- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/09/06
- 0 رائ
امام باقر(ع) سے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں، بعض روایات میں امام کا مجالس عزاداری کو اپنے گھر میں اہمیت دینے کے بارے میں، بعض روایات میں امام باقر نے حکم دیا ہے مجالس عزاداری گھروں میں برپا کرنے کے بارے میں، بعض روایات میں امام باقر(ع) نے گریہ و عزاداری کے ثواب کو بیان کیا ہے کہ ان تمام رویات سے عزاداری کے شرعی اور جائز ہونے کو سمجھا جا سکتا ہے
امام باقر(ع) کے گھر میں مجلس عزا کا برپا ہونا
حدثنا أبو المفضل، قال حدثنا جعفر بن محمد بن القاسم العلوي، قال حدثنا عبد الله بن احمد بن نهيل ، قال حدثني محمد ابن ابى عمير، عن الحسين بن عطية، عن عمر بن يزيد، عن الورد بن الكميت، عن أبيه الكميت بن ابى المستهل قال: دخلت على سيدي ابى جعفر محمد بن علي الباقر عليهما السلام فقلت: يا ابن رسول الله اني قد قلت فيكم أبياتا افتأذن لي في انشادها. فقال: انها أيام البيض. قلت: فهو فيكم خاصة. قال: هات، فأنشأت أقول: أضحكني الدهر و أبكاني * و الدهر ذو صرف و ألوان لتسعة بالطف قد غودروا * صاروا جميعا رهن اكفان. فبكى عليه السلام و بكى أبو عبد الله و سمعت جارية تبكي من وراء الخباء، فلما بلغت الى قولي: و ستة لا ؟ ؟ حارى بهم * بنو عقيل خير فتيان ثم علي الخير مولاكم* ذكرهم هيج أحزاني فبكى ثم قال عليه السلام: ما من رجل ذكرنا أو ذكرنا عنده فخرج من عينيه ماء و لو قدر مثل جناح البعوضة الا بنى الله له بيتا في الجنة و جعل ذلك حجابا بينه و بين النار، فلما بلغت الى قولي: من كان مسرورا بما مسكم * أو شامتا يوما من الان فقد ذللتم بعد عز فما *أدفع ضيما حين يغشاني أخذ بيدي و قال: اللهم اغفر للكميت ما تقدم من ذنبه و ما تأخر، فلما بلغت الى قولي: متى يقوم الحق فيكم متى* يقوم مهديكم الثاني قال سريعا ان شاء الله سريعا۔
کمیت شاعر نے کہا ہے کہ میں امام باقر(ع) کے پاس گیا اور کہا اے فرزند رسول خدا میں نے آپ کے بارے میں چند اشعار کہے ہیں کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ آپ کے سامنے ان اشعار کو پڑھوں؟ امام نے فرمایا ابھی تو ایام البیض ہیں۔ میں نے عرض کیا میں نے خاص طور پر ان اشعار کو آپ کے لیے کہا ہے۔ امام نے کہا چلو پڑھو۔ میں نے اشعار پڑھنا شروع کیا: زمانے نے مجھے ہنسایا اور رلایا۔ زمانے میں کئی نشیب و فراز اور کئی رنگ ہیں۔ ان نو بندوں کے لیے کہ جو کربلاء میں شھید اور اپنے کفن میں سو گئے۔ یہ سن کر امام باقر و امام صادق)ع) نے گریہ کیا۔ میں نے سنا کہ ایک عورت پردے کے پیچھے گریہ کر رہی ہے، جب میں اس شعر پر پہنچا: چھے بندے کہ وہ سب پر فضیلت رکھتے تھے اولاد عقیل بہترین سوار، پھر علی(ع) کہ ان کے مولا ہیں جب میں ان کا نام لیتا ہوں تو میرے سارے غم زندہ ہو جاتے ہیں۔ امام نے فرمایا: جو بھی ہمارا ذکر کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر ہو اور اس کی آنکھوں میں مکھی کے پر کے برابر اشک آ جائے تو خداوند اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے اور انہی اشکوں کو اس کے اور جھنم کی آگ کے درمیان پردہ قرار دیتا ہے، جونہی میں اس شعر پر پہنچا: کون ہے جو آپ پر ہونے والے مظالم کے بارے میں خوشحال ہوتا ہے یا آج کے بعد وہ خوشحال ہو کیونکہ آپ کو عزت کے بعد خوار کیا گیا اور میں اپنی طرف آنے والے ظلم کو نہیں روکتا۔ امام سجاد نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا خداوندا کمیت کے گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف فرما اور جب میں اس شعر پر پہنچا: کس زمانے میں حق آپ کے درمیان قائم ہو گا؟ کس زمانے میں آپ کا دوسرا مھدی قیام کرے گا؟ امام نے فرمایا: ان شاء اللہ بہت جلدی ان شاء اللہ بہت جلدی۔
)علی بن محمد بن علی الخزاز القمى الرازى، الوفاة:400، كفاية الأثر ج1 ص249، تحقيق: السيد عبد اللطيف الحسينى، الناشر: انتشارات بيدار مطعة الخيام – قم (1401 ه)(
امام باقر(ع) کا مجالس عزاداری امام حسین(ع) کو گھروں میں برپا کرنے کا کہنا
حدَّثني حكيم بن داود بن حكيم؛ و غيره، عن محمّد بن موسى الهَمدانيِّ، عن محمّد بن خالد الطّيالسيِّ، عن سيف بن عَمِيرة؛ و صالِح بن عُقْبة جميعاً، عن عَلقمةَ بنِ محمّد الحَضرميّ؛ و (كذا) محمّد بن إسماعيل، عن صالِح بن عُقْبة، عن مالك الجُهنيّ، عن أبي جعفر الباقر عليه السلام قال: مَن زار الحسين عليه السلام يوم عاشوراء من المحرَّم حتّى يظلَّ عنده باكياً لقي الله تعالى يوم القيامة بثواب ألفَــي ألف حَجّة و ألفَــي ألف عُمرة، و ألفي ألف غَزوة، و ثواب كلِّ حَجّة و عُمرة و غزوة كثواب مَن حجّ و اعتمر و غَزا مع رسول الله صلى الله عليه و آلهو سلم و مع الأئمّة الرَّاشدين صلوات الله عليهم أجمعين. قال: قلت: جُعِلتُ فِداك لِمَن كان في بُعدِ البلاد و اقاصيها و لم يمكنه المسير إليه في ذلك اليوم؟ قال: إذا كان ذلك اليوم بَرزَ إلى الصَّحراء أو صَعد سَطحاً مُرتفعاً في دارِه، و أومأ إليه بالسّلام، و اجتهد على قاتله بالدُّعاء، و صلّى بعد رَكعتين يفعل ذلك في صَدرِ النَّهار قبل الزَّوال، ثمَّ ليندُب الحسين عليه السلام و يَبكيه و يأمر مَن في داره بالبُكاء عليه، و يقيم في داره مصيبته بإظهار الجزع عليه، و يتلاقون بالبُكاء بعضهم بعضاً في البيوت، و ليعزّ بعضهم بعضاً بمصاب الحسين عليه السلام، فأنا ضامِنٌ لهم إذا فعلوا ذلك على الله عزّ َ وجلَّ جميع هذا الثَّواب، فقلت: جُعِلتُ فِداك و أنت الضّامِن لهم إذا فعلوا ذلك و الزَّعيم به؟ قال: أنا الضّامن لهم ذلك و الزَّعيم لمن فعل ذلك قال: قلت: فكيف يعزّي بعضهم بعضاً؟ قال: يقولون: عَظَّم اللهُ اُجُورَنا بِمُصابنا بِالحسينِ عليه السلام، و جَعَلَنا و إيّاكم مِن الطّالِبين بِثأرِه مع وَليّه الإمام المَهديّ مِن آل محمّدٍ؛ فإن استطعت أن لا تنتشر يومك في حاجة فافعل، فإنّه يوم نحس لا تقضى فيه حاجة، و إن قضيت لم يبارك له فيها و لم ير رُشْداً، و لا تدَّخِرنَّ لمنزلك شيئاً، فإنّه مَن ادَّخر لمنزلِه شيئاً في ذلك اليوم لم يُبارك له فيما يدَّخره و لا يُبارك له في أهله، فمن فعل ذلك كُتِبَ له ثوابُ ألفِ ألفِ حَجّة و ألف ألف عُمرة، و ألف ألف غَزوة كلُّها مع رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم و كان له ثواب مصيبة كلِّ نبيٍّ و رَسولٍ و صِدِّيق و شَهيدٍ مات أو قُتِل منذ خلق الله الدُّنيا إلى أن تقوم السّاعة۔
امام باقر(ع) نے فرمایا ہے کہ: جو بھی روز عاشورا امام حسین کی زیارت کرے اور اس دن کو صبح سے شام تک غم و گریہ کی حالت میں رہے۔ وہ بندہ قیامت کے دن خداوند سے ملاقات کرے گا اس حالت میں کہ خدا اس کو بیس لاکھ حج، بیس لاکھ عمرے اور بیس لاکھ جھاد کے مرتبے عطا کرے گا۔ قابل توجہ یہ ہے کہ ہر حج و ہر عمرے اور ہر جھاد کا ثواب مثل اس کے ثواب کے ہے کہ جس نے حج و عمرے اور جھاد کو رسول خدا اور آئمہ کے ساتھ انجام دیا ہو۔
علقمہ کہتا ہے کہ میں نے امام باقر(ع) سے کہا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ اس بندے کا اجر اور ثواب کیا ہے کہ جو کربلاء سے بہت دور رہتا ہو اور اس کے لیے روز عاشورا امام حسین کی زیارت کرنا ممکن نہ ہو ؟ امام نے فرمایا کہ وہ بندہ اس دن صحرا میں جائے یا گھر کی چھت پر چلا جائے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے امام حسین کو سلام کرے اور پھر امام کے قاتلوں پر لعنت کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے اور توجہ کرے کہ اس کام کو روز عاشورا ظھر سے پہلے انجام دے پھر امام حسین کے لیے گریہ و زاری کرے اور لوگ گھر میں ہوں ان کو بھی امام حسین پر گریہ کرنے کا کہے۔ اپنے گھر میں مجلس عزا برپا کرے اور خیال رہے کہ جب بھی اھل خانہ ایک دوسرے سے ملیں تو غم و گرئیے کی حالت میں ہوں اور ضروری ہے کہ بعض اھل خانہ ایک دوسرے کو امام حسین کے غم و مصیبت پر تسلیت و تعزیت پیش کریں اور جب وہ ان کہے ہوئے تمام کاموں کو انجام دیں گے تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ جو بھی ثواب ذکر ہوا ہے وہ سب خداوند ان کو عطا کرے گا۔ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ہوں آپ ان کے لیے اس سب ثواب کی ضمانت دیتے ہیں؟ امام نے فرمایا ہاں اگر حکم کے مطابق انجام دیں تو میں ضمانت دیتا ہوں۔علقمہ کہتا ہے میں نے امام سے عرض کیا اگر بعض اہل خانہ ایک دوسرے کو تسلیت و تعزیت دیں تو کیسے اور کیا کہیں؟ امام نے فرمایا اس طرح کہیں کہ:عظّم اللَّه اجورنا بمصابنا بالحسين«علیه السلام»، و جعلنا و إيّاكم من الطالبين بثاره مع وليّه الإمام المهدى من آل محمّد«صلوات الله علیهم اجمعین»
خداوندا ہمارے امام حسین(ع) کے عزادار ہونے کا اجر و ثواب زیادہ فرما اور آل محمد کے امام مھدی کے ساتھ امام حسین کے خون کا انتقام لینے والوں میں سے قرار دے۔
اور اگر تم روز عاشورا اپنی زندگی کے روز مرہ کے کاموں کے پیچھے نہ جاؤ تو بہتر ہے کیونکہ یہ دن نحس ہے اور اس دن کوئی حاجت بھی پوری نہیں ہوتی اور حاجت پوری ہو بھی جائے تو یہ حاجت اس بندے کے لیے با برکت نہیں ہو گی اور وہ اس حاجت سے خیر نہیں دیکھے گا۔ قابل توجہ ہے کہ اس دن گھر میں کھانے پینے کی چیزیں ذخیرہ نہ کرے کیونکہ اگر کوئی اس دن گھر میں کوئی چیز ذخیرہ کرے تو اس کس لیے اور کے اھل خانہ کے لیے اس میں برکت نہیں ہو گی۔ لھذا جو بھی حکم کے مطابق ان پر عمل کرے تو خدا اس کو بیس لاکھ حج، بیس لاکھ عمرے اور بیس لاکھ جھاد کے مرتبے عطا کرے گا۔ قابل توجہ یہ ہے کہ ہر حج و ہر عمرے اور ہر جھاد کا ثواب مثل اس کے ثواب کے ہے کہ جس نے حج و عمرے اور جھاد کو رسول خدا اور آئمہ کے ساتھ انجام دیا ہو اور اسی طرح خداوند اول دنیا سے لے کر آخر دنیا تمام انبیاء، مرسلین، صدیقین اور شھداء پر ہونے والے تمام مصائب اور مشکلات کا ثواب اس بندے کو بھی عطا کرے گا۔
)ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367،كامل الزّيارات ج1 ص193، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مکتبة الصدوق.(
امام باقر(ع) کا امام حسین(ع) پر گریہ کرنے کا ثواب بیان کرنا
حدِّثني الحسن بن عبد الله بن محمّد بن عيسى، عن أبيه، عن الحسن بن محبوب، عن العلاء بن رزين، عن محمّد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: كان عليّ بن الحسين عليهما السلام يقول: أيّما مؤمنٍ دمعتْ عَيناه لقتل الحسين بن عليٍّ عليهما السلام دمعةً حتّى تسيل على خدِّه بوَّأه الله بها في الجنّة غُرفاً يسكنها أحقاباً، و أيّما مؤمن دَمَعَتْ عيناه حتّى تسيل على خَدِّه فينا لاُذى مسّنا مِن عَدوِّنا في الدُّنيا بوَّأه الله بها في الجنّة مبوَّأ صِدقٍ، و أيّما مؤمنٍ مَسَّه أذىً فينا فَدَمَعَتْ عيناه حتّى تسيل على خَدِّه مِن مَضَاضةِ ما اُوذِي فينا صرَّف اللهُ عن وجهه الأذى و آمنه يوم القيامة مِن سَخطه و النّار۔
امام باقر(ع) نے فرمایا کہ: امام علی ابن الحسین فرمایا کرتے تھے کہ جو مؤمن بھی امام حسین(ع) کی شھادت پر اس طرح گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس کو جنت میں ایک کمرہ عطا کرے گا کہ جس میں بہت زیادہ مدت زندگی گزارے گا اور جو مؤمن ہم پر دشمن کی طرف سے ہونے والے مصائب و مظالم پر اس طرح گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس کو جنت میں بہت ہی مناسب مقام عطا کرے گا اور جو مؤمن ان مصائب پر کہ دشمن کی طرف سے ہماری محبت اور اطاعت کی وجہ سے اس پر ہوتے ہیں اس طرح گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس غم و مصیبت کو دور کرے گا اور قیامت والے دن اس کو اپنے غضب اور جھنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔
)ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367، كامل الزّيارات، ج1 ص107، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مکتبة الصدوق.(
امام حسین(ع) پر ایک قطرہ اشک بہانے کی جزاء، جنت ہے
حدثني حكيم بن داود، عن سلمة بن الخطاب، عن الحسن بن عليه السلام، عن العلاء بن رزين القلاء، عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: أيما مؤمن دمعت عيناه لقتل الحسين (عليه السلام) دمعة حتى تسيل على خده بوأه الله بها غرفا في الجنة يسكنها أحقابا۔
امام باقر(ع) نے فرماتے ہیں کہ: جو مؤمن بھی امام حسین کے شھید ہونے پر اس طرح گریہ کرے کہ اشک اس کے چہرے پر جاری ہو جائیں تو خداوند اس کو جنت میں ایک ایسا ٹھکانہ عطا کرے گا کہ جس میں وہ بہت زیادہ مدت زندگی گزارے گا۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص207، تحقيق: الشيخ جواد القيومی، لجنة التحقيق، چاپ اول، الناشر:موسسة نشر الفقاهة عيد الغدير 1417.(