امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے دور میں شیعیت کا پس منظر

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے دور میں شیعیت کا پس منظر

کپی کردن لینک

امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کے دور میں شیعیت نے ایک اہم مقام حاصل کیا۔ شیعوں کی سیاسی اور مذہبی تحریکات نے ان دونوں اماموں کے دور میں ایک خاص شکل اختیار کی۔ امام حسن (ع) کی صلح اور امام حسین (ع) کی شہادت نے شیعیت کی بنیادوں کو مضبوط کیا اور ان کی رہبری نے شیعوں کو اتحاد اور تحفظ کی راہ دکھائی۔

امام کی اطاعت

امیر المومنین (ع) کے زمانہ میں شیعیت نے آہستہ آہستہ ایک گروہ کی شکل اختیار کر لی تھی اور شیعوں کی صف بالکل نمایاں تھی۔ اسی بنیاد پر امام حسن (ع) نے صلح نامہ کے شرائط میں ایک شرط شیعوں کی امنیت کی رکھی تھی کہ ان پر تجاوز نہ کیا جائے۔[1]

عصر حسنین (ع) كے شروع سے ہی شیعہ رفتہ رفتہ عادت ڈال رہے تھے کہ جو امام اور خلیفہ، حکومت سے وابستہ ہو اس کی اطاعت ضروری نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جس وقت لوگ دھیرے دھیرے امام حسن (ع) کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے، حضرت (ع) نے ان سے شرط رکھی تھی کہ وہ جنگ و صلح میں آپ کی اطاعت کریں گے۔

اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ امامت لازمی طور پر حاکمیت کے مساوی نہیں ہے اور معاویہ جیسا ظالم حاکم امام نہیں ہو سکتا اور اس کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ چنانچہ امام (ع) نے جو خطبہ صلح کے بعد معاویہ کے فشار کی وجہ سے مسجد کوفہ میں دیا، اس میں فرمایا:

خلیفہ وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبر (ص) پر عمل کرے، جس کا کام ظلم کرنا ہے وہ خلیفہ نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ایک بادشاہ ہے جس نے ایک ملک کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ مختصر سی مدت تک اس سے فائدہ اٹھائے گا، بعد میں اس کی لذتیں ختم ہو جائیں گی لیکن بہرحال اسے حساب و کتاب دینا پڑے گا۔[2]

شیعوں میں اتحاد کا عَلم

عصر حسنین (ع) کے تشیع کی دوسری خصوصیت شیعوں کے درمیان اتحاد ہے۔ جس کا سرچشمہ بہترین رہبر کا وجود ہے۔ امام حسین (ع) کی شہادت تک شیعوں میں کوئی فرقہ نہیں تھا۔ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو مسلمانوں کے درمیان ایک خاص اہمیت حاصل تھی ان کے بعد ائمہ طاہرین (ع) میں سے کسی کو بھی یہ مقام حاصل نہیں ہوسکا۔ یہی دونوں فرزند تنہا ذریت پیغمبر (ص) تھے۔

امیر المومنین (ع) نے جنگ صفین میں جس وقت دیکھا کہ امام حسن (ع) تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں فرمایا: میرے بجائے تم اس جوان کی حفاظت کرو (ان کو جنگ سے روکو۔ مجھے مضطرب نہ کرو۔ مجھے ان دونوں کی بہت فکر ہے) یہ دونوں جوان (امام حسن و امام حسین) قتل نہ ہوں۔ کیونکہ ان کے قتل ہونے سے پیغمبر (ص) کی نسل منقطع ہوجائے گی۔[3]

صحابہ کے درمیان حسنینؑ کا مقام

حسنین (ع) کا مقام اصحاب پیغمبر (ص) کے درمیان بھی ایک خاص اہمیت کا حامل تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لوگوں نے امام حسن (ع) کی بیعت کی اور صحابۂ پیغمبر (ص) نے حضرت (ع) کی خلافت کو قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حسنین (ع) كے شروع میں ہی خلافت امام حسن (ع) میں کوئی مشکل دیکھنے میں نہیں آتی۔

کسی نے اعتراض تک نہیں کیا، صرف شام کی حکومت کی طرف سے مخالفت کی گئی جس وقت حضرت (ع) نے صلح کی اور کوفہ سے مدینہ جانا چاہا تو لوگوں نے شدت سے گریہ کیا۔ مدینہ میں قریش کی طرف سے کسی نے معاویہ کو جو خبر دی، اس سے حضرت (ع) کی اہمیت و عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

