- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
اقتصادی مشکلات اور ان کا حل امام رضاؑ کی سیرت میں
پیغمبراکرم اور اهل بیت , تاریخ اور سیرت , حضرت امـام رضـا(ع)- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : فیاض حسین
- 2024/06/04
- 0 رائ
دین مبین اسلام ایک ایسا جامع اور مکمل دین ہے جس میں انسان کی زندگی کی تمام ضرورتوں کو بیان کیا گیا ہے زندگی کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا ہے موجودہ دور میں اقتصادی مشکلات اور ان کا حل ایک ایسا موضوع ہے جو ہر سماج کی ضرورت ہے البتہ دنیا پرست قوموں کا ہدف تنہا اقتصادی مشکلات کو حل کرنا ہے اور اس کے نتیجے میں صرف اپنی مادی زندگی کو بہتر بنانا ہے اور اسلام کا ہدف اقتصادی مشکلات کے حل کے ساتھ انسان کو کمال اور سعادت کی راہ تک پہونچنے میں مدد کرنا ہے امام رضاؑ کی سیرت میں ان اقتصادی مشکلات اور ان کے راہ حل کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔
اقتصادی مشکلات اور ہمارا سماج
ہمارے سماج میں ظاہرا انسان کی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1۔ذاتی زندگی
2۔خانوادگی زندگی
3۔ سماجی اور اجتماعی زندگی
انسان کی ذاتی زندگی میں سخاوت، عزت نفس، قناعت کا ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے امام رضاؑ کی سیرت میں یہ بات بالکل واضح اور روشن نظر آتی ہے کہ آپ ان صفات کے مالک تھے اور یہ صفات انسان کی اقتصادی اور معیشتی مشکلات کو حل کرنے میں بے حد کارگر ثابت ہوتی ہیں۔
خانوادگی زندگی میں انسان اپنے اہل و عیال کے لیے کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر زندگی کا بندوبست کرسکے اور ائمہ نے اس کی تاکید بھی کی ہے اور اس امر کی فضیلت کے سلسلے میں احادیث بھی بیان فرمائی ہے امام رضاؑ نے فرمایا: “اِنَّ الَّذی یطْلُبُ مِنْ فَضْلٍ یکفُّ بِهِ عِیالَه، اَعْظَمُ اَجْراً مِنَ الْمُجاهِدِ فی سَبیلِ اللہ”[1]
اگر کوئی انسان اپنے اہل و عیال کے لیے اور اس کے اقتصاد کو بہتر بنانے کے لیے سعی اور کوشش کرتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے خدا کی راہ میں جہاد کیا ہے۔
ایک بہترین سماج تشکیل دینے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی اقتصادی مشکلات کے حل کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد رہنے والے افراد کہ جن کے ذریعے ایک سماج اور معاشرہ تشکیل پاتا ہے ان کی اقتصادی مشکلات کو بھی حل کرنے کی سعی کرے ہمیں بہت سی مثالیں ائمہ کی سیرت میں اس سماجی اقتصادی مشکلات کو بہتر بنانے کے لیے نظر آتی ہیں جیسے فقراء کی ضرورتوں کو پورا کرنا مساوات اور برابری کو اپنے سماج میں رواج دینا ایک دوسرے کی مدد اور ان کا تعاون کرنا دوسروں کی حق تلفی اور خیانت نہ کرنا امام رضاؑ کی سیرت میں ان تمام چیزوں کی رعایت سے انسان اپنی اقتصادی مشکلات کو بہترین طریقے سے حل کر سکتا ہے۔
اس لئے کہ ہمارے سماج میں موجود طبقاتی نظام کہ جو ہمارے سماج میں اونچ نیچ کے نام سے جانا جاتا ہے اور کاسٹ سسٹم کے تحت افراد کو تقسیم کیا جاتا ہے یہ ایک سماج کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہے اور انسان اس وجہ سے اقتصادی مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے اندر اضطراب و پریشانی، نا امیدی، خطا اور گناہ کا بڑھ جانا، ایمان کا کمزور ہو جانا، ذلت و حقارت کا بڑھنا، اخلاقی کمزوریوں کا پیدا ہو جانا، یہ ساری خرابیاں اس اقتصادی مشکلات کی وجہ سے جنم لے لیتی ہیں۔اور سماج فقر و تنگدستی کا شکار ہو جاتا ہے۔
لیکن اگر اس کے مقابلے میں ایک ایسا سماج کہ جس کے اندر عدالت، امانت، انصاف اور سکون ہو تو وہ سماج معیشت اور اقتصاد کے حوالے سے بہتر نظر آتا ہے اور اقتصادی مشکلات جیسی خطرناک بیماری سے نجات پا جاتا ہے امام رضاؑ کے کلام میں انہیں عوامل فقر اور ان کے راہ حل کو بخوبی بیان کی گیا ہے۔
اقتصادی مشکلات کے علل و عوامل امام رضاؑ کی نظر میں
1۔ظلم
قال الرضاؑ: اذا اكل الانسان مال اليتيم ظلما … فكانه قد قتله و صيره الي الفقر و الفاقۃ۔[2]
امام رضاؑ نے فرمایا: اگر کوئی انسان کسی یتیم کا مال زبردستی کھا لے تو گویا اس نے اس شخص کو قتل کیا اور اس کو فقر و تنگدستی میں مبتلا کر دیا اقتصادی مشکلات کا یہ ظلم آج ہر ملک اور ہر سماج میں دیکھنے کو مل جاتا ہے جس کو امام رضاؑ نے اقتصادی مشکلات کی ایک بڑی وجہ بیان کی ہے اور اس ظلم و زبردستی کی واضح مثال غصب، چوری، مہنگائی، کم فروشی، ربا خواری یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو اقتصادی مشکلات میں ظلم کا مصداق قرار پاتی ہیں امام رضاؑ نے اس حدیث میں اسی اقتصادی ظلم کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قرآن مجید کی یہ آیت اسی کلام امام کی تائید کرتی ہے جس میں ارشاد ہوا” إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْا وَ لَكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُون“[3]
اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا کرتے ہیں۔
2۔خیانت
اقتصادی مشکلات کے اسباب میں دوسری وجہ امام رضاؑ نے خیانت کو بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: “لم یخنک الامین و لکن ائتمنت الخائن”[4]
امام رضاؑ نے فرمایا: امین نے تم سے خیانت نہیں کی ہے بلکہ تم نے خائن کے اوپر اعتماد کیا ہے۔
آج ہمارے سماج میں اقتصادی مشکلات کے فروغ میں سب سے بڑا کردار ایسے افراد کا ہے کہ جو خیانت کار ہیں اور لوگوں کے مال اور ان کے حقوق میں خیانت کرتے ہیں امام رضاؑ نے ایسے خائن افراد کی خیانت کی ذمہ داری ان عہدے داروں کے کاندھوں پر ڈال دی کہ جو لوگ ایسے افراد کو لا کر مالی شعبوں میں مدیریت کرنے کی جگہ فراہم کرتے ہیں اور پھر وہ اپنے اعتبار سے خیانت کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں لہذا اقتصادی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے امام رضاؑ کی سیرت سے ہمیں یہ درس لینا چاہیے کہ کم سے کم ہمیں ایسے عہدوں پر جو لوگوں کے حقوق سے مخصوص ہیں ان شعبوں میں آشنا اور اس فیلڈ کے ماہرین کو ذمہ دار بنانے کی ضرورت ہے تا کہ یہ سماج رشد کر سکے اور ان اقتصادی مشکلات سے دور ہو سکے جو ایک سماج کے کمال اور رشد کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔
3۔ذخیرہ اندوزی
اقتصادی مشکلات کی ایک اور اہم وجہ امام رضاؑ کی نگاہ میں ذخیرہ اندوزی ہے آپ نے اپنے اصحاب و شاگردوں کو اس کام سے سختی سے منع کیا اور فرماتے ہیں: ذخیرہ اندوزی نہیں ہوتی مگر پانچ وجہوں سے:
1۔بہت زیادہ کنجوسی
2۔لمبی آرزوئیں
3۔لالچ
4۔قطع رحم
5۔دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا۔[5]
4۔اسراف
اسراف کے معنی لغت میں “زیادہ روی” (ضرورت سے زیادہ خرچ) کرنے کے ہیں یہ ایک ایسا مفہوم ہے کہ ہمارے سماج میں ہر انسان اس مفہوم سے آشنا ہے اور اس صفت کو صفات رذیلہ میں شمار کیا جاتا ہے امام رضاؑ کی سیرت اور ان کے کلام میں یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ انسان اس صفت سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے اس لیے کہ آپ کی سیرت میں یہاں تک ملتا ہے کہ اگر ایک شخص نے آدھا کھجور کھا کر پھینک دیا تو آپ ناراض ہو گئے اور فرمایا: کہ سبحان اللہ تم اس سے بے نیاز ہو لیکن کوئی اور اس کا نیاز مند ہوسکتا ہے تم اس کو بھی نظر میں رکھو۔[6]
اقتصادی مشکلات کا حل امام رضاؑ کی نظر میں
1۔ میانہ روی اور اعتدال پسندی
اقتصادی مشکلات کے حل کے لئے امام نے میانہ روی کا حکم دے کر یہ واضح کر دیا کہ اسلام نہ تو افراط کا مذہب ہے نہ تفریط کا اور یہ میانہ روی امام کی نظر میں اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ آپ نے ایمان کے کامل ہونے میں میانہ روی کو ایک نشانی قرار دی ہے آپ فرماتے ہیں: ایمان انسان کے اندر اس وقت کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تین صفتیں اس کے اندر نہ پائی جائیں:
1۔ علم دین سیکھے
2۔ میانہ روی سے کام لے
3۔ مصیبتوں میں صبر کرے۔[7]
امام کے اس بیش قیمتی کلام سے پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم کے نزدیک اعتدال اور میانہ روی کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے اور یہ میانہ روی دونوں زندگی میں انسان کو اختیار کرنا چاہیے چاہے وہ ثروت اور دولت کا زمانہ ہو یا فقر و تنگدستی کا زمانہ ہو آپ نے فرمایا: “علیکم بالقصد فی الغنی والفقر”[8]
2۔ قناعت
اقتصادی مشکلات کے حل کے لئے قناعت ایک بہترین روش ہے جو امام رضا کی سیرت اور تعلیمات اسلامی میں پائی جاتی ہے اور خود اسراف سے پرہیز دلیل ہے اس بات کی کہ انسان کو ہمیشہ قناعت کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہئے قناعت کا مطلب انسان کے پاس جو کچھ بھی ہو اس پر خوشحال رہے امام رضاؑ کی ایک خوبصورت حدیث قناعت کے سلسلے میں اس طریقے سے ملتی ہے “من رضي عن الله تعالى بالقليل من الرزق رضي الله عنه بالقليل من العمل”[9]
جو بھی پروردگار عالم کی دی ہوئی قلیل روزی پر راضی رہتا ہے خداوند عالم اس کے قلیل عمل پر بھی راضی رہتا ہے۔
3۔ حلال رزق کی تلاش و کوشش
اقتصادی مشکلات کے حل کا ایک بہترین ذریعہ حلال رزق کے لئے کوشش کرنا ہے امام رضاؑ نے فرمایا: اِنَّ الَّذی یطْلُبُ مِنْ فَضْلٍ یکفُّ بِهِ عِیالَه، اَعْظَمُ اَجْراً مِنَ الْمُجاهِدِ فی سَبیلِ الله؛[10]
وہ انسان کہ جو اپنے اہل و عیال کے لئے حلال رزق تلاش کرتا ہے اس کا ثواب اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں سے افضل ہے۔
احمد بن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں:”میں نے امام رضاؑ سے کہا: کوفہ میں میرے حالات اچھے نہیں ہیں اور اس میں زندگی گذارنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہماری زندگی بغداد میں بہتر تھی اور وہاں کے لوگوں کے لیے روزی کا دروازہ کھلا ہے۔ حضرت نے فرمایا: اگر تم باہر جانا چاہتے ہو تو جاؤ۔ کیونکہ یہ سال سختی کا سال ہے اور لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ رزق تلاش کریں اور بہتر روزی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس لیے زندگی کی سہولتیں حاصل کرنے کی کوشش ترک نہ کریں۔[11]
4۔ اسراف سے پرہیز
اقتصادی مشکلات کا ایک سبب اسراف ہے اور اس سے پرہیز ہی اقتصادی مشکلات کا حل ہے فضول خرچی کرنے والا شخص اور قوم کبھی معاشی ترقی نہیں کر سکتی۔ لہٰذا اسراف ہمارے معاشرے میں ایک معیوب عمل سمجھا جاتا ہےاسراف کرنے والا شخص ایسا ہے کہ جیسے ایک صندوق کہ جو نیچے سے کھلی ہو اس میں مال جمع کرتا ہے۔
امام رضاؑ نے فرمایا: ان اللہ یبغض۔۔۔اضاعۃ الاموال۔[12]
خدا وند عالم مال کو ضائع کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
5۔ مزدور کی اجرت معین کرنا
اقتصادی مشکلات کے حل کی ایک روش جو امام رضاؑ کی سیرت میں پائی جاتی ہے وہ مزدور کی اجرت کو معین کرنا ہے مزدور کے بارے میں ایک اسلامی اصول اور دستور یہ ہے کہ کام کرنے سے پہلے اس کی اجرت کا تعین کر لیا جائے۔ یہ کام، کام کے اختتام پر کام کرنے والے اور مالک کے درمیان لڑائی جھگڑے کو روکنے کے علاوہ، کارمند کے حوصلے پر بھی مثبت نفسیاتی اثر ڈالے گا۔ اس کے بارے میں امام رضاؑ کی سیرت میں ایک واقعہ ملتا ہے۔
سلیمان بن جعفری جو کہ امام رضاؑ کے اصحاب میں سے ہیں، کہتے ہیں: “میں کچھ کام کی غرض سے امام کی خدمت میں تھا۔جب میں نے اپنا کام ختم کیا تو میں نے جانا چاہا لیکن امام نے فرمایا: “آج رات ہمارے ساتھ رہو” پھر میں امام کے ساتھ ان کے گھر چلا گیا۔ شام کا وقت تھا اور حضرت کے غلام تعمیر میں مصروف تھے۔ امام نے ان کے درمیان ایک اجنبی کو دیکھا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ جواب ملا: یہ مزدور ہے۔ یہ ہماری مدد کرتا ہے اور ہم اسے کچھ دے دیں گے۔
امام رضاؑ نے پوچھا: کیا تم نے اس کی تنخواہ معین کیا ہے؟ جواب ملا: نہیں! ہم جو کچھ دیتے ہیں وہ رکھ لیتا ہے۔ امام نے فرمایا: میں نے تم لوگوں سے کئی بار کہا ہے کہ کسی کو کام پر نہ لاؤ جب تک کہ کام سے پہلے اس کی تنخواہ کا تعین نہ کر لو۔ جو شخص بغیر عقد اور اجرت کے کوئی کام کرتا ہے، اگر آپ اسے اس کی اجرت کا تین گنا بھی دے دیں تو وہ سمجھے گا کہ آپ نے اسے کم دیا ہے، لیکن اگر آپ نے اس سے معاہدہ کیا اور اسے مقررہ رقم ادا کی تو وہ یہ سمجھے گا۔ آپ نے معاہدہ کے مطابق عمل کیا آپ سے اس بات پر خوش ہوگا اور اگر آپ اسے مقررہ رقم سے زیادہ دیتے ہیں، چاہے وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو، وہ سمجھے گا کہ آپ نے زیادہ رقم ادا کی ہے اور آپ کا شکرگزار ہوگا۔”[13]
نتیجہ
اقتصادی مشکلات دور حاضر میں دنیا کے ہر سماج کے لئے ایک چیلنج ہے امام رضاؑ کی نظر میں اس اقتصادی مشکلات کی وجہ تعلیمات اسلام اور ائمہ کی سیرت سے دوری ہے آپ نے اس اقتصادی مشکلات کے عوامل میں ظلم، خیانت، ذخیرہ اندوزی اور اس کے راہ حل کے لئے میانہ روی، قناعت، حلال رزق کی تلاش، اسراف سے پرہیز، مزدور کی اجرت کا تعین، وغیرہ کو بیان فرمایا ہے ان امور کی رعایت اگر کی جائے تو یقینا ہمارے سماج سے یہ بیماری بہت جلد ختم ہو جائے گی۔اور ہر انسان خوش حالی کی زندگی بسر کرنے لگے گا۔
حوالہ جات
[1] ۔نوری، مستدرک الوسائل، ج13، ص54.
[2] ۔مجلسی، بحار الانوار، ج76، ص268.
[3] ۔یونس، 44.
[4] ۔مجلسی، بحارالانوار، ج78، ص335.
[5] ۔صدوق، عیون اخبار الرضا، ج1، س250.
[6] ۔راوندی، النوادر، ص52.
[7] ۔راوندی، النوادر، ص63.
[8] ۔حکیمی و دیگران، الحیاۃ، ج7، ص78.
[9] ۔مجلسی، بحار الانوار، ج78، ص357.
[10] ۔حرانی،تحف العقول، ص880.
[11] ۔حکیمی و دیگران،الحیاۃ، ج6، ص468.
[12] ۔حرانی،تحف العقول، ص804.
[13] ۔مطہری، داستان راستان، ص132۔133.
منابع و مآخذ
1۔حرانی، ابن شعبہ، تحف العقول، موسسہ نشر اسلامی: قم، 1363۔
2۔ حکیمی، محمد رضا، علی و محمد، الحیاۃ، دلیل ما: قم، 1395۔
3۔ راوندی، سید فضل اللہ، النوادر، بنیاد فرھنگ اسلامی: کوشانپور، تہران 1376۔
4۔شہید مطہری، مرتضیٰ، داستان راستان، صدرا: قم، 1361۔
5۔صدوق، ابو جعفر محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، مسجد مقدس جمکران: قم، 1389۔
6۔مجلسی، محمد تقی، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی: بیروت، 1385۔
7۔نوری، حسین بن محمد، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، موسسہ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث: بیروت، 1408۔
مضمون کا مآخذ
موسو، سید جلال، بررسی اقتصاد در آیینه رفتار و گفتار امام رضا علیه السلام، اقتصاد و بانکداری اسلامی، بهار۱۳۹۷،شماره ۲۲،ص ۱۵۵.۱80.