- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/08
- 0 رائ
یہ بھی عجیب بات ھے کہ اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ھوا اور دنیا بھر میں نشر کیا گیا، اور جس وقت امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے سلمان رشدی کے مرتد ھونے اور اس کے قتل کا تاریخ ساز فتوی صادر کیا، تو استعماری حکومتوں اور اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایسی حمایت ھوئی کہ آج تک دیکھنے میں نھیں آئی! چنانچہ اس رویہ سے یہ بات واضح ھو جاتی ھے کہ اس کام میں صرف سلمان رشدی ھی نھیں تھا اور نہ ھی اسلام کی مخالفت میں لکھی جانے والی کتاب کا مسئلہ تھا، در اصل مغربی ممالک اور صھیونیزم کی طرف سے اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی، اگرچہ ظاھر میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی ھے لیکن اس کے پسِ پردہ اسلام دشمن طاقتیں تھیں۔
لیکن حضرت امام خمینی(علیہ الرحمہ) نے اپنے فتویٰ میں استقامت کی اور پھر ان کے جانشین(حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی) نے اسی فتویٰ کو برقرار رکھا، نیز اس تاریخی فتویٰ کو دنیا بھر کے مسلمانوں نے قبول کیا، جس سے دشمن کی سازش ناکام ھو گئی، اور سلمان رشدی آج تک (کتاب کی اس حصہ کی تالیف تک) روپوش ھے، اور اسلام دشمن طاقتیں اس کی مکمل طور پر حفاظت کر رھی ھیں، اور ایسا لگتا ھے کہ آخری عمر تک اسی طرح چھپ کر زندگی بسر کرے گا، اور شاید خود انھیں لوگوں کے ھاتھوں قتل ھوگا تاکہ اس رسوائی سے نجات پاسکے۔
اس بنا پر جو چیز بھی اس طرح کی روایات کی علت ”محدثہ“ یعنی وجود میں لانے والی علت ھے وھی چیزعلت ”مبقیہ“ یعنی باقی رکھنے والی علت بھی ھے، یعنی جو سازش اسلام دشمنوں کی طرف سے شروع ھوئی ہزاروں سال بعد بھی انھیں اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایک وسیع پیمانہ پر وھی سازش آج بھی ھو رھی ھے۔
لہٰذا اس چیز کی ضرورت نھیں محسوس کی جاتی کہ تفسیر ”روح المعانی“ یا دوسری تفاسیر کی طرح ان روایات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی جائے، کیونکہ ان روایات کی بنیاد ھی خراب ھے، اور بڑے بڑے علما کرام نے ان کے جعلی ھونے کی تاکید کی ھے، لہٰذا ھم ان روایات کی توجیہ کرنے سے صرف نظر کرتے ھیں، صرف یھاں مزید وضاحت کے لئے چند درج ذیل نکات بیان کرنا ضروری سمجھتے ھیں:
۱۔ یہ بات کسی دوست اور دشمن پر مخفی نھیں ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے آغازِ دعوت سے آخرِ عمر تک بت اور بت پرستی کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیا، اور یھی وہ مسئلہ ھے کہ جس میں کسی طرح کی مصالحت، سازش اور نرمی نھیں کی گئی، لہٰذا ان تمام چیزوں کے پیش نظر بتوں کی شان میں اس طرح کے الفاظ پیغمبر اکرم(ص) کی زبان پر کس طرح آسکتے ھیں؟
اسلامی تعلیمات کہتی ھيں کہ صرف شرک اور بت پرستی ھی ایک ایسا گناہ ھے جو قابل بخشش نھیں ھے، لہٰذا بت پرستی کے مراکز کو ھر قیمت پر نابود کرنا واجب قرار دیا ھے، اور پورا قرآن اس بات پر گواہ ھے، یہ خود حدیث”غرانیق“ کے جعلی ھونے پر دلیل ھے جن میں بتوں کی مدح و ثنا کی گئی ھے۔
۲۔ اس کے علاوہ ”غرانیق“ افسانہ لکھنے والوں نے اس بات پر توجہ نھیں دی ھے کہ خود سورہ نجم کی آیات پر ایک نظر ڈالنے سے اس خرافی حدیث کی دھجیاں اڑ جاتی ھیں اور معلوم ھوتا ھے کہ بتوں کی مدح و ثنا والے جملے: ”تِلکَ الغَرَانیقُ العُلیٰ وَاٴنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرتَجیٰ“ اور آیات ماقبل و مابعد میں کوئی ھم آھنگی نھیں ھے، کیونکہ اسی سورہ کے شروع میں بیان ھوا ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) ھرگز اپنی خواھش کے مطابق کلام ھی نھیں کرتے، اور جو کچھ عقائد اور اسلامی قوانین کے بارے میں کہتے ھیں وہ وحی الٰھی ھوتی ھے: < وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْهوی۔إِنْ هو إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَی>[17]”اور وہ اپنی خواھش سے کلام نھیں کرتا ھے اس کا کلام وحی ھے جو مسلسل نازل ھوتی رہتی ھے“۔
