- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 16 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/06/14
- 0 رائ
مامون نے امام علی بن موسیٰ (ع) کو ولی عہدی (حلف برداری) کے لئے مجبور کیا تھا من جملہ یہ واقعہ امام ہشتم علی ابن موسیٰ الرضا(ع) کی زندگی کےاہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
پس منظر
خلافت و جانشینی کے لئے امین اور مامون کی آپس میں جنگ اور امین کی موت کے بعد، مامون اقتدار میں آیا۔ اس نے اپنی حکومت کو برقرار رکھنے اور جانشین مقرر کرنے میں خلفاء کی سنت پر پابند رہنے کے لیے ولیعہدی کے لیے اقدام کیا۔ لیکن ضروری تھا کہ اس کام کو انتہائی دقت اور ہوشیاری سے انجام دیں، اس اقدام کو دقیق اور سخت شرائط اور اس وقت کے ساتھ جس میں اپنے بھائی کے ساتھ مخالفت کرتا تھا اور اس پہلے کے دور کے ساتھ ھم آہنگ کیا، اس کے لئے آسان نہیں تھا کہ اپنے خاندان کے افراد اور والد کے بیٹوں میں جسے چاہے اس عہدے کو سپرد کر دیں، بلکہ اس راہ میں کوئی بھی قدم اٹھانا نا گزیر تھا۔
وہ اس راہ میں جو بھی قدم اٹھاتا ہے، اس کے مختلف پہلوؤں کا صحیح اندازہ لگاتا ھے۔[1] البتہ وہ معتقد نہیں تھا کہ خلافت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کے اولاد کا حق ہے اور حقدار کے حوالے کر دینا چاہیے بلکہ اس نے اپنی حکومت کی مضبوطی کی خاطر دکھاوے کے لیے ظاہر یہی کیا کہ حکومت ان کا حق ہے تو حقدار کے سپرد کردیا۔[2]
“مرو کے سفر کا آغاز”
سال 200 ھ.ق ، میں مامون نے علی بن موسی الرضا کو مرو آنے کے لیے ایک دعوت نامہ لکھااور اس نے رجاء ابن ابی ضحاک، فضل بن سہل کے چچا اور فرناس یا یاسر نامی ایک غلام کو بھی سفر میں ساتھ بھیجا۔[3]
دوسری طرف ایک شیعہ محدث شیخ صدوق کا بیان ہے کہ: مامون نے متعدد خطوط میں امام(ع) سے مرو کی طرف روانہ ہونے کی درخواست کی، اور امام(ع) نے مختلف بہانوں اور وجوہات سے اس درخواست کو رد کر دیا۔ اس انکار کی وجہ سے مامون امام(ع) کو زبردستی مرو لے آیا۔[4]
ابو الفرج اصفہانی، شیخ مفید، اور شیعہ محدثین کے دعوی میں عیسی جلودی امام(ع) کے ساتھ مرو تک سفر میں ہمراہ ہونا بیان ہوا ہے کہ یہ مسترد اور غلط ہے۔ کیونکہ اسی سال عیسیٰ جلودی نے مکہ میں محمد بن جعفر کی قیام کو سرکوب (بغاوت کو دبا دیا تھا) کر کے اسے اپنے ساتھ عراق لے گیا اور رجاء بن ابی ضحاک کے حوالے کر دیا۔ رجاء نے بھی ان دونوں کو خراسان لے گیا تھا[5] مادلونگ کے بیان کے مطابق یہ سفر 201 ھ.ق تقریباً 816م کے اواخر میں آغاز ھوا تھا۔[6] دقیق تاریخ کے مطابق یہ سفر 15 محرم سے آغاز اور مرو پہنچنے کے ساتھ 29 جمادی الثانی کو ختتام ھوا۔[7] یہ سفر ایران کی تاریخ کا سب سے اہم مذہبی واقعہ بن گیا۔[8]
“علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام مرو کی طرف سفر سے پہلے”
مرو کے سفر سے پہلے امام نے اس سفر پر راضی اور خوش نہ ھونے کے اظہار کے ساتھ رسول خدا(ص) کے روضہ مبارک پر آنسو بہاتے ہوئے الوداع کی، پھر شیعوں اور اپنے رشتہ داروں کو اس سفر کی نسبت عزاداری اور تعزیتی مجلس منعقد کرنے کا حکم دیا۔[9] [10]
ناجی اور باغیستانی کے بیان اور شیخ صدوق، محدث شیعہ سے منقول روایتوں کے مطابق امام(ع) نے پیشن گوئی کی تھی کہ ان کو جلاوطنی میں قتل کر دیا جائے گا اور ہارون کے پاس دفن ہوگا اور اپنے خاندان کے پاس کبھی واپس نہیں آئے گا۔ وہ اپنے کسی رشتہ دار کو اپنے ساتھ نہیں لے گئے یہاں تک کہ اپنے چھوٹے بیٹے جواد کو بھی نہیں لے گئے۔[11] [12] اور امام(ع) نے اپنے بعد امام محمد تقی(ع) کو اپنے جانشینی پر تاکید فرمائی۔[13]
