- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
” ما خلق العباد الا لیعرفوہ “ ( تفسیر نور الثقلین ج / ۵ ص / ۱۳۲ ) بندوں کی تخلیق اس لئے ھوئی ھے کہ وہ خدا کو پھچانیں ۔
یہ اور ایسی ھی دوسری اسلامی روایات اسی معنی اور مفھوم کی حامل ھیں کہ تخلیق کائنات کا ھدف اس دنیا اور بعد کی دنیا میں انسان کی ھمہ جھت تکمیل ھے ۔
ایک حدیث کے مطابق: ” ما خلقتم للفناء بل خلقتم للبقاء “ ( رسول گرامی اسلام ” تمھیں نیست و نابود کرنے کے لئے نھیں پیدا کیا گیا بلکہ تمھیں پیدا کرنے کا مقصد ایک ھمیشہ کی زندگی عطا کرنا ھے ۔“
تخلیق کا ھدف انسان کو کمال کے انتھائی درجے پر پھنچانا اور ایک حیات جاوداں بخشنا ھے ۔
اگر فلاسفہ اسلام نے یہ کھا ھے : ” اللہ تعالیٰ کے کام کسی غرض اور ھدف کے بغیر انجام پاتے ھیں یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق خدا کی غرض اور ھدف خود خدا ھی ھوتا ھے “۔
تو اس بیان سے ان کا مقصد یہ ھے کہ کائنات اور انسان کی تخلیق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد کوئی نفع حاصل کرنا یا کسی نقصان اور ضرر سے خود کو محفوظ کرنا نھیں رھا ھے اور نہ ھے ۔ بلکہ دنیا اور انسان کی خلقت کا نتیجہ جیسا کہ ھم نے کھا ھے ، کائنات کی جبری تکمیل لیکن انسان کی ارادی و اختیاری تکمیل ھے ۔
کبھی لوگ پوچھتے ھیں کہ: کیا اللہ تعالیٰ انسان کی عبادت کا محتاج ھے کہ اس نے اسے عبادت کے لئے پیدا کیا ھے ؟
ھم نے اب تک جو کچھ کھا ھے اس میں اس سوال کا جواب بھی موجود ھے ۔ ھم یہ جان چکے ھیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اور انسان کو منزل کمال تک پھنچنے کے لئے پیدا کیا ھے ۔
اور اس منزل کا راستہ بندگی و اطاعت کا راستہ ھے ۔ اس لئے یہ کھنا درست ھو گا کہ: اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت اور ھمہ جھت ارتقاء اور تکمیل کے لئے پیدا کیا ھے ۔ یہ بات ظاھر ھے کہ انسان کی عبادت کا نفع اور فائدہ خود اسی کو پھنچتا ھے اور اللہ تعالیٰ انسان کی عبادت کا محتاج نھیں ھے ۔
” ان اللہ لغنی عن العٰلمین “ ( سورہ عنکبوت / ۶)
” اللہ تعالیٰ تمام موجودات سے بے نیاز ھے “ ۔
لوگ یہ بھی سوال کرتے ھیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پوری طرح کامل کیوں نھیں پیدا کیا ؟
اس کا جواب یہ ھے: کمال حقیقت میں اسی کمال کو کھا جا سکتا ھے اور وھی کمال جزا کا اور تعریف کا مستحق ھو سکتا ھے جسے انسان نے اپنے ارادے سے اور اپنی آزادی و اختیار کو کام میں لا کر حاصل کیا ھو ۔
اگر کسی شخص کو بغیر اس کے مانگے کوئی دولت دے دی جائے اور پھر اس کی خواھش کے بغیر اس سے واپس لے لی جائے اور اس دولت سے شفا خانے اور مسافر خانے تعمیر کئے جائیں تو یہ سارا کام اس کے فضل و کمال کا حصہ نھیں بنے گا اگر چہ یہ کام معاشرہ کے لئے سود مند ثابت ھوا ھے ۔
اگر انسان کو اللہ تعالیٰ ایک کامل انسان کے طور پر پیدا کرتا تو انسان ھر گز اجر و تعریف کا مستحق قرار نہ پاتا ۔
