- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/08/31
- 0 رائ
وہ روایات جو علی(ع) کے امام حسین(ع) پر گريئے و عزاداری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں اگرچہ ان روایات سے، کہ جو رسول خدا کے گريئے و عزاداری کے بارے میں نقل ہوئی ہیں، کم ہیں لیکن یہ روایات ایسے الفاظ پر مشتمل ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی نے (ع) امام حسین(ع) پر ہونے والے مصائب پر بہت گریہ اور شدید غم و حزن کا اظھار کیا ہے۔
امام حسین(ع) کی شهادت سے پہلے ان پر گریہ کرنا
حدثنا محمد بن أحمد السناني (رضي الله عنه)، قال: حدثنا أحمد بن يحيى بن زكريا القطان، قال: حدثنا بكر بن عبد الله بن حبيب، قال: حدثنا تميم بن بهلول، قال: حدثنا علي بن عاصم، عن الحسين بن عبد الرحمن، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: كنت مع أمير المؤمنين (عليه السلام) في خروجه إلى صفين، فلما نزل بنينوى وهو شط الفرات، قال بأعلى صوته: يا بن عباس، أتعرف هذا الموضع؟ فقلت له: ما أعرفه، يا أمير المؤمنين. فقال علي (عليه السلام): لو عرفته كمعرفتي لم تكن تجوزه حتى تبكي كبكائي. قال: فبكى طويلا حتى اخضلت لحيته و سالت الدموع على صدره، و بكينا معا، وهو يقول: أوه أوه، مالي و لآل أبي سفيان، مالي ولآل حرب، حزب الشيطان، وأولياء الكفر، صبرا – يا أبا عبد الله – فقد لقي أبوك مثل الذي تلقى منهم. ثم دعا بماء فتوضأ و ضوءه للصلاة و صلى ما شاء الله أن يصلي، ثم ذكر نحو كلامه الاول، إلا أنه نعس عند انقضاء صلاته وكلامه ساعة، ثم انتبه فقال: يا ابن عباس. فقلت: ها أنا ذا. فقال: ألا أحدثك بما رأيت في منامي آنفا عند رقدتي؟ فقلت: نامت عيناك و رأيت خيرا، يا أمير المؤمنين. قال: رأيت كأني برجال قد نزلوا من السماء معهم أعلام بيض، قد تقلدوا سيوفهم، و هي بيض تلمع، وقد خطوا حول هذه الارض خطة، ثم رأيت كأن هذه النخيل قد ضربت بأغصانها الارض تضطرب بدم عبيط، و كأني بالحسين سخلي و فرخي و مضغتي و مخي قد غرق فيه، يستغيث فلا يغاث، و كأن الرجال البيض قد نزلوا من السماء ينادونه و يقولون: صبرا آل الرسول، فإنكم تقتلون على أيدي شرار الناس، و هذه الجنة – يا أبا عبد الله – إليك مشتاقة. ثم يعزونني و يقولون: يا أبا الحسن، أبشر، فقد أقر الله به عينك يوم القيامة، يوم يقوم الناس لرب العالمين، ثم انتبهت هكذا. و الذي نفس علي بيده، لقد حدثني الصادق المصدق أبو القاسم (صلى الله عليه و آله و سلم) أني سأراها في خروجي إلى أهل البغي علينا، و هذه أرض كرب و بلاء، يدفن فيها الحسين و سبعة عشر رجلا من ولدي و ولد فاطمة، و أنها لفي السماوات معروفة، تذكر أرض كرب و بلاء كما تذكر بقعة الحرمين و بقعة بيت المقدس… ثم بكى بكاء طويلا و بكينا معه حتى سقط لوجهه و غشي عليه طويلا…
ابن عباس کہتا ہے کہ میں صفین کے سفر میں علی(ع) کے ساتھ تھا۔ جب ہم نینوا پہنچے تو انھوں نے اونچی آواز سے کہا اے ابن عباس کیا اس جگہ کو جانتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں اے امیر المؤمنین۔ آپ نے فرمایا اگر تم جگہ کو جانتے ہوتے تو میری طرح تم بھی اس جگہ پر رک کر گریہ کرتے اور آپ نے اتنا گریہ کیا کہ کہ آپ کی ریش مبارک اشکوں سے گیلی ہو گئی اور اشک سینے پر بھی بہنے لگے اور ہم مل کر گریہ کرنے لگے۔ پھر کہا کہ ہائے افسوس آل ابو سفیان و آل حرب کہ جو حزب شیطان اور کفر کے دوست ہیں، کو مجھ سے کیا کام ہے۔ پھر کہا کہ اے ابا عبد اللہ صبر کرو کہ جو تم دیکھ رہے ہو وہ میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ پھر علی(ع) نے وضو کر کے نماز پڑھی اور اپنی بات کو جاری رکھا۔ اس کے بعد تھوڑا آرام کیا۔ بیدار ہو کر کہا اے ابن عباس میں خواب نے دیکھا ہے۔ ابن عباس نے کہا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں سفید پرچم اور تیز تلواریں تھیں۔ انھوں نے اس زمین پر چند لکیریں کھنچی۔ پھر میں نے دیکھا کہ ان کھجور کے درختوں نے اپنی شاخوں کو تازے خون میں رنگ لیا ہے۔ میں نے اچانک دیکھا کہ میرا بیٹا حسین اس خون میں غرق ہے اور فریاد کر رہا ہے اور کوئی اس کی آواز کو نہیں سن رہا اور وہ آسمان سے نازل ہونے والے انسان کہہ رہے ہیں کہ اے آل رسول صبر کریں کہ آپ کو بد ترین لوگ شھید کریں گے اور یہ جنت ہے کہ جو حسین(ع) تیری مشتاق ہے۔ پھر انھوں نے مجھے تعزیت پیش کی اور کہا کہ اے ابو الحسن میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ جب خداوند قیامت والے دن لوگوں کو حساب کے لیے محشور کرے گا، آپکی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرے گا۔ پھر میں خواب سے بیدار ہو گیا۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں علی(ع) کی جان ہے صادق و مصدق رسول خدا(ص) نے مجھے بتایا ہے کہ میں ان کو اھل بغاوت کے ساتھ خروج کے وقت دیکھوں گا۔ یہ زمین کربلاء ہے کہ حسین میری اور فاطمہ کی اولاد میں سے 17 مردوں کے ساتھ اس سر زمین میں دفن ہو گا۔ یہ زمین آسمان میں کربلاء کے نام سے مشھور ہے جس طرح کہ زمین مکہ و مدینہ اور بیت المقدس بھی آسمان میں مشھور ہیں…. پھر ان حضرت نے بہت ہی گریہ کیا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ گریہ کیا یہاں تک کہ وہ منہ کے بل زمین پر گر گئے اور کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔
)الشيخ الصدوق، الوفاة: 381، الامالی، ج1 ص694،، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة، چاپ اول، الناشر: الدراسات الاسلامية، مؤسسة البعثة،قم، 1417 ه. ق(
امير مؤمنین علی(ع) کا کربلا سے گزرنا
وَ عَنْ محمد بن عيسی، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرَّ عَلِيٌّ بِكَرْبَلَاءَ فِي اثْنَيْنِ مِنْ أَصْحَابِهِ. قَالَ: فَلَمَّا مَرَّ بِهَا تَرَقْرَقَتْ عَيْنَاهُ لِلْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: هَذَا مُنَاخُ رِكَابِهِمْ، وَ هَذَا مُلْقَى رِحَالِهِمْ، وَ هَاهُنَا تُهَرَاقُ دِمَاؤُهُمْ، طُوبَى لَكَ مِنْ تُرْبَةٍ عَلَيْكَ تُهَرَاقُ دِمَاءُ الْأَحِبَّةِ۔
جب علی(ع) دو بندوں کے ساتھ کربلاء سے گزرے تو انکی آنکھیں اشکوں سے بھر گئیں اور فرمایا کہ یہ انکے رکنے کی جگہ ہے۔ یہ ان کے سامان اور خیموں کی جگہ ہے۔ یہاں پر ان کا خون بہایا جائے کا۔ اے خاک کربلاء تو خوش قسمت ہے کہ اچھے اور نیک انسانوں کا حون تم پر بہے گا۔
)عبد الله بن جعفر حميرى، الوفاة: قرن 3 ه ق، قرب الإسناد(ط- الحديثة) ج 1 ص 26، طبع اول، الناشر: مؤسسه آل البيت عليهم السلام 1413 ه ق(
امیرمؤمنین علی(ع) اور ابن عباس کا امام حسین(ع) پر گریہ کرنا
لقد دخلت على علي عليه السلام بذي قار، فأخرج إلي صحيفة وقال لي: يا بن عباس، هذه صحيفة أملاها علي رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم و خطي بيدي. فقلت: يا أمير المؤمنين، إقرأها علي فقرأها، فإذا فيها كل شئ كان منذ قبض رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم إلى مقتل الحسين عليه السلام و كيف يقتل و من يقتله و من ينصره و من يستشهد معه. فبكى بكاء شديدا و أبكاني فكان فيما قرأه علي: كيف يصنع به و كيف يستشهد فاطمة و كيف يستشهد الحسن ابنه و كيف تغدر به الأمة. فلما أن قرأ كيف يقتل الحسين و من يقتله أكثر البكاء، ثم أدرج الصحيفة و قد بقي ما يكون إلى يوم القيامة۔
ابن عباس کہتا ہے کہ: ایک دن میں ذی قار کے مقام پر علی(ع) کے پاس گیا۔ حضرت نے ایک کتاب مجھے دکھائی اور فرمایا اے ابن عباس یہ وہ کتاب ہے کہ جو رسول خدا(ص) نے مجھے املاء کے طور پر لکھوائی ہے اور میں نے اس کو لکھا ہے۔ میں نے کہا اے امیر المؤمنین اس کتاب کو میرے لیے پڑھیں۔ حضرت نے کتاب کو پڑھا اس کتاب میں رسول خدا(ص) کے زمانے سے لے کر امام حسین(ع) کی شھادت تک کے تمام واقعات کو لکھا گیا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ وہ کیسے شھید کیے جائیں گے اور کون ان کو شھید کرے گا اور کون انکی مدد کرے گا اور کون ان کے ساتھ شھید ہو گا۔ حضرت نے بہت ہی گریہ کیا اور میں نے ان کے ساتھ گریہ کیا۔ حضرت نے یہ بھی میرے لیا پڑھا کہ خود ان کے ساتھ ہو گا اور حضرت زھرا کو کیسے شھید کیا جائے گا اور کیسے ان کے بیٹے امام حسن کو شھید کیا جائے گا اور کیسے امت ان کے ساتھ دھوکا کرے گی۔ جب حضرت نے امام حسین کے شھید ہونے کی کیفیت کو بیان کیا تو بہت ہی زیادہ گریہ کیا پھر اس کتاب کو بند کر دیا اور جو کچھ قیامت تک واقع ہونے والا تھا اس کو بیان کرنا ابھی باقی رہ گیا تھا۔
)سليم بن قيس الهلالی، الوفاة: سال ۷۶ هجری،كتاب سليم بن قيس الهلالی ج 1 ص 435، تحقيق: محمد باقر الانصاری الزنجانی، چاپ اول، الناشر: نشر الهادی، قم، ايران 1420 هـق، 1378 هـ ش(