- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
امام جواد (ع) کی والدہ، جناب خیزران کا تعارف
پیغمبراکرم اور اهل بیت , تاریخ اور سیرت , تاریخ اور سیرت , آپ کا خانــدان , آپ کا خانــدان , آپ کا خانــدان , حضرت امــام کاظم(ع) , حضرت امـام رضـا(ع) , حضرت امــام جــــواد(ع)- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/06/06
- 1 رائ
جناب خیزران ان بزرگ خواتین میں سے ہیں جن کی تعریف تین معصوموں (ع) نے بیان کی ہے۔ آپ کے متعدد نام بتائے گئے ہیں اور آپ قبیلہ ماریہ قبطیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ امام جواد (ع) کی والدہ محترمہ جناب خیزران، ان محترم اور با وقار خواتین میں سے ہیں جن کی تعریف تین معصوموں (ع) نے بیان کی ہے، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب خیزران کا تذکرہ “پاکیزہ کنیز اور با عظمت خاتون” کے طور پر تذکرہ کیا ہے اور حضرت امام موسی کاظم (ع) نے اپنے ایک صحابی کے ذریعہ جناب خیزران کو سلام کہلوایا اور حضرت امام علی رضا (ع) نے جناب خیزران کی تعریف اور تمجید کی اور جناب خیزران کو مادر جانب عیسی (ع) جناب مریم (س) سے تشبیہ دی۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب خیزران ایک متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں۔ کیونکہ اگر ائمہ معصومین (ع) کسی کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں، اور تعریف و تمجید کرتے ہیں، تو یہ جسمانی جبلتوں اور خواہشات پر مبنی اور مشتمل نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ان کی تعریف اور تمجید ان مطلوبہ خصلتوں اور خصوصیات کی وجہ سے ہے جو جناب ان کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ [1]
جناب خیزران کا مختصر تعارف
مورخین نے حضرت امام جواد (ع) کی والدہ جناب خیزران کے متعدد نام ذکر کیے ہیں۔
علامہ مجلسیؒ کہتے ہیں: امام جواد (ع) کی والدہ جناب خیزران ایک کنیز تھی، اور آپ کو امام علی رضا (ع) نے خیزران کہا تھا، جناب خیزران، ماریہ قطبیہ کے خاندان سے تھیں، انہیں “سبیکہ” اور “ریحانہ” بھی کہا جاتا ہے۔[2] بعض مورخین کا کہنا ہے کہ امام جواد (ع) کی والدہ کا نام ریحانہ ہے۔[3] اور صاحب کشف الغمۃ نے ان کا نام بھی سکینہ مرسیہ تحریر کیا ہے۔[4] اعیان الشیعۃ میں ہے کہ سکینہ، سبیکہ کا ترجمہ ہے۔[5] جناب خیزران کی کنیت ام الحسن تھی۔[6]
جناب سید کاظم قزوینی تحریر فرماتے ہیں: امام جواد علیہ السلام کی والدہ کو بعض وجوہات کی بنا پر متعدد ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ جب آپ امام جواد علیہ السلام سے امید سے تھیں تو جناب خیزران کو “درہ” کہا جاتا تھا۔ امامت کے نور سے جناب خیزران کے چہرے کی چمک کی وجہ سے انہیں سبیکہ بھی کہا جاتا ہے۔[7] امام جواد علیہ السلام کی والدہ اپنے زمانہ کی سب سے زیادہ با فضیلت اور نیک خواتین میں سے تھیں۔[8] مشھور نظر کے مطابق جناب خیزران اور امام رضا (ع) کی مشترکہ زندگی کا واحد ثمر، جواد الائمہ(ع) تھے۔[9]
جناب خیزران، رسول خدا (ص) کی نگاہ میں
امام رضا علیہ السلام کے چچا، علی بن جعفر کہتے ہیں: جب امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں اور چچاوں نے جناب خیزران کی وجہ سے امام رضا (ع) پر تنقید کی تو خداوند متعال نے ان کی مدد فرمائی اور امام علی رضا (ع) نے ان کی تعریف میں بہت سی باتیں کہیں۔ میں نے اٹھ کر جناب امام رضا (ع) کا ہاتھ چوما۔ امام علی رضا (ع) نے مجھ سے کہا: اے چچا! کیا آپ نے میرے والد سے نہیں سنا کہ انہوں نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: میرے والد، سب سے بہترین اور پاکیزہ کنیز نوبیہ پر قربان ہوجائیں، کہ جن کی نسل سے ایک بچہ پیدا ہو گا، جو ظالم و جابر افراد کی وجہ سے اپنے خاندان کے لوگوں سے دور ہو جائے گا اور اپنے گھر اور پناہ گاہ سے دور رہے گا یعنی لوگوں کی نگاہوں سے دور ہوجائے گے یعنی غیبت اختیار کرلیں گے۔[10]
محمد باقر کمراہ ی کہتے ہیں: اس بچہ سے مراد امام زمان (ع) ہیں، جو نوبیہ نژاد کی کنیز، امام جواد (ع) کی والدہ کی اولاد ہیں۔[11]
جناب خیزران کو امام موسی کاظم (ع) کا سلام
یزید بن سلیط کہتے ہیں: میں، حج اور عمرہ کرنے کے لئے شہر مکہ گیا تھا۔ راستے میں امام موسیٰ کاظم (ع) سے ملاقات ہوئی۔ امام موسی کاظم (ع) نے فرمایا: اس سال، طاغوت مجھے شھید کردے گا اور امامت کا کام میرے بیٹے علی (ع) کے پاس ہو گا۔ لیکن ہمارے، پہلےعلی علی ابن ابی طالب (ع) ہیں اور دوسرے علی، علی ابن الحسین (ع) ہیں۔ میرے بیٹے علی رضا (ع) کو پہلے علی (ع) یعنی حضرت علی (ع) سے، علم، نرمی، محبت، دین عطا کیا گیا اور دوسرے علی (ع) کی محنت اور صبر دیا گیا ہے۔ اے یزید بن سلیط! جب بھی آپ ان کی طرف سے گزریں گے، تو آپ انہیں دیکھیں گے اور آپ انہیں ضرور دیکھیں گے۔ لہٰذا انہیں خوشخبری دینا کہ ان کے وہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا جو دیانت دار، امانت دار اور بابرکت ہوگا اور وہ تمہیں یہ بھی بتائے گا کہ تم یہاں مجھ سے ملے ہو۔ تو اس وقت اسے بتا دینا کہ جس کنیز سے یہ بیٹا پیدا ہوگا وہ حضرت ابراہیم (ع) کی والدہ ماریہ قبطیہ کے خاندان سے ہے ۔ یزید بن سلیط! اگر تم ان تک میرا سلام بھی پہنچا سکتے ہو تو پہنچا دینا۔[12]
شیخ عباس قمی، جناب خیزران کی عظمت کے لحاظ سے ایک حدیث تحریر کرتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم (ع) نے یزید بن سلیط کو حکم دیا کہ میرا سلام انہیں پہنچائیں۔ جیسا کہ رسول اللہ (ص) نے جابر بن عبداللہ انصاری کو حکم دیا تھا کہ امام محمد باقر (ع)کو میرا سلام پہنچادینا۔[13]
جناب خیزران اور اھل بیت (ع) کا گھرانہ
جناب خیزران کی اسیری کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ یزید بن سلیط کہتے ہیں: جن مقامات پر اور جن جگہوں پر ہم نے امام موسی کاظم (ع) سے ملاقات کی تھی اسی جگہ پر امام علی رضا (ع) سے بھی ملاقات ہوئی ۔اور امام علی رضا (ع) نے ان ملاقات کے بارے میں جو امام موسی کاظم (ع) سے ہوئی تھی اس کی خبر دی اور امام علی رضا (ع) نے یزید بن سلیط سے فرمایا: مجھے وہ خبر بتاؤ جو میرے والد امام موسی کاظم (ع) نے تمہیں سنائی تھی۔ اور پھر یزید بن سلیط نے ان تمام خبروں کو امام علی رضا(ع) سے بیان کیا۔ امام علی رضا (ع)نے فرمایا: وہ کنیز ابھی تک نہیں آئی۔ جب وہ میرے پاس آئے گی تو میں اسے اپنے والد امام موسی کاظم (ع) کا سلام پیش کروں گا۔
یزید بن سلیط بیان کرتے ہیں کہ میں امام علی رضا (ع) کے ساتھ مکہ گیا۔ اس سفر کے دوران امام رضا (ع) نے امام جواد (ع) کی والدہ یعنی جناب خیزارن کو خرید لیا جو زید بن علی بن حسین (ع) کی کنیز تھیں۔ چنانچہ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ وہ کنیز یعنی جناب خیزران حاملہ ہو گئی۔[14]