اور اس بات کا صاف طور پر اعلان ھوتا ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) ھرگز راہ حق سے منحرف نھیں ھوتا، اور اپنے مقصد کو کم نھیں کرتا:
<مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی>[18]
”تمھارا ساتھی نہ گمراہ ھوا ھے اور نہ بھکا“۔
اس سے زیادہ گمراھی اور انحراف اور کیا ھوگا کہ پیغمبر آیات الٰھی کے درمیان شرک کی باتیں اور بتوں کی تعریفیں کریں؟ اور اپنی خواھش کے مطابق گفتگو اس سے بدتر اور کیا ھوسکتی ھے کہ کلام خدا میں شیطانی الفاظ کا اضافہ کرے اور آیات کے درمیان کھے:”تلک الغرانیق العلی“؟
مزے کی بات یہ ھے کہ محل بحث آیات کے بعد صاف طور پر بت اور بت پرستوں کی مذمت کی گئی ھے، چنانچہ ارشاد ھوتا ھے: <إِنْ ہِیَ إِلاَّ اٴَسْمَاءٌ سَمَّیْتُمُوہَا اٴَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اٴَنزَلَ اللهُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَهوی الْاٴَنْفُسُ>[19]
”یہ سب وہ نام ھیں جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے طے کر لئے ھیں خدا نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نازل نھیں کی ھے درحقیقت یہ لوگ صرف اپنے گناھوں کا اتباع کر رھے ھیں اور جو کچھ ان کا دل چاہتا ھے“۔
کون عقلمند اس بات کا یقین کر سکتا ھے کہ ایک صاحب حکمت اور باھوش نبی مقام نبوت میں پھلے جملوں میں بتوں کی مدح و ثنا کرے اوربعد والے دو جملوں میں بتوں کی مذمت اور ملامت کرے؟ لہٰذا! ان دو جملوں کے تناقض اور تضاد کی کس طرح توجیہ اور تاویل کی جاسکتی ھے؟
پس ان تمام باتوں کے پیش نظر اعتراف کرنا پڑے گا کہ قرآن مجید کی آیات میں اس قدر ھم آھنگی پائی جاتی ھے کہ دشمنوں اور بدخواہ غرض رکھنے والوں کی طرف سے کی گئی ملاوٹ کو بالکل باھر نکال دیتی ھے، اور اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ یہ ایک غیر مرتبط اور جدا جملہ ھے، یہ ھے سورہ نجم کی آیات کے درمیان حدیث ”غرانیق“ قرار دینے کی سرگزشت ۔
(قارئین کرام!) یھاں پر ایک یہ سوال باقی رہ جاتا ھے کہ پھر اتنی بے بنیاد اور بے سرو پیر چیزیں کیسے اتنی مشھور ھو گئیں؟ اس سوال کا جواب بھی کوئی پیچیدہ نھیں ھے کیونکہ اس حدیث کی شھرت زیادہ تر دشمنانِ اسلام اور بیمار دل لوگوں کی طرف سے ھے جو یہ سوچ رھے تھے کہ یہ حدیث خود پیغمبر اسلام کی عصمت اور قرآن کی حقانیت کو مخدوش کرنے کے لئے بہترین مدرک ھے، لہٰذا دشمنان اسلام کے درمیان اس حدیث کی شھرت کی دلیل معلوم ھے، لیکن اسلامی مورخین کے درمیان شھرت کی وجہ بعض علماکے قول کے مطابق یہ ھے کہ بعض مورخین ھمیشہ سے نئے حادثات اور نئے مطالب کی طرف دوڑتے ھیں نیز کوشش کرتے ھیں کہ اپنی کتابوں میں ھیجان آور اور استثنائی واقعات بیان کریں چاھے وہ تاریخی حقیقت رکھتے ھوں یا نہ رکھتے ھوں، کیونکہ ان کا مقصد اپنی کتاب کو مقبول بنانا اور ھنگامہ برپا کردینا ھوتا ھے، اور چونکہ پیغمبر اسلام(ص) کی زندگی میں غرانیق جیسا افسانہ بہت زیادہ بیان ھوا ھے لہٰذا اس کے منبع اور اس کے مفھوم کے بے بنیاد ھونے پر توجہ کئے بغیر بعض تاریخی کتابوں اور بعض حدیث کی کتابوں میں نقل کر دیا گیا ھے، جبکہ بعض علما نے اس پر تنقید اور تردید کے لئے بیان کیا ھے۔
نتیجہ
(قارئین کرام!) ھماری مذکورہ بحث سے یہ مسئلہ واضح اور روشن ھو جاتا ھے کہ قرآن مجید میں نہ صرف کوئی ایسی چیز موجود نھیں ھے کہ جو ان کے مقام عصمت کے منافی ھو؛ بلکہ یھی آیات جن کو عصمت کے منافی سمجھ لیا گیا ھے، عصمت انبیاء علیھم السلام پر واضح اور بہترین دلیل ھیں۔[20]
………………….
حواله جات
[17] سورہٴ نجم، آیت ۳و۴۔
[18] سورہٴ نجم، آیت ۲۔
[19] سورہٴ نجم، آیت ۲۳۔
[20] تفسیر پیام قرآن، جلد ۷، صفحہ ۱۶۴۔