- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
اعضاء کی پیوندکاری اور اس کے شرعی احکام
تاریخ اسـلام , اسلام سے پہلے , فلســفه احکام , قرآن , فقــه اور اصـــول , اهـل سـنت , اســلامی احکام- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/06/18
- 1 رائ
نئے اور روایتی طریقوں سے اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ آج کے دور کے حساس ترین فقہی مسائل میں سے ایک ہے جس میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور اس کے جائز اور ناجائز ہونے کے بارے میں قطعی فیصلہ اور فتویٰ دینا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی نص موجود نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن و سنت اور فقہی ائمہ کا کوئی بیان نہیں ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں ابتدائی صدیوں میں فقہاء کے کچھ فرمودات باقی ہے۔ وہ وہی سائنسی بحثیں ہیں، جیسے جنین یا قیمتی اشیاء کو نکالنے کے لیے میت کے شکم کو کھولنا، یا کسی جرم کا پتہ لگانا اور ملزم کو بری کر دینا، موجودہ فقہاء نے آیات و روایات کی روشنی میں، فقہ کی مستند کتابوں اور اصول فقہ سے اجتہاد کرتے ہوئے۔ ان مقدمات کا تجزیہ کیا ہے لیکن ان مسایل میں آج بھی کچھ اختلاف پایا جاتا ہے با وجود اس کے کہ بعض اسلامی ممالک میں فقہی کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ اس میدان میں اب تک فقہاء کا اس مسلہ میں اجماع نہیں ہوسکا ہے۔ ہم اس مقالہ میں مذاھب خمسہ کے نظریات کوپیش کریں گے۔
اعضاء کی پیوند کاری کی تاریخ
قدیم طب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ڈاکٹروں کو اعضاء کی پیوند کاری کے بارے میں علم تھا اور تاریخ بتاتی ہے کہ یہ عمل اسلام سے پہلے دوسری صدی عیسوی میں یونانی، رومن، ہندوستانی اور امریکی جراحوں نے انجام دیا ہے۔[1] دوسری صدی، قبل از میلاد، ھوآتو اور پیاچیزو نام کے چینی سرجنوں نے کچھ اعضاء کی پیوند کاری کا مفروضہ پیش کیا، لیکن اس وقت جراحی کے مناسب آلات نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ایک افسانہ جیسا تھا کہ طبی سائنس میں یہ بات حالیہ صدی کی ترقی ہے۔ اعضاء کی پیوند کاری، اور ہمارے ملک کی طبی برادری نے کئی بار دل، گردے، پھیپھڑوں، جگر، وغیرہ کی پیوند کاری کامیابی کے ساتھ کی ہے۔
جائز عضو کو ناجائز عضو سے جوڑنا
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ عصر حاضر کے فقہاء اور اسلامی مکاتب فکر کے علماء کے درمیان ایک عمومی رائے ہے اور اسی کی بنیاد پر بعض فقہاء اعضاء کی پیوند کاری کو قطعی طور پر ناجائز سمجھتے ہیں جبکہ بعض فقہاء بعض شرائط کے ساتھ بعض اقسام کی پیوند کاری کو جائز سمجھتے ہیں۔ اس مقالہ میںان دونوں آراء کا جائزہ لیا جائے گا۔
عضو کی پیوند کاری کے مخالفین
اس حصے میں ہم ان لوگوں کے دلائل پر بحث کریں گے اور ان کا جائزہ لیں گے جو انسانی یا حیوانی جسم سے اعضاء کو دوسرے انسانی جسم میں پیوند کاری کے لیے نکالنے کو شریعت کے حکم کے خلاف سمجھتے ہیں۔
پہلی دلیل
کسی انسان یا حیوان کا پیوند کاری کے لئے نکالا گیا عضو کا نجس یا مردار ہونا۔ پیوند کاری کے لیے انسانی یا حیوانی جسم سے نکالے گئے عضو کے نجس ہونے کی پہلی وجہ یقینی اور حادثاتی نہیں ہے۔ اس ضمن میں مالکی فقہاء کی رائے یہ ہے کہ انسان کے جسم سے جدا ہونے والا حصہ نجس نہیں ہوتا۔[2]
