- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 23 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/09/07
- 0 رائ
امام صادق(ع) سے امام حسین(ع) کی عزاداری کے بارے میں نقل ہونے والی روایات دوسرے آئمہ کی نسبت بہت زیادہ ہیں اور شاید یہ امام کے زمانے کے حالات اور اس فرصت کی وجہ سے ہوا ہو کہ اس دور میں امام کو حاصل ہوئی ہو۔ ان روایات میں امام صادق(ع) نے خود عملی طور پر عزاداری کرنے کے علاوہ دوسروں کو بھی امام حسین پر عزاداری کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی عزاداری کرنے کا ثواب و اجر بھی بیان کیا ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں ہے کہ امام خود شعراء کو امام حسین(ع) کے غم میں اشعار پڑھنے کا کہتے تھے اور خود بھی شدید گریہ کیا کرتے تھے۔
امام صادق(ع) اور ان کے محترم اہل بیت کے سامنے شعراء کا امام حسین(ع) کے مصائب پڑھنا
حدَّثني محمّد بن جعفر، عن محمّد بن الحسين، عن ابن أبي عُمَير، عن عبد الله بن حسّان، عن ابن أبي شعبة عن عبد الله بن غالب، قال: دخلت على أبي عبد الله عليه السلام فأنشدته مَرْثِيةَ الحسين عليه السلام، فلمّا انتهيتُ إلى هذا الموضع:
لَبلِيَّة تَسقو حُسَيناً بمَسقاةِ الثَّرى غَير التُّرابِ
فصاحت باكية من وراء السّتر: و اأبتاه!!!
محمّد بن جعفر نے محمّد بن الحسين(ع) سے اور ابن ابى عمير نے عبد اللَّه بن حسّان سے اور ابن أبى شعبہ نے عبد اللَّه بن غالب سے نقل كیا ہے کہ: میں امام صادق(ع) کے پاس گیا اور امام حسین کی شھادت کے بارے میں مرثیہ پڑھا۔ جب میں اس شعر پر پہنچا کہ: خدا کی قسم امام حسین پر ایسی مصیبت آئی کہ اس مصیبت نے امام کو سیراب کیا نہ پانی نے: اس پر پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین نے اونچی آواز سے گریہ کیا اور کہا وا أبتاه !۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص112، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق.(
جعفر بن عفان کا امام صادق (ع) کے لیے مصائب پڑھنا
حدثنی نصر بن الصباح، قال حدثنی أحمد بن محمد بن عيسی، عن يحيی بن عمران، قال حدثنا محمد بن سنان، عن زيد الشحام، قال کنا عند أبی عبد الله عليه السلام، و نحن جماعة من الکوفيين، فدخل جعفر بن عفان علی أبی عبد الله عليه السلام، فقربه و أدناه، ثم قال يا جعفر قال لبيک جعلنی الله فداک، قال بلغنی أنک تقول الشعر فی الحسين عليه السلام و تجيد فقال له نعم جعلنی الله فداک، فقال قل فأنشده عليه السلام و من حوله حتی صارت له الدموع علی وجهه و لحيته، ثم قال يا جعفر و الله لقد شهدک ملائکة الله المقربون هاهنا يسمعون قولک فی الحسين عليه السلام و لقد بکوا کما بکينا أو أکثر، و لقد أوجب الله تعالی لک يا جعفر فی ساعته الجنة بأسرها و غفر الله لک، فقال يا جعفر أ لا أزيدک قال نعم ياسيدی، قال ما من أحد قال فی الحسين عليه السلام شعرا فبکی و أبکی به إلا أوجب الله له الجنة و غفر له۔
زید شحام نے نقل کیا ہے کہ: ہم اور اھل کوفہ کا ایک گروہ امام صادق(ع) کے پاس بیٹھے تھے کہ جعفر بن عفان بھی امام کے پاس آیا۔ امام نے اس کو اپنے قریب بیٹھایا اور اس سے فرمایا کہ: اے جعفر اس نے کہا لبیک خدا مجھے آپ پر قربان کرے۔ امام نے پھر فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم امام حسین(ع) کے بارے میں بہت اچھے شعر کہتے ہو۔ اس نے کہا: ہاں، میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ امام نے فرمایا پھر ہمیں بھی آج شعر سناؤ۔ جب اس نے امام حسین کی مصیبت کے بارے میں اشعار پڑھے تو امام صادق نے اس قدر گریہ کیا کہ ان کا چہرہ اور ریش مبارک اشکوں سے گیلی ہو گئی اور وہ لوگ جو امام کے پاس بیٹھے تھے انھوں نے بھی گریہ کیا۔ پھر امام صادق(ع) نے فرمایا کہ خدا کی قسم تیرے ان امام حسین(ع) کے بارے میں اشعار کو خدا کے مقرب ملائکہ نے بھی سنا ہے اور انھوں نے ہم سے زیادہ گریہ کیا ہے۔ امام نے فرمایا خداوند نے ابھی تمہارے لیے جنت کو واجب قرار دیا ہے اور تیرے سارے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے جعفر کیا اس سے بھی زیادہ تمہارے لیے بیان کروں ؟ اس نے کہا ہاں اے میرے مولا، امام نے فرمایا کہ جو بھی امام حسین(ع) کے بارے میں شعر کہے، خود گریہ کرے اور دوسروں کو بھی رلائے تو خداوند اس پر جنت کو واجب قرار دیتا ہے اور اس کےسارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
)الشيخ الطوسی، الوفاة: 46، رجال الکشی، ج1 ص289، المحقق: السيد مهدی الرّجائی صححه و علق عليه و قدم له و وضع فهارسه حسن المصطفوی(
ابو ہارون کا امام صادق(ع) کے لیے مصائب کا پڑھنا
حدثنا أبو العباس القرشي، عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، عن محمد بن إسماعيل، عن صالح بن عقبة، عن أبي هارون المكفوف، قال: قال أبو عبد الله عليه السلام: يا أبا هارون أنشدني في الحسين عليه السلام، قال: فأنشدته، فبكى، فقال: أنشدني كما تنشدون – يعني بالرقة –قال، فأنشدته:
امرر على جدث الحسين * فقل لأعظمه الزكية
قال: فبكى، ثم قال: زدني، قال: فأنشدته القصيدة الأخرى، قال:فبكى، وسمعت البكاء من خلف الستر، قال: فلما فرغت قال لي: يا أبا هارون من أنشد في الحسين عليه السلام شعرا فبكى و أبكى عشرا كتبت له الجنة، و من أنشد في الحسين شعرا فبكى وأبكى خمسة كتبت له الجنة، و من أنشد في الحسين شعرا فبكى و أبكى واحدا كتبت لهما الجنة، و من ذكر الحسين (عليه السلام) عنده فخرج من عينه من الدموع مقدار جناح ذباب كان ثوابه على الله و لم يرض له بدون الجنة۔
ابو العباس قرشی نے محمّد بن الحسين بن ابى الخطّاب سے اور اس نے محمّد بن اسماعيل سے اور اس نے صالح بن عقبہ سے اور اس نے ابى هارون مكفوف سے نقل كیا ہے کہ: امام صادق(ع) نے فرمایا ہے کہ اے ابو ہارون کیا تم میرے لیے امام حسین کی مصیبت کے بارے میں شعر پڑھو گے ؟ ابو ہارون نے کہا پس میں نے امام کے لیے اشعار کو پڑھا اور امام نے گریہ کیا اور فرمایا: جیسے تم اپنے لوگوں کے درمیان شعر و مرثیہ پڑھتے ہو ویسے میرے لیے بھی پڑھو یعنی خاص لہجے اور سوز و گداز کے ساتھ ۔ ابو ہارون نے کہا کہ اس شعر کو میں نے امام نے پڑھا: کہ گزر کرو امام حسین کی قبر سے اور انکی پاک و مطھر ہڈیوں سے کہو۔ ابو ہارون کہتا ہے کہ امام نے شدید گریہ کیا اور فرمایا کہ مزید بھی اشعار پڑھو۔ پس میں نے ایک اور مرثیہ امام کے لیے پڑھا اور امام نے بہت ہی شدید گریہ کیا اور میں نے امام کے اھل خانہ کے گرئیے کی آواز کو پردے کے پیچھے سے سنا۔ پھر ابو ہارون کہتا ہے کہ جب میں اشعار کو پڑھنا ختم کیا تو امام صادق نے مجھے فرمایا کہ اے ابو ہارون جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار کو پڑھے خود گریہ کرے اور مزید دس بندوں کو بھی رلائے تو جنت ان سب پر واجب ہو جاتی ہے اور جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار کو پڑھے خود گریہ کرے اور ایک اور بندے کو بھی رلائے تو ان دونوں پر جنت واجب ہو جاتی ہے اور جس بندے کے سامنے امام حسین کا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھ سے مکھی کے پر کے برابر اشک جاری ہو جائے تو اس کو اجر و ثواب دینا خداوند کے ذمے ہے اور خداوند اس کو جنت سے کم اجر و ثواب عطا نہیں کرے گا۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص208، تحقيق: الشيخ جواد القيومی، لجنة التحقيق، چاپ اول، الناشر:موسسة نشر الفقاهة عيد الغدير 1417.(
ابو عمارة کا امام صادق(ع) کے لیے مصائب پڑھنا
حَدَّثَنِي أَبُو الْعَبَّاسِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ حَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي عُمَارَةَ الْمُنْشِدِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ: قَالَ لِي يَا بَا عُمَارَةَ أَنْشِدْنِي فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام قَالَ فَأَنْشَدْتُهُ فَبَكَى ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ فَبَكَى ثُمَّ أَنْشَدْتُهُ فَبَكَى قَالَ فَوَ اللَّهِ مَا زِلْتُ أُنْشِدُهُ وَ يَبْكِي حَتَّى سَمِعْتُ الْبُكَاءَ مِنَ الدَّارِ فَقَالَ لِي يَا أَبَا عُمَارَةَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام شِعْراً فَأَبْكَى خَمْسِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى أَرْبَعِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى ثَلَاثِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى عِشْرِينَ فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَأَبْكَى عَشَرَةً فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام شِعْراً فَأَبْكَى وَاحِداً فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ عليه السلام شِعْراً فَبَكَى فَلَهُ الْجَنَّةُ وَ مَنْ أَنْشَدَ فِي الْحُسَيْنِ شِعْراً فَتَبَاكَى فَلَهُ الْجَنَّۃ۔
حسن بن على بن ابى المغيره نے ابى عماره المنشد سے اور اس نے امام صادق(ع) سے نقل كیا ہے کہ: امام صادق نے مجھ سے فرمایا کہ: اے ابو عمارۃ امام حسین(ع) کے غم میں میرے لیے مرثیہ پڑھو۔ ابو عمارہ کہتا ہے کہ میں نے امام کے لیے اشعار پڑھے اور امام نے گریہ کیا۔ میں نے دوبارہ اشعار پرھے اور امام نے بھی دوبارہ گریہ کیا۔ ابو عمارہ کہتا ہے کہ خدا کی قسم میں بار بار اشعار پڑھتا رہا اور امام بار بار گریہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ امام کے گھر سے بھی گرئیے کی آواز کو میں نے سنا۔ پھر امام نے مجھے فرمایا کہ اے ابو عمارہ جو بھی امام حسین(ع) کے غم میں مرثیہ اور اشعار پڑھے خود گریہ کرے اور مزید پچاس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار پڑھے خود گریہ کرے اور مزید چالیس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو بھی امام حسین کے غم میں مرثیہ اور اشعار پڑھے خود گریہ کرے اور مزید تیس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو امام حسین کے غم میں مرثیہ پڑھے اور بیس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو امام حسین کے غم میں مرثیہ پڑھے اور دس بندوں کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور امام حسین کے غم میں اشعار پڑھے اور فقط خود گریہ کرے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو امام حسین کے غم میں اشعار پڑھے اور ایک بندے کو رلائے تو جنت اس کے لیے ہے اور جو امام حسین کے لیے مرثیہ پڑھے اور فقط رونے والی شکل بنائے تو جنت اس کے لیے ہے۔
)ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367 ق،كامل الزيارات، ج1 ص105، تحقيق: عبدالحسين امينی، چاپ اول، ناشر: دار المرتضوية، 1356 ش.(
امام صادق(ع) کا روز عاشوراء شدید گرئیے اور غم کی حالت میں ہونا
روى عبد الله بن سنان قال: دخلت على سيدي أبي عبد الله جعفر بن محمد عليهما السلام في يوم عاشوراء فألفيته كاسف اللون ظاهر الحزن و دموعه تنحدر من عينيه كاللؤلؤ المتساقط. فقلت: يا ابن رسول الله! مم بكاؤك؟ لا أبكي الله عينيك، فقال لي: أو في غفلة أنت؟ أما علمت أن الحسين بن علي أصيب في مثل هذا اليوم؟ فقلت: يا سيدي! فما قولك في صومه؟ فقال لي: صمه من غير تبييت، و أفطره من غير تشميت، ولا تجعله يوم صوم كملا و ليكن إفطارك بعد صلاة العصر بساعة على شربة من ماء، فإنه في مثل ذلك الوقت من ذلك اليوم تجلت الهيجاء عن آل رسول الله و انكشفت الملحمة عنهم، و في الأرض منهم ثلاثون صريعا في مواليهم يعز على رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم مصرعهم و لو كان في الدنيا يومئذ حيا لكان صلوات الله عليه و آله و سلم هو المعزي بهم، قال: و بكي أبو عبد الله عليه السلام حتى اخضلت لحيته بدموعه، ثم قال: إن الله جل ذكره لما خلق النور خلقه يوم الجمعة في تقديره في أول يوم من شهر رمضان، و خلق الظلمة في يوم الاربعاء يوم عاشوراء في مثل ذلك يعني يوم العاشر من شهر المحرم في تقديره، و جعل لكل منهما شرعة و منهاجا۔۔
عبد اللہ ابن سنان نے نقل کیا ہے کہ: میں روز عاشورا امام صادق(ع) کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ امام کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے اور ان کی آنکھیں بارش کی طرح اشک بہا رہی ہیں۔ میں نے کہا: اے فرزند رسول خدا آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں ؟ خداوند آپ کی آنکھوں کو کبھی نہ رلائے۔ امام نے فرمایا: کیا تم غافل ہو کیا تم کو معلوم نہیں کہ امام حسین پر آج کے دن ہی تو مصیبت آئی تھی۔ میں نے کہا اے مولا آج کے دن روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے ؟ امام نے فرمایا روزہ رکھ لو لیکن رات کو روزے کی نیت نہ کرو اور بغیر کسی کی ملامت کے افطار کرو۔ ایک مکمل دن روزہ نہ رکھو بلکہ نماز ظھر کے ایک گنٹھے بعد تھوڑا سا پانی پی لو کیونکہ اسی وقت جنگ ختم ہوئی تھی اور آل رسول سے جنگ کی مصیبت ختم ہوئی تھی اور یہی وقت تھا کہ آل رسول سے تیس مردوں کے جنازے زمین پر گرے ہوئے تھے اور یہ مصیبت و غم رسول خدا کے لیے بہت سخت و دردناک تھا۔ اگر رسول خدا آج کے دن زندہ ہوتے تو اس غم میں وہ سوگ مناتے۔ راوی کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے اس قدر گریہ کیا کہ امام کی ریش مبارک اشکوں سے تر ہو گئی۔ پھر امام نے فرمایا خداوند نے ماہ رمضان کے پہلے دن جمعے کو نور کو خلق کیا اور تاریکی و ظلمت کو روز عاشورا بدھ والے دن خلق کیا یعنی دس محرم الحرام والے دن اور ہر کسی کے لیے نور اور ظلمت کی طرف راستے کو قرار دیا ہے۔
)الشيخ الطوسی، الوفاة:460، مصباح المتهجد ج1 ص782، چاپ اول، الناشر: مؤسسة فقه الشيعة بيروت – لبنان(
امام صادق(ع) کا امام حسین(ع) کا نام ذکر ہوتے وقت گریہ کرنا
حدّثني محمّد بن الحسن، عن محمّد بن الحسن الصّفّار، عن أحمد بن محمّد بن عيسى، عن محمّد بن خالد البرقيِّ، عن أبان الأحمر، عن محمّد بن الحسين الخزَّاز، عن هارون بن خارجة، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: كنّا عنده فذكرنا الحسين عليهالسلام [و على قاتله لعنة الله] فبكى أبو عبد الله عليه السلام و بكينا، قال:ثمَّ رفع رأسَه فقال: قال الحسين عليه السلام: أنا قتيل العَبرَة، لا يذكرني مؤمن إلاّ بكى».
ہارون بن خارجہ کہتا ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ باتوں باتوں میں امام حسین کا نام ذکر ہوا۔ یہ سن کر امام نے گریہ کرنا شروع کر دیا اور ہم نے بھی گریہ کیا۔ راوی کہتا ہے کہ امام صادق(ع) نے سر کو بلند کیا اور فرمایا کہ امام حسین نے فرمایا ہے کہ میں اشکوں سے قتل کیا گیا ہوں، کوئی مؤمن بھی مجھے یاد نہیں کرے گا مگر جب بھی یاد کرے گا تو مجھ پر اشک بہائے گا۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367،کامل الزيارات ج1 ص117، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مكتبة الصدوق.(
امام صادق(ع) کا پانی پیتے وقت امام حسین(ع) پر گریہ کرنا
مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيى،عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَمَّنْ ذَكَرَهُ، عَنِ الْخَشَّابِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَّانِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ دَاوُدَ الرَّقِّيِّ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللهِ عليه السلام إِذَا اسْتَسْقَى الْمَاءَ، فَلَمَّا شَرِبَهُ رَأَيْتُهُ قَدِ اسْتَعْبَرَ، وَ اغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِدُمُوعِهِ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا دَاوُدُ، لَعَنَ اللهُ قَاتِلَ الْحُسَيْنِ صَلَواتُ اللهِ عَلَيْهِ، وَ مَا مِنْ عَبْدٍ شَرِبَ الْمَاءَ، فَذَكَرَ الْحُسَيْنَ عليه السلام وَ أَهْلَ بَيْتِه وَ لَعَنَ قَاتِلَهُ إِلاَّ كَتَبَ اللهُ ـ عَزَّ وَ جَلَّ ـ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَحَطَّ عَنْهُ مِائَةَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَ رَفَعَ لَهُ مِائَةَ أَلْفِ دَرَجَةٍ، وَ كَأَنَّمَا أَعْتَقَ مِائَةَ أَلْفِ نَسَمَةٍ، وَ حَشَرَهُ اللهُ ـ عَزَّ وَ جَلَّ ـ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلِجَ الْفُؤَادِ ۔
داود رقی کہتا ہے کہ میں امام صادق(ع) کے پاس تھا۔ امام نے پانی طلب کیا اور جب پانی پیئا تو امام کی گریہ کرنے والی حالت ہو گئی اور دونوں آنکھیں اشکوں سے بھر گئی۔ پھر امام نے فرمایا: اے داود خداوند امام حسین(ع) کے قاتل پر لعنت کرے، جو بندہ بھی پانی پیئے اور امام حسین کو یاد کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کرے تو خداوند ایک لاکھ نیکیاں اس کو عطا کرتا ہے اور اس کے ایک لاکھ گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے ایک لاکھ درجے بلند کرتا ہے اور وہ ایسا ہے گویا اس نے ایک لاکھ غلاموں کو آزاد کیا ہے اور خداوند اس کو قیامت والے دن آرام اور مطمئن دل کے ساتھ محشور فرمائے گا۔
)الشيخ الكلينی، الوفاة:329،الکافی ج12 ص658، تحقيق: قسم احياء التراث مرکز بحوث دار الحديث، الناشر: دارالحديث، قم(
امام صادق(ع) کا امام حسین(ع) پر گریہ کرنے کی نصیحت کرنا
حدَّثني محمّد بن عبد الله بن جعفر الحِميريّ، عن أبيه، عن عليِّ بن محمّد بن سالم، عن محمّد بن خالد، عن عبد الله بن حماد البصريّ، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن مِسْمَع بن عبدالملك كِرْدين البصريّ « قال: قال لي أبو عبد الله عليه السلام، يا مِسْمَع أنت مِن أهل العِراق؛ أما تأتي قبر الحسين عليه السلام؟ قلت: لا؛ أنا رَجلٌ مشهورٌ عند أهل البصرة، و عندنا مَن يتّبع هوى هذا الخليفة، و عدوّنا كثير مِن أهل القبائل مِن النُّصّاب و غيرهم، و لستُ آمنهم أنْ يرفعوا حالي عند ولد سليمان فيُمثِّلون بي، قال لي: أفما تذكر ما صنع به؟ قلت: نعم، قال: فتجزع؟ قلت: إي و الله و أستعبر لذلك حتّى يرى أهلي أثر ذلك عليَّ فأمتنع مِن الطّعام حتّى يستبين ذلك في وَجهي، قال: رحِمَ الله دَمعتَك، أما إنّك مِن الَّذين يُعدُّون مِن أهل الجزع لنا، و الّذينَ يَفرحون لِفَرحِنا و يحزنون لِحُزننا و يخافون لَخوْفنا و يأمنون إذا أمنّا، أما إنّك سترى عند موتك حضور آبائي لك و وصيّتهم ملكَ الموت بك، و ما يلقّونك به مِن البشارة أفضل، و لملك الموت أرقّ عليك و أشدُّ رَحمةً لك من الاُمّ الشّفيقة على ولدها، قال: ثمَّ استعبر و استعبرتُ معه، فقال: الحمد للهِ الّذي فضّلنا على خلقِه بالرَّحمة و خصَّنا أهل البيت بالرَّحمة، يا مِسمَع إنَّ الأرض و السَّماء لتبكي مُنذُ قُتل أمير المؤمنين عليه السلام رَحمةً لنا، و ما بكى لنا مِن الملائكة أكثر و ما رَقأتْ دُموع الملائكة منذ قُتلنا، و ما بكى أحدٌ رَحمةً لنا و لما لقينا إلاّ رحمه الله قبل أن تخرج الدَّمعة من عينه، فإذا سالَتْ دُموعُه على خَدِّه، فلو أنَّ قطرةً مِن دُموعِه سَقَطتْ في جهنَّم لأطْفَئتْ حَرَّها حتّى لا يوجد لها حَرٌّ، و إنّ الموجع لنا قلبه ليفرح يوم يرانا عند مَوته فرحَةً لا تزال تلك الفرْحَة في قلبه حتّى يرد علينا الحوض، و إنّ الكوثر ليفرح بمحبِّنا إذا ورد عليه حتّى أنّه ليذيقه مِن ضروب الطَّعام ما لا يشتهي أن يصدر عنه، يا مِسْمع مَن شرب منه شَربةً لم يظمأ بعدها أبداً، و لم يستق بعدها أبداً، و هو في بَرْدِ الكافور و ريح المِسْك و طعم الزَّنجبيل، أحلى مِن العَسل، و ألين مِن الزَّبد، و أصْفى مِن الدَّمع، و أذكى مِن العَنبر يخرج من تَسْنيم، و يمرُّ بأنهار الجِنان يجري على رَضْراض الدُّرِّ و الياقوت، فيه من القِدْحان أكثرُ من عدد نجوم السَّماء، يوجد ريحه مِن مَسيرةِ ألف عام، قِدْحانه مِن الذَّهب و الفِضّة و ألوان الجوهر، يفوح في وجه الشّارب منه كلُّ فائحة حتّى يقول الشّارب منه: يا ليتني تركت ههنا لا أبغي بهذا بَدلاً، و لا عنه تَحويلاً، أما إنّك يا [ابن] كِرْدين ممّن تروي منه، و ما مِن عَين بَكتْ لنا إلاّ نَعِمَتْ بالنّظر إلى الكوثر و سُقِيتْ منه، وأنَّ الشَّارب منه ممّن أحبَّنا ليعطى مِن اللَّذَّة و الطَّعم و الشَّهوة له أكثر ممّا يعطاه مَن هو دونه في حُبِّنا. و إنْ على الكوثر أمير المؤمنين عليه السلام و في يده عصاً مِن عَوسَج يحطم بها أعداءَنا، فيقول الرَّجل منهم: إنّي أشهد الشَّهادتين، فيقول: انطلقْ إلى إمامك فلانٍ فاسأله أنْ يشفع لك، فيقول: تبرَّأ منّي إمامي الَّذي تذكره، فيقول: ارجع إلى ورائِك فقلْ للَّذي كنتَ تتولاّه و تقدِّمه على الخلق فاسأله إذ كان خير الخلق عِندَك أن يشفعَ لك، فإنَّ خيرَ الخلق مَن يَشفَع، فيقول: إنّي اُهلك عَطَشاً، فيقول له: زادكَ اللهُ ظَمأُ و زادَكَ اللهُ عَطَشاً. قلت: جُعِلتُ فِداك و كيف يقدر على الدُّنوّ مِن الحوض و لم يقدر عليه غيره؟ فقال: ورع عن أشياء قبيحةٍ، و كفّ عن شتمنا [أهل البيت] إذا ذكرنا، و ترك أشياء اجترء عليها غيره، وليس ذلك لِحبّنا و لا لِهوى منه لنا، و لكن ذلك لشدَّة اجتهاده في عبادته و تَدَيُّنه و لما قد شغل نفسه به عن ذكر النّاس، فأمّا قلبه فمنافق و دينه النَّصب و اتّباع أهل النَّصب و ولاية الماضينَ و تقدُّمه لهما على كلِّ أحدٍ »۔
مسمع بن عبد الملک کردین بصری نے نقل کیا ہے کہ: امام صادق(ع) نے مجھے فرمایا کہ تم اھل عراق ہو، کیا تم امام حسین(ع) کی قبر کی زیارت کے لیے جاتے ہو ؟ مسمع نے کہا: نہیں، میں بصرہ میں ایک مشھور بندہ ہوں اور وہاں پر خلیفہ کے جاسوس بندے ہیں اور وہاں پر ناصبی اور اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ وہاں ہوتے ہیں اور وہاں مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ اس لیے میں احتیاط کرتا ہوں اور امام حسین کی زیارت کے لیے کربلاء نہیں جاتا۔ امام صادق(ع) نے فرمایا: کیا تم ان مصائب اور مظالم کہ جو امام حسین پر کئے گئے ان کو یاد بھی کرتے ہو ؟ اس نے کہا: ہاں۔ امام نے فرمایا کیا پھر تم گریہ بھی کرتے ہو ؟ اس نے کہا ہاں خدا کی قسم امام حسین(ع) کے غم میں میری یہ حالت ہو جاتی ہے کہ میرے گھر والے اس اثر کو مجھ پر مشاھدہ کرتے ہیں اور میری حالت اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ کوئی چیز کھانے پینے کا دل نہیں کرتا اور غم و حزن کے آثار واضح طور پر میرے چہرے پر موجود ہوتے ہیں۔ امام نے فرمایا: خداوند تیرے ان اشکوں پر رحمت کرے اور یقینی طور پر ان میں سے شمار ہو گے جو ہمارے لیے غمگین اور ہمارے لیے خوش حال ہوتے ہیں اور ہمارے لیے ڈر و خوف کی حالت میں ہوتے ہیں اور ہمارے امن میں ہونے کی حالت میں وہ بھی امن و امان میں ہوتے ہیں۔ تم لازمی طور پر توجہ کرو کہ موت کے وقت تم میرے اجداد کو ضرور اپنے پاس موجود پاؤ گے اور وہ ملک الموت سے تمہاری شفاعت کریں گے اور اس وقت تم کو ایسی بشارت دیں گے کہ وہ ہر چیز سے افضل و بالا تر ہے اور تم دیکھو گے کہ ملک الموت تم سے مہربان ماں سے بھی زیادہ مہربان تر و رحیم تر ہو گا۔ مسمع نے کہتا ہے پھر امام صادق نے گریہ کیا اور ان کے اشک ان کے چہرے پر جاری ہو گئے اور میں نے بھی ان کے ساتھ گریہ کیا۔ پھر امام نے فرمایا:الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنا عَلى خلقه بالرّحمة و خصّنا اهل البيت بالرّحمة. حمد و تعریف خداوند کے لیے خاص ہے کہ ہم کو تمام مخوقات پر رحمت کا وسیلہ قرار دے کر برتری عطا کی ہے اور ہم اھل بیت کو رحمت کے ساتھ خاص کیا ہے۔ اے مسمع جب سے امير المؤمنين علی(ع) شھید ہوئے ہیں آسمان ہم پر رحم کرتا ہے اور ہم پر سب سے زیادہ فرشتوں نے گریہ کیا ہے اور وہ مسلسل اشک بہاتے ہیں کہ ان کے اشک کبھی ختم نہیں ہوتے۔ تم لازمی طور پر توجہ کرو کہ ہم پر کوئی بندہ بھی ترس اور مصائب کی وجہ سے گریہ نہیں کرتا مگر یہ کہ اسکی آنکھوں سے اشک آنے سے پہلے خداوند اس پر اپنی رحمت کرے گا اور جب اشک اس کے چہرے پر جاری ہوتے ہیں تو اگر اس کے اشک کا ایک قطرہ جھنم میں گر جائے تو اسکی آگ اور حرارت کو ایسے ختم کر دے گا کہ وہ کبھی دوبارہ گرم نہیں ہو گی۔ تم یہ جان لو کہ جس بندے کا دل ہمارے غم کی وجہ سے غمناک ہوتا ہو جس دن اس کی موت کا دن ہو گا وہ ہم سب اھل بیت کو دیکھے گا اور اس وقت اس کو ایک ایسا آرام و سکون ملے گا کہ وہ ہمارے پاس حوض کوثر کے کنارے پہنچ جائے گا اور جب ہمارا محبّ حوض کوثر پر آئے گا تو ایک خاص قسم کی خوشی حوض کوثر پر ایجاد ہو گی اور وہاں پر طرح طرح کی غذائیں اس کو کھلائی جائیں گی اور وہ چاہے گا کہ کبھی بھی ان غذاؤں کا ذائقہ اور مزہ ختم نہ ہو۔
اے مسمع جو بھی اس حوض سے ایک گھونٹ پی لے تو وہ کبھی بھی دوبارہ پیاسا نہیں ہو گا اور کبھی بھی کسی سے پانی نہیں مانگے گا۔ پھر امام نے کوثر کے پانی کی صفات اس طرح بیان کی ہیں: الف: اس پانی کی طبیعت کافور کے پانی کی طرح ٹھنڈی ہے۔ ب: اس کی خوشبو مشک کی طرح ہے۔ ج: اس کا مزہ زنجبیل کی طرح ہے۔ د: شھد سے میٹھا ہے۔ ہ: دودھ سے بھی نرم تر اور لطیف تر ہے۔ و: آنکھ کے آنسو سے بھی صاف تر ہے۔ ز: عنبر سے پاک تر ہے۔ ح: جنت میں تسنیم نامی کنویں سے خارج ہوتا ہے۔ ط: جنت سے بہتا ہوا آتا ہے۔ ی: جنت میں درّ اور یاقوت کے اوپر سے جاری ہوتا ہے۔ ل: اس پانی میں موجود برتنوں کی تعداد آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہے۔ م: اس پانی کی خوشبو ایک ہزار سال کے فاصلے سے بھی آتی ہے۔ ن: اس پانی میں موجود برتن زر و قیمتی جواھر سے بنے ہوئے ہیں۔ ہ: خوشبو اور باد معطر جو بھی پیتا ہے اس کے منہ سے چلتی ہے اور وہ بندہ کہتا ہے کہ اے کاش مجھے میرے اسی حال پر چھوڑ دیں کیونکہ میں یہاں سے کہیں دوسری جگہ نہیں جانا چاہتا۔
اس کے بعد امام صادق(ع) نے مسمع سے فرمایا کہ اے مسمع یاد رکھو کہ تم ان میں سے ہو کہ جو اس حوض کوثر سے پانی پییؤ گے اور جو بھی آنکھ ہمارے غم میں روتی ہے وہ اس آب کوثر کی طرف دیکھنے اور اس سے سیراب ہونے کی نعمت سے بھرہ مند ہوتی ہے۔ ہمارے محبّوں کو اس آب کوثر سے جو لذت و مزہ اور ذائقہ محسوس اور حاصل ہوتا ہے وہ اس لذت و مزے اور ذائقے سے کئی گنا زیادہ ہے جو ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو ہماری محبت کے ان سے کم تر مرتبے پر فائز ہیں۔
حوض کوثر کے کنارے امير المؤمنين(ع) کھڑے ہیں اور ان کے دست مبارک میں ایک عصا ہے جو وہ ہمارے دشمنوں کو مارتے ہیں۔ ان دشمنوں میں سے ایک علی(ع) سے عرض کرے گا میں تو شھادتین کا پڑھنے والا ہوں۔ مولا اس سے فرمائیں گے کہ تم اپنے فلانے مولا کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میری شفاعت کرے۔ وہ شخص کہے گا کہ میرا امام اس وقت مجھ سے دور بھاگ رہا ہے۔ مولا فرمائیں گے کہ یہاں سے واپس چلے جاؤ اور جس کو تم اپنا امام مانتے تھے اور اس سے محبت کی وجہ سے اسکو تمام لوگوں سے افضل و مقدم جانتے تھے، اس سے اپنی شفاعت کو طلب کرو کیونکہ جو تمہارے نزدیک سب سے افضل و بہترین ہے وہی تہماری شفاعت کرے گا۔ مولا علی(ع) لوگوں کی شدت پیاس کی وجہ سے اس سے فرمائیں گے کہ خداوند نے تجھے تشنہ تر کیا ہے اور تیری پیاس کو زیادہ کرے۔ مسمع کہتا ہے کہ میں نے امام صادق سے عرض کیا کہ وہ بندہ کیسے حوض کے کنارے پہنچ چائے گا در حالیکہ مولا علی(ع) کے سوا کوئی بھی وہاں جانے کی قدرت نہیں رکھتا ؟ امام نے فرمایا کہ یہ بندہ کچھ برے کاموں سے پرہیز کرتا تھا۔ وہ حرام کام جو دوسرے انجام دیتے تھے ان کو یہ انجام نہیں دیتا تھا اور جب بھی ہمارا نام لیتا تھا ہمیں سبّ و لعن نہیں کرتا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ یہ تمام کام ہم سے محبت اور دوستی کی وجہ سے انجام نہیں دیتا تھا بلکہ وہ عبادت اور برے لوگوں سے دوری کی وجہ سے ان برے کاموں سے بچتا تھا لیکن اس کے دل میں ہمارے لیے نفاق تھا اور وہ ناصبیوں کے مذھب پر تھا گذشتہ خلفاء سے دوستی اور محبت کرتا تھا اور ان دو بندوں کو تمام خلفاء اور لوگوں پر افضل و مقدم جانتا تھا۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص108، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق(
امام حسين(ع) پر گریہ کرنے کا نتیجہ گناہوں کا معاف ہونا ہے
حدثني حكيم بن داود، عن سلمة، عن يعقوب بن يزيد، عن ابن أبي عمير، عن بكر بن محمد، عن فضيل بن يسار، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: من ذكرنا عنده ففاضت عيناه و لو مثل جناح الذباب غفر له ذنوبه و لو كانت مثل زبد البحر.
امام صادق(ع) نے فرمایا کہ جس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھوں سے مچھر کے پر کے برابر اشک آ جائے تو اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اگرچہ وہ گناہ دریا کی جھاگ کی طرح زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص208، تحقيق: الشيخ جواد القيومی، لجنة التحقيق، چاپ اول، الناشر:موسسة نشر الفقاهة عيد الغدير 1417(
امام صادق(ع) کا امام حسین(ع) پر گرئیے کے جائز ہونے کو بیان کرنا
حدثنا محمد بن محمد، قال: حدثنا أبو القاسم جعفر بن محمد بن قولويه رحمه الله، قال: حدثني أبي، قال: حدثني سعد بن عبد الله، عن أحمد بن محمد ابن عيسى، عن الحسن بن محبوب الزراد، عن أبي محمد الأنصاري، عن معاوية بن وهب، قال: كنت جالسا عند جعفر بن محمد عليهما السلام إذ جاء شيخ قد انحنى من الكبر، فقال: السلام عليك و رحمة الله و بركاته. فقال له أبو عبد الله: و عليك السلام و رحمة الله و بركاته، يا شيخ ادن مني، فدنا منه فقبل يده فبكى، فقال له أبو عبد الله عليه السلام: و ما يبكيك يا شيخ؟ قال له: يا بن رسول الله، أنا مقيم على رجاء منكم منذ نحو من مائة سنة، أقول هذه السنة و هذا الشهر و هذا اليوم، و لا أراه فيكم، فتلومني أن أبكي! قال: فبكى أبو عبد الله عليه السلام ثم قال: يا شيخ، إن أخرت منيتك كنت معنا، و إن عجلت كنت يوم القيامة مع ثقل رسول الله صلى الله عليه و آله. فقال الشيخ: ما أبالي ما فاتني بعد هذا يا بن رسول الله. فقال له أبو عبد الله عليه السلام: يا شيخ، إن رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم قال: إني تارك فيكم الثقلين ما إن تمسكتم بهما لن تضلوا: كتاب الله المنزل،و عترتي أهل بيتي، تجئ و أنت معنا يوم القيامة. قال: يا شيخ، ما أحسبك من أهل الكوفة. قال: لا. قال: فمن أين أنت؟ قال: من سوادها جعلت فداك. قال: أين أنت من قبر جدي المظلوم الحسين عليه السلام؟ قال: إني لقريب منه قال: كيف إتيانك له؟ قال: إني لآتيه و أكثر قال: يا شيخ، ذاك دم يطلب الله (تعالى) به، ما أصيب ولد فاطمة و لا يصابون بمثل الحسين عليه السلام، و لقد قتل عليه السلام في سبعة عشر من أهل بيته، نصحوا لله و صبروا في جنب الله، فجزاهم أحسن جزاء الصابرين، إنه إذا كان يوم القيامة أقبل رسول الله صلي الله عليه و آله و سلم و معه الحسين عليه السلام و يده على رأسه بقطر دما فيقول: يا رب، سل أمتي فيم قتلوا ولدي. و قال عليه السلام. كل الجزع و البكاء مكروه سوى الجزع و البكاء على الحسين عليه السلام.
کمر جھکا ہوا ایک بوڑھا بندہ امام صادق(ع) کی خدمت میں آیا اور کہا:السلام عليک و رحمۃ اللَّه. امام صادق(ع) نے فرمایا: عليک السلام و رحمۃ اللَّه. پھر کہا اے اللہ کے بندے میرے نزدیک آؤ۔ جب وہ نزدیک آیا تو اس نے امام کے ہاتھ کو چوم کر گریہ کیا۔ امام نے فرمایا کہ تم کیوں گریہ کر رہے ہو ؟ اس بوڑھے نے کہا یا ابن رسول اللہ میں سو سال ہو گئے ہیں کہ میں اس انتظار میں ہوں۔ میں اپنے آپ سے کہتا ہوں، اس سال میں، اس ماہ میں، فلاں دن آپ خروج و قیام کریں گے لیکن ابھی میں اسی انتظار میں ہوں اور آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں کیوں گریہ کر رہا ہوں۔ امام نے بھی گریہ کرنا شروع کیا اور فرمایا اے اللہ کے بندے اگر تیری آرزو پوری ہونے میں دیر ہو گئی تو تم ہمارے ساتھ ہو گے اور اگر جلدی پوری ہو گئی تو تم قیامت والے دن اہل بیت رسول خدا کے ساتھ ہو گے۔ اس بوڑھے نے کہا اب جو بھی ہو جائے مجھے اسکی پرواہ نہیں ہے۔
امام نے فرمایا اے بندہ خدا رسول خدا نے فرمایا ہے کہ: انى تارك فيكم الثقلين، ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا: كتاب اللَّه المنزل و عترتى: اهل بيتى.
“میں تم لوگوں میں دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان مضبوطی سے تھامے رہو گے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے، وہ دو چیزیں،قرآن اور میرے اھل بیت ہیں۔ امام نے فرمایا اے بندہ خدا کل قیامت کو تم ہمارے ساتھ ہو گے۔ پھر امام نے کہا کہ تم اھل کوفہ ہو ؟ اس نے کہا نہیں۔ امام نے فرمایا پھر کہاں سے ہو ؟ اس نے کہا کوفہ کے نزدیک رہتا ہوں۔ امام نے فرمایا میرے مظلوم جدّ کی قبر سے کتنے فاصلے پر رہتے ہو ؟ اس نے کہا: میرے گھر کے نزدیک ہی ہے۔ امام نے فرمایا کس قدر میرے امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاتے ہو ؟ اس نے کہا میں کربلاء زیارت کے لیے زیادہ جاتا ہوں۔ امام صادق نے فرمایا کہ امام حسین کا خون ایک ایسا خون ہے جس کا بدلہ لینا خود خداوند کے ذمے ہے۔ امام حسین کی مصیبت کی طرح اولاد فاطمہ(س) سے کسی پر بھی ویسی مصیبت نہیں آئی اور نہ ہی آئے گی۔ امام حسین کےساتھ سترہ اھل بیت کے جوان مرد اس حالت میں شھید ہوئے کہ انھوں نے خداوند کے لیے نصیحت اور صبر کیا۔ خداوند نے بھی صابرین والا بہترین اجر ان کو عطا کیا ہے۔ جب قیامت ہو گی تو رسول خدا امام حسین کے ساتھ اس حال میں آئیں گے کہ ان کے ہاتھ ان کے سر پر ہوں گے اور ان سے خون بہہ رہا ہو گا اور رسول خدا عرض کریں گے اے خداوندا میری اس امت سے سوال کریں کہ انھوں نے کیوں میرے بیٹے حسین کو قتل کیا تھا ؟ امام صادق نے فرمایا کہ ہر جزع و گریہ کرنا مکروہ ہے مگر امام حسین(ع) پر گریہ کرنا مکروہ نہیں ہے۔
)أبی جعفر محمّد بن الحسن بن علی بن الحسن الطّوسی الوفاة: 460، الامالی ج1 ص161، تحقيق: مؤسسة البعثة، چاپ اول،الناشر: دار الثقافة ١٤١٤ هـ.ق(
امام صادق(ع) کا امام حسين(ع) کے لیے سینے زنی کے جائز ہونے کو بیان کرنا
و ذكر أحمد بن محمد بن داود القمي في نوادره قال: روى محمد بن عيسى عن أخيه جعفر بن عيسى عن خالد بن سدير أخى حنان بن سدير قال: سألت ابا عبد الله عليه السلام عن رجل شق ثوبه على أبيه أو على امه أو على اخيه أو على قريب له فقال: لا بأس بشق الجيوب. قد شق موسى بن عمران على أخيه هارون، و لا يشق الوالد على ولده و لا زوج على امرأته، و تشق المرأة على زوجها سألت ابا عبد الله عليه السلام عن رجل شق ثوبه على أبيه أو على امه أو على اخيه أو على قريب له فقال: لا بأس بشق الجيوب. قد شق موسى بن عمران على أخيه هارون، و لا يشق الوالد على ولده و لا زوج على امرأته، و تشق المرأة على زوجها و إذا شق زوج على امرأته أو والد على ولده فكفارته حنث يمين و لا صلاة لهما حتى يكفرا و يتوبا من ذلك، و إذا خدشت المرأة وجهها أو جزت شعرها أو نتفته ففي جز الشعر عتق رقبة أو صيام شهرين متتابعين أو اطعام ستين مسكينا، و في الخدش إذا دميت و في النتف كفارة حنث يمين، و لا شئ في اللطم على الخدود سوى الاستغفار و التوبة، و قد شققن الجيوب و لطمن الخدود الفاطميات على الحسين بن علي عليهما السلام، و على مثله تلطم الخدود و تشق الجيوب۔
ابن سدیر نے نقل کیا ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے اس بندے کے بارے میں سوال کیا کہ جو اپنے باپ یا ماں یا بھائی یا کسی نزدیکی رشتے دار کی موت پر اپنے لباس کو چاک کرتا ہے کہ کیا اس کا یہ عمل جائز ہے ؟ امام نے فرمایا کہ لباس کو چاک کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ حضرت موسی نے حضرت ہارون کے لیے اپنی قمیص کو چاک کیا تھا۔ لیکن باپ اپنے بیٹے اور شوہر اپنی بیوی کے لیے لباس کو چاک نہیں کرسکتے لیکن بیوی اپنے شوہر کے غم میں اپنا لباس چاک کر سکتی ہے اور اگر باپ اپنے بیٹے اور شوہر اپنی بیوی کے غم میں ایسا کرتے ہیں تو ان پر قسم کو توڑنے والا کفارہ ہو گا اور ان دونوں کی نماز جب تک کفارہ نہ دیں اور اپنے اس عمل سے توبہ نہ کریں، قبول نہیں ہو گی۔ جب عورت اپنے چہرے کو زخمی کرتی ہے یا اپنے بالوں کو کھولتی ہے یا ان کو سر سے اکھاڑتی ہے تو اس پر وہ ایک غلام کو آزاد کرے گی یا دو ماہ روزے رکھے گی یا ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلائے گی اور اگر چہرے کو اس طرح زخمی کرتی ہے کہ خون جاری ہو جاتا ہے تو اس پر قسم کو توڑنے والا کفارہ ہو گا۔ چہرے پر ہاتھ مارنے کا کفارہ فقط استغفار و توبہ کرنا ہے اور بنی ہاشم کی خواتین نے امام حسین کے غم میں اپنے گریبان کو چاک کیا اور چہروں پر ماتم کیا اور امام حسین(ع) کے غم میں چہرے پر ماتم اور گریبان کو چاک کرنا چاہیے۔
)الشيخ الطوسی، الوفاة:460، تهذيب الاحکام ج8 ص325، تحقيق: السيد حسن الخراسان، چاپ سوم، الناشر:دار الکتب الاسلامية –تهران(
امام صادق(ع) کا امام حسین(ع) کا گریہ کرنے والوں کے لیے استغفار کرنے کو بیان کرنا
حدَّثني أبي رحمه الله عن الحسين بن الحسن بن أبان، عن الحسين بن، عن عبد الله بن المغيرة، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن عبد الله بن بُكَير الاُرجانيِّ، و حدَّثني أبي رحمه الله عن سعد بن عبد الله،عن محمّد بن الحسين، عن محمّد بن عبد الله بن زُرارة، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن عبد الله بن بُكَير « قال: حَجَجْتُ مع أبي عبد الله عليه السلام ـ في حديث طويل ـ فقلت: يا ابن رسول الله لو نُبِش قبرُ الحسين بن عليٍّ عليهما السلام هل كان يُصابُ في قبره شيءٌ؟ فقال: يا ابن بُكَير ما أعظم مسائِلُك، إنَّ الحسين عليه السلام مع أبيه و اُمّه و أخيه في منزل رَسول اللهِ صلى الله عليه و آله و سلم و معه يُرزقون و يحبون و أنّه لعَلى يمين العَرش متعلّق (كذا) يقول: يا رَبِّ أنْجزْ لي ما وَ عَدتَني، و إنّه لينظر إلى زُوَّاره، و أنّه أعرف بهم و بأسمائهم و أسماءِ آبائهم و ما في رِحالهم من أحَدِهم بولده، و أنّه لينظر إلى مَن يبكيه فيستغفر له و يسأل أباه الاستغفار له، و يقول: أيّها الباكي لَو عَلِمتَ ما أعدّ اللهُ لك لَفَرِحْتَ أكثر ممّا حَزِنْتَ، و إنّه ليستغفر له مِن كلِّ ذنبٍ و خطيئةٍ۔
عبد اللہ بن بکیر نے کہا کہ میں نے امام صادق کے ساتھ حج انجام دیا… روایت طولانی ہے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا کہ یا ابن رسول اللہ اگر امام حسین(ع) کی قبر کو کھولیں تو اس میں سے کوئی چیز ملے گی یہ نہیں ؟ امام نے فرمایا تم نے کتنا بڑا سوال کیا ہے۔ ایک دن امام حسین اپنے والد، والدہ اور بھائی کے ساتھ رسول خدا کے گھر تھے اور سب مل کر کھانا کھا رہے تھے اور میں تمہارے لیے خاص طور پر امام حسین کے بارے میں بیان کرتا ہوں کہ امام حسین نے عرش خدا کے دائيں طرف کو پکڑا اور عرض کیا يا ربّ أنجز لي ما وعدتنى۔
خدایا آپ نے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے اس کو پورا کریں اور امام حسین اپنے زائرین کی طرف نگاہ کرتے ہیں اور ان کو ان کے ناموں اور کے آباؤ و اجداد کے ناموں سے جانتے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس سامان ہے اس کو بھی خود ان سے زیادہ امام حسین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ گریہ کرنے والوں کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں تو ان کے لیے طلب مغفرت کرتے ہیں اور اپنے والد سے بھی ان کے لیے طلب مغفرت کرنے کو کہتے ہیں۔ اور ان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اگر تم جان لو کہ خداوند نے تمہارے لیے کیا اجر و ثواب تیار کر رکھا ہے تو تمہاری خوشی تمہارے غم سے زیادہ ہو جائے گی اور یہ حتمی بات ہے کہ خداوند ان اشکوں کے بدلے میں تمہارے سارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور امام گریہ کرنے والے سے جو بھی گناہ سرزد ہوا ہو اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367، کامل الزيارات ج1 ص110، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق(
امام صادق(ع) کا اہل بیت(ع) پر گریہ کرنے کے ثواب کو بیان کرنا
و عن حكيم بن داود، عن سَلَمَةَ، عن عليِّ بن سَيف، عن بَكر بن محمّد، عن فَضَيل بن فَضالة، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: مَن ذُكِرْنا عِنده ففاضَتْ عَيناه حرَّم اللهُ وَجْهَه على النّار۔
فضیل بن یسار نے امام صادق(ع) سے نقل کیا ہے کہ امام نے فرمایا کہ جس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اسکی آنکھوں سے مچھر کے پر کے برابر اشک آ جائے تو اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا اگرچہ وہ گناہ دریا کی جھاگ کی طرح زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 367،کامل الزيارات ج1 ص111، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق.(