- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/09/03
- 0 رائ
وہ روایات جو امام سجاد(ع) کے گریہ و عزاداری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں وہ واضح کرتی ہیں کہ فقط گریہ و عزاداری ہی اہل بیت کے نزدیک رائج نہیں تھا بلکہ اس گرئیے کو جاری رکھنا اور ایام عزا میں کھانا کھلانا اور کھانا تقسیم کرنا بھی ایک عادی و معمولی و رائج کام تھا۔ امام سجاد(ع) کا مختلف حالتوں میں گریہ کرنا جیسے کھانے پینے کے وقت گریہ کرنا معروف و مشھور ہے اور حتی امام سجاد(ع) کو ان پانچ بندوں میں شمار کیا گیا ہے جہنوں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ گریہ کیا ہے۔
امام سجاد(ع) کا امام حسين(ع) کی عزاداری کے لیے غذا تیار کرنا
و عن الحسن بن ظريف بن ناصح، عن أبيه، عن الحسين بن زيد، عن عمرو بن علي بن الحسين قال: لما قتل الحسين بن عليّ عليه السلام لبس نساء بني هاشم السواد و المسوح و كن لا يشتكين من حرّ و لا برد، و كان علي بن الحسين « عليه السلام » يعمل لهنّ الطعام للمأتم۔
جب حسین ابن علی(ع) کو شھید کیا گیا تو بنی ہاشم کی خواتین پشم کا لباس پہن کر امام حسین کے لیے گریہ و عزاداری کیا کرتی تھیں۔ وہ بالکل سردی اور گرمی کی شکایت نہیں کیا کرتی تھیں۔ امام سجاد(ع) ان کے لیے غذا تیار کیا کرتے تھے۔
)الشيخ الحر العاملی،الوفاة:1104، وسائل الشيعة، ج3 ص238، تحقيق:مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، الناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث، قم.(
امام سجاد(ع) کا بکاؤون خمسہ میں شمار ہونا
حدثنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد رضي الله عنه قال: حدثنا محمد ابن الحسن الصفار قال: حدثني العباس بن معروف، عن محمد بن سهل البحراني يرفعه إلى أبي عبد الله «عليه السلام» قال: البكاؤون خمسة: آدم، و يعقوب، و يوسف، و فاطمة بنت محمد، و علي بن الحسين «عليهم السلام». فأما آدم فبكى على الجنة حتى صار في خديه أمثال الأودية، و أما يعقوب فبكى على يوسف حتى ذهب بصره، و حتى قيل له: ” تالله تفتؤ تذكر يوسف حتى تكون حرضا أو تكون من الهالكين و أما يوسف فبكى على يعقوب حتى تأذى به أهل السجن فقالوا له: إما أن تبكي الليل و تسكت بالنهار، و إما أن تبكي النهار و تسكت بالليل، فصالحهم على واحد منهما، أما فاطمة فبكت على رسول الله «صلى الله عليه وآله وسلم» حتى تأذى بها أهل المدينة فقالوا لها: قد آذيتنا بكثرة بكائك، فكانت تخرج إلى المقابر – مقابر الشهداء – فتبكي حتى تقضي حاجتها ثم تنصرف، و أما علي ابن الحسين فبكى على الحسين «عليه السلام» عشرين سنة أو أربعين سنة ما وضع بين يديه طعام إلا بكى حتى قال له مولى له: جعلت فداك يا ابن رسول الله إني أخاف عليك أن تكون من الهالكين، قال: ” إنما أشكو بثي و حزني إلى الله و أعلم من الله ما لا تعلمون ” إني ما أذكر مصرع بني فاطمة إلا خنقتني لذلك عبرة.
امام صادق(ع) نے فرمایا کہ: اس دنیا میں پانچ بندوں نے سب سے زیادہ گریہ کیا ہے: حضرت آدم و حضرت يعقوب و حضرت يوسف و حضرت فاطمہ زهرا بنت محمد و على بن الحسين عليهم السلام۔حضرت آدم(ع) نے جنت کے لیے اس قدر گریہ کیا کہ اشک ان کے چہرے پر پرنالے کی طرح جاری ہو گئے۔ حضرت یعقوب(ع) نے اپنے بیٹے کے لیے اس قدر گریہ کیا کہ نابینا ہو گئے یہاں تک کہ ان کو کہا گیا کہ خدا کی قسم آپ اسی طرح یوسف(ع) کو یاد کر کر کے ہلاک ہو جائیں گے، ادھر حضرت یوسف نے بھی اپنے باپ سے دوری پر اتنا گریہ کیا کہ زندان والوں کو اذیت ہونے لگی حتی انھوں نے یوسف سے کہا کہ یا رات کو گریہ کرو اور دن کو آرام سے رہو یا دن کو گریہ کرو اور رات کو آرام سے رہو۔ اس پر حضرت یوسف نے ان سے بات کر کے گریہ کرنے کا خاص وقت معیّن کر لیا۔
فاطمہ زهراء (س) نے رسول خدا کے لیے اتنا گریہ کیا مدینہ کے لوگوں کو اذیت ہونے لگی اور انھوں نے کہا کہ آپ کے گریہ کرنے سے ہمیں اذیت ہوتی ہے۔ اس کے بعد بی بی دن کو شھر سے باہر جا کر شھیدوں کے قبرستان میں جی بھر کے گریہ کرتیں اور پھر واپس گھر آ جاتیں۔
على بن الحسين (ع) نے بیس سے چالیس سال تک اپنے والد امام حسین(ع) کے لیے گریہ کیا۔ جب بھی ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا وہ گریہ کرنا شروع کر دیتے۔ ان کے خادم نے کہا اے امام مجھے ڈر ہے کہ آپ اس قدر گریہ کرنے سے دنیا سے ہی نہ چلے جائیں، امام نے فرمایا میں اپنے غم و خزن کی خداوند سے شکایت کروں گا، میں بعض باتوں کو جانتا ہوں کہ تم نہیں جانتے اس لیے کہ میں جب بھی حضرت فاطمہ(س) کی اولاد کی قتلگاہ کو یاد کرتا ہوں تو خود بخود میری آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔
(الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الخصال: ج1 ص272، تحقيق: علي أكبر الغفاری، الناشر: جماعة المدرسين في الحوزة العلمية 1403)
امام سجاد(ع) کا بیس سال امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا
حدّثني أبي رحمه الله عن جماعة مشايخي، عن سعد بن عبد الله، عن محمّد بن الحسين بن أبي الخطّاب، عن أبي داود المُسترق ـ عن بعض أصحابنا ـ عن أبي عبد الله «عليه السلام» « قال: بكى عليُّ بن الحسين على أبيه حسين بن عليٍّ«صلوات الله عليهما»عشرين سَنَة ـ أو أربعين سَنَة ـ، و ما وضع بين يديه طعاماً إلاّ بكى على الحسين«عليه السلام» حتّى قال له مولى له:جُعلتُ فِداك يا ابن رَسول الله إنّي أخاف عليك أن تكون مِن الهالِكين، قال: « إنَّما أشْكُو بَثِّي وَ حُزْني إلى اللهِ و أعْلمُ مِنَ اللهِ ما لا يَعْلَمُون»، إنّي لم أذكر مصرع بني فاطمة إلاّ خَنَقَتني العَبرة لذلک۔
امام سجاد(ع) نے بیس یا چالیس سال اپنے والد امام حسین(ع) کے لیے گریہ کیا۔ جب بھی ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا وہ اپنے والد کو یاد کر کے گریہ کرنا شروع کر دیتے حتی کہ ان کے خادم نے کہا اے امام مجھے ڈر ہے کہ آپ اس قدر گریہ کرنے سے دنیا سے ہی نہ چلے جائیں۔ امام نے فرمایا: قالَ إِنَّما أَشْكُوا بَثِّی وَ حُزْنِی إِلَى اللَّهِ وَ أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ ما لا تَعْلَمُونَ. میں اپنے غم و حزن کو خدا کی بار گاہ میں کہتا ہوں اور کرم خداوند سے میں بعض چیزوں کو جانتا ہوں کہ تم نہیں جانتے۔ اس لیے کہ میں جب بھی حضرت فاطمہ(ع) کی اولاد کی قتلگاہ کو یاد کرتا ہوں تو خود بخود میری آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔
)جعفر بن محمد بن قولويه،الوفاة: 368، کامل الزيارات: ج1 ص114، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق(
امام سجاد(ع) کا اپنے والد بزرگوار پر کبھی ختم نہ ہونے والا غم
حدَّثني محمّد بن جعفر الرَّزَّاز، عن خاله محمّد بن الحسين بن أبي الخطّاب الزَّيّات، عن عليِّ بن أسباط، عن إسماعيلَ بن منصور ـ عن بعض أصحابنا ـ « قال: أشرف مولى لعليِّ بن الحسين «عليهما السلام»و هو في سقيفة له ساجدٌ يبكي، فقال له: يا مولاي يا عليَّ بن الحسين أما آنَ لِحُزنك أن ينقضي؟ فرفع رأسَه إليه و قال: ويلك ـ أو ثَكَلَتكَ اُمُّك ـ [والله] لقد شكى يعقوبُ إلى رَبّه في أقلّ ممّا رأيت حتّى قال: «يا أسَفى عَلى يُوسُفَ»، إنّه فَقَدَ ابْناً واحِداً، و أنا رَأيت أبي و جماعة أهل بيتي يُذبَّحون حَولي، قال: و كان عليُّ بن الحسين «عليهما السلام» يميل إلى ولد عقيل،فقيل له: ما بالك تميل إلى بني عَمّك هؤلاء دون آل جعفر؟ فقال: إنّي أذكر يومهم مع أبي عبد الله الحسين بن عليٍّ «عليهما السلام» فأرقّ لهم۔
امام سجاد(ع) کے خادم ساباطی نے امام کو کہ جو ہمیشہ سجدے اور گرئیے کی حالت میں رہتے تھے، کہا کہ اے میرے مولا اے امام سجاد(ع) کیا آپ کے غم و حزن کے ختم ہونے کا وقت کب آئے گا ؟ امام سجاد نے زمین سے سر کو بلند کیا اور فرمایا: افسوس ہے تم پر تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے خدا کی قسم حضرت یعقوب نے میرے ساتھ ہونے واقعے سے بھی کم تر اور نا چیز تر واقعے پر اپنے غم کی خداوند سے شکایت کی اور کہا:يا أَسَفى عَلى يُوسُفَ ہائے افسوس یوسف کی جدائی پر۔ اس کے با وجود کہ ان کا فقط ایک بیٹا ان سے دور ہوا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ میرے والد اور اہل بیت کے سروں کو میرے سامنے بدن سے جدا کیا گیا۔ راوی کہتا ہے امام سجاد اولاد عقیل سے ایک خاص قسم کی محبت و توجہ کیا کرتے تھے۔ امام سے پوچھا گیا آپ کیوں اولاد عقیل کو توجہ دیتے ہیں اور آل و اولاد جعفر کی طرف توجہ نہیں دیتے ؟ امام نے فرمایا مجھے یاد ہیں وہ دن کہ انھوں نے امام حسین(ع) کے ساتھ کن کن مصائب کا سامنا کیا ہے پس میں اس وجہ سے ان کے لیے غمگین ہوتا اور توجہ کرتا ہوں۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 368،کامل الزيارات، ج1ص115، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مكتبة الصدوق.(
امام سجاد(ع) کا کھانا کھاتے وقت امام حسین(ع) کے لیے گریہ کرنا
روى عن الصادق عليه السلام أنه قال: ان زين العابدين عليه السلام بكى على أبيه أربعين سنة صائما نهاره و قائما ليلة فإذا حضر الافطار و جاء غلامه بطعامه و شرابه قيضعه بين يديه فيقول كل يا مولاى فيقول قتل ابن رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم جائعا، قتل ابن رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم عطشانا، فلا يزال يكرر ذلك و يبكى حتى يبتل طعامه من دموعه ثم يمزج شرابه بدموعه فلم يزل كذلك حتى لحق بالله عز و جل۔
امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ امام سجاد(ع) نے چالیس سال اپنے والد کے غم میں گریہ کیا۔ اس حال میں آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات بیدار رہ کر خدا کی عبادت کیا کرتے تھے۔ جب افطار کا وقت ہوتا تو خادم کھانا اور پانی لے کر آتا اور کہتا کہ مولا بسم اللہ کھائیں۔ امام فرماتے کہ کیسے کھانا کھاؤں جب کہ فرزند رسول کو بھوکا شھید کیا گیا اور کیسے پانی پیئوں جب کہ فرزند رسول کو پیاسا شھید کیا گیا ہے۔ اس بات کا بار بار تکرار کرتے اور ساتھ ساتھ گریہ بھی کرتے۔ اتنا گریہ کرتے کہ کھانا اشکوں سے بھر اور گیلا ہو جاتا۔ دنیا سے جانے تک امام کی یہی حالت تھی۔
)السيد ابن طاووس، الوفاة: 664، اللهوف في قتلى الطفوف ج1 ص121، الناشر: أنوار الهدى،قم، ايران(
امام سجاد(ع) کا عمر بن سعد ملعون کا سر دیکھ کر گریہ کرنا
و لما بعث المختار برأس عمر بن سعد (عليه اللعنة) إليه و قال (لا تعلم أحدا ما معك حتى يضع الغداء) فدخل و قد وضعت المائدة، فخر زين العابدين عليه السلام ساجدا و بكى و أطال البكاء ثم جلس، فقال: الحمد لله الذى ادرك لى بثأري قيل وفاتی۔
جب امیر مختار نے عمر سعد ملعون کا سر امام سجاد(ع) کی خدمت میں بیجھا۔ جس بندے کے پاس سر تھا اس نے کہا ابھی کسی کو نہ بتانا۔ جب کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا گیا تو سر کو اس پر رکھا گیا۔ جب امام سجاد(ع) نے سر کو دیکھا تو سجدہ شکر اور گریہ کیا اور کہا شکر اور حمد ہے اس خدا کے لیے کہ جس نے میرے مرنے سے پہلے ہمارے قتل کا بدلہ اس سے لیا۔
)قطب الدين الراوندی الوفاة ،:573، الدّعوات ج1 ص162، تحقيق: مدرسة الامام المهدی، الناشر: مدرسة الإمام المهدی (ع) – قم.(