- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/23
- 0 رائ
امام حسن (ع) اور زیارت امام حسین (ع):
بعض روایات میں امام حسن (ع) کا امام حسین (ع) کی زیارت کو بہت زیادہ اہمیت دینے کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔
وَ بِالْإِسْنَادِ عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: كُنْتُ نَازِلًا بِالْكُوفَةِ وَ كَانَ لِي جَارٌ كَثِيراً مَا كُنْتُ أَقْعُدُ إِلَيْهِ وَ كَانَ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَقُلْتُ لَهُ: مَا تَقُولُ فِي زِيَارَةِ الْحُسَيْنِ، فَقَالَ لِي: بِدْعَةٌ وَ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ، فَقُمْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ أَنَا مُمْتَلِئٌ غَيْظاً وَ قُلْتُ: إِذَا كَانَ السَّحَرُ أَتَيْتُهُ فَحَدَّثْتُهُ مِنْ فَضَائِلِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مَا يَشْحَنُ اللَّهُ بِهِ عَيْنَيْهِ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ وَ قَرَعْتُ عَلَيْهِ الْبَابَ، فَإِذَا أَنَا بِصَوْتٍ مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ إِنَّهُ قَدْ قَصَدَ الزِّيَارَةَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ، فَخَرَجْتُ مُسْرِعاً فَأَتَيْتُ الْحَيْرَ، فَإِذَا أَنَا بِالشَّيْخِ سَاجِدٌ لَا يَمَلُّ مِنَ السُّجُودِ وَ الرُّكُوعِ، فَقُلْتُ لَهُ: بِالْأَمْسِ تَقُولُ لِي بِدْعَةٌ وَ كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَ كُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ وَ الْيَوْمَ تَزُورُهُ، فَقَالَ لِي: يَا سُلَيْمَانُ لَا تَلُمْنِي فَإِنِّي مَا كُنْتُ أُثْبِتُ لِأَهْلِ هَذَا الْبَيْتِ إِمَامَةً حَتَّى كَانَتْ لَيْلَتِي هَذِهِ فَرَأَيْتُ رُؤْيَا أَرْعَبَتْنِي فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتَ! أَيُّهَا الشَّيْخُ. قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلًا لَا بِالطَّوِيلِ الشَّاهِقِ وَ لَا بِالْقَصِيرِ اللَّاصِقِ، لَا أُحْسِنُ أَصِفُهُ مِنْ حُسْنِهِ وَ بَهَائِهِ، مَعَهُ أَقْوَامٌ يَحُفُّونَ بِهِ حَفِيفاً وَ يَزِفُّونَهُ زَفّاً، بَيْنَ يَدَيْهِ فَارِسٌ عَلَى فَرَسٍ لَهُ ذَنُوبٌ، عَلَى رَأْسِهِ تَاجٌ، لِلتَّاجِ أَرْبَعَةُ أَرْكَانٍ، فِي كُلِّ رُكْنٍ جَوْهَرَةٌ تُضِيءُ مَسِيرَةَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ و سلم، فَقُلْتُ: وَ الْآخَرُ، فَقَالُوا: وَصِيُّهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ، ثُمَّ مَدَدْتُ عَيْنِي فَإِذَا أَنَا بِنَاقَةٍ مِنْ نُورٍ عَلَيْهَا هَوْدَجٌ مِنْ نُورٍ تَطِيرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ، فَقُلْتُ: لِمَنِ النَّاقَةُ، قَالُوا: لِخَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ وَ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: وَ الْغُلَامُ، قَالُوا: الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قُلْتُ: فَأَيْنَ يُرِيدُونَ، قَالُوا: يَمْضُونَ بِأَجْمَعِهِمْ إِلَى زِيَارَةِ الْمَقْتُولِ ظُلْماً الشَّهِيدِ بِكَرْبَلَاءَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ قَصَدْتُ الْهَوْدَجَ وَ إِذَا أَنَا بِرِقَاعٍ تَسَاقَطُ مِنَ السَّمَاءِ أَمَاناً مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِكْرُهُ لِزُوَّارِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ هَتَفَ بِنَا هَاتِفٌ: أَلَا إِنَّنَا وَ شِيعَتَنَا فِي الدَّرَجَةِ الْعُلْيَا مِنَ الْجَنَّةِ، وَ اللَّهِ يَا سُلَيْمَانُ لَا أُفَارِقُ هَذَا الْمَكَانَ حَتَّى يُفَارِقَ رُوحِي جَسَدِي۔
سلیمان اعمش کہتا ہے کہ: میں کوفے میں رہتا تھا۔ میرا ایک ہمسایہ تھا میں اس کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ ایک دن میں شب جمعہ کو اس کے پاس گیا اور کہا کہ تمہارا امام حسین (ع) کی زیارت کرنے کے بارے میں کیا عقیدہ ہے ؟ اس نے کہا: بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہ انسان جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اعمش کہتا ہے کہ میں غصے کی حالت میں اس کے پاس سے اٹھ کر اپنے گھر آ گیا اور میں نے ارادہ کیا کہ صبح کے اس کے پاس آ کر اس کے لیے امام حسین (ع) کے کچھ فضائل اور کرامات بیان کروں گا۔ اگر پھر بھی اس نے اپنے عقیدے پر اصرار کیا تو میں اس کو قتل کر دوں گا۔ صبح کے وقت میں اس ہمسائے کے گھر گیا، دروازے پر دستک دی اور اس کا نام لے کر آواز دی۔ اچانک اس کی بیوی کی آواز آئی اور اس نے کہا کہ میرا شوہر کل شام سے امام حسین (ع) کی زیارت کے لیے گیا ہوا ہے۔ یہ سن کر میں بھی اس کے پیچھے امام حسین(ع) کی قبر کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ نماز و دعا و گریہ و توبہ و استغفار کرنے میں مصروف ہے۔ جب اس نے سجدے سے سر اٹھایا تو مجھے اپنے قریب بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کل تو تم امام حسین (ع) کی زیارت کو بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہ انسان جہنم میں ڈالا جائے گا، کی بات کر رہے تھے اور آج آ کر اسی امام کی زیارت بھی کر رہے ہو!؟ اس نے کہا اے سلیمان مجھے ایسا مت کہو کیونکہ میں اہل بیت کی امامت کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا لیکن کل میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ جس نے مجھے بہت ڈرا دیا ہے۔ میں نے کہا کیا خواب دیکھا ہے ؟ اس نے کہا: میں نے خواب میں بہت محترم شخص کو دیکھا ہے کہ جس کا قد بہت بلند یا بہت چھوٹا نہیں تھا۔ مجھ میں یہ جرات نہیں کہ اس کی عظمت، جلال، ہیبت اور کمال کو بیان کر سکوں۔ وہ چند لوگوں کے ساتھ تھا کہ جو اس کے ارد گرد تھے کہ جو اسکو بہت تیزی سے لائے اور ان کے سامنے ایک سواری تھی کہ جس کے سر پر تاج تھا اور جس کے چار کونے تھے کہ جس کے ہر کونے پر ایک گوہر تھا کہ جو تین دن تک کے فاصلے کے راستے کو نورانی کر رہا تھا۔ میں نے ان میں سے ایک خادم کو کہا کہ یہ کون ہیں؟ اس نے کہا یہ حضرت محمّد مصطفى(ص) ہیں۔ میں نے کہا وہ اس کے ساتھ دوسرا بندہ کون ہے ؟ اس نے کہا وہ علی مرتضی(ع) ہیں کہ جو ان کے وصی ہیں، پھر میں نے ایک نورانی سواری کو دیکھا کہ اس پر ایکنورانی ہودج تھا۔ اس ہودج میں دو خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ سواری زمین اور آسمان کے درمیان پرواز کر رہی تھی۔ میں کہا یہ سواری کس کی ہے؟ اس نے کہا کہ یہ حضرت خدیجہ کبری(س) اور انکی بیٹی فاطمہ کبری(س) کی ہے۔ پھر میں نے کہا یہ بچہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ یہ حسن ابن علی(ع) ہیں۔ پھر میں نے کہا کہ یہ سب اکٹھے مل کر کہاں جا رہے ہیں؟ اس نے کہا وہ سب امام حسین(ع) کہ جو کربلاء میں شہید ہوئے تھے، کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں۔ پھر میں نے حضرت فاطمہ کے ہودج کی طرف دیکھا کہ کچھ کاغذ کہ جن پر کچھ لکھا ہوا تھا آسمان سے زمین کی طرف گر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کاغذ کیا ہیں؟ اس نے کہا یہ ان زائرین کے لیے جہنم کی آگ سے امان نامہ ہے کہ جو شب جمعہ امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ جب میں نے آگے ہو کر ان میں سے ایک کاغذ لینا چاہا تو اس نے مجھ سے کہا تم تو کہتے ہو کہ امام حسین کی قبر کی زیارت کرنا بدعت ہے۔ تم کو یہ کاغذ تب ہی ملے گا کہ جب تم امام حسین(ع) کی زیارت کرو گے اور اس امام کی عظمت اور شرافت کے قائل ہو گے۔ میں اس اضطراب اور پریشانی کی حالت میں نیند سے بیدار ہو گیا اور اسی وقت گھر سے امام حسین کی زیارت کرنے کے لیے نکل پڑا ہوں۔ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔ اے سلیمان اب میں مرتے دم تک امام حسین(ع) کی قبر سے دور نہیں ہوں گا۔
ابن مشهدى، محمد بن جعفر، الوفاة: 610 ق، المزار الكبير ج1 ص330،محقق: قيومى اصفهانى،جواد،چاپ: اول،ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعه مدرسين حوزه علميه قم،
امام حسين (ع) اور زیارت امام حسین (ع):
بہت سی روایات بہت ہی بلند اور عالی مفہوم و معانی کے ساتھ امام حسین(ع) کی مبارک زبان سے زیارت کربلاء کے بارے میں کہ جو بھی کربلاکی زیارت کرے گا خداوند اس کو جہنم کی آگ سے دور رکھے گا۔ اس بارے میں دو روایت کو ذکر کیا جا رہا ہے:
روايت اول:
رَوَيْنَاهُ بِإِسْنَادِنَا إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ دَاوُدَ الْقُمِّيِّ، مِنْ كِتَابِ الزِّيَارَاتِ تَصْنِيفِهِ، بِإِسْنَادِهِ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ: كَانَ لَنَا جَارٌ يُعْرَفُ بِعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: كُنْتُ أَزُورُ الْحُسَيْنَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي كُلِّ شَهْرٍ، قَالَ: ثُمَّ عَلَتْ سِنِّي وَ ضَعُفَ جِسْمِي وَ انْقَطَعَتْ عَنْهُ مُدَّةٌ، ثُمَّ وَقَعَ إِلَيَّ أَنَّهَا آخِرُ سِنِي عُمُرِي، فَحَمَلْتُ عَلَى نَفْسِي وَ خَرَجْتُ مَاشِياً، فَوَصَلْتُ فِي أَيَّامٍ، فَسَلَّمْتُ وَ صَلَّيْتُ رَكْعَتَيِ الزِّيَارَةِ وَ نِمْتُ، فَرَأَيْتُ الْحُسَيْنَ عليه السلام قَدْ خَرَجَ مِنَ الْقَبْرِ. فَقَالَ لِي: «يَا عَلِيُّ، لِمَ جَفَوْتَنِي وَ كُنْتَ بِي بَرّاً؟» فَقُلْتُ: يَا سَيِّدِي، ضَعُفَ جِسْمِي وَ قَصُرَتْ خُطَايَ، وَ وَقَعَ لِي أَنَّهَا آخِرُ سِنِي عُمُرِي فَأَتَيْتُكَ فِي أَيَّامٍ، وَ قَدْ رُوِيَ عَنْكَ شَيْءٌ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْكَ. فَقَالَ: «قُلْ». قَالَ: قُلْتُ: رُوِيَ عَنْكَ «مَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ». قَالَ: «نَعَمْ». قُلْتُ: فَأَرْوِيهِ عَنْكَ «مَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ». قَالَ: «نَعَمْ ارْوِ عَنِّي: مَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِهِ زُرْتُهُ بَعْدَ وَفَاتِهِ، وَ إِنْ وَجَدْتُهُ فِي النَّارِ أَخْرَجْتُهُ۔