قریش کے کسی آدمی نے معاویہ کو لکھا: یا امیر المومنین! امام حسن (ع) نماز صبح مسجد میں پڑھتے ہیں، مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ہیں اور سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے ہیں، ایک ستون سے ٹیک لگائے ہوتے ہیں اور جو لوگ بھی مسجد میں ہوتے ہیں ان کی خدمت میں جاتے ہیں اور ان سے گفتگو کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ کچھ حصہ دن کا چڑھ جاتا ہے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں اور پیغمبر (ص) کی بیویوں کی احوال پرسی کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں۔[4]

امام حسین (ع) کا بھی اپنے بڑے بھائی کی طرح اقبال بہت بلند تھا یہاں تک کہ عبد اللہ بن زبیر جو اہل بیت (ع) کا سرسخت دشمن تھا وہ بھی امام حسین (ع) کی عظمت سے انکار نہ کرسکا۔ جب تک حضرت (ع) مکہ میں تھے لوگوں نے ابن زبیر کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اسی بنا پر وہ چاہتا تھا کہ امام (ع) جلدی مکہ سے چلے جائیں۔ لہذا امام (ع) سے کہتا ہے کہ اگر میرا بھی آپ کی طرح عراق میں بلند مقام ہوتا تو میں بھی وہاں جانے میں جلدی کرتا۔[5]

حضرت (ع) کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ جب آپ نے بیعت سے انکار کر دیا تو حکومت یزید زیر بحث آگئی اور یہی وجہ ہے کہ حضرت (ع) سے بیعت لینے کا اصرار و فشار اس قدر زیادہ تھا۔ بنی ہاشم کے ان دو بزرگوں کا ایک خاص احترام و اکرام تھا۔ اس طرح سے کہ ان کے زمانے میں، بنی ہاشم میں سے نہ ہی کسی نے رہبری کا دعویٰ کیا اور نہ ہی کوئی (بنی ہاشم کی) سرداری کا مدعی ہوا۔

جس وقت امام حسن (ع)، معاویہ کے زہر دینے کی وجہ سے بے رحمی سے شہید ہوئے تو شام میں معاویہ نے ابن عباس سے کہا: اے ابن عباس ! امام حسن (ع) وفات کر چکے ہیں اور اب تم بنی ہاشم کے سردار ہو، ابن عباس نے جواب دیا: جب تک امام حسین (ع) موجود ہیں اس وقت تک نہیں۔[6]

ابن عباس بلند مقام، مفسر قرآن اور حبر الامة تھے اور عمر میں بھی امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) دونوں سے بڑے تھے اس کے باوجود ان دو بزرگواروں کی خدمت کرتے تھے۔ مدرک بن ابی زیاد نقل کرتا ہے:

ابن عباس، امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی رکاب سنبھالتے تھے تاکہ یہ دو حضرات سوار ہوجائیں، میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: اے ناداں! تو نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ رسول (ص) کے فرزند ہیں۔ کیا یہ ایک عظیم نعمت نہیں ہے جس کی خدا نے مجھے توفیق دی ہے کہ میں ان کی رکاب پکڑوں؟[7]

تشیع کی وسعت میں انقلاب کربلا کا اثر

امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد شیعہ اپنی پناہ گاہ کھو دینے کے بعد کافی خوف زدہ تھے اور دشمن کے مقابلہ میں مسلحانہ تحریک اور اقدام سے ناامید ہو گئے تھے۔ دل خراش واقعۂ عاشورہ کے بعد مختصر مدت کے لئے انقلاب شیعیت کو کافی نقصان پہنچا۔ اس حادثہ کی خبر پھیلنے سے اس زمانے کی اسلامی سرزمین خصوصاً عراق و حجاز میں شیعوں پر رعب و وحشت کی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔

کیونکہ یہ مسلّم ہو گیا کہ یزید فرزند رسول (ص) کو قتل کر کے نیز ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کر کے اپنی حکومت کی بنیاد مستحکم کرنا چاہتا ہے اور وہ اپنی حکومت کو پائیدار کرنے میں کسی بھی طرح کے ظلم سے گریز نہیں کرنا چاہتا ہے۔ اس وحشت کے آثار مدینہ اور کوفہ میں بھی نمایاں تھے۔ واقعہ حرّہ کے ظاہر ہوتے ہی لوگوں کی بے رحمانہ سرکوبی میں یزید کی فوج کی جانب سے شدت آگئی تھی۔