اور عطاء ابن ابی رباح اور عطاء خراسانی بھی اسی کے قائل ہیں عصری فقہی مقدمات میں اکثر امامی فقہاء بھی اسی نظریہ کے قائل ہیں کہ وہ عضو جو ایک زندہ انسان کےجسم سے متصل ہوجاتا ہے اور جس میں جان چلتی ہے یہ عضو اسی زندہ انسان کا شمار ہوتا ہے اور پاک ہے۔[3]
دوسری دلیل
کسی عضو کا نکالنا انسانی وقار کے خلاف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت دی ہے اور انسان کی توہین کرنا حرام ہے، لیکن قرآن و سنت میں انسان کی عزت اور توہین کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، لہٰذا فقہاء کے نقطہ نظر سے وہ امور جن کے سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ اس تشخیص کا معیار عرف اور عمومیت ہے جو اس کی وضاحت کرتی ہے اور اس فیصلے کو بیان کرتی ہے۔ وہ فقہاء جو انسانی اعضاء کے استعمال کو توہین سمجھتے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس وقت انسانی اعضاء کا استعمال ممکن نہ رہا ہو، لیکن موجودہ دور میں جب اعضاء کی پیوند کاری کا امکان ہے۔ اور مناسب طریقے سے اے متصل کیا جاسکتا ہے تو اب اس کا حکم زمان و مکان کےاعتبار سے فرق کرتا ہے۔ اس کے علاوہ علامہ سمرقندی سمیت بعض فقہاء، کسی انسان کی بقاء کے لیے دوسرے انسان کی پیوند کاری کو جائز سمجھتے ہیں۔
تیسری دلیل
انسان یا حیوان کے اعضاء کو الگ کرنے سے اسے تکلیف پہنچتی ہے جو کہ حرام ہے۔ چونکہ عضو کا جدا کرنا اور انسانوں یا جانوروں کو نقصان پہنچانے کا سبب نہیں ہوتا ہے۔ لہذا حرام بھی نہیں ہے جیسا کہ فاسد انسانی اعضاء کاٹنا اور ختنہ کرنے کا حکم ہے ۔
چوتھی دلیل
میت سے کسی عضو کو جدا کرنے کا مطلب ہےکہ میت کے دفن میں تاخیر اور میت کو ایسے ہی چھوڑ دینا ہے۔ اعضاء کو جداکر کے کسی زندہ کے جسم سےمتصل کرنا یہ عمل بہت جلدی انجام دیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام ایک مسلمان کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے اور یہ ان ضروریات میں سے ہے جو اسلام میں جائز ہیں۔ اس کے علاوہ پیوند کاری کے بعد پیوند کاری کے لیے الگ کیا گیا عضو اور اس میں زندگی کے تحلیل ہونے سے اب وه عضو مردہ عضو نہیں رہے گا تاکہ اسے دفن کرنا واجب سمجھا جائے۔
اعضاء کی پیوند کاری کے موافقین کے دلائل
اسلامی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے متعدد فقہاء نے بعض آیات و روایات، فقہی احکام اور عقلی وجوہات کی بنا پر اعضاء کی پیوند کاری کو جائز قرار دیا ہے اور ان میں سے بعض وجوہات کو اجمالی طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
پہلی دلیل: آیات اضطرار
“إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ”[4]
“یقینا اسی نے تم پر مردار، خون، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا، پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ بغاوت کرنے اور ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔”
اور اسی طریقہ سے سورہ انعام کی (آیت نمبر ۱۱۸-۱۱۹ ) جو انسانی جان کو بچانے کے لیے اضرار حالت میں حرام کے استعمال کو جائز سمجھتی ہے، یہ تینوں آیات (سورہ بقرہ۱۷۳، سورہ انعام ۱۱۸-۱۱۹) مشہور فقہی قاعدے الضرورات تبيح المحظورات “محرمات میں ضرورت” “فَمَنِ اضْطُرْ …. فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ” کے عمومی اصول ہیں۔ جس کا مطلب ہے “اگر کوئی ضرورت اس کو ان ممانعتوں کو استعمال کرنے پر مجبور کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، محرمات اس وقت حرام ہیں جب ضرورت نہ ہو اور جب ضروری ہو تو جائز ہیں۔”[5]
یہ آیات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ اضطراری حالات میں انسانی جان بچانے کے لیے محرمات کو استعمال کرنےکی اجازت ہے اور ان میں وہ تمام محرمات شامل ہیں، جو کسی دوسرے شخص کو بچانے کے لیے انسانی اعضاء کے پیوند کاری کے لئے جایز قرار دئے گئے ہیں۔
دوسری دلیل
وہ آیات جو مذہبی احکام کی سہولیت و آسانی پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسا کہ “يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ”[6]“ خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تم پر سختی نہیں چاہتا” یہ آیات اس قاعدہ “إن العبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب” کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اس میں لفظ کی عمومیت سے استفادہ کیا گیا ہے نہ کہ خصوصیت سے کیا گیا ہے، حالانکہ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں افطار کے جائز ہونے پر اکتفا کیا ہے۔ مسافر اور بیمار پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے، اور یہ امر آیت کے مطابق ہے، کیونکہ یہ بات روزے کے سیاق میں کہی گئی ہیں جب کہ الفاظ عام ہیں اور عام معنی پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ اس سلسلے میں بہت سی آیات موجود ہیں کہ ان آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اضطراری حالت میں محرمات بھی مباح ہیں اور انسان کی جان بچانے کے لئےعضو کی پیوند کاری بھی مباح ہے۔
تیسری دلیل
وہ آیات ہیں جو انسان کو اپنے آپ کو اور دوسروں کو قتل کرنے سے روکتی ہیں۔ جن میں یہ آیت بھی شامل ہے کہ “وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ” خدا کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ اس لئے کہ اس آیت میں لفظ تو عام ہے جو عمومیت پر دلالت کرتا ہے اس لیے اگر کوئی مصیبت زدہ اس مضطر اور ناچار شخص اپنے عضو کے خراب ہونے سے خوف زدہ ہے یا اگر وہ مردہ کا گوشت نہ کھائے تو مرجائے گا تویقینا اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کو ہلات میں ڈالا ہے۔[7]
چوتھی ودلیل
یہ ہے کہ اعضاء کی پیوند کاری کو اس بیما ر کے لئے جو سخت مریض ہے ان کے حق میں حرام جاننا بہت بڑا حرج ہے اور قواعد یسر اور حرج کو رفع کرنے کے قاعدہ کے مطابق فقہ اسلامی میں حرج مرتفع ہوکر اباحت میں تبدیل ہوجاتی ہے یعنی حرام، مباح میں بدل جاتا ہے۔
پیوند کاری کی قسمیں
۱-مصنوعی اعضاء کے ذریعہ پیوندکاری
مصنوعی اعضاء کی پیوندکاری، صدر اسلام سے مسلمانوں کے درمیان رائج تھی، اور اس سلسلہ میں کچھ مثالیں موجود ہے، جیسے جنگ کے موقع پر کوئی شخص زخمی ہوجاتا تھا تو اس کی پیوند کاری مصنوعی اعضاء کے ذریعہ کی جاتی تھی جیسے رسول خدا (ص) کے ایک صحابی جنگ کلاب میں زخمی ہوئے اور ان کی ناک پر سخت زخم لگا تو انہوں نے اپنے ناک کی پیوندکاری کو سونے کی ذریعہ کروایا۔[8]
منصوعی پیوندکاری کے سلسلہ میں جو اہم حکم شرعی ہے وہ یہ ہے کہ جو مادہ پیوندکاری میں استعمال ہورہا ہے وہ پاک اور طاہر ہے یا نجس اور حرام ہے۔
اگر پاک اور طاہر ہے تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن اگر نجس اور حرام ہے اور یہ مادہ بدن کے داخلی حصہ میں اگراستعمال ہورہا ہے تو ایسی صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے، جیسے کہ شکم کے اندر موجود نجاست اور اگر جسم کے باہری حصہ میں یہ مادہ استعمال ہورہا ہے تو اگر ضرورت کے تحت ہے توبھی کوئی اشکال نہیں ہے۔
۲-مسلمان کے عضو کو کافر اور کافر کے عضو کو مسلمان کے بدن میں پیوند کرنا
اہلسنت فقہاء کے نکتہ نظرسے، جو لوگ اعضاء کی پیوند کاری کو جائز سمجھتے ہیں، وہ بھی مسلمانوں کے اعضاء کی پیوند کاری کو کافر کے لئے جائز سمجھتے ہیں، بشرطیکہ کافر حربی نہ ہو۔[9]
عصر حاضر کے امامیہ فقہاء کا یہ عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کے اعضاء کافر کے لئے پیوند کاری کرنا جائز ہے۔ آقای خامنہ ای مد ظلہ کا فتوای یہ ہے کہ مسلمان کا اپنا عضو کسی کافر کو پیوندکاری کے لئے دینا لہذا ضرورت کے قاعدے کے تحت کسی مسلمان کسی کافر کو اپنا عضو دینا جایز نہیں ہے۔[10]
۳-کافر کے عضو کو مسلمان سے پیوند کرنا
غیر مسلمان سے مسلمان کا پیوندکاری کے لئے عضو لینا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، اعضاء کے رد و بدل میں اسلام اور کفر کا تصور نہیں ہے بلکہ یہ اعضاء وہ اوزار ہیں جنہیں انسان اپنے عقیدہ کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی مسلمان کے جسم میں کافر کے جسم کا کوئی حصہ رکھا جائے تو وہ مسلمان کے اعضاء کا حصہ شمار کیا جائے گا، اور اس حقیقت کا کہ قرآن نے مشرکوں کو نجس سمجھا ہے، وہ معنوی نجاست ہے نہ کہ حسی نجاست اس لیے امامی فقہاء کے مطابق، نیز کسی کافر کے عضو کو کسی مسلمان کے جسم میں پیوند کرنا جائز ہے۔[11] اور اس کام کے لیے اجازت یا مرضی کی ضرورت نہیں ہے۔[12]
۴-مردہ کے عضو کو زندہ میں پیوند کرنا
طبی اور ثقافتی علوم کے مطابق مردہ کے عضو کی پیوند کاری کے حکم کے بارے میں سنی فقہاء تین گروہوں میں منقسم ہیں: بعض علماء اس میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچنے اور ان کے آراء نا معلوم ہیں، اور دوسرے فقہاء مطلق طور پر اس بات کو ناجائز سمجھتے ہے اور بعض دوسرے، خصوصاً عصرِ حاضر کے فقہاء، تمام شرائط کے ساتھ، کسی پریشان حال شخص کے لیے مردہ کے اعضاء کا استعمال جائز سمجھتے ہیں۔ امامیہ فقہاء کا عقیدہ ہے کہ اگر مسلمان کی زندگی کا دارومدار مردہ کے اعضاء پر ہو تو کوئی حرج نہیں، ورنہ اگر مردہ شخص کی اجازت کے بغیر ہو تو گناہ ہے اور دیہ واجب ہے، اور اگر اس نے اجازت دیدی تو کوئی حرج نہیں۔ اس نے اپنی زندگی میں اجازت دی ہو تو دیہ بھی ساقط ہو جاتا ہے۔[13]
جسم میں اعضاء کی پیوندکاری کی شرطیں
- مقتول کے ورثاء اور رشتہ داروں کی رضامندی۔
- اعضاء کے پیوند کاری کی ضرورت یقینی طور پر ثابت ہونی چاہیے، اور ایک ماہر مسلمان ڈاکٹر اس ضرورت کے وجود کا تعین کرے گا۔
- پیوند کاری کے علاوہ مریض کا کوئی دوسرا علاج نہ ہو۔
- پیوندکاری کسی ماہر ڈاکٹر کے ذریعہ انجام پائے۔
- ضرورت کے مطابق اعضاء کا استعمال کریں۔[14]
- اعضاء لینے والے پر قتل کی حد جاری نہ ہوئی ہو جیسے؛ کافر حربی۔
- اعضاء عطیہ کرنے والے کی موت کا یقین ہو۔
- میت (جس سے اعضاء لیا جارہا ہے) کو کوئی محلق بیماری نہ ہو ۔
نتیجہ
جس طریقہ سے ہر تحقیق سے نتیجہ سامنے آتا ہے، اسی طریقہ سے اس مقالہ سے بھی یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئے روایتی طریقوں سے اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ فقہ میں سب سے زیادہ حساس مسئلہ ہے جس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے جائز اور ناجائز ہونے کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ اور فتویٰ دینا بہت مشکل ہے۔ قرآن اور حدیث اور فقہاء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر حاضر کے فقہاء اور علماء کے درمیان دو عام آراء ہیں: اعضاء کے مخالفین جواعضاء کی پیوند کاری کو کچھ وجوہات کی بنا پر بالکل ناجائز جانتے، اور اعضاء کی پیوند کاری کے موافقین کچھ شرائط کے ساتھ جائز جانتے ہیں۔ اس سلسلہ میں فقھاء کی نظر بھی موجود ہیں۔ جو ایک حد تک اس مسئلہ کوتقویت بخشتی ہے۔
حوالہ جات
[1] ابو زید، فقۃ النوازل، ج۲، ص ۲۲
[2] رملی، نھایۃ المحتاج، ج۱۰، ص ۲۲۸
[3] موسوی خمینی، توضیح المسائل ، ص350، مسئلۃ 2882؛ خوئی، توضیح المسائل، ص727، مسئلۃ39 اور 42؛ سیستانی، توضیح المسائل، ص764، مسئلۃ 58 اور 63
[4] سورہ بقرہ: ۱۷۳
[5] یعقوبی، شفاء التاريح و الادواء، ص ۲۷ – ۲۶
[6] سورہ بقرہ: ۱۸۵
[7] یعقوبی، شفاء التاريح و الادواء، ص٣١-٣٠
[8] عسقلانی، اطراف المسند المعتلی، ج۴، ص۲۳۹
[9] بواطی، قضایا فقهیۃ معاصرۃ، ص316
[10] حسینی الخامنه ای، اجوبۃ الاستفتائات، ج۲، ص۷۶
[11] موسوی خمینی، تحریر الوسیلۃ، ج۲، ص ۶۲۲؛ خوئی، منھاج الصالحین، ج۱، ص۲۲۷
[12] مومن قمی، کلمات سیدیدۃ فی مسایل جدیدۃ، ص۱۷۶
[13] موسوی خمینی، تحریر الوسیلۃ،ج۲، ص۶۲۴
[14] ابوزید، فقۃ النوازل، ج۲، ص۵۹
منابع ومآخذ
- ابوزید، بکر بن عبد اللہ، فقۃ النوازل، بیروت، لبنان، موسسۃ الرسالة الجمالیة،۱۴۱۶
- بواطی، قضایا فقھیۃ معاصرۃ، دمشق، مکتبۃ الفارابی، بی تا، ( بنا تاریخ کے)
- حسینی خامنه ای، علی، اجوبۃ الاستفتائات، بیروت، دار الاسلامیه، ۱۴۲۰
- خوئی، سید ابوالقاسم، منهاج الصالحین، قم، مدینه العلم، ۱۴۱۰ق
- رحمانی، خالد سیف اللہ، جدید فقہی مسائل، کراچی، زمزم، ۲۰۱۳
- نووی، یحیی بن شرف، نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج في الفقه على مذهب الإمام الشافعي، بیروت، لبنان، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۴
- سیستانی، علی، توضیح المسائل، قم، دفتر آیت الله العظمی سیستانی، چوتیسویں اشاعت، 1438
- سیستانی، علی، منهاج الصالحین، قم، مکتب آیت الله العظمی سیستانی، ۱۴۱۵ق
- عسقلانی، أبو الفضل أحمد بن علي، إطراف المُسْنِد المعتَلِي بأطراف المسنَد الحنبلي، قاھرہ، مصر، مکتبہ السنۃ، ۱۴۱۶
- موسوی الخمینی، روح الله، تحریر الوسیلۃ، تهران، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۹۲ش
- موسوی الخمینی، روح الله، توضیح المسائل، تهران، موسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۹۲ش
- مومن قمی، محمد، کلمات سدیدۃ فی مسائل جدیدۃ، قم، جامعه مدرسین، ۱۴۱۵
- یعقوبی، ابراھیم، شفاء التاريح و الادواء فی حکم التشریح و نقل الاعضاء، مکتبۃ الغزالی، ۱۹۸۶
مضمون کا مآخذ:
فرقانی، سید طہ، نور محمدی، محمد، بررسی فقہی پیوند اعضاء از دیدگاہ مذاھب اسلامی، فصلنامہ حبل المتین، پانچواں سال، چودہ نمبر، بھار، ۱۳۹۵
بہت عمدہ