قرآن کھتا ھے : ” انا ھدینٰہ السبیل اما شاکرا و اما کفورا “ ( سورہ دھر / ۳ )
ھم نے انسان کو نیکی اور بدی کی راھیں دکھا دیں تاکہ وہ شکر گزار بنے اور فضیلت روحانی اور کمال انسانی حاصل کرے یا پھر یہ کہ وہ نا شکرا بن جائے اور درجھٴ کمال سے دور رھے ۔
قضا ، قدر ، جبر
سوال مادہ پرست اور اسلام کے مخالفین یہ سمجھتے ھیں کہ قضا و قدر پر اعتقاد کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ انسان خود کو مجبور اور بے بس سمجھنے لگتا ھے اور ایجاد و اختراع اور تعمیر و ترقی کے کاموں میں اپنے کردار کو فراموش کر بیٹھتا ھے اور تقدیر کے فیصلوں کا انتظار کرتا رھتا ھے ۔
اسی بات کو بنیاد بنا کر اسلام کو ایک جبری آئین و قانون کے طور پر پیش کیا جا تا ھے اور اسے اختیار و آزادی کا مخالف قرار دیا جا تا ھے ۔
کیا قضا و قدر کے یھی معنی ھیں جو لوگوں نے سمجھ رکھے ھیں ، کیا انسان کو اپنی قسمت کے بنانے میں کوئی دخل نھیں ھے ؟
جواب قضا و قدر اور جبر و اختیار کے درمیان کیا تعلق، ھے اسے ظاھر کرنے کے لئے ھم پھلے قضا و قدر کے معنی پھر جبر کے مفھوم اور ان دونوں کے درمیان تعلق کی وضاحت کریں گے ۔
۱۔قدر کے معنی ۔اندازہ ، اندازہ لگانے اور کسی چیز کی مقدار اور اس کی حدمعین کرنے کے ھیں اور اس کے اصطلاحی معنی یہ ھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ھر چیز کا ایک اندازہ مقرر فرمایا ھے اور اسے ایک تخمینے ، حساب اور مقدار کی بنیاد پر پیدا کیا ھے ۔
۲۔ قضا کے معنی حکم ، اور قطعیت و حتمیت کے ھیں ۔ تخلیق، پیدائش اور بھت سی چیزوں کے وجود پانے میں کئی طرح سے قضا کا دخل ھوتا ھے ۔
اگر ممکنہ ذرائع سے کسی چیز کی پیدائش کے اسباب فراھم ھو جائیں اور پھر اس چیز کا وجود میں آنا یقینی اور سچ ثابت ھو جائے تو اس سچ ثابت ھونے کے مرحلے کو قضا کھا جا تا ھے ۔
۳۔ جبر : دینی اور قانونی اصطلاحات میں جبر کے معنی یہ ھیں کہ انسان اپنے کاموں کی انجام دھی میں کسی طرح کا اختیار نہ رکھتا ھو ۔
اسی بنا پر قضا و قدر کے وسیع معنی کا اطلاق انسان اور غیر انسان تمام ھی موجودات پر ھوتا ھے ۔
علت و معلول کا نظام
بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ھر چیز کے لئے کچھ اسباب اور علتیں پیدا کی ھیں اور یہ چیزیں اپنے وجود اور اپنی پھچان کو زندہ اور باقی رکھنے کے لئے ان اسباب اور علتوں سے وابستہ رھتی ھیں ۔
ایسا نھیں ھے کہ جو چیز بھی دنیا میں پیدا ھوتی ھے وہ اپنے ما قبل اور ما بعد سے تعلق رکھے بغیر اتفاقی طور پر پیدا ھوتی ھے یا اس کی مقدار یا تعداد بے حساب اور بے اندازہ ھوتی ھے ۔
مثلاً : بارش یا برفباری ھوتی ھے تو اس کے پیچھے ضروری عوامل کا ایک پورا سلسلہ کام کرتا ھے اور اسی کی بنا پر ایک خاص علاقے میں بارش اور برف باری ھوتی ھے ۔ ظاھر ھے اسباب اور علتوں کے بغیر یہ کام انجام نھیں پا سکتا ۔
اسی طرح انسانوں کے کام محض کسی اتفاق اور حادثے کی بنا پر خود ان ھی کے ھاتھوں انجام نھیں پاتے بلکہ ایک سلسلہ ٴ عوامل کے تحت انجام پاتے ھیں پھلے انسان کسی کام کے بارے میں سوچتا ھے ۔پھریہ طے کرتا ھے کہ یہ کام اس کے لئے فائدہ مند ھو گا یا نھیں ۔ جب اسے کام کے مفید ھونے کا یقین ھو جاتا ھے تو پھر وہ اسے انجام دینے کی کوشش کرتا ھے ۔
اس سے یہ بات ثابت ھوئی کہ دنیا میں رو نما ھونے والا ھر واقعہ کسی نہ کسی سبب اور علت کی بنا پر رو نما ھوتا ھے ۔ اسباب و علل کا یہ ایک ایسا نظام ھے جس میں کوئی تبدیلی نھیں ھوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو ایسا ھی بنایا ھے ۔
واضح ھے کہ یہ عقیدہ آزادی اور اختیار کے اصول کے منافی نھیں ھے۔ کیونکہ خود اختیار اور آزادیدنیا کے اسباب و علل ھی کا ایک حصہ ھے ۔ انسان اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر اپنیتوانائی کے مطابق کام انجام دیتا ھے اور اگر نھیں چاھتا تو انجام نھیں دیتا ۔
اب ھم سطور ذیل میں اس بحث کی مکمل وضاحت کرینگے : دنیا میںجو بھی واقعات رونما ھوتے ھیں انھیں تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ھے :
۱۔ ایک نظریے کے مطابق دنیا کے موجودہ حوادث اور واقعات کا ماضی سے کوئی رشتہ نھیں ۔ اس دنیا میں جو بھی واقعہ خواہ وہ کسی دور میں واقع ھوا ھو ، اس کا پچھلے امور سے کوئی تعلق نھیں ، اس کا ظھور سابقہ امور سے مربوط نھیں ھے ۔ نہ اس کی خصوصیات اور شکل و صورت اور مقدار و پیمائش کا ماضی کی چیزوں سے کوئی رابطہ ھے ۔
اس مفروضے کے مطابق کسی بھی چیز کی قسمت و سر نوشت پھلے سے نھیں لکھی گئی ۔ اس لئے واقعات اور چیزوں کے اصل سبب اور علت کا یکسر انکار ضروری قرار پاتا ھے اور یہ ماننا بھی ضروری قرار پاتا ھے کہ تمام رونما ھونے والے واقعات کسی اندازے اور حساب کے بغیر اتفاقاً رونما ھو گئے ھیں جبکہ اسباب و علل کا قانون ایک عام قانون ھے اور ھر حادثہ حتمی اور قطعی صورت اس وقت اختیار کرتا ھے اور اس وقت ظھور میں آتا ھے جبکہ وہ پچھلے واقعات سے مربوط ھو ۔
مختصر یہ کہ واقعات کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ حتمی اور ضروری ھے ۔ اس بات سے انکار نھیں کیا جا سکتا کہ تمام واقعات کی کڑیاں اپنے ما قبل اور ما بعد واقعات سے جڑی ھوتی ھیں ۔
۲۔ دوسرا مفروضہ یہ ھے کہ ھم ھر رونما ھونے والے حادثے اور واقعے کے لئے ایک علت و سبب کے قائل ھو جائیں لیکن اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ اسباب اور مسببات کا ایک پورا نظام موجود اور کار فرما ھے ۔ اور یہ خیال کر لیں کہ دنیا میں ایک سبب اور ایک فاعل سے زیادہ کا وجود نھیں ھے اور وہ فاعل ، ذات خدا وندی ھے ۔ تمام واقعات اور چیزیں بغیر کسی واسطے کے براہ راست اسی کے ذریعہ ظھور میں آتی ھیں اور خدا کے سوا کوئی عامل موجود نھیں ھے اور ھم یہ کھیں کہ اللہ تعالیٰ نے روز ازل ھی جان لیا تھا کہ دنیا میں فلاں حادثہ فلاں وقت ظھور میں آئے گا اس لئے جبراً و قھراً واقعہ اسی وقت رونما ھو جاتا ھے اور اس حادثے کے ظھور میں کسی اور چیز کا عمل دخل نھیں ھوتا ۔ انسان کے افعال اور اعمال بھی اسی طرح کے حوادث میں سے ایک ھیں ۔ جو اختیار کے بغیر وجود میں آ جاتے ھیں ۔ اور خود انسان ان کاموں میں مداخلت کی طاقت نھیں رکھتا ۔ یہ تو صرف ایک ظاھری اور خیالی پردہ ھے جو ھمیں دکھائی دیتا ھے ۔
یہ نظریہ بھی دو وجوہ سے نا قابل قبول ھے :
۱۔ایک تو یہ کہ اسباب اور مسببات کا نظام اورواقعات کے درمیان علت و معلول کا رابطہ نا قابل انکار ھے ۔ اس لئے کہ تمام علوم طبعی اور حسّی و تجربی مشاھدات کی بنیاد یھی اسباب و مسببات کا نظام ھے ۔ اور سائنس دان اسی کی مدد سے ایجادات و اختراعات کرنے کے قابل ھوئے ھیں ۔
۲۔ دوسری یہ کہ انسان آزاد اور خود مختار پیدا ھوا ھے۔ یعنی اسے عقل ، فکر اور ارادہ دیا گیا ھے ۔ اپنے ارادہ و اختیار کے کاموں میں انسان کوئی ایسا پتھر نھیں ھے کہ جسے اوپر سے نیچے پھینکا جائے تو وہ زمین کی قوت جاذبہ کے تحت چار و نا چار زمین پر پھنچ کر رھے گا ۔ اور انسان کی حیثیت گھاس کی بھی نھیں ھے کہ جس کے سامنے صرف ایک محدود راستہ ھو اور جو نشو ونما کے حالات میسر آتے ھی زمین سے غذا حاصل کرنا شروع کر دیتی ھے اور سر سبز ھو جاتی ھے ۔ اوراسی طرح انسان کوئی جانور بھی نھیں ھے جو اپنی جبلت کی بنا پر کام انجام دیتا ھو ۔
انسان جب کسی چوراھے پر پھنچتا ھے تو وہ کسی ایک ھی راستے کے انتخاب کرنے پر مجبور نھیں ھوتا ۔ اس پر دوسرے راستے بند نھیں کر دیے جاتے ، وہ چار راستوں میں سے اپنی نظر و فکر سے کام لے کر کسی ایک راستے کو منتخب کرنے کے لئے آزاد ھوتا ھے ۔
آگ جو جلا دیتی ھے اور پانی جو غرق کر دیتا ھے اور گھاس جو اگتی ھے ، ان کے اور انسانوں کے درمیان فرق یھی ھے کہ ان میں سے کسی کے بھی خواص اور فرائض اپنے منتخب کردہ نھیں ھیں جبکہ اس کے بر عکس انسان کے سامنے چند کام اور چند راھیں موجود ھوتی ھیں ان میں سے کسی ایک کام یا راستہ کو وہ اپنی خواھش اور مرضی کے مطابق منتخب کر سکتا ھے ۔
جبر کا یہ دوسرا نظریہ بھی درست نھیں ھے ۔
۳۔ تیسرا نظریہ یہ ھے کہ ھم علت اور سبب کے اصول کو تسلیم کر لیں ۔ کیونکہ نظام عالم اور اس میں رو نما ھونے والے تمام واقعات ، حتی کہ انسانی افعال و اعمال سب علت و معلول کے درمیان رابطے کی بنیاد پر استوار ھیں اور انسان کے ارادہ و اختیار کی طاقت ان امورمیں موٴثر ھے جنھیں انسان انجام دیتا ھے ۔انسان کی قسمت اس نظام سے وابستہ ھوتی ھے جسے وہ خود وجود میں لاتا ھے ۔ ھر شخص کا اچھا یا برا مستقبل ، اس کی شخصیت اس کی روحانی صفات ، اس کی اخلاقی صلاحیتوں اور عملی قوت سے وابستگی رکھتا ھے اور بالآخر وہ اپنے لئے جس راستے کو بھی منتخب کرتا ھے وہ اسی راستے پر ڈال دیا جاتا ھے ۔
انسان ایسے کسی بھی کام کو ترک کرنے کی قدرت رکھتا ھے جس کا انجام دینا مصلحت اندیشی کے خلاف ھو جبکہ اس کام کے انجام دینے میں نہ کوئی رکاوٹ حائل ھوتی ھے اور نہ وہ کام اس کی طبیعت و خواھش کے خلاف ھوتا ھے ۔ اسی طرح وہ ایسے کسی بھی کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ھے جو مصلحت اندیشی اور عقل کی رو سے درست ھو جبکہ وہ کام اس کی اپنی خواھش نفسانی کے خلاف ھوتا ھے اور جس کے انجام دینے میں کوئی خارجی رکاوٹ بھی در پیش نھیں ھوتی ۔ در اصل انسان کو ایک طرح کی آزادی حاصل ھے اور وہ کسی بھی کام کو اپنی عقل و ارادہ کی مدد سے انجام دے سکتا ھے یا اسے ترک کر سکتا ھے ۔ اور کوئی عامل اس کی خواھش اور رغبت کے خلاف اسے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر مجبور نھیں کرتا ۔
یہ نظریہ ( تیسرا نظریہ ) تمام بڑے بڑے پیغمبروں ، آسمانی کتابوں، مسلمان فلاسفہ اور دانشوران اسلام نے پیش کیا ھے اور مسلمانوں نے اسی عقیدے کو قبول کیا ھے ۔
اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ھے کہ انسان اپنے کام، ارادہ و اختیار کے ساتھ انجام دے ، نہ یہ کہ تقدیر اسے اچھے یا برے کاموں میں سے کسی ایک طرح کے کام انجام دینے پر مجبور کرے ، باوجودیکہ علت و معلول کا نظام اس دنیا پر حکمراں ھے ۔ انسان کے کام کسی جبر کے تحت انجام نھیں پاتے ۔
یہ بات ظاھر ھے کہ قضا و قدر جس میں آزادی اور اختیار کو بھی جگہ دی گئی ھے ترقی اور عروج کی راہ میں حائل نھیں ھے اور انسان کے ھاتہ پاؤں نھیں باندہ دیتی ۔ وہ اپنی آزادی اور حریت سے فائدہ اٹھاتے ھوئے جس طرح کا بھی کام چاھے انجام دے سکتا ھے اور اپنی ترقی کے لئے کوشش کر سکتا ھے ۔
انسان جس جانب بھی رخ کرتا ھے اس کی قضا و قدر وھاں موجود ھوتی ھے جسے وہ خود اپنے ھاتہ سے منتخب کرتا ھے ۔
انسان صرف ایک طرح کی تقدیر نھیں رکھتا بلکہ گوناگوں تقدیر یں رکھتا ھے جن میں سے کوئی بھی تقدیر دوسری کی جگہ لے سکتی ھے ۔
مثلاً: اگر کوئی شخص بیمار ھوتا ھے اور علاج کراتا ھے اور صحت مند ھو جاتا ھے تو یہ قضا و قدر کے عین مطابق ھے ۔
اور اگر وہ علاج نھیں کراتا ، بیمار رھتا ھے اور پھر مر جاتا ھے تو یہ بھی قضا و قدر کے مطابق ھوتا ھے ۔
حضرت علی( ع) ایک ٹیڑھی دیوار کے نیچے سے اٹہ کر ایک دوسری دیوار کے سائے میں بیٹہ گئے ۔ لوگوں نے کھا :
” امیر المومنین(ع) ! کیا آپ قضائے الٰھی سے فرار اختیار کرتے ھیں ؟“
آپ نے جواب دیا : ” میں نے خدا کی قضا سے اس کی قدر کی جانب اور دوسری قضا کی طرف فرار اختیار کی ھے ۔
آخر کار انسان جس جانب بھی قدم اٹھاتا ھے اسے ایک طرح کی اختیاری قسمت اور قضا و قدر سے واسطہ پڑتا ھے اور یہ چیز علت و معلول کے عمومی قانون کے تحت ھوتی ھے اور قضا و قدر پر عقیدہ انسان کو عمل اور کوشش سے باز نھیں رکھتا ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ھے : ” وہ لوگ جو گناھوں کی وجہ سے مرتے ھیں ان کی تعداد ان مرنے والوں سے زیادہ ھے جو مھلت عمر کے ختم ھو جانے کی بنا پر اس دنیا سے رخصت ھوتے ھیں اور ان لوگوں کی تعداد جن کی عمر ان کی نیکوکاری کی وجہ سے دراز کی جاتی ھے اپنی طبعی اور اصلی عمر کے ساتھ زندہ رھنے والوں سے زیادہ ھے ۔“
اب جبکہ بات واضح ھو چکی ھے ، قضا و قدر پر اعتقاد کا مطلب یہ نھیں ھے کہ لازماً جبر پر بھی یقین رکھا جائے ۔