- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
امام رضا (ع) کی نگاہ میں کام کرنے کی اہمیت
پیغمبراکرم اور اهل بیت , تاریخ اور سیرت , منتخب احــادیث , حضرت امـام رضـا(ع)- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/05/19
- 0 رائ
کسب معاش کی کوشش انسانی شخصیت کو نکھارنے میں مثبت کردار کے علاوہ معاشرے کی ترقی اور پیشرفت کا باعث بنتی ہے۔ اور اسے کسی بھی معاشرے کے معاشی نظام کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ انسان ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی وجودی صلاحیتوں کو بڑھانے اور ترقی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آیات و روایات کی روشنی میں یہ ترقی اور فضیل، مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس مقالہ میں “کام کرنے کی اہمیت امام رضا (ع) کی نگاہ میں کیا تھی” ہم اس سلسلہ میں قرآنی آیات اور ائمہ معصومین (ع) کی روایات کو پیش کریں گے۔ تاکہ ہم خداوند کریم اورائمہ معصومین علیھم السلام کے فرامین پر عمل پیرا ہوکر صحیح طریقہ سے کام کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بناسکیں۔
معصومین (ع) کی سیرت اور رزق و روزی کی تلاش
ہمارے انبیاء کرام اور ائمہ معصومین (ع) نے نہ صرف لوگوں کو معاشی کوششوں کی دعوت دی بلکہ وہ خود بھی ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں جیسے: زراعت، زرہ بُنائی وغیرہ میں مشغول رہتے تھے۔ ہم، معصومین (ع) کی زندگیوں سے یہ سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار اور بقدر ضرورت استعمال، امام رضا (ع) سمیت تمام ائمہ معصومین (ع) کی اقتصادی سرگرمیاں تھیں جو کہ تمام لوگوں کے لئے ایک ثقافت اور تعلیم کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہم یہاں مختصر طور پر مختلف اقتصادی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
اسباط بن سالم کہتے ہیں: ایک دن مجھے امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا تو، انہوں نے عمر بن مسلم کے سلسلہ میں پوچھا کہ وہ آج کل کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: وہ ٹھیک ہیں، لیکن اب وہ کاروبار نہیں کرتے؟ امام (ع) نے فرمایا: تجارت چھوڑنا شیطان کا کام ہے۔ انہوں نے یہ جملہ تین بار دہرایا- پھر امام (ع) نے اس کے آگے فرمایا: رسول خدا (ص)، شام سے آنے والے قافلے کے ساتھ تجارت کرتے تھے۔ اور اس کاروبار میں آمدنی کے ایک حصے سے انہوں نے اپنا قرض ادا کیا اور دوسرا حصہ خاندان کے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا۔
امام (ع) نے مزید فرمایا: خداوند عالم تلاش و کوشش اور پرہیزگار تاجروں کے بارے میں فرماتا ہے۔ “رِجالٌ لا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَ لا بَیعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَ إِقامِ الصّلاةِ وَ إِیتاءِ الزّكاةِ”[1] ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتیں۔
پھر امام (ع) نے فرمایا: وہ ایک ایسا گروہ تھا جو کہ کاروبار کیا کرتا تھا اور جب نماز کا وقت ہوتا تو وہ لوگ نماز میں مشغول ہوجاتے تھے، اور یہ بہت بہتر ہے کہ لوگ کاروبار کو چھوڑ کر نماز کے وقت نماز کو ادا کریں۔
اہل سنت کی کتابوں میں یہ بھی تحریر ہے کہ رسول خدا (ص) جانوروں کے گلوں کو چرایا کرتےتھے اور امام (ع) نے نیز فرمایا کہ جناب موسیٰ (ع) کو اس وقت پیغمبری عطا کی گئی جب وہ چوپانی کررہے تھے اور اسی طریقہ سے جناب داؤد (ع) کو بھی جبکہ وہ چوپانی کررہے تھے نبوت عطا کی گئی اور مجھے بھی اس وقت امامت کے لئے انتخاب کیا گیا جب میں “اجیاد” کے علاقہ میں چوپانی کررہا تھا۔
کتاب ارشاد القلوب کے مصنف کے مطابق، امیر المومنین حضرت علی (ع) نے اپنے ہاتھوں سے کام کیا اور خدا کی راہ میں جھاد کیا، اور رسول اللہ (ص) کی زندگی میں، خدا کی راہ میں ایک جہاد کیا۔ اور آپ ہمیشہ زراعت کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔ اپنی کوششوں کے نتیجے میں آپ نے ایک ہزار غلاموں کو آزاد کرایا۔ اور امام علی (ع) نے اپنے دست مباک سے زراعت کے لئے آمادہ کیا، اور رسول خدا (ص) نے بارہا کھجور درخت لگائے اور آپ کے دست مبارک کی برکت سے اسی وقت اس پر برگ وگل آجاتے تھے۔[2] حضرت امام علی (ع) نے ہمیشہ تلاش وکوشش کی اور انہوں نے صرف مالی مسائل کو حل کرنے کیے لئے ہی کام نہیں کیا بلکہ جب انہیں دولت وثروت کی ضرورت نہیں تھی تب بھی انہوں نے کام نہیں چھوڑا۔ اور حضرت امام علی (ع) سخت گرمی میں بھی تلاش وکشش کر رتے تھے جس کی انہیں ضرورت نہیں تھی۔ اور وہ چاہتےتھے ان کا خدا انہیں حلال رزق کی تلاش میں کام کرتا دیکھے۔
امام رضا (ع) کی سیرت میں کام کرنے کی اہمیت
امام علی رضا (ع) فرماتے ہیں: ”اپنے اہل وعیال کے لئے کام کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی طرح ہے، یہ وہ شرف ہے جسے انسان کسب کرتا ہے اور یہ ایسی کوشش ہے جس پر انسان فخر کرتا ہے”۔[3]
امام علی رضا (ع) سے، سب سے اچھے لوگوں اور سب سے نیک لوگوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو امام علی رضا (ع) نے فرمایا: ”وہ لوگ جب اچھے کام انجام دیتے ہیں تو ان کو بشارت دی جاتی ہے ،جب ان سے برے کام ہوجاتے ہیں تو وہ استغفار کرتے ہیں،جب ان کو عطا کیا جاتا ہے تو وہ شکر ادا کرتے ہیں اورجب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں۔[4] یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جب انسان میں اچھے صفات آجاتے ہیں تو اس کا شمار افضل اور نیک لوگوں میں ہوتا ہے اور وہ کمال کی آخری منزل پر ہوتا ہے۔
کتاب “فقہ الرضا” (جو آپؑ کی طرف منسوب ہے) اس میں ارشاد فرماتے ہیں۔
“من باع أو اشترى فليحفظ خمس خصال، وإلا فلا يبيع ولا يشتري: الربا، والحلف، وكتمان العيب، والمدح إذا باع، والذم إذا اشترى”[5]
جو شخص بھی کاروبار کرے اسے پانچ چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے، یا پھر کاروبار نہ کرے: سود، قسم کھانا، عیب کو چھپانا، بیچتے وقت مال کی تعریف کرنا اور خریدتے وقت مال کے بارے میں برا کہنا۔
امام علی رضا (ع) فرماتے ہیں: “اذا كُنتَ في تِجارَتِكَ و حَضَرَتِ الصّلاةُ فلا يَشغَلْكَ عنها مَتْجَرُكَ، فإنَّ اللّه َوَصفَ قَوما و مدَحَهُم فقالَ : “رِجالٌ لا تُلهيهم تِجارَةٌ وَ لاَ بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّه وَ إِقامِ الصَّلاَةِ وَ إِيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْما تَتَقَلَّبُ فِيهِ القُلُوبُ وَ الْأَبْصار[6] “وكـانَ هؤلاءِ القَـومُ يَتَّجِـرونَ، فإذا حَضَرَتِ الصّلاةُ تَرَكوا تِجارَتَهُم و قاموا إلى صَلاتِهِم، و كانوا أعظَمَ أجْرا مِمَّن لا يَتَّجِرُ فيُصَلّي”[7]
جب تم کمائی میں مصروف ہو اور نماز کا وقت ہو جائے تو تمہارا کاروبار تمہیں نماز پڑھنے سے نہ روکے، کیونکہ خدا نے ایک قوم کی تعریف وتمجید کی ہے کہ “ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت، ذکر خدا اور قیام نماز اور ادائیگی زکوۃ سے غافل نہیں کرتیں وہ اس دن سے خوف کھاتے ہیں جس میں قلب و نظر منقلب ہوجاتے ہیں۔” اور یہ وہ قوم ہے جو تجارت میں مصروف رہتی تھی اور جب نماز کا وقت آتا تو اپنی تجارت کو چھوڑ کر نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور ان کا اجر اس بہت عظیم ہے جو نماز کے وقت کاروبار کو چھوڑ کر نماز کو اول وقت بجالائیں”۔
اسی طرح دوسری جگہ پر امام رضا (ع) ارشاد فرماتے ہیں:
“الَّذِي يَطْلُبُ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَهُ أَعْظَمُ أَجْراً مِنَ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ”[8]
جو شخص اپنے اہل و عیال کے لئے معاشی سرگرمیاں اختیار کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی زندگی کو، اپنے اہل و عیال اور جو لوگ اس کے نقفہ میں ہے ان کے لئے زرق کی تلاش کرتا ہے اس شخص کے کام کا اجر و ثواب اس مجاہد سے زیادہ ہے جو خدا کی راہ میں جھاد کرتا ہے۔
امام علی رضا (ع) نے “مَا يَكُفُّ بِهِ عِيَالَه” کی تشریح کی ہے، جس کا مطلب ہے خود کفیل ہونا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا اور معاش میں خود مختار ہونا، اپنی روزی کا انتظام کرنے کے لئے کی جانے والی کوشش قابل قدر واجر ثواب ہے۔
امام علی رضا (ع) کے مالی وسائل
امام علی رضا (ع) کے پاس “خاخ” کی زمینوں میں زرعی پیداوار کا کام تھا۔ جو امام باقر (ع) نے خریدی تھیں اور ان کو وراثت میں ملی تھیں، مدینہ کے اطراف کی اراضی میں نیز ان کے پاس “صریا” کی سرزمین میں مکانات اور کھیت تھے جو اب تقریباً مدینہ سے متصل ہے اور یہ معلومات مستند روایات کی بنا پر حاصل کی گئی ہیں اور اس کے علاوہ “عزیز” “خاخ” اور “صریا” کی زمینوں کے علاوہ اور دوسری زمینیں جو پیغمبر اکرم (ص) حضرت فاطمہ زھرا (س) اور حضرت امام علی (ع) کی وصیت کے مطابق ان کے بعد ائمہ معصومین (ع) بشمول امام رضا (ع) کے اختیار میں تھیں۔
سلیمان بن جعفر، جو امام علی رضا (ع) کے اصحاب میں سے تھے وہ کہتے ہیں: “کنْتُ مَعَ الرِّضَا (ع) فِی بَعْضِ الْحَاجَة“ [9] میں امام علی رضا (ع) کے ساتھ ان کی بعض ضرورتوں میں موجود تھا۔ مذکورہ بالا تشریح، ایک عمومی تشریح ہے کہ میں امام علی رضا (ع) کے ساتھ ان کی کچھ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ان کے ساتھ تھا اور ہم کام کی تلاش میں تھے۔ اب یہ کام زراعت ہو یا تجارت ہو یا کوئی اور کام؛ اس عمومی تشریح میں یہ تمام امکانات شامل ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ امام علی رضا (ع) کی آمدنی کا کچھ حصہ دوسرے ائمہ (ع) کی طرح روز مرہ کے کام اور کوششوں پر مبنی تھا اور آپ یہ کام خود کفائی اور معاشی استقلال کے لئے انجام دیتے تھے۔
امام رضا (ع) کی تعلیمات میں کاروبار کے آداب
اسلامی آیڈیا لوجی میں معنویات کی طرف بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے اور ایسے ہی کاروبار کے سلسلہ میں بھی روشنی ڈالی گئی ہے، کاروبار کے سلسلہ میں ایسی فعالیت ہرگز نہیں انجام دینی چاہئے جو رزق و روزی کے حصول کے لئے انسان کی اخلاقی اقدار کو قدموں کے نیچے روند دیں۔ اسی بنا پر اس حصے میں، ایسے عوامل ذکر کئے گئے ہیں جو احکام کے زمرے میں تو نہیں آتے، لیکن ایک تاجر اور ایک کاروبار کرنے والے کے لیے ضروری اور مناسب ہیں۔
1-طلبِ رزق میں خدا سے مدد مانگنا
کام شروع کرنے اور رزق حاصل کرنے کا پہلا مرحلہ نام خدا لیکر آگے بڑھنا ہے اور اسی کے نام سے “بسم اللہ الرحمن الرحیم” کہہ کر اس سے مدد مانگنا چاہئے اور کام کا آغاز اس کے ذکر سے ہونا چاہئے۔ امام رضا (ع) کی نگاہ میں جو کلمہ اسم اعظم سے سب سے زیادہ قریب ہے وہ “بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے”۔[10] تمام فیضان خداوند عالم کی طرف سے ہے چاہے وہ مادی ہو یا معنوی، خداوند عالم اپنی ہر مخلوق کا رازق اور رزاق ہے۔ سکون و اطمینان، عقل، علم، قدرت، زندگی، نیز ان تمام چیزوں کا شمار بھی رزق معنوی میں ہوتا ہے ان چیزوں کا اعتقاد رکھنا انسان کو چین وسکون عطا کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر امام علی رضا (ع) اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں کہ خداوند عالم سے وسعت رزق کی دعا کیا کرو۔[11]
امام رضا (ع) اپنے جد حضرت علی (ع) کے قول کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: روزی کا دینے والا خداوند عالم ہے انسان چاہے اپنے زرق سے فرار ہی کیوں نہ کرے اس کی روزی اس تک پہنچ کر رہے گی جیسا کہ اس کی موت اس تک پہنچ کر رہتی ہے”۔[12]
2-قناعت
کاروبار میں سب سے اہم اخلاقی سفارشات میں سے ایک سفارش قناعت ہے۔ قناعت کا مطلب ہے جو کچھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اپنی کوششوں سے حاصل ہوا ہے اس پر مطمئن ہونا۔ قناعت کی ضد حد سے زیادہ حرص اور ہوس ہے، جس کا مطلب ہے کہ اپنے مال سے مطمئن نہ ہونا، مال حاصل کرنے میں زیادہ کی خواہش رکھنا، لوگوں کے مال کو لالچی نگاہوں سے دیکھنا یا اور حد سے زیادہ کی خواہش کرنا۔[13]
امام رضا (ع) قناعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قناعت، کرامت نفس اور سربلندی ہے۔[14] اور آپ اسی طرح فرماتے ہیں کہ ہر ایک کو اس پر راضی رہنا چاہئے جو خدا نے اسے دیا ہے، چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ خداوند عالم اس کے چھوٹے سے عمل سے بھی خوش اور راضی رہے گا۔[15] اس لیے مومن کو چاہیے کہ اپنے کم مال کو حقیر نہ سمجھے اور اپنی ضرورتوں کو زیادہ بڑا نہ کرے۔
3-راضی ہونا
یہ نظریہ انسان سے پرامید اور مطمئن رہنے کا تقاضا کرتا ہے جو خدا نے اس سے طلب کیا ہے۔ اس کے علاوہ، اسے مالی پریشانیوں اور روزی کمانے کی کوششوں کے وجود سے مطمئن ہونا چاہیے اور اسے نعمت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ حضور (ص)نے فرمایا: بعض اوقات انسان کے بعض ایسے گناہ ہوتے ہیں جو انسان کے روزی کے ہم وغم کے حصول کی بنا پر انجام پاتے ہیں۔[16]
اس اعتبار سے روزی کے حصول کا ہم و غم ایک مثبت پہلو ہے جو کہ انسان کو خوشی اور مسرت کا اطمینان دلاتا ہے، اور اسے گناہوں کا در گذر ہونے کا سبب سمجھتا ہے۔یعنی وہ چیز جو انسان کو سعادت عطا کرتی ہے وہ راضی ہونے کا احساس ہے نہ یہ کہ بہت زیادہ مال ودولت کا رکھنا۔
4-صداقت
کاروبار کرتے وقت، خواہ پیداوار ہو یا تقسیم اور خدمات، بعض اوقات برائی اور لالچ انسان کے اندر آجاتی ہے کہ تاکہ وہ اپنے مال کے عیب کو چھپانے کے لیے اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے اور کسی کو دھوکہ دینے کے لئے خلاف حقیقت بات کہے۔ یہ بات اس حقیقت کے برخلاف ہے کہ جس میں امام علی رضا (ع) کی ثقافت خاص اور عام تجارت میں پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ امام رضا (ع) اپنے دادا رسول خدا کے قول کے مطابق فرماتے ہیں: جو شخص لوگوں کے ساتھ معاملہ میں میل جول رکھتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کرتا، ان سے بات کرتا ہے اور جھوٹ نہیں بولتا ہے، اس کی صداقت مکمل ہے، اس کی عدالت کا شہرہ ہے اور اس کے ساتھ بہتر سلوک روا ہونا چاہئے اور اس کی غیبت کرنا بہتر نہیں ہے۔[17] اور اسی طرح امام رضا (ع) اپنے جد کا قول نقل کرتے ہوئ فرماتے ہیں کہ وہ مسلمانوں مین سے نہیں ہے جو مسلمانوں کو دھوکہ دے اور ملاوٹ کرے یا مسلمانوں کو نقصان پہنچائے اور انہیں فریب دے۔[18]
سچی باتیں،اور صداقت کارکردگی میں اور نیک خدمات انجام دینے میں نہ یہ صرف کہ انسان کے مقام ومنزلت کو بلند کرتی ہیں بلکہ لوگوں کے زیادہ اعتماد کا ذریعہ بنتی ہے اور معاشرہ میں بھائی چارگی کے تمدن کو فروغ دیتی ہے ۔
نتیجہ
کاروبار کی تلاش کی اہمیت اور اس کی فضیلت کے سلسلہ میں قرآن کریم میں بہت سی آیات، اور ائمہ معصومین (ع) سے بہت سی مستند روایات موجود ہیں جو کاروبار کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتی ہیں اور خود ائمہ معصومین (ع) اور خصوصاً پیغمبر اکرم (ص) نے اس امر کی بہت تاکید کی ہے نیز ائمہ معصومین (ع)، پیغمبر اکرم (ص) ذات گرامی اور حضرت امام علی (ع) اور خصوصاً خود امام علی رضا (ع) کی سیرت میں کام کرنے کی اہمیت اور ان کا عملی طور پر کاروبار کرنا، جیسے بازار جانا، بھیڑ بکریاں، اور باغوں کی دیکھ بھال وغیرہ یہ تمام چیزیں اس بات کی طرف روشنی ڈالتی ہیں کہ امام علی رضا (ع) کی نگاہ میں کام اور کام کے انجام دینے والے کی اہمیت و فضیلت بہت زیادہ ہے اور اس کا اجر و ثواب مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے لہذا ہم کو چاہئے کہ ہم ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے رزق حلال کمائیں اور خود کفائی اور معاشی استقلال کے درجہ پر فائز ہوجائیں۔
حوالہ جات
[1] سورہ نور:۳۷
[2] کلینی، کافی، ج۵، ص92
[3] حرانی، تحف العقول، ص۴۴۵
[4] حرانی، تحف العقول، ص۴۴۵
[5] ابن بابویہ، فقہ المنسوب الی الامام الرضا، ج۱، ص۲۵۰
[6] سورہ نور:۳۷
[7] مجلسی، بحار الانوار، ج۴۰، ص۱۰۰
[8] کلینی، کافی، ج8، ص55
[9] طوسی، تهذیب الأحکام، ج7، ص212
[10] شعیری، جامع الاخبار، ص۴۳
[11] کلینی، کافی، ج۲، ص۵۵۳
[12] عطاری، آثار و اخبار امام رضا (ع) ص۳۱۴
[13] ابن شعبه، تحف العقول، ص۴۰۱
[14] مجلسی، بحار الانوار، ج۷۵، ص۳۴۹
[15] ابن بابویہ، فقه المنسوب الی الامام الرضا، ص۳۶۵
[16] طبرسی، مجمع البیان فی تفسیرالقرآن، ص۱۳
[17] صدوق، الخصال، ج۱، ص۲۰۸
[18] غازی، مسند الرضا، ج۱،ص۶۲
منابع ومآخذ
1. ابن بابویہ، محمد بن علی، الفقہ المنسوب الی الامام الرضا، تحقیق مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، قم المشرفة، المؤتمر العالمي للإمام الرضا (ع) – مشهد المقدسة، ۱۴۰۶
2. ابن شعبه حرانی، ابو محمد حسن بن علی بن حسین، تحف العقول عن آل رسول، بیروت، موسسہ الاعلمی، ۱۳۹۴ھ
3. شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، نجف، مطبعۃ اللحدریۃ، بی تا
4. شیخ صدوق، علی بن بابویہ قمی، الخصال، مترجم، محمد باقر کمرہ ای، کتابچی، تھران، ۱۳۷۷
5. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مصحح، علامہ ابو الحسن شعرانی، کتاب فروشی، اسلامیہ، تھران، ۱۳۷۹
6. طوسی، ابوجعفر محمد بن حسن بن على بن حسن، تهذيب الأحكام فی شرح المقنعة، دار الکتب الإسلامیة، تھران، سال اشاعت چھارم، ۱۳۶۴
7. عطاری، عزیز اللہ محمد آثار واخبار امام رضا(ع)، تھران، انتشارات کتابخانہ، صدر، ۱۳۷۹
8. غازی، داود بن سلیمان، مسند الرضا، محقق، حسینی، جلالی، محمد جواد، مکتب الاعلام الاسلامی، 1376.
9. کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، مترجم، حسین استادولی، دار الثقلین، سال اشاعت چھارم، ۱۳۹۳
10. متقی هندی، علاء الدين علي بن حسام الدين، کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، مؤسسة الرسالة، سال اشاعت چھارم، ۱۴۰
11. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ للدرر اخبار الائمۃ الاطھار، بیروت، موسسہ الوفا ،۱۴۰
12. محدث نوری، حسينبن محمدتقي، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، تحقيق، موسسه آلالبيت عليهم السلام لاحياءالتراث، قم، ۱۳۶۹
مضمون کا مآخذ
امامی، محمد؛ حسینی زیدی، سید ابوالقاسم؛ دیانی تیلکی، محمد شمس الدین، جایگاہ و آداب کار در سخن و سیرہ امام رضا(ع)، آموزہ ھای حدیثی، سال چھارم، شمارہ ۷، بھار وتابستان ۱۳۹۹