- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
اب ھم جبر پر اعتقاد کے غلط ھونے کو ثابت کریں گے ۔
۱۔ ذمہ دار یا مکلف ھونا ۔
ھر دینی اور اخلاقی مکتب کی بنیاد ، فرض اور ذمہ داری ھے جو جبر کے ساتھ کوئی مطابقت نھیں رکھتی ۔ اگر لوگ اپنے کاموں کی انجام دھی پر مجبور ھوں تو پھر امر و نھی ، بدلے اور سزا، جنت و دوزخ ، سب بے معنی ھو کر رہ جاتے ھیں ۔ جب کسی کو کسی کام سے باز رھنے کا اختیار نھیں تو اس سے یہ کھنا کہ اس کام سے باز آجاؤ ، فضول ھو گا ۔ جب آپ ایک عاقل انسان سے ایسی بات کی توقع نھیں کرتے تو پھر خداوند حکیم سے کس طرح توقع رکہ سکتے ھیں ۔
مکلف ھونے کا مسئلہ ھی اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ اسلام اور تمام آسمانی مذاھب میں سے کوئیبھی جبری آئین و قانون نھیں رکھتا ۔
۲۔ ھم سب وجدانی طور پر یہ جانتے ھیں کہ ھم کاموں کے انجام دینے میں مشین کی طرح نھیں ھیں کہ اختیار و ارادہ کے بغیر ھم سے کام سرزد ھو رھے ھوں ۔ ھم اس بات کو پوری طرح محسوس کرتے ھیں کہ تمام کام ھم آزادی اور اختیار کے ساتھ اور اپنی مرضی سے انجام دیتے ھیں ۔ اسی لئے جس کسی شخص کے حقوق کو پائمال کیا جاتا ھے ، ھم اسے حق دیتے ھیں کہ وہ اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کرے ۔
اگر انسان اپنے کاموں میں مجبور ھوتا تو اس صورت میں اس شخص کو جس کا حق پائمال کیا گیا ھے یہ حق حاصل نہ ھوتا کہ وہ اعتراض کرے اور غاصب کو عدالت میں کھینچے ۔
۳۔اس سلسلے میں ھم نے جو کچھ لکھا ھے اس کے علاوہ قرآن کریم کی بھت سی آیتیں ، انسانی آزادی و اختیار کے اصول کی تصریح کرتی ھیں اور واضح طور پر یہ بتاتی ھیں کہ اپنی نجات اور گمراھی ، سعادت و بد بختی ، ترقی اور پسماندگی میں خود انسان کے اپنے عمل و اختیار کو بڑا دخل حاصل ھے ۔
مثلاً مندرجہ ذیل آیات : ” ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس “ ( سورھٴ روم / ۴۱) ” لوگوں نے جو اعمال کئے ھیں ان کی بنا پر بر و بحر میں فساد پھوٹ پڑا ھے “۔
” انا ھدینٰہ السبیل امّا شاکراً و امّا کفورا “ ( سورھٴ دھر / ۳ ) ” ھم انسان کی راہ ( راست ) کی جانب رھنمائی کرتے ھیں تاکہ دیکھیں وہ کون سی راہ اختیار کرتا ھے ، آیا وہ ھماری رھنمائی قبول کرتا ھے اور شکر ادا کرتا ھے ( امّا شاکراً) یا رو گردانی اختیار کر کے نا شکر گزار بن جاتا ھے ( و امّا کفورا)
” فامّا ثمود فھدیناھم فاستحبّواالعصی عملی الھدیٰ “ ( سورھٴ فصلت /۱۷) ” ھم نے ملت ثمود کی رھنمائی کی لیکن اس نے ھدایت کو چھوڑ کر گمراھی کو پسند کیا ۔
” لیس للانسان الّا ما سعیٰ “ ( سورھٴ نجم / ۳۹) ” انسان کے لئے خود اس کی سعی اور کوشش کے سوا اور کچھ نھیں ھے ۔
مندرجہ بالا آیات اور ایسی ھی دوسری آیات سے معلوم ھوتا ھے کہ جو شخص بھی اسلام کو ایک جبری آئین و قانون کے طور پر پیش کرتا ھے و ہ در اصل غلط فھمی کا شکار ھے ۔ اور اس نے قضا و قدر کے معنی نھیں سمجھے ھیں یا پھر وہ اسلام کے مخالفین کی طرح اس طریقے سے نا جائز فائدہ اٹھانا چاھتا ھے اور اپنے اس الزام کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ایسی قوم کے طور پر متعارف کرانا چاھتا ھے جو ترقی کرنے کی صلاحیت نھیں رکھتی اور پسماندگی میں پڑی رھنا چاھتی ھے ۔
اختیار پر عقیدے کا فائدہ
جو شخص اس بات پر ایمان رکھتا ھے کہ: اسے اپنی قسمت پر کوئی اختیار نھیں ھے اور اس کی حیثیت محض ایک تنکے کی سی ھے جو تیز ھوا کے جھونکوں کے ساتھ ادھر اُدھر اڑتا رھتا ھے اس کے عقیدے میں اور ایک ایسے شخص کے عقیدے میں بنیادی اختلاف ھے ، جو خود کو اپنی قسمت کا آپ بنانے والا اور بگاڑنے والا سمجھتا ھے اور یہ یقین رکھتا ھے کہ اسے آزاد پیدا کیا گیا ھے ۔
پھلا عقیدہ رکھنے والا شخص اپنی کوششوں اور محنتوں کی قدر و قیمت کا قائل نھیں ھوتا اور راستے میں پیش آنے والی ھر چیز کے مقابلے میں سر تسلیم خم کرنے کے سوا اس سے کوئی دوسری راہ سجھائی نھیں دیتی ۔
ایسا شخص ھمیشہ اپنی نفسانی خواھشات اور اپنی شھوتوں کے ھاتھوں گرفتار رھتا ھے اور زندگی میں کوئی کامیابی حاصل نھیں کرسکتا ۔ وہ اپنی نفسانی خواھشات اور در پیش مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ھمت نھیں رکھتا اور اپنے اس عقیدے کے ساتھ زندہ رھتے ھوئے روز بروز اپنی بد بختی میں اضافہ کرتا چلا جاتا ھے ۔
البتہ دوسرا شخص جو یہ عقیدہ رکھتا ھے کہ وہ خود اپنی زندگی کا ایک راستہ بنا سکتا ھے اور راہ میں پیش آنے والی ھر رکاوٹ کے مقابل ایک موٴثر کردار ادا کر سکتا ھے ۔
ایسا شخص تمام امور کے انجام پانے کو اپنے ارادے اور اختیار سے وابستہ سمجھتا ھے ۔ جب بھی وہ چاھتا ھے انھیں انجام دیتا ھے ، اگر نھیں چاھتا تو ان کاموں کے انجام دینے سے خود کو باز رکھتا ھے ۔
بلا شک و شبہ ایک ایسا شخص اپنی زندگی میں زیادہ تر کامیابیوں سے بھرہ مند ھوتا ھے کیونکہ وہ کسی بھی کام کی انجام دھی کے لئے اپنی کوشش اور جد و جھد پر یقین رکھتا ھے ۔ اور وہ حادثات اور اپنی نفسانی خواھشات کے مقابل سر تسلیم خم نھیں کرتا ۔
مزید یہ کہ وہ روحانی اور باطنی نظاموں سے استفادہ کرتے ھوئے نیکیاں کر کے اور گناھوں سے پرھیز کر کے دعاؤں اور مناجات کے ذریعہ اپنی کامیابیوں میں اضافہ کرتا رھتا ھے ۔