- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 12 دقیقه
- 2022/02/06
- 0 رائ
اللہ کے صفات کو کلی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ھے [1] صفات ثبوتیہ یا جمالیہ [2]صفات سلبیہ یا جلالیہ ۔
صفات ثبوتیہ:
ھر وہ صفت جو اصل وجود کے کمال اور اس کی اھمیت میں اضافہ اور اس کی ذات کو کامل کرنے کے لئے لائی جائے اس شرط کے ساتھ کہ موصوف اور ذات میں کوئی تغیر و تبدیلی لازم نہ آئے ، ان صفات کو جمالیہ یا صفات ثبوتیہ کھتے ھیں جیسے علم و قدرت حیات و تکلم ۔
ان صفات کی اھمیت کو سمجھنے کے لئے آسان سی مثال دیتے ھیں ،اگر ھم دو آدمیوں میں علم و جھل کے عنوان سے تقابل کریں تو اس مطلب کو بخوبی درک کر سکتے ھیں کہ جاھل کے مقابلے میں عالم پُر اھمیت اور فائدہ بخش ھے ، لہٰذا یہ عالم جاھل کے مقابلے میں برتری و فضیلت کا پھلو رکھتا ھے لہذا ھم فیصلہ کریں گے کہ کمالات کے صفات میں ایک علم بھی ھے ، اور ایسے ھی دوسری صفتوں کو مقایسہ کرنے پر حقیقت و برتری صفات جمالیہ کی کھل کر روشن ھوجائیگی اور یہ تمام صفات اس کے لئے ثابت ھیں، اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ھم دو دلیلوں پر اکتفا کرتے ھیں ۔
پھلی دلیل : خداوند عالم نے خیر و خوبی اور اچھائیوں کو لوگوں کے لئے پیدا کیا ھے کیونکہ انسان اپنے وجود میں خدا کا محتاج ھے ایسے ھی اپنے صفات اور وجودی کمالات میں بھی اسی کا محتاج ھوتا ھے، خداوند عالم نے انسان کو پیدا کیا، لیکن اپنی بقا میں انسان مستقل وجود نھیں رکھتا ھے ، تمام خیر و خوبیوں کو خدا نے انسان کے لئے پیدا کیا، مگر خود یہ خوبیاں اپنی بقا میں مستقل وجود نھیں رکھتی ھیں معلوم ھوا خواہ ذات ھوں اور خواہ صفات ھر حال میں اسی کی محتاج ھیں (بے نیاز نھیں ھیں) لہٰذا خدا ھی ان صفات کمال و جمال کا پیدا کرنے والا ھے ۔
اگر ھم تھوڑا دھیان دیں تو یہ حقیقت کھل کر آشکار ھوجائے گی کہ خدا نے انسان کے لئے تمام کمالات کو پیدا کیا ھے یہ کیسے ممکن ھے کہ ان کمالات سے اپنے کو خالی رکھے ، یا اس کے پاس موجود نہ ھو اگر اس کے پاس نہ ھوگا تو دوسروں کو کیسے دے سکتا ھے ( فاقد الشیء لا یعطی الشی ء) لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے پاس تمام کمالات و خوبیاں موجود ھیں ، اور اسی نے لوگوں کے لئے ان صفات کو قرار دیا ھے، جب تک چراغ روشن نہ ھو ، دوسروں کو روشن نھیں کر سکتا جب تک پانی خود تر نہ ھو دوسری چیزوں کو تر نھیں کر سکتا ھے ۔
دوسری دلیل : ذات پروردگار عالم مطلق ھے یعنی اس کی ذات میں کسی طرح کی قید و حد اور نقص نھیں پایا جاتا ھے جب وہ محدود و ممکن نھیں ھے تو وہ کسی کا محتاج بھی نھیں اور نہ ھی اپنے وجود کو کسی دوسرے سے لیا ھے اس لئے کہ محتاج و ضرورت مند وہ ھوتا ھے جو محدود ھو یا جس میں کمی پائی جاتی ھو لیکن خدا کی ذاتِ مطلق تام و کامل و واجب الوجود ھے لہٰذا جو صفت بھی کمال کے اوپر دلالت کرے گی خدا وند عالم کے لئے ثابت ھے اس سے خدا کی ذات محدود یا مقید نھیں ھوتی، بلکہ اس صفات کا خدا میں نہ پایا جانا اس کی ذات میں نقص کا باعث ھے کیونکہ ان صفات کمالیہ کا خداوندعالم میںنہ پایا جانا ضرورت اور احتیاج کا سبب ھے ، جب کہ خدا کی ذات واجب الوجود اوربالذات بے نیاز ھے ۔