داود ابن عقبہ کہتا ہے کہ میرا ایک ہمسایہ تھا کہ جس کا نام محمد ابن علی تھا، محمد ابن علی کہتا ہے کہ میں ہر مہینے امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاتا تھا لیکن جب میری عمر زیادہ ہو گئی اور بدن ضعیف ہو گیا تو تھوڑا عرصہ میں زیارت کے لیے نہ جا سکا۔ جب میں نے احساس کیا کہ اب میری زندگی کے آخری ایام ہیں تو میں پیدل امام حسین(ع) کی زیارت کرنے کے لیے چل پڑا۔ چند دنوں کے بعد میں آخر کار کربلاء پہنچ گیا۔ میں نے امام حسین(ع) کو سلام کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور پھر سو گیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ امام حسین قبر سے باہر آئے ہیں اور مجھ سے فرمایا کہ تم تو مجھ پر نیکی کرنے والے تھے پس اب کیوں تم نے مجھ پر جفا کرنا شروع کر دیا ہے ؟ میں نے کہا اے میرے مولا میرا بدن کمزور اور ٹانگیں ضعیف ہو گی ہیں اس لیے تھوڑا عرصہ زیارت کے لیے نہیں آ سکا لیکن اب زندگی کے آخری ایام میں پیدل چلتا ہوا آپ کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔ میں نے آپ سے منسوب ایک روایت کو سنا ہے میں چاہتا ہوں کہ اب اس روایت کو آپ کی مبارک زبان سے سنوں۔ اس پر امام حسین(ع) نے فرمایا کہ بولو کون سی روایت ہے ؟ میں نے کہا آپ سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ جو بھی میری زیارت کے لیے آئے گا تو میں بھی اس کی وفات کے بعد اسکی زیارت کے لیے آؤں گا۔ امام حسین(ع) نے فرمایا ہاں تم نے ٹھیک سنا ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا اس روایت کو آپ سے نقل کروں ؟ امام نے فرمایا ہاں اس روایت کو میری طرف سے نقل کرو کہ: جو بھی میری زیارت کے لیے آئے گا تو میں بھی اس کے مرنے کے بعد اسکی زیارت کے لیے آؤں گا اور اگر میں نے دیکھا کہ وہ جہنم کی آگ میں ہے تو اس کو وہاں سے باہر نکالوں گا۔
ابن طاووس، على بن موسى، الوفاة: 664 ق، الدروع الواقية ج1 ص75، چاپ اول، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام
روايت دوم:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ السَّعْدَ آبَادِيُّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ هَارُونَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ قَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عليهما السلام أَنَا قَتِيلُ الْعَبْرَةِ قُتِلْتُ مَكْرُوباً وَ حَقِيقٌ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يَأْتِيَنِي مَكْرُوبٌ إِلَّا أَرُدَّهُ وَ أَقْلِبَهُ إِلَى أَهْلِهِ مَسْرُوراً۔
امام حسین(ع) نے فرمایا کہ میں اشکوں سے شہید کیا گیا ہوں، میں غم و حزن کی حالت میں قتل کیا گیا ہوں، اب خداوند کا کام ہے کہ جو بھی جس مصیبت میں مبتلا بندہ میری زیارت کے لیے آئے گا، خداوند اس کو خوشحالی کی حالت میں اس کے گھر واپس پہنچائے گا۔
ابن بابويه، محمد بن على، الوفاة: 381 ق، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ج1 ص98، چاپ دوم، ناشر: دار الشريف الرضي للنشر۔