ سے تم لکھا کرتے تھے ایسا ھوتا تو یہ جھوٹے ضرور تمھاری نبوت میںشک کرتے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتا ھے :
قُل لَّو شَاءَ اللَّہُ مَا تَلَوتُہُ عَلَیکُم وَلَااَدرَٰیکُم بِہِ فَقَد لَبِثتُ فِیکُم عُمُراً مِّن قَبلِہِ اٴَفلَا تَعقِلُونَ[۵]
اگر خدا چاہتا تو میں یہ کتاب تمھارے سامنے پیش نہ کرتا اور اس سے آگاہ نہ کرتا جیسا کہ اس سے پھلے تمھارے درمیان زندگی گذاری کیا تم لوگ کچھ سمجھ سکے؟
شاید قرآن میں سورہ بقرہ کی آیت (۲۳) ”فَاٴتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثلِہِ‘اسی اعجاز کی طرف اشارہ ھو یعنی احتمال یہ ھے کہ (مثلہ) کی ضمیر (عبدنا) کی طرف پلٹ رھی ھو۔
اگر فرض محال کو ممکن مان لیا جائے کہ ہزاروں دانشمند افراد ایک دوسرے کی مدد سے ایسی کتاب کے جواب لانے میں کامیاب ھوجائیں لیکن کسی بھی صورت میںایک مکتب میں جانے والے اور درس نہ پرھنے والے شخص سے ایسی کتاب کا جواب لانا غیر ممکن ھے۔
لہٰذا ایک اُ مِّی شخص کے ذریعہ ایسی بے نظیر خصوصیات پر مشتمل کتاب کا ظاھر ھونا قرآن کے اعجاز کے دوسرے پھلوں کی طرف ایک اشارہ ھے۔
ج ۔ اتفاق نظر اور عد م اختلاف۔
قرآن مجید ایک ایسی کتاب ھے جو (۲۳) سال کی مدت میں تلخ و شیریں حوادث ، نشیب و فراز سے بھر پور حالات کے باوجود اُس کے مطالب میں روانی او راعجاز کے پھلو برقرار ھیں۔لہٰذ ظاھر و باطن، الفاظ و معانی میں روانی قرآن کے اعجاز کی ایک دوسری صورت ھے خود قرآن میں اسی نکتہ کی طرف ایک اشارہ موجود ھے :<اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ القُرآنَ وَلَو کَانَ مِن عِندِ غَیرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوا فِیہِ اختِلاَفاً کَثِیراً>[۶] تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نھیں کرتے اور یہ خیال نھیں کرتے کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ھوتا تو ضرور اس میں ا ختلاف پاتے۔
وضاحت: ھر انسان ھمیشہ دو قسم کی حالتوں سے دوچار ھو تا ھے،
پھلے یہ کہ برابر اس کی معلومات اور مھارتوں میں اضافہ ھوتار ہتا ھے اور یہ افزائش اُس کے کلام میں پوری طرح اثر انداز بھی ھوتی ھے اور طبیعی اعتبار سے بیس سال کے اندر نمایاں فرق آجاتا ھے۔
دوم: یہ کہ زندگی کے مختلف حوادث اور مختلف حالات جیسے یاس و امید، خوشی و غم اور اضطراب و آرام، احساسات وخیالات کی تبدیلی کا باعث بنتے ھیں، لہٰذاُ اس کے حالات کا اسطرح سے متغیر ھوتے رھنا اُس کے کلام میں شدید اختلاف اور ضد و نقیضن کا سبب بنتا ھے، در اصل رفتار و گفتار میں تبدیلی روحی حالات کے متغیر ھونے کا سبب ھوتے ھیں کہ جو خود طبیعی اور اجتماعی اوضاع و احوال کے تابع ھیں۔
اب اگر ھم یہ فرض کرلیں کہ قرآن کریم آنحضرت( ص)کی اپنی لکھی ھوئی کتاب ھے تو آپ کی زندگی کے حوادث، تلخ و شیر یں حالات کی وجہ سے یہ کتاب بے شمار اختلافات اور ضد و نقیضن سے پرُ ھونی چاھیے تھی لیکن ھم ایسے اختلاف کامشاھدہ نھیں کررھے ھیں۔
لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ قرآن کے مضامین میں عدمِ اختلاف اور اتحاد کا ھونا ،اُس کی فصاحت و بلاغت کا معجزہ ھے نیز اس بات کی دلیل ھے کہ اس کتاب کا سرچشمہ خداوند متعال کی ذات ھے جو بدلتے ھوئے حالات پر مسلط اور طبیعت پرحاکم ھے۔
سوالات
۱۔ قرآن کس طرح اپنے معجزہ ھونے کا دعویٰ کررھا ھے وضاحت فرمائیں ؟
۲۔ اعجاز قرآن پر اجمالی دلیل کیا ھے؟
۳۔ کیا یہ احتمال دیا جاسکتا ھے کہ اب تک کسی نے بھی اس کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا، یا اس کاجواب لائے ھوں اور ھم اس سے بے خبر ھوں؟ کیوں؟
۴۔ قرآن کی حیرت انگیز بلاغت کی تشریح کریں؟
۵۔ اعجاز قرآن اور آنحضرت( ص) کے اُ مِّی ھونے میں کیا کوئی ربط برقرا رھے؟
۶۔ قرآن میں اختلاف کا نہ ھونا کیونکر اس کے معجزہ ھونے پر دلالت کرتا ھے؟
حواله جات
[۱] اصول کافی، ج۔۱/ ص۲۴۔
[۲] اعلام الوریٰ ص۲۷ /۲۸ سیرہ ابن ھشام ج۱/ ص۴۱۰۔
[۳] سورہٴ بنی اسرائیل آیت۸۸۔ تفسیر نور الثقلین اِسی آیت کے ضمن میں رجوع کریں۔
[۴] سورہٴ عنکبوت ۔ آیت۴۸
[۵] سورہٴ یونس آیت ۱۶
[۶] سورہٴ نساء۔ آیت ۸۲