امام ع کے همراہیوں میں پانچ گروہ تھے [14]
جن کا سردار ابن رجاء ابن ابی ضحاک اور اس کا معاون(نائب) فرناس تھا اور دوسرے کچھ افراد بھی قافلے کے عہدے دار تھے۔
جن شیعوں کو امام رضا(ع) کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی تھی: ان میں سب سے مشہور ابا صالت جو ایک فقیہ تھے اس سفر کے آخر تک بلکہ شہادت تک امام کا خاص خادم رھے تھے۔ نیز امام موسیٰ کاظم(ع) کے غلاموں میں سے ایک اور امام علی علیہ السلام کے غلام قنبر کی اولاد میں سے ایک شخص اس سفر میں قافلہ کے ساتھی تھا۔
اس سفر میں امام ع بن موسیٰ الرضا(ع) کے ساتھیوں کی پانچ جماعتیں تھیں(14) خاص گروہ جن کا سردار ابن رجاء ابن ابی ضحاک اور اس کا معاون(نائب) فرناس تھا اور دوسرے کچھ افراد بھی قافلے کے عہدے دار تھے۔ جن شیعوں کو امام رضا(ع) کے ساتھ جانے کی اجازت دی گئی تھی ان میں سب سے مشہور اباصلت ہے، جو ایک فقیہ تھے اور اس سفر کے اخر بلکہ امام (ع) کی شہادت کے دن تک ان کا خاص خادم رھے تھے۔ نیز امام موسیٰ کاظم(ع) کے غلاموں میں سے ایک اور امام علی علیہ السلام کے غلام قنبر کی اولاد میں سے ایک شخص اس سفر میں قافلہ کے ساتھی تھا۔
بنی ہاشم اور آل ابی طالب(ع) ان میں سے کچھ جو مامون کے حکم سے اس قافلے کے ساتھ لائے گئے تھے، اور امام سجاد کی اولاد میں سے ایک شخص علی ابن ابراہیم کے نام سے ذکر ہے۔
وہ حجاج جو حج کے بعد عراق یا ایران واپس آئے اور وہ گروہ جس کی منزل (ھدف/ مقصد) خراسان تھی۔ اس گروہ میں شیعہ اور غیر شیعہ نظر آئے چند لوگ جیسے فتح بن یزید جرجانی، مخول سجستانی موسیٰ بن سیار اور بلخ کا ایک شخص۔ کاروان کے ساربن، غلامان اور خدمت کاران جو کھانا پکانے، دھونے، جانوروں کی دیکھ بھال، لکڑی اور پانی لانے اور سامان خریدنے کے ذمہ دار تھے۔ ارشادِ شیخ مفید میں آیا ہے کہ امام علی بن موسیٰ الرضا(ع) کے مدینہ سے مرو جانے والے وفد کی سربراہ عیسیٰ جلودی تھا۔ البتہ خرائج اور الجرائح میں آیا ہے کہ رجاء بن ضحاک کو جو فضل بن سہل کا رشتہ دار تھا، اس کام پر مامور کیا گیا تھا۔ بیھقی نے اپنی تاریخ میں یاسر خادم کے رجاء بن ضحاک کے ھمراہ ھونا بھی ذکر کیا ہے۔ شیخ مفید کے بیان کے مطابق، امام (ع) کے ساتھ آل ابی طالب کے ایک گروہ کو بھی مرو بلایا گیا تھا۔[15]
علی بن موسیٰ الرضا کے مدینہ سے مرو تک کے راستے میں اختلاف
ذرائع نے مدینہ سے فارس تک کے سفر کا بیان کیا ہے، لیکن ان میں اختلاف ہے کہ یہ قافلہ فارس کے بعد کس راستے سے مرو پہنچا تھا۔ [16] اکثر ذرائع نے بصرہ، اہواز اور فارس کو مسیر حرکت کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ [17] بعض ایسی ذرائع
تاریخ میں اس کے راستے کو “مدینہ، بصرہ، ارجان، فارس، اصفہان، نیشابور، دیہ سرخ، سناباد، سرخس اور مرو” جانتے ہیں۔ [18] [19] اور بعض جیسے اعتماد السلطنہ ، اس کا راستہ “مدینہ منورہ سے بصرہ، اہواز، فارس، اصفہان، قم، ری، سمنان، دمغان، نیشابور، طوس، سرخس اور مرو” تک بیان کرتے ہیں۔
دوسری طرف مشہور ترین قول کے مطابق امام(ع) کے سفر کا راستہ “مدینہ، مکہ، قادسیہ، بصرہ، اھواز، بھبھان، اصطخر فارس، طبس، نیشابور اور مرو” ھے [20][21][22]
کتاب شیعہ اطلس میں جعفریان امام کے مرو کے سفر کا سب سے مشہور راستہ “مدینہ، نقرہ ، ھوسجہ، نباج، حفر ابو موسی، بصرہ، اھواز، بھبھان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشابور، قدمگاہ،دہ سرخ، طوس ، سرخس، مرو جانتے ہیں،[23]
مادلونگ معتقد ھے کہ امام(ع) کے بغداد اور کوفہ سے گزرنے کا کوئی احتمال نہیں ہے چونکہ اسوقت بغداد اور کوفہ شورشیوں کے ہاتھوں تھا اس بنا پر یعقوبی کا یہ بیان کہ رجاء نے بغداد اور نھاوند کا سفر کیا، رد ہے۔[24]
اس کے باوجود، بیھقی نے اما علی ابن موسیٰ الرضا(ع) کے بغداد میں چند دنوں کے قیام کے دوران طاہر بن حسین (فاتح بغداد )کے امام کا استقبال اور بیعت کو بیان کیا ہے۔[25] ایک اور راستہ جو بیان ھوا ھے “مدینہ، مکہ، نباج، بصرہ، اھواز، اربق (اربک)، ارجان (بھبھان)، ابرکوہ (ابرقوہ)، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، قدمگاہ نیشاپور ، دہ سرخ ، طوس ، سرخس اور مرو ” ھے [26] وہ راستہ جو امام (ع)کے اس سفر میں فارس سے نیشاپور بیان ھوا ھے اس میں فارس کو کرمان اور قھستان صوبے کے ذریعے نیشابور سے ملایا تھا۔ یہ راستہ تجارتی ارتباطات کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل تھا اور نیشابور کی بندرگاہ کو جو کہ مختلف علاقوں سے سامان لے کر جنوبی علاقوں اور خلیج فارس کے ساحلوں سے منسلک ہوتا تھا۔[27] کاروانیں اس میں چار ملکوں ایران ، عربستان ، اور عراق ترکمانستان گزرے ہیں [28]
“مرو میں داخل ہونے کے لئے اہواز سے گزرنا”
امام علی بن موسیٰ الرضا(ع) اہواز میں داخل ہونے کے بعد اھواز کے شہر رامھرمز اور شلمچہ سے گزرے۔ اہواز پہنچنے کے لیے قافلوں نے ساحل سے قارون (کارون) تک سفر طے کرتے ہوئے علی بن مہزیار کے مزار پر رک گئے ۔ قافلے کا اگلا راستہ رامھرمز بتایا گیا اور اس کے بعد وہ بھببان سے آٹھ کلومیٹر شمال میں ارجان کی طرف حرکت میں تھے۔
قافلہ ساسانی پل (جو دریائے مارون کے اوپر واقع تھا) کو عبور کرنے کے بعد ، دریائے اتراق کے مشرقی ساحل پر آکر رکا، اس جگہ امام (ع) کے لئے ایک قدم گاہ بیان ھوا ھے، ارجان سے ابرکوہ کے قدیم شہر تک قافلے کی حرکت کے بارے میں کوئی مستند نشانی یا تاریخی اطلاع موجود نہیں ہے اور نہ ہی شیراز سے قافلے کے گزرنے کے بارے میں کوئ اطلاع ہے۔ یہ قافلہ وادی مارون کے غیر معمولی راستے سے تل خسرو (یاسوج) کی طرف رواں دواں تھا ، اور اقلید سے گزر کر ابرکوہ کے صحرائی علاقے میں داخل ہوا۔ راستے پر متعدد امام زادوں کی موجودگی اس راستے کے بارے میں بیان کو تقویت دیتا ہے (درست ثابت کرتی ہے)۔ بیان ھوا ھے کہ امام منطقہ یاسوج کے بعد یزد کے علاقے میں داخل ہوئے۔ ابرکوہ شہر، جو یزد کی سڑک پر واقع ہے، وہاں سے بھی امام گزرے تھے، ایک قدمگاہ امام(ع) سے منسوب وہاں موجود ہے۔ اس کے بعد کاروان کا تاریخی گاؤں توران سے گزرنے کے بارے میں بھی آیا ہے جو تفت شہر سے 60 کلومیٹر دور واقع ہے۔ خرانق شہر میں بھی ایک مقبرہ ہے آرامگاہ بابا خادم کے نام سے مشہور ہے۔ بابا خادم کے خادموں میں سے ایک تھے۔ صحرائے طبس کو عبور کرنے کے بعد یہ قافلہ پہاڑی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ طبس کے علاقے جوخواہ میں امام زادے حسین ہیں جو امام کے بھائیوں میں سے ایک ہیں۔ اس کے بعد قافلہ خراسان میں داخل ہوا اور نیشاپور خراسان کے قافلے کا مشہور ترین قیام گاہ (توقف گاہ) شمار ہوتا تھا نیشاپور کے بعد دہ سرخ اس قافلے کے قیام گاہ ( توقف گاہ) کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے ، قافلہ سناباد سے گزرنے کے بعد حمید ابن قحطبہ کے باغ میں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرا، اس کے بعد ایک توقف خواجہ ربیع کی زیارت کے لئے بتایا گیا ہے، اور مرو کی طرف اسی طرح سفر جاری رھا تھا۔[29]
“قم سے گزرنا یا نہ گزرنا”
اس بارے میں اختلاف ہے کہ امام اس کل سفر ( پورے سفر) کے دوران قم سےبھی گزرے تھے یا نہیں۔[30] مادلونگ معتقد ھے کہ اس شہر (قم) سے امام(ع) کا نہیں گزرنا قطعی اور یقینی ہے۔[31] اس کے باوجود اس شہر سے امام (ع) کے اس سے گزرنے کے بہت سے نشانیاں زکر ہوا ہے اس سلسلے میں محمد ابن بابویہ بیان کرتے ہیں کہ مامون نے حکم دیا تھا کہ امام(ع) قم اور کوفہ سے نہ گزریں۔ ابوالفراج اصفہانی اس سے ملتی جلتی بیان لے آتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ مامون نے علی بن موسیٰ الرضا کو بصرہ کے راستے خراسان لانے کا حکم دیا۔ ان اطلاعات کی وجہ سے بعض محققین نے اس قافلے کا قم سے گزرنا ناممکن (احتمال نہیں ھونا) سمجھا ہے۔ ابو اسحاق ابراھیم بن محمد ثقفی کوفی لکھتے ہیں کہ بغداد میں داخل ہونے کے بعد علی بن موسیٰ الرضا(ع) کو بغداد میں داخل ھونے کے بعد “ماہ بصرہ” کے راستے خراسان لے جایا گیا۔
یہ اس وقت ھے جب “ماہ بصرہ” ھمدان، نھاوند، اور قم پہ اطلاق ہو، اسی طرح سید سید عبد الکریم بن طاؤس بھی نقل کرتے ہیں کہ امام علی بن موسیٰ الرضا(ع) کو بصرہ لے جایا گیا اور وہاں سے وہ کوفہ میں داخل نہیں ہوئے اور پھر بغداد میں داخل ہوئے اور وہاں سے قم کی طرف گئے۔ سید ابن طاووس کا بیان ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی قم میں آمد پر قم کے لوگوں کے جوش و خروش استقبال کے ساتھ ہوئے یہاں تک کہ لوگ ان کے انکے مہمانی(پزیرائی) کے لئے جھگڑنے لگے۔ حتی امام(ع) نے فیصلہ اپنے اونٹ پر چھوڑا کہ وہ جہاں بھی بیٹھے وہاں ٹھہرنے کے لیے جگہ کا انتخاب کرے گا ۔ اونٹ ایک گھر کے سامنے بیٹھا جہاں بعد میں مدرسہ رضویہ کے نام سے تاسیس ھوئی ۔[32] ایک روایت کے مطابق وہ گھر بعد میں مسجد بنی جو آج مسجد شاہ خراسان کے نام سے مشہور ہے امام (ع) ایک روایت کے مطابق اس 18 روز اس میں رہے۔[33] اسی طرح امام (ع) نے اسی گھر کے کنویں/ چشمے سے پانی نوش فرمائے اور غسل و وضو کئے ھیں، روایات نقل ھوا ھے کہ اس مدرسے اور شاہ خراسان نامی محلے کا وجود قم میں امام علی بن موسی الرضا (ع) کی موجودگی پر اعتقاد کا ایک دلیل ہے اسی سلسلے میں علامہ حلی اور شیخ عباس قمی نے امام (ع) کے قم میں تشریف فرما ( موجودگی) پر مسلم قلمبندی کئیے ھیں۔[34] اھوان اور سمنان میں امام کی قدمگاہ کا وجود بھی اس کے لئے دلیل ہے۔ احتمالا یہ قول بھی پہلی بار سید ابن طاؤوس نے بیان کیا ہے کہ کویر مرکزی ایران مثلاً یزد ، نائین میں امام سے منسوب متعدد قدمگاہ کا وجود سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے [35]
“سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات “
بیہقی کے بیان کے مطابق جب یہ قافلہ بغداد پہنچے تو طاہر بن حسین قافلے کے استقبال کے لیے گئے اور ایک مدت بغداد میں پزیرائی (مہمانی) کی۔ اسی طرح یہ بھی بیان ھوا ہے کہ مامون کا ایک خط طاہر تک پہنچا جو قافلہ والوں کے قیام کے ایک ہفتہ بعد بغداد پہنچا۔ اس خط میں مامون نے طاہر بن حسین کو امام(ع) کی بیعت کرنے کا پابند کیا۔ طاہر نے بھی رات کو امام(ع) کی بیعت کی۔ بیہقی کا بیان ہے کہ طاہر نے اپنے بائیں ہاتھ سے امام(ع) کی بیعت کی جب امام(ع) نے اس عمل کی وجہ پوچھی تو جواب دیا کہ اس کا دایاں ہاتھ مامون کے بیعت سے گروی ہے۔ امام(ع) نے اس تعبیر کو پسند کیا (خوش ھوئے)۔ فرحةالغری میں آیا ہے کہ جب اس واقعہ کی خبر مامون تک پہنچی تو اس نے طاہر کے بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ کا لقب دیا اور اسے ذولیمینین (دو داہنے ہاتھ کے مالک) کہا۔[36] اس کے علاوہ جو واقعات بغداد میں پیش آیا ہے الکرخی کی وفات ہے اس کے موت کا سال 200 یا 201 بتایا گیا ہے اور ابوعبدالرحمٰن محمد بن حسین بن موسیٰ سلمی کی کتاب طبقات الصوفیہ میں بیان کیا گیا ہے۔ کرخی کی موت امام علی بن موسیٰ الرضا(ع) کے گھر کے سامنے شیعوں کے ہجوم میں پسلی ٹوٹنے سے ہوئی۔ جب کہ اس بیان میں مشہور الکرخی امام علی بن موسیٰ الرضا(ع) کا دربان بتایا گیا ہے۔[37] اسی طرح اھواز میں امام(ع) کا بیمار ھونا بھی ذکر ھوا ھے سفر کے دیگر اہم واقعات میں نیشاپور کے لوگوں کی طرف سے امام رضا(ع) کا استقبال، حدیث سلسلۃ الذہب کو بیان کرنا اور اہل مرو کا استقبال شامل ہے [38]
قدم گاہیں
دھخدا (لغت) قدم گاہ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پیغمبر، امام یا کسی اور ولی کا پاؤں پہنچ گیا ہو، یا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پیغمبر یا امام کے پاؤں کا نشان جو پتھر وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے[39] مدینہ اور مرو راستوں کے بھیج (درمیان) خاص طور پر ایران کے علاقوں میں، وہ ایسی قدم گاہوں کو امام(ع) سے منسوب کرتے ہیں، جن کا عام طور پر علاقے کے لوگ احترام کرتے ہیں اور وہ لوگ جو علی بن موسیٰ سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ان میں سے ایک سب سے مشہور قدم گاہ نیشابور شہر سے 26 کلومیٹر دور واقع ہے۔[40]
اس کے علاوہ دوسرے قدم گاہوں میں صوبہ یزد کے گاؤں فراشاہ (یزدکا راستہ- ابرکوہ) میں “فراشاہ قدم گاہ” یا دہ شیر ہیں، جو تفت سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،[41] “قدم گاہ امام رضا(ع)” بہبہان میں، ” قدم گاہ ابرقوہ ” ابرکوہ میں۔ اور “قدم گاہ خرانق” مشھدک (ایک جگہ یزد شہر سے 60 کلومیٹر میں) کی طرف اشارہ کیا ہے[42] جعفریان نے ایران میں امام علی ابن موسی(ع) کے قدم گاہوں کے ذکر کرتے ہوئے چند اور موارد کے طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے: اہواز میں “مسجد امام رضا (ع)”، شوشتر پل کے سامنے “قدم گاہ امام رضا (ع)”، شوشتر میں دریائے شطیط کے کنارے میں، دو قدم گاہ “شاخراسون” نام سے دزفول اور شوشتر میں “علی بن موسیٰ چوک”، دیزفل اور شوشتر میں، قدم گاہ” امام ضامن(ع) شوشتر میں اور قدم گاہ” امام رضا(ع)” شوشتر کے جنوبی علاقہ کھنک شوشتر میں، مسجد فرط یا پتک “صومعہ امام رضا(ع) کے نام سے مشہور یزد میں، محلی مالمیر یزد میں “مسجد قدم گاہ” بافران نائین کے گاؤں میں ” موم رضا” نائین میں ” مسجد قدیمان” نیشاپور میں “حمام رضا” [43] امام رضا (ع) سے منسوب ایک قدم گاہ حاشیہ میں دریائے مارون میں “صاحب بنای کوچک است ” لکھا ھوا ھے[44]
“قدم گاہ (مقام قدم مبارک امام ھشتم) علی ابن موسیٰ الرضا (ع)”
“شکاری اور ہرن کی کہانی”:
“ضامن آہو (ع)”
امام علی ابن موسی الرضا(ع) کی ہرن کی ضمانت کے بارے میں ایک مشہور کہانی تمام لوگوں کے نزدیک مشہور ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک دن ایک شکاری صحرا میں ایک ہرن کا پیچھا کرتا ہے۔ اس حادثے کی وجہ سے، ہرن نے امام (ع)- اسوقت روایت کے مطابق امام(ع) صحرائے سمنان(اسی علاقے) تشریف فرما تھے- سے پناہ لی امام(ع) ہرن کو آزاد کرنے کے لیے شکاری کو کچھ رقم دینے کو تیار ہے، لیکن شکاری نہیں مانتا۔ اس وقت ہرن بولا اور امام(ع) سے کہا کہ میرے دو شیر خوار بچے ہیں وہ بھوکے اور راستے پہ نظریں ھیں(منتظر)۔ آپ مجھے اپنے گھونسلے میں جانے اور انکو دودھ دے کر واپس آنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ امام (ع) بھی ہرن کی ضمانت دیتا ہے اور ہرن وہاں سے چلی جاتی ہے اور کچھ دیر بعد واپس آتی ہے۔ ہرن کی وفاداری دیکھ کر شکاری بدل گیا اور اس ہرن کو آزاد کر دیا تھا۔[45] صوبہ سمنان میں سمنان اور دامغان کے شہروں کے درمیان ایک علاقہ ” اھوان” کے نام سے مشہور ہے اور بعض کے نزدیک یہ واقعہ جس جگہ پیش آیا وہی علاقہ ہے۔[46] البتہ یہ داستان امام علی ابن موسیٰ الرضا(ع) کی پیدائش سے ایک یا دو صدیاں پہلے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لیے استعمال ہوا تھا۔ طبرسی نےاعلام الوری میں بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ سے گزر رہے تھے
اس وقت ایک پھنسی ہوئی ہرن تھی ، آپ سے شکایت کی، اس نے کہا: یا رسول اللہ، میرے پاس ایک بچہ ہے جسے میرے دودھ کی ضرورت ہے، میں اب اس مویشیوں میں پھنس گیا ہوں اور میرا بچہ بھوکا رہ گیا ھے یہ کہ مجھے اس مویشیوں کی بھیڑ سے آزاد کر دیں تاکہ میں اپنے بچے کو دودھ پلا سکوں۔ رسول نے فرمایا: میں تمہیں کیسے آزاد کروں جبکہ کا مالک یہاں نہیں ہے، ہرن نے کہا: آپ مجھے رہا کریں میں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے بعد واپس آؤں گی اسی شرط پر رسول اللہ(ص) نے ان کو آزاد فرمایا اور خود وہیں ٹھہرے یہاں تک کہ ہرن واپس آگئی، مویشیوں کا مالک بھی پہنچ گیا، رسول نے ہرن کی شفاعت کی، شکاری نے بھی اسے چھوڑ دیا، اس واقعہ کے بعد لوگوں نے اس جگہ مسجد بنائی۔[47]
“خراسان میں ورود (داخل)”
نیشابور میں داخل
نیشابور، صوبہ خراسان کا پہلا شہر ہے جس میں امام ھشتم علی بن موسیٰ الرضا(ع) داخل ہوئے تھے۔ [48] امام(ع) نیشاپور کے راستے سے گزرے ھے کہ اہل سنت کے بعض برجستہ محدثین مانند ابن راھویہ، یحییٰ بن یحییٰ، محمد بن رافع اور احمد بن حرب امام(ع) کے استقبال کے لئے آئے تاکہ دیدار کرے اور وہ ایک چھوٹی مدت کے لیے اس شہر میں رہے [49] اس وقت کے دو عظیم علماء ابو زرعہ اور محمد بن اسلم طوسی بھی استقبال کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان دونوں نے شہر کے لوگوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے امام(ع) سے چاہا کہ وہ ان کے لیے ایک حدیث سنائیں۔ [50] نیشاپور کی تاریخ میں آیا ہے کہ لوگ امام(ع) شہر میں موجودگی سے باخبر ھوئے تو سارے ان کے استقبال کے لیے چلے گئے۔ ابو یعقوب اسحاق بن راہویہ مروزی، نیشابور شہر کے بڑے طور پر، نیشابور شہر سے نکل کر قافلے کے استقبال کے لیے مویدہ گاؤں گئے۔ بڑھاپے کے باوجود اس نے ذاتی طور پر امام (ع) کے اونٹ کی مہار سنبھالی اور پیدل ہی شہر آئے۔ جیسے ہی امام(ع) نیشابور پہنچے محلہ قاز اور بلاس آباد گلی میں اترے۔[51]
“حدیث سلسلة الذهب”
شیعیان بہت سی احادیث ان سے منسوب کرتے ہیں جن میں سے ایک مشہور ترین حدیث ،حدیث قدسی میں سے ایک حدیث سلسلۃ الذہب کے نام سے ہے یہ حدیث نیشابور والوں کو الوداع کہتے وقت روایت کی اور لکھی گئی اور بہار الانوار میں آیت اللہ مجلسی کے نقل کے مطابق چار ہزار اہل قلم امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے کلمات لکھنے کے لیے تیار تھے-[52] اور نیشاپور میں حدیث سلسلۃ الذہب کو لکھنے، لکھوانے اور سننے، سنانے کا ایک فضا چھا گیا[53] اس میں اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث نیشابور میں داخل ہوتے وقت لکھی گئی تھی یا نیشابور سے طوس کی طرف نکلتے وقت کہی گئی تھی۔[54]
حدیث کا متن مندرجہ ذیل ہیں [55][56][57]
«حَدَّثَنِی أَبِی الْعَبْدُ الصَّالِحُ مُوسَی بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی الْبَاقِرُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ باقر علوم الأنبیاء قَالَ حَدَّثَنِی أَبِیَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ سَیِّدُ الْعَابِدِین قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی سَیِّدُ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّهِ الْحُسَیْنُ قَالَ حَدَّثَنِی أَبِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ علیهم السلام، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی الله علیه و آله و سلم یَقُولُ سَمِعْتُ جَبْرَئِیلَ یَقُولُ قال الله جل جلاله: إِنِّی أَنَا اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا أَنَا، فَاعْبُدُونِی مَنْ جَاءَ مِنْکُمْ بِشَهَادَهِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ بِالْإِخْلَاصِ دَخَلَ فِی حِصْنِی وَ مَنْ دَخَلَ فی حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی»
“ترجمہ”:
میرے والد موسیٰ کاظم (ع) نے اپنے والد جعفر صادق (ع) سے اپنے والد محمد باقر (ع) سے اپنے والد علی زین العابدین (ع) سے اپنے والد حسین شہید کربلا (ع) سے اپنے والد علی بن ابی طالب (ع) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا: میرے معزز اور آنکھوں کا نور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے حدیث بیان کی اور فرمایا: میں نے رب العزت کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کلمہ “اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں” میرا مضبوط قلعہ ہے۔ پس جو اس میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔”
امام علی بن موسیٰ الرضا(ع) چند قدم آگے بڑھے اور پھر پیچھے مڑے اور فرمایا کہ:[58][59][60]
«بِشُروطِها وَ أنَا مِن شُروطِها» ترجمہ:
” شرط و شروط پر! اور میں اس کی شرائط میں سے ایک ہوں۔”
………………………………
حواله جات
۱- فضلالله، تحلیلی از زندگانی امام رضا، ۱۰۷.
۲- ترکمنی آذر، تاریخ سیاسی شیعیان اثنی عشری در ایران، ۸۹. Madelung, “ʿAlī Al-Reżā”, Iranica.
۳- مرتضوی، ولایت عهدی امام رضا علیه السلام، ۶۶–۶۷. Madelung, “ʿAlī Al-Reżā”, Iranica.
۴- سعیدزاده، «آفتاب مرو»، پیام زن.
۵- مولائی و پیربابایی، «طراحی شهری و منطقه ای زمینه گرا در مسیر سفر امام رضا»، فرهنگ رضوی.
۶- جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمه، ۴۳۷.
۷- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام.
۸- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام
۹- ناجی و باغستانی، «الرضا، امام»، دانشنامهٔ جهان اسلام.
۱۰- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام
۱۱- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام.
۱۲- انصاری، گزارش لحظه به لحظه از سفر امام رضا علیهالسلام به ایران، ۴۴–۴۵.
۱۳- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام ثنایی و غفرانی، «راههای ایالات غرب خراسان به سوی نیشابور»، تاریخ و فرهنگ. Madelung, “ʿAlī Al-Reżā”, Iranica
۱۴- ناجی، «رضا، امام»، دانشنامه جهان اسلام.
۱۵- عرفانمنش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۱۲.
۱۶- ناجی، «رضا، امام»، دانشنامه جهان اسلام.
۱۷- ناجی، «رضا، امام»، دانشنامه جهان اسلام.
۱۸- عرفانمنش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۶.
۱۹- رک: ولایتی، خراسان در آستانه سفر امام رضا ع، ۱۱۸.
۲۰- جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمه، ۴۶۰. Madelung, “ʿAlī Al-Reżā”, Iranica.
۲۱- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام.
۲۲- سید کباری، «هجرت امام رضا به ایران»، فرهنگ کوثر.
۲۳- ثنایی و غفرانی، «راههای ایالات غرب خراسان به سوی نیشابور»، تاریخ و فرهنگ.
۲۴- مولائی و پیربابایی، «طراحی شهری و منطقه ای زمینه گرا در مسیر سفر امام رضا»، فرهنگ رضوی.
۲۵- فقیهی، «ورود امام رضا(ع) به قم»، فرهنگ کوثر. Madelung, “ʿAlī Al-Reżā”, Iranica.
۲۶- فقیهی، «ورود امام رضا(ع) به قم»، فرهنگ کوثر.
۲۷- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام
۲۸- فقیهی، «ورود امام رضا(ع) به قم»، فرهنگ کوثر.
۲۹- ثنایی و غفرانی، «راههای ایالات غرب خراسان به سوی نیشابور»، تاریخ و فرهنگ.
۳۰- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام
۳۱- طهرانی، معروف الکرخی، ۵۵۳ و ۲۴۹.
۳۲- سیدکباری، «هجرت امام رضا به ایران»، فرهنگ کوثر.
۳۳- دهخدا، ذیل کلمه قدمگاه عرفانمنش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۳۳.
۳۴- خبرگزاری رضوی، قدمگاه فراشاه.
۳۵- علی جلیلی، جغرافیای سفر امام رضا.
۳۶- ثنایی و غفرانی، «راههای ایالات غرب خراسان به سوی نیشابور»، تاریخ و فرهنگ.مولائی و پیربابایی، «طراحی شهری و منطقه ای زمینه گرا در مسیر سفر امام رضا»، فرهنگ رضوی.
۳۷- ثنایی و غفرانی، «راههای ایالات غرب خراسان به سوی نیشابور»، تاریخ و فرهنگ.مولائی و پیربابایی، «طراحی شهری و منطقه ای زمینه گرا در مسیر سفر امام رضا»، فرهنگ رضوی.
۳۸- جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمه، ۴۶۴–۴۶۹.
۳۹- مولائی و پیربابایی، «طراحی شهری و منطقه ای زمینه گرا در مسیر سفر امام رضا»، فرهنگ رضوی.
۴۰- میرآقایی، ضامن آهو و تجلی آن در شعر فارسی، ۱۱.
۴۱- میرآقایی، ضامن آهو و تجلی آن در شعر فارسی، ۱۲.
۴۲- طبرسی ترجمه عطاردی قوچانی، زندگانی چهارده معصوم (ترجمه اعلام الوری)، ۳۶.
۴۳- عرفان منش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۲۲. Madelung, “ʿAlī Al-Reżā”, Iranica.
۴۴- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام.
۴۵- عرفان منش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۲۹-۱۳۰.
۴۶- خرازی، زندگانی چهارده معصوم، ۴۱۵.
۴۷- میلانی، قادتنا کیف نعرفهم، ۴: ۲۵۰–۲۵۱.
۴۸- عرفانمنش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۳۰.
۴۹- خرازی، زندگانی چهارده معصوم، ۴۱۵.
۵۰- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام
۵۱- عرفانمنش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۲۷
۵۲- خرازی، زندگانی چهارده معصوم، ۴۱۵.
۵۳- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام.
۵۴- عرفان منش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۲۸.
۵۵- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام
۵۶- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام
۵۷- خرازی، زندگانی چهارده معصوم، ۴۱۵.
۵۸- عرفان منش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۲۴.
۵۹- الهامی، «تشیع در گذرگاه تاریخ»، درسهایی از مکتب اسلام.
۶۰- عرفانمنش، جغرافیای تاریخی هجرت امام رضا، ۱۳۰-۱۳۱. صدوق، عیون اخبارالرضا، ۱۳۶.