صفات ثبوتیہ : خداوند عالم میں پائی جانے والی صفتیں یہ ھیں :
۱۔ قدرت : خدا قادر ھے یعنی جس کام کو انجام دینا چاھے انجام دیتا ھے کسی کام کے کرنے پر مجبور اور عاجز نھیں ھے اور نہ ھی اس کی قدرت کے لئے کوئی جگہ مخصوص ھے بلکہ اس کی قدرت حد بندی سے خالی ھر جگہ موجود ھے ۔
۲۔ علم : خدا عالم ھے یعنی تمام چیزوں کو جاننے والا اور تمام موجودات پر احاطہ و قدرت رکھنے والا ھے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نھیں ھے یہاں تک کہ بندوں کے افکار و خیالات سے بھی واقف ھے اور ھر چیز اس کے سامنے ھے ۔
۳۔ حیات : خدا حی ھے خداوند عالم اپنے کاموں کو علم و ارادہ و قدرت سے انجام دیتا ھے خدا انسانوں کی طرح سانس کے آنے اور جانے کے مثل زندہ نھیں ھے وہ چونکہ اپنے کام کو علم و اراد ہ اور قدرت سے انجام دیتا ھے اس لئے اس کو حی کھتے ھیں۔
۴۔ ارادہ : خدا مرید ھے اپنے کاموں کو قصد و ارادہ سے انجام دیتا ھے آگ کی طرح نھیں کہ بغیر ارادہ جلادے خداوند عالم کا وجود، وجودِ کامل ھے جو اپنے ارادہ سے کام کو انجام دیتا ھے، مثلِ فاعل مجبور اور بے ارادہ نھیں ھے ۔
۵۔ بصیر ھے: خداوند عالم دیکھنے والا ھے تما م پیدا ھونے والی چیزوں کو دیکھنے والا ھے کوئی چیز اس سے پوشیدہ نھیں ھے ۔
۶۔ سمیع ھے : خدا سننے والا ھے تمام سننے والی چیزوں کو سنتا ھے کسی چیز سے غافل نھیں ھے۔
۷۔ قدیم و ابدی ھے : قدیم یعنی ھمیشہ سے ھے اس کی کوئی ابتدا نھیں ھے ابدی یعنی ھمیشہ رھے گا اس کی کوئی انتھانھیں ھے ۔
۸۔ متکلم ھے : حقیقت کو دوسروں کے لئے اظہار اور اپنے مقصد کو دوسروں تک پھنچاتا ھے۔
ان صفات کو صفات ثبوتیہ یا جمالیہ کھتے ھیں جو خداوند عالم میں موجود اور اس کی عین ذات ھیں ۔
یاد دہانی
چونکہ ھم ناقص ھیںاس لئے ھم اپنے کام کو بغیر کسی آلات، کے انجام نھیں دے سکتے قدرت و طاقت کے باوجود بھی اپنے اعضا و جوارح کے محتاج ھیں سننے کی طاقت کے باوجود کان کے ضرورت مند ھیں دیکھنے کی طاقت کے ھوتے ھوئے آنکھ کے محتاج ھیں، چلنے کی طاقت کے ھوتے ھوئے بھی پاؤں کے نیازمند ھیں ۔ خداوند عالم کی ذات جو کمال مطلق کی حامل ھے وہ کسی کام میں دوسروں کی محتاج نھیں ھے ، لہذا خداوند عالم قادر مطلق بغیر آنکھ کے دیکھتا ھے ، بغیر کان کے سنتا ھے ، بغیر اعضا وجوارح ( جسم و جسمانیت سے خالی ) کے تمام کام کو انجام دیتا ھے ، ھر ایک کی بگڑی بناتا ھے ۔
ھمارے خیال میں دیکھنے اور سننے کے لئے فقط آنکھ ، کان ھی کی راہ پائی جاتی ھے ، لہذا جس کا کان صحیح اور آنکھ دیکھنے والی ھے تو کھتے ھیں کہ وہ دیکھتا اور سنتا ھے ، ورنہ اندھا و بھرہ ھے ۔
لیکن دیکھنے اور سننے کی اس کے علاوہ بھی راہ پائی جاتی ھے اور در حقیقت وھی اصل دیکھنا اور سننا ھے اگر آنکھ کے وسیلہ سے دیکھا تو کیا دیکھا ، کان کے ذریعہ سے سنا تو کیا سنا ، خدا کسی بھی وسیلہ و اسباب کا محتاج نھیں ھے ، لہذا بغیر وسیلہ کے سنتا اور دیکھتا ھے کوئی چیز اس سے مخفی نھیں ھے۔
ھم محدود و محتاج ھیں لہذا ھر کام میں کسی کے محتاج ھیں اگر اس دائرہ سے باھر ھوں یعنی محدود و ناقص نہ ھوتے تو ھم بھی بغیر آنکھ کے تمام چیزیں دیکھتے ، اور بغیر کان کے تمام آوازیں سنتے اور کھاجائے کہ سننے اور دیکھنے کی حقیقت در اصل اس پر صادق آتی ھے ، جیسے ھم خواب میں بغیر آنکھ و کان کے دیکھتے اور سنتے اور تمام کام انجام دیتے ھیں ۔
مگر خداوند عالم کی ذات والا صفات جو نہایت درجہ کمال اپنے وجود میں رکھتا ھے ، اس کی بنائی ھوئی تمام چیزیں، اس کا ھر ایک کام، بے عیب و نقص ھے کیونکہ وہ کامل ھے اس کے افعال بھی حد درجہ کمال رکھتے ھیں ۔
خدا کی صفات ذاتیہ اور فعلیہ
صفات ثبوتیہ کی دو قسمیں ھیں: [3] صفات ذاتیہ [4] صفات فعلیہ
صفات ذاتیہ: ان صفات کو کھاجاتا ھے جو ھمیشہ خدا کی ذات کے لئے ثابت ھیں اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز پر موقوف نھیں ھے، ان کو صفات ذاتیہ کھتے ھیں جسے علم و قدرت وغیرہ ۔
یہ صفات ذاتیہ ھمیشہ خدا کے ساتھ ھیں بلکہ اس کی عین ذات ھیں ان کا ثبوت کسی دوسرے وجود پر موقوف نھیں ھے خدا کی ذات عالم تھی دنیا کو خلق کرنے سے پھلے قادر ھے چاھے کسی چیز کو نہ پیدا کرے، ھمیشہ سے زندہ ھے اور ھمیشہ رھے گا موجودات رھیں یا نہ رھیں ، اس کا علم و قدرت و حیات وغیرہ سب عینِ ذات ھیں ، کبھی بھی اس کی ذات ان صفات کمالیہ سے خالی نھیں ھو سکتی ھے ،اس لئے کہ وہ عین ذات ھے، ورنہ خدا کی ذات کا محدود و ناقص اور محتاج ھونا لازم آئے گا جو خدا کی ذات سے بعید ھے ۔
صفات فعلیہ: ان صفات کو کھتے ھیںجو خداوند عالم کے بعض کاموں سے اخذ کی جاتی ھیں جیسے رازق و خالق اور جواد وغیرہ ، جب اس نے موجودات کو خلق کیا تو خالق پکارا گیا ، جب مخلوقات کو رزق عطا کیا تو رازق کھاگیا، جب بخشش و کرم کا عمل انجام دیا تو جواد ھوا ، جب بندوں کے گناھوں اور عیبوں کو پوشیدہ اور معاف کیا تو غفور کھلایا،اس طرح کے صفات خدا اور بندوں کے درمیان ایک خاص قسم کے رابطہ کی طرف اشارہ کرتے ھیں ۔
ایک حدیث
حسین بن خالد بیان کرتے ھیں: میں نے امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کو فرماتے ھوئے سنا: آپ ارشاد فرمارھے تھے: خدا ھمیشہ سے قادر اور عالم و حی ھے ، میں نے عرض کی یا بن رسول(ص) اللہ! بعض لوگوں کا خیال ھے کہ علم خدا زائد بر ذات ھے، قادر ھے مگر زائد بر ذات ھے ، زندہ ھے مگر زائد بر ذات ھے ، قدیم ھے مگر قدیم زائد بر ذات ھے، ایسے ھی سمیع و بصیر دیکھنے اور سننے والا ھے، مگر دیکھنا اور سننا زائد برذات ھے ؟ امام (ع) نے فرمایا: جس شخص نے خدا کے ان صفات کو زائد بر ذات جانا وہ مشرک ھے اور وہ ھمارا پیرو کار اور شیعہ نھیں ھے، خدا ھمیشہ سے عالم و قدیم حی قادر اور سمیع و بصیر ھے (اور رھے گا ) لیکن اس کی ذات اور یہ صفات عین ذات ھیں ۔[5]
صفات سلبیہ
ھر وہ صفات جو یہ بیان کرے کہ اس کی ذات نقص و عیب سے پاک و مبرا ھے اسے صفات سلبیہ کھتے ھیں ،خداوند عالم کی ذات کامل اور اس میں کوئی عیب و نقص نھیں پایا جاتا ھے ، لہذا ھر وہ صفات جو نقص یا عیب خداوند عالم پر دلالت کرے ان صفات کو سلب اور جدا کرنا ضروری ھے ۔
صفات سلبیہ یا جلالیہ
(1)خدا مرکب نہیں ہے :ہر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کہتے ہیں، اور خدا مرکب نہیں ہے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ہے ، کیونکہ ہر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ہے ، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ہو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ہوگی، اور ہر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بہت سے اجزا کا مجموعہ ہو، وہ واجب الوجودا ورخدا نہیں ہو سکتی ۔
دوسرے :ہر مرکب علت کا محتاج ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے اجزائے ترکیبیہ ملیں اور اس کو تشکیل دیں، پھر علت آکر اس کو وجود میں لائے اگر خدا ایسا ہے تو اس کو اپنے وجود میں علت اور اجزائے ترکیبیہ کا محتاج ہونا لازم آئے گا ، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود میں علت کی محتاج ہو، وہ واجب الوجود خدا نہیں ہو سکتی ۔
(۲) خدا جسم نہیں رکھتا: اجزا سے مرکب چیز کو جسم کہتے ہیں ، اور اوپر بیان ہوا کہ خدا مرکب نہیں ہے ، لہذا وہ جسم بھی نہیں رکھتا ہے ۔
دوسرے : ہر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ہونا ضروری ہے ، اور بغیر مکان کے جسم نہیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ہے اس کا ضرورتمند و محتاج نہیں ہے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ہو تو وہ خدا واجب الوجود نہیں ہو سکتا ہے ۔
(3) خدا مرئی نہیں: خدا دکھائی نہیں دے سکتا ہے ، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاہے تو ممکن نہیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ہے جو جسم رکھے اور خدا جسم نہیں رکھتا ہے لہذا اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔
(4) خدا جاہل نہیں ہے: جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ہوا ، خدا ہر چیز کا عالم ہے، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نہیں ہے ، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ہے اور خداوند عالم وجود مطلق عیب و نقص سے پاک ہے۔
(۵) خدا عاجز و مجبور نھیں : پھلے بھی صفات ثبوتیہ میں گذر چکا ھے کہ خدا ھر کام کے کرنے پر قادر اور کسی بھی ممکن کام پر مجبور و عاجز نھیں ھے اور اس کی قدرت کے لئے کسی طرح کی کوئی مجبوری نھیں ھے اسلئے کہ عاجزی و مجبوری نقص ھے اور خدا کی ذات تمام نقائص سے مبراو منزہ ھے۔
(۶) خدا کیلئے محل حوادث نھیں: خداوند عالم کی ذات میں کسی طرح کی تبدیلی و تغییر ممکن نھیں ھے جیسے کمزوری ، پیری ،جوانی اس میں نھیں پائی جاتی ھے ، اس کو بھوک ،پیاس، غفلت اور نیند نیز خستگی وغیرہ کا احساس نھیں ھوتا، اسلئے یہ تمام چیزیں جسم و مادہ کے لئے ضروری ھیں اور پھلے گذر چکا ھے کہ خدا جسم و جسمانیات سے پاک ھے لہٰذا خدا کی ذات محل حوادث یعنی تغیر و تبدیلی کی حامل نھیں ھے ۔
(۷) خدا کا شریک نھیں: اس مطلب کی دلیلیں توحید کی بحث میں ذکر کی جائیں گی ۔
(۸) خدا مکان نھیں رکھتا: خدا وند عالم کسی جگہ پر مستقر نھیں ھے نہ زمین میں اور نہ ھی آسمان میں کیونکہ وہ جسم نھیں رکھتا، اس لئے مکان کا محتاج نھیں ھے ۔
خدا نے مکان کو پیدا کیا، اور خود ان مکانات سے افضل و برتر، نیز تمام موجودات پر احاطہ کئے ھوئے ھے، کوئی جگہ اس کے وجود کو نھیں گھیر سکتی وہ تمام جگہ اور ھر چیز پر تسلط رکھتا ھے، اس کا ھر گز یہ مفھوم نھیں ھوتا کہ اس کا اتنا بڑا جسم ھے، جو اس طرف سے لے کر اس طرف تک پورا گھیرے ھوئے ھے ، بلکہ اس کا وجود، وجود مطلق ھے یعنی اس میں جسم و جسمانیات کا گذر نھیں ھے ، اور نہ اس کے لئے کوئی قید و شرط (یہاں رھے یا اس وقت وہاں رھے) پائی جاتی ھے لہذا کسی جگہ کا وہ پابند نھیں تمام موجودات پر احاطہ رکھتا ھے، کوئی چیز اس کے دست قدرت سے خارج نھیں ھے، لہذا اس کے لئے یہاں اور وہاں کھنا درست نھیں ھے ۔
سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ پھر دعا کے وقت ہاتھوں کو کیوں آسمان کی طرف اٹھاتے ھیں؟ آسمان کی طرف ہاتھوں کے اٹھانے کا یہ مطلب نھیں ھے کہ خداوند عالم کی ذات والا صفات آسمان پر ھے، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرنے سے مراد درگاہ خدا میں فروتنی و انکساری و عاجزی و پریشانی کے ساتھ سوال کرنا ھے ۔
مسجد اور خانہ کعبہ کو خدا کا گھر کیوں کھتے ھیں ؟ اس لئے کہ وہاں پر خدا کی عبادت ھوتی ھے ، اور خدا نے اس مقام کو اور زمینوں سے بلند و برتر و مقدس بنایا ھے ( جیسے خداوند عالم نے مومن کے دل (قلب) کو اپنا گھر کھاھے اور کھتا ھے خدا ھر جگہ و ھر طرف موجود ھے ،( فَاَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ)[6]
(۹ ) خدا محتاج نھیں : خداوند عالم کسی شی کا محتاج نھیں ھے ، اس لئے کہ اس کی ذات ھر جھت سے کامل و تام ھے اس میں نقص اور کمی موجود نھیں ھے جو کسی چیز کا محتاج ھو اور اگر محتاج ھے تو پھر واجب الوجود خدا نھیں ھو سکتا ھے ۔
پھر خداوند عالم نے ھمارے لئے روزہ و نماز جیسے فریضہ کو کیوں واجب کیا ھے ؟ اس کا سبب یہ نھیں ھے کہ خدا کی ذات ناقص ھے اور ان عبادتوں کے ذریعہ اپنی کمی کو پورا کرنا چاھتا ھے ، بلکہ خدا کا مطمحِ نظر یہ ھے کہ انسان عبادت کرے اور اپنے نفس کو نورانی اور کامل کرکے اس کی ھمیشہ آباد رھنے والی جنت کے لائق ھو جائے ۔
خدا جو ھم سے چاھتا ھے کہ ھم خمس و زکواة و صدقہ دیں ، تو اس کا مطلب یہ ھے کہ خدا غریب و فقیر، ضرورتمندوں کی مدد اور ان پر احسان کرنا چاھتا ھے ، تاکہ لوگ نیکی و احسان میں آگے آگے رھیں ، اس وجہ سے نھیں کہ ھماری معمولی اور مادی مدد سے وہ خود اپنی ضرورت کو پورا کرے کیونکہ خود یہ خمس و زکات اور صدقات ھمارے سماج کی اپنی ضرورت ھے اور لوگوں کے فائدے کے مدنظر بعض کو واجب قرار دیا اور بعض کو مستحب ، لیکن ھر ایک کا مصرف انھیں ضرورتمند افراد کو قرار دیا ھے، قطع نظران چیزوں کے، اگر ھم غور و فکر کریں کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا مجبوروں اور غریبوں پر احسان و مدد کرنا اور سماج کی ضروریات کو پورا کرنا (جیسے مسجد و امام بارگاہ و مدرسہ کی تعمیر کرنا) خود ایک بھترین عبادت اور نفس کو منزل کمال پر پھنچانے اور آخرت میں منزل مقصود تک پھونچنے کا بھترین راستہ ھے ۔
(۱۰) خدا ظالم نھیں : اس کی دلیل عدل کی بحث میں ذکر کی جائیگی ۔
حواله جات
[1] خدا مرئی نھیں : خدا دکھائی نھیں دے سکتا ھے ، یعنی اس کو آنکھ کے ذریعہ کوئی دیکھنا چاھے تو ممکن نھیں، اس لئے کہ دکھائی وہ چیز دیتی ھے جو جسم رکھے اور خدا جسم نھیں رکھتا ھے لہذا اس کو نھیں دیکھا جا سکتا ۔
[2] خدا جاھل نھیں ھے : جیسا کہ صفات ثبوتیہ میں بیان ھوا ، خدا ھر چیز کا عالم ھے ، اور اس کے علم کے لئے کسی طرح کی قید و شرط و حد بندی نھیں ھے ، اور جہالت و نادانی عیب و نقص ھے اور خداوند عالم وجود مطلق عیب و نقص سے پاک ھے۔
[3] خدا مرکب نھیں ھے :ھر وہ چیز جود و جز یا اس سے زائد اجزا سے مل کر بنے اسے مرکب کھتے ھیں، اور خدا مرکب نھیں ھے اور نہ اس میں اجزا کا تصور پایا جاتا ھے ، کیونکہ ھر مرکب اپنے اجزا کا محتاج ھے اور بغیر اس اجزا کے اس کا وجود میں آنا محال ھے ، اگر اللہ کی ذات بھی مرکب ھو تو، مجبوراً اس کی ذات ان اجزا کی ضرورتمند ھوگی، اور ھر وہ ذات جو محتاج، ناقص اور بھت سے اجزا کا مجموعہ ھو، وہ واجب الوجودا ورخدا نھیں ھو سکتی ۔ دوسرے :ھر مرکب علت کا محتاج ھوتا ھے یہاں تک کہ اس کے اجزائے ترکیبیہ ملیں اور اس کو تشکیل دیں، پھر علت آکر اس کو وجود میں لائے اگر خدا ایسا ھے تو اس کو اپنے وجود میں علت اور اجزائے ترکیبیہ کا محتاج ھونا لازم آئے گا ، لہٰذا جو ذات ناقص اور اپنے وجود میں علت کی محتاج ھو، وہ واجب الوجود خدا نھیں ھو سکتی ۔
[4] خدا جسم نھیں رکھتا : اجزا سے مرکب چیز کو جسم کھتے ھیں ، اور اوپر بیان ھوا کہ خدا مرکب نھیں ھے ، لہذا وہ جسم بھی نھیں رکھتا ھے ۔
دوسرے : ھر جسم کے لئے ایک جگہ و مکان کا ھونا ضروری ھے ، اور بغیر مکان کے جسم نھیں رہ سکتا، جب کہ خداوند عالم خود مکان کو پیدا کرنے والا ھے اس کا ضرورتمند و محتاج نھیں ھے اگر خدا جسم رکھے اور مکان کا محتاج ھو تو وہ خدا واجب الوجود نھیں ھو سکتا ھے ۔
[5] بحار الانوار ج۴، ص ۶۲ ۔
[6] لہٰذا تم جس جگہ بھی قبلہ کا رخ کر لو گے سمجھووھیں خدا موجود ھے۔ سورہٴ بقرہ آٓیت ۱۱۵.