- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/04
- 0 رائ
تاریخ پر ایک نظر
نصف رجب 60 ہجری کو معاویہ کی موت کے بعد لوگوں نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یزید کو بر سر اقتدار آنے کے بعد اس کی بیعت کے لئے معاویہ کی دعوت مسترد کرنے والے چند افراد سے بیعت لینے کے سوا کوئی دوسری فکر لاحق نہ تھی۔ اسی بنا پر اس نے اس وقت کے والئِ مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا اور اسکو معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک چھوٹا اور مختصر خط بھی بھجوایا جس میں یزید نے ولید کو ہدایت کی تھی کہ۔۔
“حسینؑ بن علیؑ، عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لو اور جو نہ مانے اسکا سر قلم کرو”۔
ان مکتوبات کے پہنچتے ہی ایک اور مکتوب بھی یزید کی طرف سے پہنچا جس میں اس نے والئ مدینہ کو حکم دیا تھا کہ یہ خط وصول کرتے ہی میرے حامیوں اور مخالفین کے نام میرے لئے بھجوا دو اور حسینؑ بن علیؑ کا سر بھی خط کے جواب کے ساتھ میرے لئے روانہ کرو
چنانچہ ولید نے مروان سے مشورہ کیا اور مروان بن حکم کی تجویز پر انہيں دارالامارہ بلوایا۔ ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان کو امام حسینؑ، ابن زبیر، ابن عمر اور عبد الرحمٰن بن ابی بکر کے پاس روانہ کیا کہ انہیں حاکمِ مدینہ کے پاس بلا دے۔
تاہم امامؑ اپنے 30 ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ کے دارالامارہ پہنچے۔ ولید نے معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے حکم دیا تھا کہ “حسینؑ سے میرے لئے بیعت لو”۔
چنانچہ ولید نے امام حسینؑ سے کہا کہ بیعت کریں۔ تاہم امام حسینؑ نے مہلت مانگی اور ولید نے بھی مہلت دے دی۔ امامؑ نے ولید سے فرمایا: “کیا تمہیں یہی پسند ہے کہ میں در پردہ، بیعت کروں؟ میرے خیال میں تمہارا مقصد بھی یہ ہے کہ میری بیعت عوام کی آنکھوں کے سامنے ہو”۔
ولید نے کہا: ہاں! میرا مقصد بھی یہی ہے۔
امامؑ نے فرمایا: “پس، کل تک مجھے فرصت دو تاکہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں۔
حاکم مدینہ نے دوسرے روز شام کے وقت اپنے افراد امامؑ کے ہاں بھجوائے تاکہ آپؑ سے جواب وصول کریں۔ تاہم امامؑ نے اس رات کیلئے بھی مہلت مانگی اور ولید نے پھر مہلت دی۔
شہر مزید پر امن نہ رہا تھا چنانچہ امام حسینؑ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
امام حسینؑ اسی رات (یعنی اتوار کو) مدینہ چھوڑ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مدینہ سے ہجرت مکہ کی طرف
رسول اکرمؐ مشرکین قریش کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے ہجرت کر گئے تھے تو فرزندِ رسولؐ کو ان ہی وجوہات اور ان ہی مشرکین کی اولاد کی سازشوں کی بنا پر مدینہ چھوڑ کر مکہ اور پھر عراق کی طرف ہجرت کرنا پڑی جنہوں نے امام حسینؑ کو قتل کرکے کہا: کاش میرے بدر میں مارے گئے آباؤ اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔ یعنی مدینہ سے مکہ اور عراق کی طرف امام حسینؑ کی ہجرت اسلام کے دعویداروں کی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں اس ہجرت کے مختلف مراحل اختصاراً بیان کئے جارہے ہیں۔۔
ترک وطن
امامؑ نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا؛ رات کے وقت اپنی والدہ ماجدہ اور بھائی کی قبور پر حاضری دی اور نماز بجا لائی اور وداع کیا اور صبح کے وقت گھر لوٹ آئے۔ بعض تاریخی ذرائع نے بیان کیا ہے کہ امامؑ دو شب مسلسل اپنے جد امجد کی قبر کے پاس رہے۔
وصیت بھائی کے نام
محمد بن حنفیہ کو معلوم ہوا کہ بھائی حسینؑ عنقریب سفر پر جارہے ہیں تو انھوں نے آ کر وداع کیا۔ امامؑ نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی۔ جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔۔
میں اپنا وطن کسی شر وفساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا حضرت محمد(ص) کی امت کی اصلاح کروں اور امربالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا رسول اللہ(ص) اور بابا علیؑ بن ابی طالبؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔
مکہ کی طرف روانگی
امام حسینؑ 28 رجب کو رات کے وقت اور بروایت دیگر تین شعبان سنہ 60 ہجری کو اپنے خاندان اور اصحاب کے 82 افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا امام حسینؑ کے اکثر اعزّاء و اقارب من جملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے آپ کے ساتھ تھے۔ بنو ہاشم کے علاوہ آپ کے 200 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے تھے۔
امام حسینؑ اپنے قافلے کے ساتھ مدینہ سے نکل گئے اور اپنے [بعض] قریبی اقرباء کی مخالفت کے باوجود مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطيع، سے ملاقات کی۔ امام حسینؑ پانچ روز بعد 3 شعبان 60ھ کو مکہ میں داخل ہوئے اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