آخر کار وہ مثالی خاتون جو اپنی عمر کی سب سے زیادہ پاک دامن اور نیک عورت تھی، امام علی رضا(ع) کے گھر آئی اور اپنی روشن زندگی کا آغاز کیا۔ امام علی رضا (ع) کی بہنوں نے جناب خیزران کا استقبال کیا اور جناب خیزران کا بہت اکرام و احترام کیا۔[15]
امام جواد (ع) کی ولادت
امام موسیٰ کاظم (ع) کی بیٹی حکیمہ خاتون کہتی ہیں: ایک دن میرے بھائی امام علی رضا (ع) نے مجھے طلب کیا اور فرمایا: حکیمہ! آج رات، خیزران کے یہاں بچے کی ولادت ہوگی۔ آپ اس بچہ کی پیدائش کے وقت حاضر رہیں۔ میرے بھائی امام علی رضا (ع) نے مجھے جناب خیزران کے کمرے میں دائیوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ جناب حکیمہ کہتی ہے کہ میں نے رات جناب خیزران کے پاس گزاری، جب جناب خیزران کو درد زِہ ہوا۔ تو ہم ان کی مدد کے لئے آگے بڑھے اور کچھ دیر کے بعد ہم نے دیکھا کہ امامت کا سورج گھر میں طلوع ہوا۔ اور اس سے ایک روشنی نکلی جس نے پورے کمرے کو روشن و منور کر دیا۔[16] ہم نے بچے کو سفید کپڑے میں لپیٹا اور اپنی گود میں لے لیا۔ کچھ دیر کے بعد میرے بھائی امام علی رضا (ع) کمرے میں داخل ہوئے اور بچے کو ہم سے لے لیا اور اس کو جھولے میں رکھ دیا اور مجھ سے فرمایا: “يَا حَكِيمَةُ الْزَمِي مَهْدَهُ“ اے حکیمہ، اس جھولے کو اکیلا مت چھوڑنا۔
تیسرے دن بچے نے آنکھیں کھولیں اور دائیں بائیں دیکھا اور فصیح زبان سے کہا: “أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَشْهَدُ أَنَ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں۔” مجھے بہت حیرت ہوئی۔ میرے بھائی امام علی رضا (ع) کمرے میں داخل ہوئے۔ میں نے اپنے بھائی امام علی رضا (ع) کو بتایا جو میں نے دیکھا اور سنا تھا۔ امام علی رضا (ع) نے فرمایا: “يا حَكِيمَةُ مَا تَرَوْنَ مِنْ عَجَائِبِهِ أَكْثَرُ“[17] اے حکیمہ، اس کے بعد تم اور بھی عجائبات دیکھو گی جو اس سے بھی زیادہ تعجب آور ہوں گے اور جو تم نے ابھی تک نہیں دیکھا ہے۔[18]
امام جواد (ع) کی والدہ
امام علی رضا (ع) کی آخری عمر تک کوئی اولاد نہ تھی۔ ان کے اہل و عیال کی نظریں جناب خیزران کی طرف تھیں۔ بعض اصحاب نے امام علی رضا (ع) سے درخواست کی کہ وہ خدا سے دعا کریں کہ وہ انہیں بچہ عطا فرمائے۔ امام علی رضا (ع) نے ان سے کہا کہ خدا ان کی نسل کو جناب خیزران کی اولاد کے ذریعہ سے ہی آگے بڑھائے گا۔ اور خداوند عالم نے اپنی نعمت سے امام علی رضا (ع) کو نوازا (یعنی انہیں اولاد عطا کی) امام جواد (ع) کی ولادت 195 ہجری میں (اپنے والد کی شہادت سے آٹھ سال پہلے) ہوئی۔ امام علی رضا (ع) اس قدر خوش ہوئے کہ اپنے اصحاب کے پاس آئے اور فرمایا: “خدا نے مجھے موسیٰ بن عمران، جیسا بیٹا عطا کیا ہے جس نے سمندروں کو راستہ بنا دیا اور عیسیٰ بن مریم، کہ جن کی ماں پا ک وپاکیزہ تھی”۔[19]
نتیجہ
جناب خیزران، برگزیدہ اور ان بزرگ خواتین میں سے ہیں کہ جن کی عظمت خداوند عالم کی نگاہ میں اس قدر تھی کہ جناب خیزران کو ائمہ معصومین (ع) کے گھرانہ سے قرار دیا۔ جن کی تعریف تین معصوموں (ع) نے بیان کی ہے۔ اور تاریخ میں آپ کے متعدد نام بتائے گئے ہیں اور آپ قبیلہ ماریہ قبطیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور آپ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ امام موسی کاظم (ع) نے آپ کو سلام کہلوایا اور امام علی رضا (ع) نے آپ کی پاکیزگی کی مثال جناب مریم جیسی خاتون سے دی۔
حوالہ جات
[1] مظفری ورسی، مادران چهارده معصوم، ص۱۶۹
[2] مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۷
[3] جعفریان،حیات سیاسی و فکری امامان شیعه، ص۴۷۲
[4] اربلی، کشف الغمة، ج۲، ص۳۴۳
[5] امین، اعیان الشیعة، ج۲، ص۳۲
[6] ابن شھر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۴، ص۴۱۱
[7] قزوینی، الامام جواد من المهد إلی اللحد، ص۱۹
[8] شعرانی، عیون المعجزات، ص۱۱۸
[9] مفید، الارشاد، ص۶۱۴؛ داداش زاده، معصوم یازدهم، ص۱۶۷
[10] طبرسی، اعلام الوری، ص۳۴۵؛ اربلی، کشف الغمۃ، ج۲، ص۳۵۱؛ مفید، الارشاد، ص۶۱۵؛ محلاتی، ریاحین الشریعۃ، ج۳، ص۲۲.
[11] کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۱۴۴
[12] کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۱۲
[13] قمی، انوار البهیة، ص۳۹۱
[14] طبرسی، اعلام الوری، ص۳۲۰؛ کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۱۲۹
[15] مظفری ورسی، مادران چهارده معصوم، ص۱۷۲
[16] مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۱۰
[17] طبری، دلائل الامامة، ص۳۸۳؛ امین، اعیان الشیعۃ، ج۲، ص۳۲
[18] مظفری ورسی، مادران چهارده معصوم، ص۱۷۳.
[19] مجلسی، بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۵.
منابع ومآخذ:
1. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، محقق: محمد حسین آشتیانی و هاشم رسولی، قم، علامه، ۱۳۷۹ق
2. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمۃ، تبریز، بنی هاشمی، 1381 ق.
3. امین، سیدمحسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعاریف للمطبوعات، ۱۳۶۸.
4. جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، انصاریان، قم، ۱۴۲۳ق
5. داداش زاده، عباس، معصوم یازدهم، تهران، آسمان اندیشه، ۱۳۹۶.
6. شعرانی، حسین بن عبد الوهاب، عیون المعجزات، قم، آل عبا، 1384.
7. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، قم، آل البیت، ۱۴۱۷ق.
8. طبری، محمد بن جریر، دلایل الامامة، قم، بعثت، ۱۴۱۳ق
9. قزوینی، محمد کاظم، الامام الجواد علیه السلام من المهد الی اللحد، قم، لسان الصادق، ۱۴۲۶ق
10. قمی، شیخ عباس، انوار البهیۃ فی تواریخ الحجج الالهیۃ، قم، جامعۃ مدرسین حوزه علمیۃ، تیسری اشاعت، ۱۳۹۱.
11. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری، تهران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۶۳ق.
12. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعة لدر اخبار ائمة الاطهار، بیروت لبنان، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۱۵ق.
13. محلاتی، ذیبح الله، ریاحین الشریعۃ، تهران، دار الکتب الاسلامیة، 1406.
14. مظفری ورسی، حیدر، مادران چهارده معصوم (ع) قم، جامعة المصطفی (ص)، تیسری اشاعت، ۱۳۹۴.
15. مفید، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، قم، مکتبة بصیرتی، 1416ق.
مضمون کا مآخذ:
مظفری ورسی، حیدر، مادران چهارده معصوم (ع)، مرکزبین المللی ترجمه و نشر المصطفی(ص)،اشاعت سوم، ۱۳۹۴
ماشاءاللہ