- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 22 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/08/03
- 0 رائ
امام صادق (ع) اور زیارت امام حسین (ع):
امام حسین(ع) کی زیارت کے بارے میں امام صادق(ع) سے بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں امام صادق نے امام حسین کی زیارت کے ثواب کو عام طور پر اور زیارت اربعین کے ثواب کو خاص طور پر بیان کیا ہے اور خود بھی عملی طور پر امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے کربلا گئے ہیں:
روایت= 1
حَدَّثَنِي أَبِي وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَتِّيلٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْكُوفِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حَسَّانَ الْهَاشِمِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ حَجَ دَهْرَهُ ثُمَّ لَمْ يَزُرِ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عليهما السلام لَكَانَ تَارِكاً حَقّاً مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ وَ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم لِأَنَّ حَقَّ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَرِيضَةٌ مِنَ اللَّهِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم۔
امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ: تم میں سے جو بھی اپنی زندگی میں حج کے لیے مکے جائے لیکن امام حسین کی زیارت کے لیے کربلا نہ جائے تو اس نے یقینی طور پر خداوند اور رسول خدا(ص) کے بعض حقوق کو ترک کیا ہے کیونکہ امام حسین(ع) کا حق فرض اور ضروری ہے کہ جو خداوند کی طرف سے ہر مسلمان پر واجب ہے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص122، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت=2
حَدَّثَنِي أَبِي وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ رَحِمَهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنِ السُّحْتِ الْخَزَّازِ قَالَ حَدَّثَنَا حَفْصٌ الْمُزَنِيُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ بَيَاضٍ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ: قَالَ لِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ يَا أَبَانُ مَتَى عَهْدُكَ بِقَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام قُلْتُ لَا وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ حِينٍ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وَ أَنْتَ مِنْ رُؤَسَاءِ الشِّيعَةِ تَتْرُكُ زِيَارَةَ الْحُسَيْنِ عليه السلام لَا تَزُورُهُ- مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ عليه السلام كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَا عَنْهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ سَيِّئَةً وَ غَفَرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ يَا أَبَانُ لَقَدْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ عليه السلام فَهَبَطَ عَلَى قَبْرِهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ شُعْثٌ غُبْرٌ يَبْكُونَ عَلَيْهِ وَ يَنُوحُونَ عَلَيْهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔
ابان ابن تغلب نے کہا ہے کہ امام صادق(ع) نے مجھے فرمایا ہے کہ اے ابان تم نے امام حسین(ع) کی قبر کی کب زیارت کی ہے؟ ابان نے کہا کہ اے رسول خدا کے بیٹے میں نے ابھی تک امام حسین کی قبر کی زیارت نہیں کی۔ امام نے فرمایا: سبحان اللہ تم تو بزرگان شیعہ میں سے ہو اور پھر بھی امام حسین(ع) کی زیارت کو ترک کرتے ہو اور زیارت کے لیے نہیں جاتے؟ امام نے فرمایا کہ جو بھی بندہ امام حسین کی زیارت کے لیے جائے تو خداوند ہر قدم کے بدلے میں اس کے لیے ایک نیکی کو لکھتا ہے اور اس کے ایک گناہ کو معاف فرماتا ہے اور اس تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ اے ابان جب امام حسین کو شہید کیا گیا تو 70 ہزار فرشتے غبار آلود اور پریشان بالوں کے ساتھ آسمان سے نازل ہوئے اور اس دن سے لے کر قیامت تک امام حسین(ع) کے لیے گریہ اور نوحہ خوانی کرتے رہیں گے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص331، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =3 (زيارت اربعين):
أَخْبَرَنَا جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ هَارُونَ بْنِ مُوسَى بْنِ أَحْمَدَ التَّلَّعُكْبَرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْعَدَةَ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ الْجَمَّالِ قَالَ: قَالَ لِي مَوْلَايَ الصَّادِقُ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ فِي زِيَارَةِ الْأَرْبَعِينَ تَزُورُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ وَ تَقُولُ- السَّلَامُ عَلَى وَلِيِّ اللَّهِ وَ حَبِيبِهِ السَّلَامُ عَلَى خَلِيلِ اللَّهِ وَ نَجِيبِهِ السَّلَامُ عَلَى صَفِيِّ اللَّهِ وَ ابْنِ صَفِيِّهِ السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ السَّلَامُ عَلَى أَسِيرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيلِ الْعَبَرَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَشْهَدُ أَنَّهُ وَلِيُّكَ وَ ابْنُ وَلِيِّكَ وَ صَفِيُّكَ وَ ابْنُ صَفِيِّكَ الْفَائِزُ بِكَرَامَتِكَ أَكْرَمْتَهُ بِالشَّهَادَةِ وَ حَبَوْتَهُ بِالسَّعَادَةِ وَ اجْتَبَيْتَهُ بِطِيبِ الْوِلَادَةِ وَ جَعَلْتَهُ سَيِّداً مِنَ السَّادَةِ وَ قَائِداً مِنَ الْقَادَةِ وَ ذَائِداً مِنَ الذَّادَةِ وَ أَعْطَيْتَهُ مَوَارِيثَ الْأَنْبِيَاءِ وَ جَعَلْتَهُ حُجَّةً عَلَى خَلْقِكَ مِنَ الْأَوْصِيَاءِ فَأَعْذَرَ فِي الدُّعَاءِ وَ مَنَحَ النُّصْحَ وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِيكَ لِيَسْتَنْقِذَ عِبَادَكَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَيْرَةِ الضَّلَالَةِ وَ قَدْ تَوَازَرَ عَلَيْهِ مَنْ غَرَّتْهُ الدُّنْيَا وَ بَاعَ حَظَّهُ بِالْأَرْذَلِ الْأَدْنَى وَ شَرَى آخِرَتَهُ بِالثَّمَنِ الْأَوْكَسِ وَ تَغَطْرَسَ وَ تَرَدَّى فِي هَوَاهُ وَ أَسْخَطَ نَبِيَّكَ وَ أَطَاعَ مِنْ عِبَادِكَ أَهْلَ الشِّقَاقِ وَ النِّفَاقِ وَ حَمَلَةَ الْأَوْزَارِ الْمُسْتَوْجِبِينَ النَّارَ فَجَاهَدَهُمْ فِيكَ صَابِراً مُحْتَسِباً حَتَّى سُفِكَ فِي طَاعَتِكَ دَمُهُ وَ اسْتُبِيحَ حَرِيمُهُ اللَّهُمَّ فَالْعَنْهُمْ لَعْناً وَبِيلًا وَ عَذِّبْهُمْ عَذَاباً أَلِيماً السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ سَيِّدِ الْأَوْصِيَاءِ أَشْهَدُ أَنَّكَ أَمِينُ اللَّهِ وَ ابْنُ أَمِينِهِ عِشْتَ سَعِيداً وَ مَضَيْتَ حَمِيداً وَ مِتَّ فَقِيداً مَظْلُوماً شَهِيداً وَ أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ مُنْجِزٌ مَا وَعَدَكَ وَ مُهْلِكٌ مَنْ خَذَلَكَ وَ مُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَكَ-وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ وَفَيْتَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَ جَاهَدْتَ فِي سَبِيلِهِ حَتَّى أَتَاكَ الْيَقِينُ فَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ قَتَلَكَ وَ لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ظَلَمَكَ وَ لَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَرَضِيَتْ بِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ أَنِّي وَلِيٌّ لِمَنْ وَالاهُ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاهُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنَّكَ كُنْتَ نُوراً فِي الْأَصْلَابِ الشَّامِخَةِ وَ الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ لَمْ تُنَجِّسْكَ الْجَاهِلِيَّةُ بِأَنْجَاسِهَا وَ لَمْ تُلْبِسْكَ الْمُدْلَهِمَّاتُ مِنْ ثِيَابِهَا وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ مِنْ دَعَائِمِ الدِّينِ وَ أَرْكَانِ الْمُسْلِمِينَ وَ مَعْقِلِ الْمُؤْمِنِينَ وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ الْإِمَامُ الْبَرُّ التَّقِيُّ الرَّضِيُّ الزَّكِيُّ الْهَادِي الْمَهْدِيُّ وَ أَشْهَدُ أَنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ وُلْدِكَ كَلِمَةُ التَّقْوَى وَ أَعْلَامُ الْهُدَى وَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقَى وَ الْحُجَّةُ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا وَ أَشْهَدُ أَنِّي بِكُمْ مُؤْمِنٌ وَ بِإِيَابِكُمْ مُوقِنٌ بِشَرَائِعِ دِينِي وَ خَوَاتِيمِ عَمَلِي وَ قَلْبِي لِقَلْبِكُمْ سِلْمٌ وَ أَمْرِي لِأَمْرِكُمْ مُتَّبِعٌ وَ نُصْرَتِي لَكُمْ مُعَدَّةٌ حَتَّى يَأْذَنَ اللَّهُ لَكُمْ فَمَعَكُمْ مَعَكُمْ لَا مَعَ عَدُوِّكُمْ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَ عَلَى أَرْوَاحِكُمْ وَ أَجْسَادِكُمْ وَ شَاهِدِكُمْ وَ غَائِبِكُمْ وَ ظَاهِرِكُمْ وَ بَاطِنِكُمْ آمِينَ رَبَّ الْعَالَمِينَ وَ تُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَ تَدْعُو بِمَا أَحْبَبْتَ وَ تَنْصَرِفُ .
صفوان نے کہا ہے کہ میرے مولا امام صادق(ع) نے زیارت اربعین کے بارے میں مجھے کہا ہے کہ جب دن کا کچھ حصہ گزر جائے اور سورج نکل آئے تو کہو: آپ پر سلام ہو اے اللہ کے ولی اور اسکے حبیب، سلام ہو آپ پر اے خدا کے پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند سلام ہو حسین(ع) پر کہ جو مظلوم شہید کیے گئے سلام ہو حسین(ع) پر جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہائے گئے اے خداوندا میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں کہ جس نے آپ سے عزت پائی اور تو نے انہیں شہادت کے ساتھ عزت دی اور انکو خوش بختی نصیب کی اور انہیں پاک گھرانے میں پیدا کیا تو نے قرار دیا انہیں سرداروں میں سردار پیشواؤں میں پیشوا مجاہدوں میں مجاہداور انہیں انبیاء کا وارث قرار دیا اور ان کو اوصیاء میں سے اپنی مخلوقات پر حجت پس انہوں نے تبلیغ کا حق ادا کیا بہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تا کہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی و گمراہی کی پریشانیوں سے جب کہ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سر کشی کی اور لالچ کے لیے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی (ص) کو ناراض کیا انہوں نے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر جہنم کی طرف چلے گئے
پس حسین(ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کر ہوش مندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر ان کا خون بہایا گیا اور ان کے اہل حرم کو لوٹا گیا۔
اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اور عذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول (ص) کے فرزند آپ پر سلام ہو اے سردار اوصیاء کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اور اسکے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے
قابل تعریف حال میں گزرے اور وفات پائی وطن سے دور کہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا جس کا اس نے وعدہ کیا اور اسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپ کا ساتھ چھوڑا اور اس کو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبہائی آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپکو قتل کیا خدا لعنت کرے جس نے آپ پر ظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پرجس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی اور راضی ہوئے اے معبود میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ قربان آپ پر اے فرزند رسول خدا(ص) میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میں صاحب عزت صلب میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اپنے خراب اور نجس لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں۔ مسلمانوں کے سردار ہیں اور مؤمنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام(ع) ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیز گاری کے ترجمان ہدایت کے نشان محکم تر سلسلہ اور دنیا والوں پر خدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا اپنے دینی احکام اور عمل کی جزا پر یقین رکھنے والا ہوں میرا دل آپکے دل کیساتھ پیوستہ میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری مدد آپ کیلئے حاضر ہے حتی کہ خدا آپکو اذن قیام دے پس آپکے ساتھ ہوں آپکے ساتھ نہ کہ آپکے دشمن کیساتھ خدا کی رحمتیں ہوں آپ پر آپ کی پاک روحوں پر آپ کے جسموں پر آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر ایسا ہی ہو جہانوں کے پروردگار۔
اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھو اور اپنی حاجات کو خداوند سے طلب کرو اور واپس آ جاؤ۔
الطوسى، محمد بن الحسن، الوفاة: 460 ق، تهذيب الأحكام ج6 ص113، محقق: خرسان، حسن الموسوى، چاپ چهارم، ناشر: دار الكتب الإسلاميه،
روایت= 4
بِالْإِسْنَادِ عَنِ الشَّرِيفِ أَبِي عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ بَهْرَامَ الضَّرِيرُ الرَّازِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ أَبِي الْعَيْفَاءِ الطَّائِيُّ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي ذَكَرَ أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عليه السلام مَضَى إِلَى الْحِيرَةِ وَ مَعَهُ غُلَامٌ لَهُ عَلَى رَاحِلَتَيْنِ وَ ذَاعَ الْخَبَرُ بِالْكُوفَةِ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّانِي قُلْتُ لِغُلَامٍ لِي اذْهَبْ فَاقْعُدْ لِي فِي مَوْضِعِ كَذَا وَ كَذَا مِنَ الطَّرِيقِ فَإِذَا رَأَيْتَ غُلَامَيْنِ عَلَى رَاحِلَتَيْنِ فَتَعَالَ إِلَيَّ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا جَاءَنِي فَقَالَ قَدْ أَقْبَلَا فَقُمْتُ إِلَى بَارِيَّةٍ فَطَرَحْتُهَا عَلَى قَارِعَةِ الطَّرِيقِ وَ إِلَى وِسَادَةٍ وَ صُفْرِيَّةٍ جَدِيدَةٍ وَ قُلَّتَيْنِ فَعَلَّقْتُهُمَا فِي النَّخْلَةِ وَ عِنْدَهَا طَبَقٌ مِنَ الرُّطَبِ وَ كَانَتِ النَّخْلَةُ صَرَفَانَةً فَلَمَّا أَقْبَلَ تَلَقَّيْتُهُ وَ إِذَا الْغُلَامُ مَعَهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَحَّبَ بِي ثُمَّ قُلْتُ يَا سَيِّدِي يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ مَوَالِيكَ تَنْزِلُ عِنْدِي سَاعَةً وَ تَشْرَبُ شَرْبَةَ مَاءٍ بَارِدٍ فَثَنَى رِجْلَهُ فَنَزَلَ وَ اتَّكَأَ عَلَى الْوِسَادَةِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى النَّخْلَةِ فَنَظَرَ إِلَيْهَا وَ قَالَ يَا شَيْخُ مَا تُسَمُّونَ هَذِهِ النَّخْلَةَ عِنْدَكُمْ قُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهُ صَرَفَانَةً فَقَالَ وَيْحَكَ هَذِهِ وَ اللَّهِ الْعَجْوَةُ نَخْلَةُ مَرْيَمَ الْقُطْ لَنَا مِنْهَا فَلَقَطْتُ فَوَضَعْتُهُ فِي الطَّبَقِ الَّذِي فِيهِ الرُّطَبُ فَأَكَلَ مِنْهَا فَأَكْثَرَ فَقُلْتُ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاكَ بِأَبِي وَ أُمِّي هَذَا الْقَبْرُ الَّذِي أَقْبَلْتَ مِنْهُ قَبْرُ الْحُسَيْنِ قَالَ إِي وَ اللَّهِ يَا شَيْخُ حَقّاً وَ لَوْ أَنَّهُ عِنْدَنَا لَحَجَجْنَا إِلَيْهِ قُلْتُ فَهَذَا الَّذِي عِنْدَنَا فِي الظَّهْرِ أَ هُوَ قَبْرُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام قَالَ إِي وَ اللَّهِ يَا شَيْخُ حَقّاً وَ لَوْ أَنَّهُ عِنْدَنَا لَحَجَجْنَا إِلَيْهِ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ وَ مَضی۔
حسين بن ابى العلا کہتا ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ وہ کہہ رہے تھے کہ امام جعفر صادق (ع) اور ان کے ساتھ ایک لڑکا تھا جو دونوں سواری پر سوار حیرہ تشریف لے گئے اور یہ خبر کوفہ میں پھیل گئی۔ دوسرے دن میں نے اپنے غلام سے کہا کہ فلاں جگہ پر جا کر کھڑے ہو جاؤ۔ جب دو سوار جوان وہاں آئیں تو مجھے آ کر خبر دینا۔ صبح کے وقت وہ غلام خبر لے کر آیا کہ وہ دونوں جوان آ گئے ہیں۔ میں جلدی سے بستر لے کر گیا اور حضرت کے لیے بچھا دیا اور اس پر ایک تکیہ بھی رکھا۔ وہاں پر ایک کھجور کا درخت تھا۔ میں نے پانی کے دو ظرف اس درخت پر لٹکائے اور کھجوروں کا ایک ٹرے بھی وہاں پر رکھا۔ وہ کھجور صرفانہ کا درخت تھا۔ جب امام صادق (ع) پہنچے تو میں نے ان کا استقبال کیا اور ان پر سلام کیا۔ امام نے بھی سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا اے میرے مولا اے رسول خدا کے بیٹے میں بھی آپ کے چاہنے اور ماننے والوں میں سے ہوں اور آپ سے التماس کرتا ہوں کہ تھوڑا میرے پاس بھی ٹھر جائیں اور ٹھنڈا پانی نوش فرمائیں۔ امام سواری سے نیچے آئے اور بستر پر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور کھجور کے درخت کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اے شیخ اس کھجور کے درخت کا کیا نام ہے؟ میں نے کہا: يا ابن رسول اللَّه! اس درخت کو صرفانہ کا درخت کہتے ہیں۔ امام نے فرمایا کہ خداوند تم پر رحمت کرے، خدا کی قسم اس درخت کا نام عجوہ ہے، یہ وہ کھجور کا درخت ہے کہ جس کے نیچے حضرت عیسی (ع) پیدا ہوئے تھے اور حضرت مریم نے اس درخت سے کھجوروں کو کھایا تھا۔ پھر امام نے فرمایا کہ اس درخت سے میرے لیے کھجوریں اتارو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی اور کھجوروں کو برتن میں رکھ امام کی خدمت میں لے کر آيا۔ امام نے ان کھجوروں کو کھایا۔ پھر میں نے کہا میں اور میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! جس قبر کی زیارت سے آپ واپس آ رہے ہیں، کیا وہ امام حسین کی قبر ہے ؟ امام نے فرمایا: خدا کی قسم ہاں اے شیخ، اگر یہ قبر مدینہ میں ہوتی تو جیسے ہم حج کے لیے جاتے ہیں ویسے ہی ہم اس قبر کی زیارت کے لیے جاتے۔ میں نے کہا: وہ قبر جو کوفہ میں ہے وہ حضرت امير المؤمنين علی(ع) کی قبر ہے؟ امام نے فرمایا: خدا کی قسم ہاں اے شیخ، اور اگر یہ قبر مدینہ کے نزدیک ہوتی تو جس طرح ہم حج کو اہمیت دیتے ہیں اسی طرح اس قبر کی زیارت کو بھی اہمیت دیتے۔ یہ کہہ کر امام صادق (ع) سواری پر سوار ہو چلے گئے۔
ابن طاوس، عبدالكريم بن احمد، الوفاة: 693 ق، فرحة الغري في تعيين قبر أمير المؤمنين عليّ بن أبي طالب عليه السلام في النجف، ناشر: منشورات الرضی
روایت= 5
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَبَّاحٍ الْحَذَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ زُورُوا الْحُسَيْنَ عليه السلام وَ لَوْ كُلَّ سَنَةٍ فَإِنَّ كُلَّ مَنْ أَتَاهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ غَيْرَ جَاحِدٍ لَمْ يَكُنْ لَهُ عِوَضٌ غَيْرُ الْجَنَّةِ وَ رُزِقَ رِزْقاً وَاسِعاً وَ آتَاهُ اللَّهُ مَنْ قِبَلَهُ بِفَرَحٍ [بِفَرَجٍ] عَاجِلٍ وَ ذَكَرَ الْحَدِيثَ۔
حضرت امام صادق(ع) نےفرمایا کہ امام حسین(ع) کی زیارت کرو اگرچہ ہر سال ہی کیوں نہ ہو کیونکہ جو بھی امام حسین(ع) کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے تو اس کی جزاء فقط جنت ہے، اور اس کا رزق زیادہ ہو گا اور خداوند اس کو دنیا میں خوشیاں نصیب کرے گا۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص152، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت= 6
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مِسْمَعٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَنَانٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَا سَدِيرُ تَزُورُ قَبْرَ الْحُسَيْنِ عليه السلام فِي كُلِّ يَوْمٍ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ لَا قَالَ فَمَا أَجْفَاكُمْ قَالَ فَتَزُورُونَهُ فِي كُلِّ جُمْعَةٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَتَزُورُونَهُ فِي كُلِّ شَهْرٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَتَزُورُونَهُ فِي كُلِّ سَنَةٍ قُلْتُ قَدْ يَكُونُ ذَلِكَ قَالَ يَا سَدِيرُ مَا أَجْفَاكُمْ لِلْحُسَيْنِ عليه السلام امَا عَلِمْتَ أَنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَلْفَيْ أَلْفِ مَلَكٍ شُعْثٌ غُبْرٌ يَبْكُونَ وَ يَزُورُونَ لَا يَفْتُرُونَ وَ مَا عَلَيْكَ يَا سَدِيرُ أَنْ تَزُورَ قَبْرَ الْحُسَيْنِ عليه السلام فِي كُلِّ جُمْعَةٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ وَ فِي كُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّ بَيْنَنَا وَ بَيْنَهُ فَرَاسِخَ كَثِيرَةً فَقَالَ لِي اصْعَدْ فَوْقَ سَطْحِكَ ثُمَّ تَلْتَفِتُ يَمْنَةً وَ يَسْرَةً ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ انْحُ نَحْوَ الْقَبْرِ وَ تَقُولُ- السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ تُكْتَبُ لَكَ زَوْرَةٌ وَ الزَّوْرَةُ حَجَّةٌ وَ عُمْرَةٌ قَالَ سَدِيرٌ فَرُبَّمَا فَعَلْتُ فِي الشَّهْرِ أَكْثَرَ مِنْ عِشْرِينَ مَرَّةً.
سدیر کہتا ہے کہ: امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ اے سدیر کیا تم ہر روز امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کرتے ہو ؟ سدیر نے کہا: میں آپ پر قربان ہوں، نہیں۔ امام نے فرمایا تم کس قدر جفا کرنے والے ہو!! پھر فرمایا کہ کیا ہفتے میں ایک مرتبہ زیارت کرتے ہو ؟ سدیر نے کہا: نہیں۔ امام نے فرمایا ہر مہینے ایک مرتبہ؟ سدیر نے کہا: نہیں۔ امام نے فرمایا ہر سال میں ایک مرتبہ ؟ سدیر نے کہا ہاں کبھی سال میں ایک مرتبہ زیارت کے لیے چلا جاتا ہوں۔ امام نے فرمایا اے سدیر تم کس قدر امام حسین پر جفاء کرتے ہو! کیا تم نہیں جانتے کہ خداوند کے دو ہزار غبار آلود فرشتے ہیں کہ جو امام حسین(ع) پر گریہ کرتے ہیں اور ان کی زیارت کرتے ہیں اور کبھی تھکاوٹ بھی محسوس نہیں کرتے۔ اے سدیر تم بھی کم از کم ہر ہفتے میں پانچ مرتبہ اور ہر روز ایک مرتبہ امام حسین کی زیارت کیا کرو۔ میں نے کہا میں آپ پر قربان ہو جاؤں، ہمارے اور کربلا کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ امام نے فرمایا: اپنے گھر کی چھت پر جا کر اپنے دائیں بائیں دیکھ کر پھر سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے امام حسین (ع) کی قبر کی طرف رخ کر کے کہو: السَّلامُ عَلَيكَ يا أبا عَبدِ اللّهِ، السَّلامُ عَلَيكَ و رَحمَةُ اللّهِ و بَرَكاتُهُ : سلام ہو آپ پر اے ابا عبد اللّه ! سلام اور رحمت اور خدا کی برکات آپ پر ہوں! جب ایسا کرو گے تو تمہارے لیے ایک زیارت لکھی جائے گی اور وہ زیارت ایک حج اور ایک عمرے کے برابر ہو گی۔ پھر سدیر نے کہا اس طرح میں کبھی کبھی ایک مہینے میں بیس مرتبہ سے زیادہ امام حسین (ع) کی زیارت کیا کرتا تھا۔
كليني، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الوفاة: 329 ق، الكافي( ط- الإسلامية) ج4 ص589 محقق : غفارى على اكبر و آخوندى، محمد، ناشر: دار الكتب الإسلامية،
روایت= 7
حَدَّثَنِي حَكِيمُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُعَلَّى عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ زِيَادٍ [يَزْدَادَ] قَالَ: أَتَى رَجُلٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام فَقَالَ إِنِّي قَدْ ضَرَبْتُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ لِي ذَهَباً وَ فِضَّةً وَ بِعْتُ ضِيَاعِي فَقُلْتُ أَنْزِلُ مَكَّةَ فَقَالَ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ جَهْرَةً قَالَ فَفِي حَرَمِ رَسُولِ اللَّهِ صلی الله عليه و آله و سلم قَالَ هُمْ شَرٌّ مِنْهُمْ قَالَ فَأَيْنَ أَنْزِلُ قَالَ عَلَيْكَ بِالْعِرَاقِ الْكُوفَةِ فَإِنَّ الْبَرَكَةَ مِنْهَا عَلَى اثْنَيْ عَشَرَ مِيلًا هَكَذَا وَ هَكَذَا- وَ إِلَى جَانِبِهَا قَبْرٌ مَا أَتَاهُ مَكْرُوبٌ قَطُّ وَ لَا مَلْهُوفٌ إِلَّا فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ .
اسحاق بن زياد نے کہا ہے کہ: ایک شخص امام صادق(ع) کے پاس آیا اور عرض کیا جو کچھ میرے پاس سونا چاندی تھا میں نے اس کو اور تمام جائیداد کو فروخت کر کے تمام مال کو نقد پیسوں میں تبدیل کر لیا ہے کیونکہ میں اپنے شہر سے ہجرت کر کے کسی دوسرے شہر جانا اور رہنا چاہتا ہوں۔ آپ بتائیں میں کس شہر کو رہنے کے لیے انتخاب کروں؟ اسحاق کہتا ہے کہ میں نے اس سے کہا کہ مکے میں گھر لے کر ادھر رہو۔ اس پر امام صادق(ع) نے فرمایا کہ نہ مکے نہ جاؤ کیونکہ اہل مکہ خداوند کے بارے میں کافر تھے اور علی الاعلان اپنے کفر کو ظاہر کرتے تھے۔ اس شخص نے کہا پھر میں حرم رسول خدا(ص) مدینہ چلا جاتا ہوں؟ امام نے فرمایا اس شہر کے لوگ اہل مکہ سے بھی بد تر ہیں۔ اس شخص نے کہا پھر کہاں جاؤں؟ امام نے فرمایا کہ تم عراق کے شہر کوفہ چلے جاؤ کیونکہ اس شہر سے برکت طلوع ہوئی ہے کہ جو اس کے بارہ میل تک کے فاصلے تک پھیلی ہوئی ہے اور اس شہر کے ایک طرف قبر امام حسین(ع) ہے کہ جو مصیبت زدہ اور پریشان حال اس قبر کی زیارت کرتا ہے تو خداوند اس کے غم و حزن کو خوشی اور آرام میں بدل دیتا ہے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص169، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =8
حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ صَبَّاحٍ الْحَذَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَرْوَانَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ زُورُوا الْحُسَيْنَ عليه السلام وَ لَوْ كُلَّ سَنَةٍ فَإِنَّ كُلَّ مَنْ أَتَاهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ غَيْرَ جَاحِدٍ لَمْ يَكُنْ لَهُ عِوَضٌ غَيْرُ الْجَنَّةِ وَ رُزِقَ رِزْقاً وَاسِعاً وَ آتَاهُ اللَّهُ مَنْ قِبَلَهُ بِفَرَحٍ [بِفَرَجٍ] عَاجِلٍ وَ ذَكَرَ الْحَدِيث.
امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: حضرت امام صادق(ع) نے فرمایا کہ امام حسین(ع) کی زیارت کرو اگرچہ ہر سال ہی کیوں نہ ہو کیونکہ جو بھی امام حسین کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے تو اسکی جزاء فقط جنت ہے، اور اس کا رزق زیادہ ہو گا اور خداوند اس کو دنیا میں خوشیاں نصیب کرے گا۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص151، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =9
حَدَّثَنِي أَبِي وَ جَمَاعَةُ مَشَايِخِي عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى وَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيِّ وَ أَحْمَدَ بْنِ إِدْرِيسَ جَمِيعاً عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ النَّهَاوَنْدِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَا حُسَيْنُ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ يُرِيدُ زِيَارَةَ قَبْرِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عليهما السلام إِنْ كَانَ مَاشِياً كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَى عَنْهُ سَيِّئَةً حَتَّى إِذَا صَارَ فِي الْحَائِرِ كَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْمُصْلِحِينَ الْمُنْتَجَبِينَ [الْمُفْلِحينَ الْمُنْجِحِينَ] حَتَّى إِذَا قَضَى مَنَاسِكَهُ كَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِينَ حَتَّى إِذَا أَرَادَ الِانْصِرَافَ أَتَاهُ مَلَكٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم يُقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا مَضَى.
حسين بن ثوير بن ابى فاختہ کہتا ہے کہ: امام صادق(ع) نے فرمایا کہ اے حسین جو بھی اپنے گھر سے باہر آئے اور اس کا امام حسین (ع) کی زیارت کرنے کا ارادہ ہو اور اگر وہ پیدل جائے تو خداوند اس کے لیے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھے گا اور اس کا ایک گناہ معاف فرمائے گا، یہاں تک کہ وہ امام حسین (ع) کے حرم میں پہنچ جائے اور اس مبارک جگہ پہنچنے کے بعد خداوند اس کو فلاح پانے والوں میں شمار کرے گا یہاں تک کہ اس کی زیارت، دعا اور عبادت مکمل ہو جائیں، تو اس وقت خداوند اس کو کامیاب لوگوں میں قرار دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ وہاں سے واپس آنے کا ارادہ کر لے۔ اس وقت ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تم کو رسول خدا (ص) نے سلام کہا ہے اور تم سے کہا ہے کہ اپنے اعمال کو نئے سرے سے شروع کرو کیونکہ تمہارے پہلے سارے معاف کر دیئے گئے ہیں۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص132، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت = 10
حَدَّثَنِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ الصَّائِغِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: يَا عَلِيُّ زُرِ الْحُسَيْنَ وَ لَا تَدَعْهُ قَالَ قُلْتُ مَا لِمَنْ أَتَاهُ مِنَ الثَّوَابِ قَالَ مَنْ أَتَاهُ مَاشِياً كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَى عَنْهُ سَيِّئَةً وَ رَفَعَ لَهُ دَرَجَةً فَإِذَا أَتَاهُ وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ مَلَكَيْنِ يَكْتُبَانِ مَا خَرَجَ مِنْ فِيهِ مِنْ خَيْرٍ وَ لَا يَكْتُبَانِ مَا يَخْرُجُ مِنْ فِيهِ مِنْ شَرٍّ وَ لَا غَيْرَ ذَلِكَ فَإِذَا انْصَرَفَ وَدَّعُوهُ وَ قَالُوا يَا وَلِيَّ اللَّهِ مَغْفُوراً لَكَ أَنْتَ مِنْ حِزْبِ اللَّهِ وَ حِزْبِ رَسُولِهِ وَ حِزْبِ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِهِ وَ اللَّهِ لَا تَرَى النَّارَ بِعَيْنِكَ أَبَداً وَ لَا تَرَاكَ وَ لَا تَطْعَمُكَ أَبَداً.
على بن ميمون صائغ نے کہا ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ اے علی امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کرو اور اس کام کو ترک نہ کرو۔ میں نے عرض کیا کہ جو یہ زیارت کرے گا تو اس کو کیا ثواب ملے گا؟ امام نے فرمایا کہ جو بھی امام حسین(ع) کی زیارت پیدل کرے گا تو خداوند اس کے لیے ہر قدم کے بدلے میں ایک نیکی لکھے گا اور اس کا ایک گناہ معاف فرمائے گا اور اس کے ایک درجے کو بلند کرے گا اور جب وہ کربلا پہنچ جائے گا تو خداوند اس پر دو فرشتوں کو مقرر اور ان کو حکم دے گا کہ جو کچھ بھی اچھی اور نیک بات اس کے منہ سے نکلے تو اس کو لکھ لینا اور جو برائی اور گندی بات ہو اس کو نہ لکھنا اور جب وہ کربلا سے واپس آنے لگے گا تو وہ فرشتے اس کو الوداع اور کہتے ہیں کہ اے خدا کے نیک بندے تیرے سارے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں اور تو اب تمہارا تعلق لشکر خدا و لشکر رسول خدا اور اہل بیت سے ہے اور اب خداوند تیری آنکھوں کو کبھی جہنم کی آگ نہیں دکھائے گا اور جہنم کی آگ بھی ہر گز تمہیں نہیں دیکھے گی اور تم کو اپنے اندر نہیں لے کر جائے گی۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص133، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =11
حدَّثَنِي أَبِي ره وَ جَمَاعَةُ مَشَايِخِي ره عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِنَا عَنْ أَبَانٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ الْخَثْعَمِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: قَالَ لِي يَا عَبْدَ الْمَلِكِ لَا تَدَعْ زِيَارَةَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عليهما السلام وَ مُرْ أَصْحَابَكَ بِذَلِكَ يَمُدُّ اللَّهُ فِي عُمُرِكَ وَ يَزِيدُ اللَّهُ فِي رِزْقِكَ وَ يُحْيِيكَ اللَّهُ سَعِيداً وَ لَا تَمُوتُ إِلَّا سَعِيداً [شَهِيداً] وَ يَكْتُبُكَ سَعِيداً.
عبد الملک خثعمى کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ اے عبد الملک امام حسین(ع) کی زیارت کو ترک نہ کرو اور اپنے دوستوں کو بھی اس کام کے کرنے کا کہو کیونکہ خداوند اس زیارت کی وجہ سے تمہاری عمر کو طولانی، تمہارے رزق کو زیادہ اور تمہاری زندگی کو سعادت مند فرمائے گا اور تمہاری موت کو شہید کی موت قرار دے گا۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص151، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =12
حَدَّثَنِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ وَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ حَمْدَانَ الْقَلَانِسِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ الْمُحَارِبِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مِيثَمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ النَّجَّارِ قَالَ: قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام تَزُورُونَ الْحُسَيْنَ عليه السلام وَ تَرْكَبُونَ السُّفُنَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ أمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا إِذَا انْكَفَتْ بِكُمْ نُودِيتُمْ أَلَا طِبْتُمْ وَ طَابَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ.
عبد اللَّه بن نجّار کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے مجھے فرمایا ہے کہ کیا تم امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاتے ہو اور کیا تم کشتی پر سوار ہو کر زیارت کے لیے جاتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، امام نے فرمایا اگر تمہاری کشتی دریا میں الٹ کر غرق ہو جائے تو منادی نداء دیتا ہے کہ تم خوش قسمت ہو کہ تم کو بہشت میں جانا نصیب ہوا ہے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص134، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت= 13
وَ رَوَى صَالِحٌ الصَّيْرَفِيُّ عَنْ عِمْرَانَ الْمِيثَمِيِّ عَنْ صَالِحِ بْنِ مِيثَمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَكُونَ عَلَى مَوَائِدِ النُّورِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ- فَلْيَكُنْ مِنْ زُوَّارِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عليه السلام۔
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا کہ تم میں سے جو قیامت کے دن نورانی دستر خوانوں پر بیٹھنا چاہتا ہے تو وہ لازمی طور پر امام حسین (ع) کی زیارت کرے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص135، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت = 14
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ وَ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُولَوَيْهِ ره عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارِ وَ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدِ بْنِ يَقْطِينٍ الْيَقْطِينِيِّ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي خَالِدٍ ذِي الشَّامَةِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَكُونَ فِي جِوَارِ نَبِيِّهِ صلي الله عليه و آله و سلم وَ جِوَارِ عَلِيٍّ وَ فَاطِمَةَ فَلَا يَدَعْ زِيَارَةَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عليه السلام.
امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جو شخص جنت میں رسولخدا(ص)، حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ (س) کا ہمسایہ بننا چاہتا ہے تو وہ امام حسین(ع) کی زیارت کو ترک نہ کرے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص136، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت = 15
وَ بِإِسْنَادِهِ عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام وَ [أَوْ] أَبَا جَعْفَرٍ عليه السلام يَقُولُ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ مَسْكَنُهُ الْجَنَّةَ وَ مَأْوَاهُ الْجَنَّةَ فَلَا يَدَعْ زِيَارَةَ الْمَظْلُومِ قُلْتُ مَنْ هُوَ قَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَاحِبُ كَرْبَلَاءَ مَنْ أَتَاهُ شَوْقاً إِلَيْهِ وَ حُبّاً لِرَسُولِ اللَّهِ وَ حُبّاً لِفَاطِمَةَ وَ حُبّاً لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عليه السلام أَقْعَدَهُ اللَّهُ عَلَى مَوَائِدِ الْجَنَّةِ يَأْكُلُ مَعَهُمْ وَ النَّاسُ فِي الْحِسَابِ۔
امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جو چاہتا ہے کہ جنت اس کے رہنے کی جگہ ہو تو وہ مظلوم کی زیارت کو ترک نہ کرے۔ میں نے کہا: مظلوم کون ہے؟ امام نے فرمایا: وہ حسین ابن علی(ع) ہیں کہ جو کربلا میں شہید ہوئے، جو امام حسین سے شوق اور رسول خدا (ص)، حضرت فاطمہ (س) اور حضرت علی(ع) سے محبت کی وجہ سے امام حسین(ع) کی زیارت کرے تو خداوند اس کو ان اہل بیت کے ساتھ نورانی دستر خوانوں پر بیٹھائے گا اس حالت میں کہ دوسرے لوگ اپنے حساب کتاب میں مصروف ہوں گے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص136، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =16
حَدَّثَنِي أَبُو الْعَبَّاسِ الْكُوفِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبَانٍ الْأَزْرَقِ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: مِنْ أَحَبِّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى زِيَارَةُ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام وَ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ عِنْدَ اللَّهِ إِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِنِ وَ أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَ هُوَ سَاجِدٌ بَاكٍ۔
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا کہ خداوند کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل، امام حسین (ع) کی زیارت کرنا ہے اور خداوند کے نزدیک سب سے افضل عمل مؤمنین کو خوشحال کرنا ہے اور خداوند کے نزدیک ترین وہ بندہ ہے جو سجدے کی حالت میں خدا کے حضور گریہ کرے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص146، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =17
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبَّادٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْمَدَائِنِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ آتِي قَبْرَ الْحُسَيْنِ قَالَ نَعَمْ يَا أَبَا سَعِيدٍ ائْتِ قَبْرَ ابْنِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم أَطْيَبِ الطَّيِّبِينَ- وَ أَطْهَرِ الطَّاهِرِينَ وَ أَبَرِّ الْأَبْرَارِ فَإِذَا زُرْتَهُ كُتِبَ لَكَ اثْنَتَانِ وَ عِشْرُونَ عُمْرَةً۔
ابى سعيد کہتا ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس گیا اور عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں: کیا میں امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاؤں؟ امام نے فرمایا: ہاں اے ابو سعید فرزند رسول خدا(ص) کی زیارت کے لیے ضرور جاؤ کہ وہ پاک ترین اور نیک ترین خدا کے بندوں میں سے ہیں۔ جاؤ اور جان لو کہ جب بھی تم اس امام کی زیارت کرو گے تو تمہارے لیے 22 عمروں کا ثواب لکھا جائے گا۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص154، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت= 18
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ الرَّزَّازُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ بَزِيعٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام فَمَرَّ قَوْمٌ عَلَى حَمِيرٍ فَقَالَ أَيْنَ يُرِيدُونَ هَؤُلَاءِ قُلْتُ قُبُورَ الشُّهَدَاءِ قَالَ فَمَا يَمْنَعُهُمْ مِنْ زِيَارَةِ الشَّهِيدِ الْغَرِيبِ قَالَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ زِيَارَتُهُ وَاجِبَةٌ قَالَ زِيَارَتُهُ خَيْرٌ مِنْ حِجَّةٍ وَ عُمْرَةٍ حَتَّى عَدَّ عِشْرِينَ حِجَّةً وَ عُمْرَةً ثُمَّ قَالَ مَبْرُورَاتٍ مُتَقَبَّلَاتٍ- قَالَ فَوَ اللَّهِ مَا قُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ حَتَّى أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ لَهُ إِنِّي قَدْ حَجَجْتُ تِسْعَةَ عَشَرَ حِجَّةً- فَادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يَرْزُقَنِي تَمَامَ الْعِشْرِينَ قَالَ فَهَلْ زُرْتَ قَبْرَ الْحُسَيْنِ عليه السلام قَالَ لَا قَالَ إِنَّ زِيَارَتَهُ خَيْرٌ مِنْ عِشْرِينَ حِجَّةً۔
يزيد بن عبد الملک کہتا ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس بیٹھا تھا کہ سواری کی حالت میں کچھ لوگ وہاں سے گزرے۔ امام نے فرمایا: وہ کہاں جا رہے ہیں ؟ میں نے کہا شہداء کی قبور کی زیارت کے لیے جا رہے ہیں۔ امام(ع) نے فرمایا: ان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ شہید غریب کی زیارت کے لیے نہیں جاتے؟! راوی کہتا ہے کہ اہل عراق میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ اس کی زیارت کرنا واجب ہے؟ امام نے فرمایا: ان امام کی زیارت ایک حج اور ایک عمرے سے بہتر ہے، دو حج اور دو عمرے سے بہتر ہے، اسی طرح امام حج اور عمرے کی تعداد میں اضافہ کرتے گئے یہاں تک فرمایا کہ ان امام کی زیارت بیس حج اور بیس عمرے سے بہتر ہے پھر فرمایا کہ بیس مقبول حج اور بیس مقبول عمرے سے بہتر ہے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر ایک بندہ امام کے پاس آیا اور اس نے امام سے کہا کہ میں نے انیس حج کیے ہیں اب آپ خدا سے میرے لیے دعا کریں کہ مجھے ایک اور حج نصیب کرے تا کہ میرے بیس حج مکمل ہو جائیں۔ امام (ع) نے اس کو فرمایا: کیا تم نے امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، امام نے کہا ان امام کی زیارت بیس حج سے بہتر ہے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص160، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =19
رُوِيَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عليه السلام أَنَّهُ قَالَ زِيَارَةُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عليه السلام وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مَنْ يُقِرُّ لِلْحُسَيْنِ بِالْإِمَامَةِ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل ۔
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا کہ: جو امام حسین(ع) کی امامت کا قائل ہو اس پر امام حسین(ع) کی زیارت کرنا واجب ہے۔
مفيد، محمد بن محمد، الوفاة: 413 ق، الإرشاد ج2 ص133، في معرفة حجج الله على العباد، محقق:مؤسسة آل البيت عليهم السلام، چاپ اول، الناشر: سیمنار: شيخ مفيد،
روایت =20
حَدَّثَنِي أَبُو الْعَبَّاسِ الرَّزَّازُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي دَاوُدَ الْمُسْتَرِقِّ عَنْ أُمِّ سَعِيدٍ الْأَحْمَسِيَّةِ قَالَتْ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام وَ قَدْ بَعَثْتُ مَنْ يَكْتَرِي لِي حِمَاراً إِلَى قُبُورِ الشُّهَدَاءِ فَقَالَ مَا يَمْنَعُكِ مِنْ زِيَارَةِ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ قَالَتْ قُلْتُ وَ مَنْ هُوَ قَالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام قَالَتْ قُلْتُ وَ مَا لِمَنْ زَارَهُ قَالَ حِجَّةٌ وَ عُمْرَةٌ مَبْرُورَةٌ وَ مِنَ الْخَيْرِ كَذَا وَ كَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِيَدِهِ.
امّ سعيد احمسيّہ کہتی ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس بیٹھی تھی اور میں نے کسی کو گدھا کرائے پر لانے کے لیے بھیجا ہوا تھا کہ وہ مجھے شہداء کی قبور کی زیارت کے لیے لے جائے۔ امام نے فرمایا کہ کیا چیز مانع ہے کہ آپ سید الشہداء کی زیارت کے لیے نہیں جاتی؟ ام سعید کہتی ہے کہ میں نے پوچھا: سید الشہداء کون ہیں؟ امام نے فرمایا کہ وہ امام حسین(ع) ہیں۔ ام سعید نے کہا: امام حسین کی زیارت کرنے کا کیا ثواب ہے؟ امام نے فرمایا ایک مقبول حج و عمرے اور بہت سے نیک اعمال انجام دینے کا ثواب ملتا ہے۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص109، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،
روایت =21
حَدَّثَنِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ أَبَانٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُورَمَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْمُؤْمِنِ عَنِ ابْنِ مُسْكَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يَقُولُ عَجَباً لِأَقْوَامٍ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ شِيعَةٌ لَنَا وَ يُقَالُ إِنَّ أَحَدَهُمْ يَمُرُّ بِهِ دَهْرَهُ وَ لَا يَأْتِي قَبْرَ الْحُسَيْنِ عليه السلام جَفَاءً مِنْهُ و تَهَاوُناً وَ عَجْزاً وَ كَسَلًا تَهَاوَنَ وَ عَجَزَ وَ كَسِلَ أَمَا وَ اللَّهِ لَوْ يَعْلَمُ مَا فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ مَا تَهَاوَنَ وَ لَا كَسِلَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ مَا فِيهِ مِنَ الْفَضْلِ قَالَ فَضْلٌ وَ خَيْرٌ كَثِيرٌ أَمَا أَوَّلُ مَا يُصِيبُهُ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ مَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ وَ يُقَالَ لَهُ اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ۔
سلیمان بن خالد کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو اپنے آپ کو شیعہ کہتے ہیں اور زندگی میں ایک مرتبہ بھی امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے نہیں جاتے، یہ کیا جفاء اور سستی ہے اور وہ کتنے عاجز اور ناتواں ہیں کہ جو ایسا کرتے ہیں۔ خدا کی قسم اگر ان کو پتا ہوتا کہ امام حسین(ع) کی زیارت کا کیا اجر اور ثواب ہے تو ہر گز اس سستی اور ناتوانی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں، امام حسین کی زیارت کا کیا ثواب ہے؟ امام نے فرمایا: اس زیارت میں بہت ہی زیادہ خیر اور نیکی ہے، اس زیارت کا پہلا ثواب جو زائر کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور اس کو کہا جاتا ہے کہ اب اپنے اعمال کو ابتداء سے شروع کرو۔
ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص292، محقق: امينى، عبد الحسين، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية،