امام سجاد (ع) کے دور کے شیعی اور غیر شیعی قیام

امام سجاد (ع) کے دور میں شیعی اور غیر شیعی قیام

کپی کردن لینک

امام سجاد (ع) کا دور اسلامی تاریخ کا ایک نہایت اہم اور پرآشوب زمانہ تھا۔ امام سجاد کا دور، قیام حسینی سے شروع اور قیام عباسی کے آغاز کے قریب ختم ہو جاتا ہے۔ مقالہ حاضر میں کوشش کی گئی ہے کہ امام سجاد کے دور میں پیش آنے والے اہم شیعی قیام جیسے قیام توابیں اور قیام مختار، نیز غیر شیعی قیام جیسے قیام حرہ، قیام ابن زبیر پر روشنی ڈالی جائے۔

امام سجاد (ع) کے دور کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

پہلا مرحلہ: شہادت امام حسین (ع) اور بنی امیہ کی حکومت کے متزلزل ہونے کے بعد سے اور سفیانیوں (ابوسفیان کے بیٹوں اور پوتوں) کے خاتمہ اور مروانیوں کے بر سر اقتدار آنے نیز بنی امیہ کے آپس میں جھگڑنے اور مختلف طرح کی شورشوں اور بغاوتوں میں گرفتار ہونے تک یہاں تک کہ مروانیوں کی حکومت برقرار ہوگئی۔

دوسرا مرحلہ: حجاج کی حکمرانی اور مکہ میں عبداللہ بن زبیر کی شکست[1] سے لے کر امام محمد باقر (ع) کا ابتدائی زمانہ اور عباسیوں کے قیام تک اس دور کا اہم حصہ ہے۔

امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ایک طرف سے تو بنی امیہ عراق و حجاز کے علاقہ میں برپا ہونے والے انقلابات میں گرفتار تھے تو دوسری طرف سے ان کے اندر اندرونی اختلاف تھا جس کی بنا پرحکومت یزید زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکی۔ یزید تین سال کی حکومت کے بعد سنہ ٦٤ ھ میں مر گیا۔ [2]

اس کے بعد اس کا بیٹا معاویہ صغیر بر سر اقتدار آیا اس نے چالیس روز سے زیادہ حکومت نہیں کی تھی کہ خلافت سے الگ ہو گیا اور بلا فاصلہ دنیا سے رخصت ہو گیا۔[3] اس کے مرتے ہی خاندان بنی امیہ کے درمیان اختلاف شروع ہو گیا۔

مسعودی نے اس کے مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات کہ جس سے بنی امیہ کی ریاست طلبی کی عکاسی ہوتی ہے یوں بیان کیا ہے: معاویہ دوّم ٢٢ سال کی عمر میں دنیا سے چلا گیا اور دمشق میں دفن ہوا۔ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان خلافت کی لالچ میں آ گے بڑھا تاکہ معاویہ دوم کے جنازہ پر نماز پڑھے۔

نماز تمام ہونے سے پہلے ہی اسے ایسی ضرب لگی کہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ اس وقت عثمان بن عتبہ بن ابی سفیان نے نماز پڑھائی لیکن لوگ اس کی خلافت پر بھی راضی نہیں ہوئے اور وہ ابن زبیر کے پاس مکہ جانے پر مجبور ہوگیا۔ [4]

امام حسین (ع) کی شہادت کو ابھی تین سال بھی نہ گزرے تھے کہ سفیانیوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اسلامی سرزمین کے لوگ یہاں تک کہ بنی امیہ کے کچھ بزرگ افراد جیسے ضحاک بن قیس اور نعمان بن بشیر، ابن زبیر کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ اسی وقت ابن زبیر نے مدینہ سے اموی ساکنین منجملہ مروان کو نکال باہر کیا۔

بنی امیہ مدینہ سے نکل کر کر راہی شام ہو گئے۔ چونکہ دمشق میں کوئی خلیفہ نہیں تھا، امویوں نے جابیہ میں مروان بن حکم کو خلیفہ بنا دیا اور خالد بن یزید اور اس کے بعد عمرو بن سعید اشدق کو اس کا ولی عہد قرار دیا۔ کچھ مدّت کے بعد مروان نے خالد بن یزید کو بر طرف کر دیا اور اس کے بیٹے عبدالملک کو اپنا ولی عہد بنایا۔

اسی وجہ سے خالد کی ماں جو مروان کی بیوی تھی اس نے اس کو زہر دیا اور مروان مر گیا۔ عبدالملک نے بھی عمرو بن سعید کو اپنے راستے سے ہٹا کر اس کے فرزند کو اپنا ولی عہد بنایا۔

امویوں کو بہت سی شورشوں اور بغاوتوں کا سامنا تھا یہ قیام دو حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے؛ ایک وہ قیام جو شیعہ ماہیت نہیں رکھتا تھا جیسے حرّہ کا قیام اور ابن زبیر کا قیام۔ دوسر ے وہ قیام جو ماہیت کے اعتبار سے شیعہ فکر رکھتے تھے۔ شیعی قیام درج ذیل ہیں: قیام توّابین اور قیام مختار۔ ان دونوں قیام کا مقام و مرکز عراق میں شہر کوفہ تھا اور جو فوج تشکیل پائی تھی وہ شیعیان امیر المؤمنین (ع) کی تھی۔ سپاہ مختار میں شیعہ غیر عرب بھی کافی موجود تھے۔

قیام حرّہ

قیام حرّہ کو امام سجاد (ع) اور شیعوں حمایت حاصل نہیں تھی۔[5] اس قیام میں امام سجاد (ع) کی کسی قسم کی مداخلت نہ تھی۔ جس وقت مسلم بن عقبہ لوگوں سے بیعت لے رہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا غلام کی سے جنگ کروں گا اس نے مجھے تحفے دیئے، اکرام کیا، میں نے اس کے ہدیہ و تحفہ کو قبول نہیں کیا کہ یزید کی بیعت کریں۔ اس وقت وہ امام سجاد (ع) کا احترام کر رہا تھا اور حضرت پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا۔[6]

حرّہ کا واقعہ، ٦٢ھ میں پیش آیا، مسعودی اس کی وجہ لوگوں کا یزید کے فسق و فجور سے ناخوش ہونا اور امام حسین (ع) کی شہادت جانتا ہے، مدینہ جو اولاد رسول (ص) اور اصحاب رسول (ص) کا مرکز تھا یہاں کے لوگ یزید سے ناراض تھے۔

مدینہ کا حاکم عثمان بن محمد بن ابی سفیان جو ایک ناتجربہ کار نوجوان تھا، مدینہ کے لوگوں کی نمائندگی میں کچھ لوگوں کو شام روانہ کیا تاکہ یزید کو قریب سے دیکھیں اور اس کی نوازشات سے فائدہ اٹھائیں اور جب مدینہ آئیں تو لوگوں کو یزید کی اطاعت پر تشویق کریں۔

اس عثمانی تجویز میں مدینہ کے بزرگان کہ جن میں عبد اللہ بن حنظلہ جو غسیل الملائکہ کہے جاتے ہیں بھی شامل تھے، یزید جو اسلامی تربیت سے بالکل بے بہرہ تھا ان لوگوں کے سامنے بھی اس نے اپنے فسق و فجور کو جاری رکھا، لیکن مدینہ سے آنے والوں کی خوب آئو بھگت کی سب کو گراں بہا تحفے دئے تاکہ یہ لوگ واپس جا کر اس کی تعریفیں کریں لیکن اس کا سب کچھ کرنا بیکار ہو گیا۔

یہ لوگ جب مدینہ پلٹے تو مجمع میں یہ اعلان کیا کہ ہم اس کے پاس سے واپس آرہے ہیں جو بے دین ہے شراب پیتا ہے، ناچ گانا سنتا ہے، کتے سے کھیلتا ہے، ان طوائفوں کے ساتھ ناچ گانے کی محفلیں منعقد کرتا ہے، ان سے ہمنشینی کرتاہے، عیش و عشرت میں زندگی گزارتا ہے، ہم لوگ آپ کو گواہ قرار دیتے ہیں کہ ہم نے اسے خلافت سے معزول کر دیا ہے۔

عبد اللہ ابن حنظلہ نے کہا اگر کسی نے بھی میری مدد نہیں کی تو میں صرف اپنے بچوں کے ساتھ یزید کے خلاف قیام کروں گا۔ اس کے بعد لوگوں نے عبد اللہ ابن حنظلہ کی بیعت کی۔ مدینہ کے حاکم اور تمام بنی امیہ کو مدینہ سے باہر بھگا دیا۔ جب یزید کو یہ خبر ملی تو اس نے بنی امیہ کے ایک نمک خوار و تجربہ کار شخص مسلم بن عقبہ کو ایک بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور کہا:

ان لوگوں کو تین دن کی مہلت دینا اگر تسلیم ہو جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان سے جنگ کر کے کامیابی کے بعد تین دن تک جتنی لوٹ مار کرنی ہو کر لینا اور سپاہیوں کو کھلی اجازت دے دینا۔ اہل مدینہ اور لشکر شام میں شدید جنگ ہوئی۔ آخر کار اہل مدینہ کو شکست ہوئی۔ بڑے بڑے رہبر مارے گئے۔

مسلم نے تین دن بالکل قتل عام کا حکم صادر کر دیا، لشکر شام نے وہ کام کیا جسے بیان کرنے سے قلم کو بھی شرم آتی ہے۔ اس ظلم و بربریت کی بنا پر مسلم کو مسرف کہا گیا، قتل و غارت کے بعد اس نے یزید کے لئے لوگوں سے زبردستی بیعت لی۔

قیام ابن زبیر

ابن زبیر کے قیام کی حقیقت معلوم ہے۔ اس قیام کا قائد ابن زبیر تھا جو خاندان رسول (ص) کا سخت ترین دشمن تھا۔ جنگ جمل میں شکست کے بعد ہی اس کا دل (اہل بیت کے) بغض و کینہ سے بھر گیا تھا لیکن اس کا بھائی مصعب شیعیت کی طرف مائل تھا۔ اس نے امام حسین (ع) کی بیٹی سکینہ سے شادی کی تھی۔

اسی بنا پر عراق میں اس کو ایک حیثیت حاصل تھی۔ امویوں کے مقابلہ میں شیعہ اس کے ساتھ تھے۔ جناب مختار کے بعد ابراہیم بن مالک اشتر ان کے ساتھ ہوگئے تھے اور انہیں کے ساتھ شہید ہوئے۔

مکہ میں عبد اللہ بن زبیر کی حاکمیت، اس زمانے سے کہ جب اس نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور لوگوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی، یہاں تک کہ ٧٢ھ میں حجاج کے سپاہیوں نے اسے قتل کر دیا، یہ کل بارہ سال کا عرصہ ہے۔ ابن عبدربہ نے اس بارہ سال کے طولانی دور کو ”العقد الفرید” میں ابن زبیر کے فتنہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

معاویہ کے مرنے کے بعد مدینہ کے حاکم نے ابن زبیر سے یزید کی بیعت طلب کی، یزید کی بیعت سے بچنے کے لئے جس وقت امام حسین (ع) مکہ تشریف لے گئے تو ابن زبیر بھی مکہ آ گیا لیکن وہاں لوگوں نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی، اسی بنا پرمکہ میں امام حسین (ع) کا رہنا اسے ناگوار لگ رہا تھا۔

لہذا اس نے امام حسین (ع) سے کہا: اگر آپ کی طرح لوگ مجھے بلاتے تو میں عراق چلا جاتا، امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد یزید کے خلاف پرچم بغاوت بلند کر دیا۔ یزید نے ٦٢ھ میں مسلم بن عقبہ کو ایک لشکر کے ساتھ مدینہ کی شورش کو دبانے اور ابن زبیر کی سرکوبی کے لئے پہلے مدینہ اور پھر مکہ روانہ کیا۔ لیکن واقعۂ حرّہ کے بعد مکہ جاتے ہوئے راستہ ہی میں وہ مر گیا۔

اس کا جانشین حصین بن نمیر، شام کے لشکر کے ہمراہ مکہ گیا اور ٦٤ھ میں منجنیق کے ذریعہ کعبہ پر آگ برسائی۔ کعبہ کا پردہ جل گیا۔ اسی جنگ کے دوران یزید کے مرنے کی خبر ملی، شام کی فوج سست پڑ گئی، حصین نے ابن زبیر سے کہا: بیعت کر لو اور شام چلو، وہاں مجھے تخت حکومت پر بٹھا دو لیکن ابن زبیر نے قبول نہیں کیا، یزید کے مرنے کے بعد اردن کے علاوہ تمام اسلامی سرزمین نے ابن زبیر کو خلیفہ کے عنوان سے بیعت کر لی اور اس کی حکومت کو تسلیم کر لیا۔

لیکن بنی امیہ نے مروان کو جابیہ میں اپنا خلیفہ منتخب کرلیا۔ اس نے شام میں اپنے مخالفین کو تخت سے اتار دیا، اس کے بعد اس کا بیٹا عبد الملک خلیفہ بنا عبد الملک نے مصعب بن زبیر کو شکست دینے کے بعد اس کے بھائی عبد اللہ ابن زبیر کو شکست دینے کے لئے حجاج ابن یوسف کو عراق سے مکہ روانہ کیا۔

حجاج نے مکہ کا محاصرہ کر لیا، کوہ ابو قبیس پر منجنیق رکھ کر گولہ باری کر کے کعبہ اور مکہ کو ویران کر دیا۔ اس جنگ میں عبد اللہ بن زبیر کے ساتھیوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن عبد اللہ نے مقاومت کی اور آخر کار قتل ہو گیا، اس طرح ١٢ سال بعد عبد اللہ ابن زبیر کا کام تمام ہو گیا۔

قیام توابین

توابین کے قیام کی ماہیت میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ یہ قیام صحیح ہدف پر استوار تھا۔ جس کا مقصد صرف خون خواہی امام حسین (ع) اور حضرت کی مدد نہ کرنے کے گناہ کو پاک کرنے اور ان کے قاتلوں سے مقابلہ کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ توابین کوفہ سے نکلنے کے بعد کربلا کی طرف امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کے لئے گئے اور قیام سے پہلے اس طرح کہا:

پروردگارا! ہم فرزند رسول (ص) کی مدد نہ کر سکے۔ ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہماری توبہ کو قبول فرما، امام حسین (ع) کی روح اور ان کے سچّے ساتھیوں پر رحمت نازل کر، ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم اسی عقیدہ پر ہیں جس عقیدہ پر امام حسین (ع) قتل ہوئے، پروردگارا! اگر ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کیا اور ہم پر لطف وکرم نہیں کیا تو ہم بدبخت ہو جائیں گے۔ [7]

قیام مختار

مختار نے مسلم بن عقیل کے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد ان کی مدد کی۔ جس کی وجہ سے عبید اللہ بن زیاد کے ذریعہ دستگیر ہوئے اور زندان میں ڈال د یئے گئے اور واقعہ عاشورہ کے بعد اپنے بہنوئی عبداللہ بن عمر کے توسط سے آزاد ہوئے۔ وہ ٦٤ھ میں کوفہ آئے اور اپنے قیام کو قیام توابین کے بعد شروع کیا اور یا لثارات الحسین کے نعرہ کے ذریعہ تمام شیعوں کو جمع کیا۔

وہ اس منصوبے اور حوصلہ کے ساتھ میدان عمل میں وارد ہوئے کہ امام حسین (ع) کے قاتلوں کوان کے عمل کی سزا دیں اور اس طرح سے ایک روز میں (٢٨٠) ظالموں کو قتل کیا اور فرار کرنے والوں کے گھروں کو ویران کیا۔ من جُملہ محمّد بن اشعث کے گھر کو خراب کیا اور اس کی باقیات (ملبہ و اسباب) سے علی کے وفادار ساتھی حجر بن عدی کا گھر بنوایا جس کو معاویہ نے خراب کر دیا تھا۔ [8]

جناب مختار کے بارے میں اختلافی نظریات

جناب مختار کے بارے میں اختلاف نظر ہے؛ بعض ان کو حقیقی شیعہ اور بعض انہیں جھوٹا جانتے ہیں۔ ابن داؤد نے رجال میں مختار کے بارے میں اس طرح کہا ہے: مختار ابو عبید ثقفی کا بیٹا ہے۔ بعض علماء شیعہ نے ان کو کیسانیہ سے نسبت دی ہے اور اس بارے میں امام سجاد (ع) کا مختار کا ہدیہ رد کرنے کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔

اگر امام سجاد (ع) سچے دل سے مختار کو مانتا تو امام سجاد (ع)، ان کے تحفے قبول فرماتے۔ امام سجاد (ع) کا قبول نہ کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام سجاد (ع)، ان سے خوش نہیں تھے۔ لیکن یہ اس کی رد پر دلیل نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ کچھ دوسرے وجوہات کی بنا پر امام سجاد (ع) نے تحفہ قبول نہیں کیا ہو۔

کیونکہ امام محمّد باقر (ع) نے ان کے بارے میں فرما یا: مختار کو برا نہ کہو۔ کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ہے اور اس نے نہیں چاہا کہ ہمارا خون پامال ہو، ہماری لڑکیوں کی شادی کرائی اور سختی کے موقع پر ہمارے درمیان مال تقسیم کیا۔

جس وقت مختار کا بیٹا ابو الحکم امام باقر (ع) کے پاس آیا امام نے اس کا کافی احترام کیا ابو الحکم نے اپنے باپ کے بارے میں معلوم کیا اور کہا: لوگ میرے باپ کے بارے میں کچھ باتیں کہتے ہیں لیکن آپ کی جو بات ہوگی وہ صحیح میرے لئے معیار ہوگی۔ اس وقت امام (ع) نے مختار کی تعریف کی اور فرمایا:

”سُبحان اللہ میرے والد نے مجھ سے کہا: میری ماں کا مہر اس مال میں سے تھا، جو مختار نے میرے والد کو بھیجا تھا اور چند بار کہا: خدا تمہارے باپ پر رحمت نازل کرے اس نے ہمارے حق کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارا خون پامال نہیں ہونے دیا۔”

امام صادق (ع) نے بھی فرمایا: ”جب تک مختار نے امام حسین (ع) کے قاتلوں کے سرقلم کر کے ہم تک نہیں بھیجا اس وقت تک ہمارے خاندان کی عورتوں نے بالوں میں کنگھا نہیں کیا اور بالوں کو مہندی نہیں لگائی۔”

روایت میں ہے جس وقت مختار نے عبید اللہ ابن زیاد ملعون کا سر امام سجاد (ع) کے پاس بھیجا۔ امام سجاد (ع) سجدہ میں گر پڑے اور مختار کے لئے دعائے خیر کی۔ جو روایتیں مختار کی سرزنش میں ہیں وہ مخالفین کی بنائی ہوئی روایتیں ہیں۔[9]

مختار کو کیسانی کہنے کی وجہ

مُختار کی کیسانیہ سے نسبت کے بارے میں یا فرقۂ کیسانیہ کی ایجاد میں، مختار کے کردار کے بارے میں آیۃ اللہ خوئی، مختار کے دفاع اور کیسانیہ سے ان کی نسبت کی رد میں لکھتے ہیں:

بعض علماء اہل سنّت مختار کو مذہب کیسانیہ سے نسبت دیتے ہیں اور یہ بات قطعاً باطل ہے۔ کیونکہ محمد حنفیہ خود مدعی امامت نہیں تھے کہ مختار لوگوں کو ان کی امامت کی دعوت دیتے۔ مختار مُحمّد حنفیہ سے پہلے قتل ہو گئے اور محمّد حنفیہ زندہ تھے، اور مذہب کیسا نیہ محمّد حنفیہ کی موت کے بعد وجود میں آیا ہے۔ لیکن یہ کہ مختار کو کیسانیہ کہتے تھے اس وجہ سے نہیں کہ ان کا مذہب کیسانی ہے اور بالفرض اس لقب کو مان لیا جائے تو یہ وہ روایت ہے کہ امیرالمومنین نے ان سے دو مرتبہ فرمایا: "یا کیس یا کیس” اسی کو صیغۂ تثنیہ میں کیسان کہنے لگے۔[10]

 

خاتمہ
امام سجاد (ع) کی زندگی کا یہ دور شیعہ تاریخ کا ایک سنگ میل ہے۔ امام سجاد (ع) نے بنی امیہ کے ظلم و ستم کے باوجود شیعہ مکتب کو زندہ رکھا۔ امام سجاد (ع) کی حکمت عملی اور تدابیر نے شیعہ معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ امام سجاد (ع) کے دور میں ہونے والے قیاموں، جیسے قیام توابین اور قیام مختار، نے شیعہ فکر کو فروغ دیا۔ امام سجاد (ع) کی رہنمائی نے شیعہ کو مستقبل کے چیلنجوں کے لیے تیار کیا۔

 

حوالہ جات
[1]۔ ابن عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، ج٤، ص٢٦٦؛ مسعودی، مروج الذھب، ج٣، ص٧٨۔٧٩۔
[2]۔ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٢٥٢۔
[3]۔ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢،ص٢٥٦۔
[4]۔ مسعودی، مروج الذھب، ج٣، ص٨٥۔٨٦۔
[5]۔ ابن عبد ربہ اندلسی، العقد الفرید، ج٤، ص٣٦٢؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢ ص٢٥٠۔ ٨٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٤ ص١٠٢۔١٠٣۔ ٢٥٥۔٢٥٦۔
[6]۔ ابی حنیفہ دینوری، الاخبار الطوال، ص٢٦٦۔
[7]۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٤، ص١٥٨۔١٨٦۔
[8]۔ آل مکباس، مقتل الحسین، ج٢، ص٢٠٢۔
[9]۔ ابن داؤد، رجال، ص٢٧٧۔
[10]۔ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج١٨، ص١٠٢۔١٠٣۔

 

کتابیات
۱۔ ابن اثیر، عزالدین علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۴۰۷ھ۔
۲۔ ابن داؤد حلی، تقی الدین حسن بن علی، رجال ابن داؤد، قم، منشورات الرضی، ۱۴۱۵ھ۔
۳۔ ابن عبد ربہ اندلسی، احمد بن محمد، العقد الفرید، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۹ھ۔
۴۔ ابن واضح، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، قم، منشورات شریف رضی، ۱۴۱۴ھ۔
۵۔ ابو حنیفہ دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطوال، قم، منشورات شریف رضی، ۱۴۰۹ھ۔
۶۔ آل مکباس، محمد عیسی، مقتل الحسین، قم، منشورات المفید، ۱۴۲۲ھ۔
۷۔ خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت، مؤسسہ احیاء التراث، ۱۴۱۳ھ۔
۸۔ مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذھب، بیروت، منشورات مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۱ھ۔

 

مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
محرّمی، غلام حسن، تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک، ترجمہ سید نسیم رضا آصف، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤٢٩ھ۔ ٢٠٠٨ء۔ (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے