- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/04
- 0 رائ
امام مھدی علیہ السلام کی ذاتی رفتار میں آپ کی سیرت اور لوگوں سے آپ کا رابطہ ، اسلامی حکمرانوں کے لئے نمونہ ھے کیونکہ آپ کی نگاہ میں حکومت لوگوں کی خدمت اور انسانیت کو کمال کی بلندیوں پر پہنچانے کا ذریعہ ھے، نہ کہ مال و دولت جمع کرنے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے اور خدا کے بندوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا وسیلہ!!
واقعاً وہ صالحین کا امام جب مسند حکومت پر ھوگا تو پیغمبر اکرم(ص) اور امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کی یاد تازہ ھوجائے گی، حالانکہ آپ کے پاس بھت سا مال و دولت ھوگا، لیکن ان کی اپنی ذاتی زندگی معمولی ھوگی، اور کم ھی چیزوں پر قناعت کریں گے۔
امام علی علیہ السلام آپ کی توصیف میں فرماتے ھیں:
”امام (مھدی علیہ السلام) یہ عھد و پیمان کریں گے کہ (اگرچہ انسانی معاشرہ کے رھبر اور حاکم ھوں گے لیکن) اپنی رعایا کی طرح راستہ چلیں اور ان کی طرح لباس پہنیں اور ان کی سواری کی طرح سوار ی کریں ۔۔۔ اور کم چیزوں پر ھی قناعت کریں “۔([1])
حضرت علی علیہ السلام خود بھی اسی طرح تھے ان کی زندگی، خوراک اور لباس میں انبیاء کی طرح زھد تھا، اور حضرت امام مھدی علیہ السلام اس سلسلہ میں (بھی) آپ کی اقتدا کریں گے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”اِنَّ قَائِمَنَا اِذَا قَامَ لَبِسَ لِبَاسَ عَلِیّ وَ سَارَ بِسِیْرَتِہِ“۔([2])
”جب ھمارا قائم ظھور کریں گے تو حضرت علی علیہ السلام کی طرح لباس پہنیں گے اور آپ ھی کے طریقہ کار کو اپنائیں گے“۔
وہ خود اپنے بارے میں سخت رویہ کا انتخاب کریں گے، لیکن امت کے ساتھ ایک مھربان باپ کی طرح پیش آئیں گے اور ان کے سکون اور آرام کے بارے میں سوچیں گے، یھاں تک کہ حضرت امام رضا علیہ السلام آپ کی توصیف میں فرماتے ھیں:
”اَلامِامُ الاَنِیْسُ الرَّفِیْقِ وَالوَالِدُ الشَفِیْق وَ الاٴخُ الشَقِیْق وَ الاٴُمُّ البِرَّةِ بِالوَلَدِ الصََّغِیْر مَفْزِغُ العِبَادِ فِی الدَّاہِیةِ النّٰادِ“([3])
”وہ امام، مونس و ھمدم، دوست، مھربان باپ اور حقیقی بھائی کی طرح ھوں گے نیز اس ماں کی طرح جو اپنے چھوٹے بچے پر مھربان ھوتی ھے، اور خطرناک واقعات میں بندوں کے لئے پناہ گاہ ھوں گے“۔
جی ھاں! وہ (اپنے نانا کی) امت کے ساتھ اس قدر قریب اور مخلص ھوں گے کہ سبھی آپ کو اپنی پناہ گاہ مانتے ھوں گے۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے منقول ھے کہ آپ نے امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
”امت ان کی پناہ حاصل کرے گی، جس طرح شھد کی مکھی اپنی ملکہ کی پناہ حاصل کرتی ھیں“۔([4])
وہ رھبری کا مکمل مصداق ھوں گے جن کو لوگوں کے درمیان سے منتخب کیا گیا ھے اور ان کے درمیان انھیں کی طرح زندگی کریں گے اسی وجہ سے ان کی مشکلات کو اچھی طرح جانتے ھوں گے ، اور ان کی پریشانیوں کے علاج کو بھی جانتے ھوں گے ، اور ان کی فلاح و بھبودی کے لئے ھر ممکن کوشش کریں گے ، اور اس سلسلہ میں صرف رضائے الٰھی کو مد ّ نظر رکھیں گے ، تو پھر امتی بھی ان کے نزدیک کیوں نہ آرام اور امنیت میں ھوں گے اور کس وجہ سے کسی غیر سے وابستہ ھوں گے؟!
عام مقبولیت
حکومت کے لئے ایک پریشانی عام لوگوں کی ناراضگی ھوتی ھے، لیکن چونکہ مختلف اداروں میں بھت سی کمزوریاں پائی جاتی ھیں جس کی بنا پر عوام ناراضی رھتی ھے۔ حضرت امام مھدی علیہ السلام کی حکومت کی بنیادی خصوصیت یھی ھے کہ ھر شخص اور ھر معاشرہ آپ کی حکومت کو قبول کرے گا اور اس سے راضی رھے گا، اور نہ صرف اھل زمین بلکہ اھل آسمان بھی اس الٰھی حکومت کی نسبت اور اس کے عادل اور منصف حکمراں سے مکمل طور پر راضی ھوں گے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:
”میں تم کو مھدی (علیہ السلام) کی بشارت دیتا ھوں۔۔۔ اھل زمین اور اھل آسمان ان (کی حکومت) سے راضی رھیں گے، یہ کس طرح ممکن ھے کہ کوئی امام مھدی علیہ السلام کی حکمرانی سے ناراضی ھو حالانکہ پوری دنیا والوں پر یہ روشن ھوجائے گا کہ امام مھدی کی الٰھی حکومت کے زیر سایہ انسانی امور کی اصلاح اور تمام مادی اور معنوی پھلوؤں میں سعادت حاصل ھوگی“۔([5])
مناسب ھے کہ اس حصہ کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے جاویدانہ کلام کو حُسن ختام کے طور پر بیان کیا جائے:
”خداوندعالم اپنے فرشتوں کے ذریعہ ان (امام مھدی علیہ السلام) کی تائید فرمائے گا، اور ان کے ناصروں کی حفاظت کرے گا، اور اپنی نشانیوں کے ذریعہ مدد کرے گا، اور ان کو تمام اھل زمین پر غالب کرے گا، اس طرح کہ (تمام لوگ) اپنے مرضی اور رغبت سے یا مجبوراً آپ کے پاس جمع ھوجائیں گے، وہ زمین کو عدل و انصاف اور دلائل کے نور سے بھر دیں گے، شھروں (کے لوگ) ان پر ایمان لائیں گے یھاں تک کہ کوئی کافر باقی نھیں بچے گا، مگر یہ کہ ایمان لائے اور برے کام انجام نہ دے، اور صرف نیک کام کرے، اور ان کی حکومت میں درندوں میں صلح ھوگی (یعنی وہ آپس میں محبت کے ساتھ رھیں گے) اور زمین اپنی برکتوں کو نکالے گی، آسمان اپنے خیر و برکت کو نازل کرے گا اور ان کے لئے زمین میں چھپے خزانے ظاھر ھوجائیں گے۔۔۔ پس خوش نصیب ھے وہ شخص جو اس زمانہ کو درک کرے اور ان کی اطاعت کرے“۔([6])
—————-
حواله جات
[1] منتخب الاثر، فصل ۶، باب ۱۱، ح ۴، ص ۵۸۱۔
[2] وسائل الشیعہ، ج ۳، ص ۳۴۸۔
[3] اصول کافی، ج۱، ح۱، ص ۲۲۵۔
[4] منتخب الاثر، فصل ۷، باب ۷، ح۲، ص ۵۹۸۔
[5] بحار الانوار، ج۵۱، ص ۸۱۔
[6] اثبات الھداة، ج۳، ص ۵۲۴۔