عراق و حجاز کے شیعہ نشین علاقے خاص کر کوفہ اور مدینہ میں سانس لینا بھی دشوارہو گیا اور شیعوں کی یکجہتی و انسجام کا شیرازہ یکسر منتشر ہوگیا تھا۔ امام صادق (ع) اس ابتر اور ناگفتہ بہ وضعیت کے بارے میں فرماتے ہیں: امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد لوگ خاندان پیغمبر (ص) کے اطراف سے پرا كندہ ہو گئے ان تین افراد کے علاوہ ابو خالد کابلی، یحییٰ ابن ام الطویل، جبیر ابن مطعم۔[8]

مورخ مسعودی بھی اس بارے میں کہتا ہے: ”علی بن حسین، مخفی اور تقیہ کی حالت میں بہت دشوار زمانے میں امامت کے عہدے دار ہوئے”۔[9] یہ وضعیت حکومت یزید کے خاتمہ تک جاری رہی۔ یزید کے مرنے کے بعد شیعوں کا قیام شروع ہوا اور اموی حکومت کے مضبوط ہونے تک یعنی عبد الملک کی خلافت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

یہ مدت تشیع کے فروغ کے لئے ایک اچھی فرصت ثابت ہوئی، قیام کربلا کی جو اہم ترین خاصیت تھی وہ یہ کہ لوگوں کے ذہنوں سے بنی امیہ کی حکومت کی مشروعیت یکسر ختم ہوگئی تھی اور حکومت کی بدنامی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ خلافت بالکل سے اپنی حیثیت کھوچکی تھی اور لوگ اسے پاکیزہ عنوان نہیں دیتے تھے یزید کی قبر سے خطاب کر کے جو شعر کہا گیا اس سے بخوبی اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے:

ایها القبر بحوارینا / قد ضمنت شر الناس اجمعینا[10]

(اے وہ قبرکہ جو حوارین کے شہر میں ہے لوگوں میں سے سب سے بدترین آدمی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے)۔

اس زمانہ میں سوائے شامیوں کے شیعہ و سنی، سب کے سب، حکومت بنی امیہ کے مخالف تھے، شیعہ اور سنی کی جانب سے بغاوتیں بہت زیادہ جنم لے رہی تھیں۔[11]

یعقوبی لکھتا ہے: عبد الملک بن مروان نے اپنے حاکم حجاج بن یوسف کو لکھا: تو مجھے آل ابی طالب کا خون بہانے میں ملوث نہ کر۔ کیونکہ میں نے سفیانیوں (ابوسفیان کے بیٹے) کا نتیجہ ان کے قتل کرنے میں دیکھا کہ کن مشکلات سے دوچار ہوئے تھے۔[12]

آخرکار خون امام حسین (ع) نے بنی امیہ کے قصر کو خاک میں ملا دیا۔

امام حسین (ع) کی شہادت اور بنی امیہ کا زوال

مقدسی کہتا ہے: جب خداوند عالم نے خاندان پیغمبر (ص) پر بنی امیہ کا ظلم و ستم دیکھا تو ایک لشکر کو کہ جو خراسان کے مختلف علاقوں سے اکٹھا ہوا تھا شب کی تاریکی میں ان کے سروں پر مسلط کردیا۔[13]

دوسری طرف سے امام حسین (ع) اور شھدائے کربلا کی مظلومیت کی وجہ سے خاندان پیغمبر (ص) کی محبت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی اور ان کے مقام کو اولاد پیغمبر (ص) اور اسلام کے تنہا سرپرست ہونے کے عنوان سے مستحکم کر دیا۔ بنی امیہ کے دور میں جگہ جگہ لوگ یالثارات الحسین کے نعرہ کے ساتھ جمع ہوتے، یہاں تک کہ سیستان میں ابن اشعث کاقیام،[14] حسن مثنیٰ فرزند امام حسن (ع) کے نام سے تشکیل پایا۔

عبد الرحمن بن محمد بن اشعث حجاج کی جانب سے سیستان میں حاکم تھا، سیستان کا علاقہ مسلمانوں اور ہندئوں کے درمیان سرحد واقع ہوتا تھا۔ یہاں مسلمانوں اور ہندوستان کے حاکموں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ حجاج کو عبد الرحمن سے جو دشمنی تھی، اس کی بنا پر اس نے یہ منصوبہ بنایا کہ اسے اس طرح ختم کر دے۔

عبد الرحمن جب اس سازش سے آگاہ ہوا تواس نے ٨٢ھ میں حجاج کے خلاف بغاوت کر دی، چونکہ عوام حجاج سے نفرت کرتی تھی۔ لہذا بصرہ و کوفہ کے کافی لوگ عبد الرحمن کے ساتھ ہوگئے، کوفہ کے بہت سے قاریان قرآن ا ور شیعہ حضرات قیام کرنے والوں کے ساتھ ہو گئے، اس طرح عبد الرحمن سیستان سے عراق کی جانب روانہ ہوا۔

اس کا پہلا پروگرام یہ تھا کہ حجاج کو بر طرف کر دے، پھر خود عبد الملک کو خلافت سے ہٹا دے، عبد الملک نے شام سے بہت بڑا لشکر حجاج کی مدد کے لئے روانہ کیا، کوفہ سے سات فرسخ کے فاصلہ پر ”دیر الجماجم” نامی جگہ پر شام کے لشکر نے عبد الرحمن کو شکست دے دی، وہ ہندوستان بھاگا اور وہاں کے ایک بادشاہ سے پناہ طلب کی لیکن حجاج کے عامل نے اسے قتل کر دیا۔[15]

امام مہدی (عج) کی انتظار اور بنی امیہ سے انتقام

اسی عصر پر امام مہدی (عج) کی احادیث انتقام آل محمد (ص) کے عنوان سے پھیلی[16] اور لوگ بنی امیہ سے انتقام لینے والے کا بے صبری اور شدت سے انتظار کرنے لگے۔

یعقوبی نقل کرتا ہے: عمر بن عبد العزیز نے اپنی خلافت کے دور میں عامر بن وائلہ کو کہ جس کا نام وظیفہ لینے والوں کی فہرست سے کاٹ دیا گیا تھا، اس کے اعتراض کے جواب میں کہا: سنا ہے تم نے اپنی شمشیر کو تیز کیا ہے، نیزہ کو تیز کیا ہے۔ تیر اور کمان کو آمادہ رکھا ہے اور ایک امام قائم کے کہ وہ قیام کریں لہذا انتظار کرو جس وقت بھی وہ خروج کریں گے اس وقت تمہیں وظیفہ دیا جائے گا۔[17] کبھی مہدی کے (عج) نام کو قیام اور تحریک کے قائدین پر منطبق کرتے تھے۔[18]

دوسری طرف ائمہ اطہار اور پیغمبر (ص) کے خاندان والے شہدائے کربلا کی یادوں کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ امام سجاد (ع) جب بھی پانی پینا چاہتے تھے اور پانی پر نظر پڑتی تھی تو آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے، جب لوگوں نے اس کا سبب معلوم کیا تو آپ نے فرمایا: کیسے گریہ نہ کروں اس لئے کہ انہوں نے پانی جنگلی جانوروں اور پرندوں کے لئے آزاد رکھا تھا اور میرے بابا کے لئے بند کردیا تھا؛ ایک روز امام (ع) کے خادم نے دریافت کیا، کیا آپ کا غم تمام نہیں ہوگا؟

امام (ع) نے فرمایا: افسوس تجھ پر یعقوب کے بارہ بیٹوں میں سے ایک آنکھوں سے اوجھل ہوگیا تھا، اس کے فراق میں اتنا گریہ کیا کہ نابینا ہوگئے اور شدت غم سے کمر جھک گئی، حالانکہ ان کا فرزند زندہ تھا لیکن میں نے اپنے باپ بھائی، چچا نیز اپنے خاندان کے سترہ افراد کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے، ان کے لاشے زمین پر پڑے ہوئے تھے، لہذا کس طرح ممکن ہے کہ میرا غم تمام ہوجائے؟![19]

امام صادق (ع)، امام حسین (ع) کی مدح میں اشعار کہنے والے شاعروں کی تشویق کرتے تھے اور فرماتے: جو بھی امام حسین (ع) کی شان میں شعر کہے اور گریہ کرے اور لوگوں کو رلائے اس پر جنت واجب ہے اور اس کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے۔[20] امام حسین (ع) تشیع کی بنیاد اور علامت ٹھہرے اسی بنا پربہت سے زمانوں میں جیسے متوکل کے دور میں آپ کی زیارت کو ممنوع قرار دیا گیا۔[21]

 

خاتمہ

عصر حسنین (ع) میں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کی تدابیر نے شیعوں کو ایک نئی راہ دکھائی۔ عصر حسنین (ع) میں شیعوں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے عقائد کو قربانیوں کے ذریعے محفوظ کیا۔ امام حسین (ع) کی شہادت نے شیعیت کو ایک نئی روح بخشی اور بنی امیہ کے ظلم کو بے نقاب کیا۔

 

حوالہ جات
[1]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج٤، ص٣٣۔
[2]۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص٨٢۔
[3]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ،١٦٨، ص٦٦٠۔
[4]۔ بلاذری، انساب الاشراف،ج٣، ص٢١۔
[5]۔ ابن عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، ج٤، ص٣٢٦۔
[6]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج٣، ص٩۔
[7]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج٣، ص٤٠٠۔
[8]۔ شیخ طوسی، اختیار معرفة الرجال معروف بہ رجال کشی، ج١، ص ٢٣٨۔
[9]۔ حلی، اثبات الوصیة، ص١٦٧۔
[10]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج٣، ص٥٦۔
[11]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج٣، ص٨١۔٩٩۔
[12]۔ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ص٣٠٤۔
[13]۔ مقدسی، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، ج٢، ص٤٢٦۔٤٢٧۔
[14]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج٣، ص١٤٨؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٤، ص٣٣٨۔
[15]۔ ابن عنبہ، عمدةالطالب فی انساب آل ابی طالب، ص١٠٠۔
[16]۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص٢١٦۔
[17]۔ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٠٧۔
[18]۔ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ج٢، ص٢١٠۔
[19]۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار،ج٤٦، ص١٠٨۔
[20]۔ شیخ طوسی، اختیارمعرفة الرجال معروف بہ رجال کشی، ج٢، ص٥٧٤۔
[21]۔ طبری، تاریخ طبری، ص٣١٢۔

 

كتابیات

1۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم ایران، مؤسسہ انتشارات علامہ، تاریخ ندارد۔
2۔  ابن عبد ربہ اندلسی، احمد بن محمد، العقد الفرید، بیروت لبنان، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۹ھ۔
3 ابن عنبہ، جمال الدین احمد بن علی، عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب، قم ایران، انتشارات رضی، ١٣٩٥ھ۔
4۔ ابن واضح، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، قم ایران، منشورات شریف رضی، ١٤١٤ھ۔
5۔ ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، قم ایران، منشورات الشریف الرضی، ١٤١٦ھ۔
6۔ بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت لبنان، منشورات موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ١٣٩٣ھ۔
7۔ حلی، حسن بن یوسف بن مطهر، اثبات الوصیه للامامة علی بن ابی طالب علیه‌السلام، بیروت لبنان، درالاضوارء، ۱۴۰۶ھ۔
8۔ سید رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغه، ترجمه فیض الاسلام، تهران ایران، مؤسسه چاپ و نشر تألیفات فیض الاسلام، ۱۳۷۹ش۔
9۔ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، قم ایران، موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ١٤٠٤ھ۔
10۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، بیروت لبنان، دارالکتب العلمیہ، ١٤٠٨ھ۔
11۔ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، تہران ایران، المکتبة الاسلامیہ، ١٣٩٤ھ۔
12۔ مسعودی، علی بن حسین، مُروجُ الذَّهَب و مَعادنُ الجَوهَر، بیروت لبنان، منشورات الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ھ۔
13۔ مقدسی، محمد بن احمد، احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم، بیروت لبنان، دار صارد، ١٤٠٠ھ۔
14۔ یاقوت حموی، شهاب الدین ابو عبداللہ یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت لبنان، دار صادر، ١٤١٥ھ۔

 

مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
محرّمی، غلام حسن، تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک، ترجمہ سید نسیم رضا آصف، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤٢٩ھ۔ ٢٠٠٨ء۔ (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے