- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/10/28
- 0 رائ
حضرت امیر مختار (مختار بن ابی عبید ثقفی) کی شخصیت کے حوالے سے بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر کچھ لوگ کوک وشبہات کا شکار ہوئے ہیں۔حالانکہ ان کی شخصیت کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے شہدائے کربلا کے قاتلین سے انتقام لے کر اہل بیت اطهارعلیھم السلام کے گھروں میں خوشی کا سامان فراہم کیا تھا۔
ہم یہاں امیرمختار کی شخصیت کے حوالے سے وارد احادیث کے حوالے سے کچھ عرائض پیش کرتے ہیں۔
روایات میں امیر مختار کی تعریف
سید خوئی فرماتےہیں: مختار کی تعریف میں وارد روایات متضافر ہیں۔ (متضافر، خبر واحد اور متواتر کے درمیان والی صورت ہے۔)
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے مختار کو امیر المومنین علیہ السلام کی گود میں دیکھا کہ آپ حضرت اپنے مبارک ہاتھ اس کے سر پر پھیررہے تھے اور فرمارہے تھے:”يَا كَيِّسُ يَا كَيِّسُ.” اے زیرک اے زیرک۔ [1]
امیرالمومنین علیہ السلام جو علم و حکمت کے پوشیدہ اسرار سے آگاہی رکھتے تھے یقینا آئندہ کے لحاظ سے سارا نقشہ دیکھ کر ہی آپ مختار کی مدح فرما رہے تھے۔
بحار میں رجال کشی سے نقل ہوا ہے کہ مختار نے امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں بیس ہزار دینار بھیجے، جنہیں امام نے قبول فرمایا اور انہی پیسوں سے عقیل اور بنی ہاشم کے باقی افراد کے وہ گھر جو یزید کی فوج کے ہاتھوں تباہ ہوئے تھے، ان کی مرمت کی[2]
جارود بن منذر امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں: کسی بھی ہاشمی عورت نے بالوں میں کنگھی کی اور نہ ہی خضاب لگایا، یہاں تک کہ مختار نے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کے سر بھیجے-(پھر اس کے بعد ہاشمیات نے یہ کام شروع کیے۔)[3] (سید خوئی کے مطابق یہ روایت صحیح ہے۔)
سدیر نے امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے: مختار کو گالی مت دو۔ مختار وہ ہیں جنہوں نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا۔ ہمارا بدلہ لیا۔ ہماری بیواوں کی شادیاں کرائیں اور مشکل حالات میں ہماری مالی مدد کی۔[4]
عبد اللہ بن شریک روایت کرتے ہیں کہ میں عید الاضحی کے دن امام باقر علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا۔ امام تکیہ لگا کر بیٹھے تھے۔ اتنے میں کوفے کا ایک شخص آیا اور حضرت کے ہاتھ کا بوسہ لینا چاہا۔ حضرت نے منع کر دیا۔ پھر اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہا میں مختار کا بیٹا ابو محمد حکم ہوں۔ امام نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا، (یہاں تک کہ قریب تھا) امام اسے اپنی گود میں بٹھا دیں۔ مختار کے بیٹے نے امام کے سامنے شکایت کی: لوگ میرے والد کے بارے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ امام نے پوچھا: مثلا کیا کہتے ہیں: کہا: کہتے ہیں: مختار جھوٹا تھا۔ امام نے فرمایا: سبحان اللہ۔ میرے بابا نے مجھے بتایا۔ خدا کی قسم میری ماں کا حق مہر مختار نے بھیجا تھا۔ کیا مختار نے ہمارے گھروں کی تعمیر نہیں کی؟ ہمارے قاتلوں کو نہیں مارا؟ ہمارے خون کا بدلہ نہیں لیا؟خدا مختار پر اپنی رحمت نازل کرے۔ خدا کی قسم میرے والد نے مجھے بتایا مختار فاطمہ دختر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس آکر ان کے لیے بستر فراہم کرتے تھے، اور ان کے لیے تکیہ بچھاتے تھے اور پھر ان سے احادیث نقل کرتے تھے۔ خدا تمہارے والد پر رحم کرے۔ خدا تمہارے والد پر رحم کرے[5]
جس وقت مختار نے ابن زیاد کا سر امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف بھیجا ہے، امام علیہ السلام فورا سجدے میں گر پڑے اور فرمایا: خدا کا شکر، جس نے میرے دشمنوں سے میرا بدلہ لے لیا۔ خدا مختار کو جزائے خیر عطا کرے[6]
اس حوالے سے روایات اور بھی زیادہ ہیں لیکن فی الحال ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
مختار کی مذمت میں وارد شدہ روایات
حبیب خثعمی نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے: مختار امام زین العابدین علیہ السلام پر جھوٹ باندھتا تھا۔ یونس بن یعقوب نے امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:مختار نے امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں کچھ تحفے بھیجے جنہیں امام نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کیا کہ ہم جھوٹوں کے تحفے قبول نہیں کرتے۔
ایک اور روایت میں امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف سے مختار کے چالیس ہزار درہم قبول نہ کرنے کی بات نقل ہوئی ہے۔ اور یہ بات بھی کی گئی ہے که مختار نے لوگوں کو امام زین العابدین علیہ السلام کی بجائے محمد بن حنفیہ کی طرف بلایا اور اس فرقے کا نام کیسانیہ رکھا۔
ان روایات کا جواب
سید خوئی کے مطابق یہ ساری روایات سند کے لحاظ سے انتہائی ضعیف ہیں۔ خصوصا دوسری روایت میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔
بالفرض اگر یہ روایات درست ہوں تو ان کی حیثیت وہی ہے جو ان روایات کی هے جن میں زرارہ، محمد بن مسلم، برید اور ان جیسے اصحاب کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ [7]
ایک اور بات جو مختار کے حوالے سے کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جب امام حسن جنگ میں زخمی ہو کر مدائن میں مختار کے چچا سعد بن ابی عبیدہ مسعود کے پاس آئے تو مختار نے ان سے کہا: اےچچا! کیوں نہ ہم حسن کو معاویہ کے حوالے کر دیں، تاکہ عراق ہمارے قبضے میں آئے؟ ان کے چچا نے ایسا کرنے سے انکار کیا۔
سید خوئی کے مطابق یہ روایت چونکہ مرسلہ ہے لہذا اس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ بالفرض اگر درست بھی ہو تو اس حوالے سے کہہ سکتے ہیں کہ مختار اپنی بات میں جدی نہیں تھے، بلکہ اس ذریعے سے اپنے چچا کا امتحان لے رہے تھے تاکہ ان کی رائے معلوم ہو سکے اور اس طرح امام حسن علیہ السلام کی جان ہر خطرے سے بچی رہے۔ پس ان کا یہ سوال امام حسن علیہ السلام کی حفاظت کی خاطر تھا۔
اس حوالے سے چار اہم نکات
پہلا نکتہ
علامہ مجلسی نے بحار میں جعفر بن نما سے نقل کیا ہے: بہت سارے علماء روایات کے حوالے سے زیادہ علم نہیں رکھتے (اور مختار کے حوالے سے باتیں کرتے ہیں۔) جبکہ اگر اس حوالے سے ائمہ کے اقوال کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تعریف ہوئی ہے اور مختار سابقین اور مجاہدین میں سے ہیں جن کی تعریف اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کی ہے۔
مختار کے لیے امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ چنے ہوئے خاص افراد میں سے تھے۔اگر مختار کا راستہ غلط ہوتا یا اس کا عقیدہ منحرف ہوتا تو کیسے امام اس کے حق میں دعا فرماتے؟ امام کی یہ دعا ایک لحاظ سے لغو کام شمار ہوتی جو کہ بعید ہے۔ ائمہ علیهم السلام کے اقوال میں مختار کی مدح اور تعریف کا تکرار ہوا ہے اور ان کی مذمت سے منع کیا گیا ہے۔[8]
دوسرا نکتہ
بعض علماء قائل ہوئے ہیں مختار کا عقیدہ ٹھیک نہیں تھا۔لہذا وہ جہنم میں جائے گا لیکن چونکہ اس نے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا ہے لہذا آپ علیہ السلام کی شفاعت سے وہاں سے نکل کر جنت میں آئے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے کتاب تہذیب اور سرائر میں منقول دو روایتوں کا سہارا لیا ہے۔
سید خوئی فرماتے ہیں دونوں روایتیں ضعیف ہیں چونکہ تہذیب کی روایت ایک تو مرسلہ ہے، اور دوسرا یہ کہ اس کے راویوں میں سے ایک امیہ بن علی القیسی ہیں۔ جبکہ سرائر کی روایت کے راویوں میں جعفر بن ابراہیم خضرمی ہیں جن کی وثاقت نقل نہیں ہوئی۔ اور پھر ابان کا جعفر سے نقل، اور ان کا زرعہ سے نقل کرنا انتہائی نا معقول بات ہے۔
سید خوئی فرماتے ہیں:
مختار کی مذمت میں آئی تمام روایتیں سند کے لحاظ سے اشکال رکھتی ہیں۔ اور بالفرض درست بھی ہوں تو تقیہ پر حمل کر سکتے ہیں۔ مختار کی مدح اور ان کی تعریف کے لیے یہی کافی ہے کہ انھوں نے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے بدلہ لے کر اہل بیت علیھم السلام کے دلوں میں خوشی لوٹا دی۔ یقینا یہ ایک عظیم خدمت ہے جس کے لیے مختار اہل بیت علیھم السلام کی طرف سے بہترین جزا کے مستحق ٹھہرے۔ کیا احتمال دے سکتے ہیں که رسول خداﷺ اور اہل بیت کرام علیھم السلام جو جود وسخا کے معدن ہیں وہ اس طرح کی خدمت سے منہ موڑ لیں؟
محمد بن حنفیہ کے پاس جب قاتلان حسین علیہ السلام میں سے دو کے سر لائے گئےتو فورا سجدے میں گر پڑے، ہاتھوں کو پھیلایا اور فرمایا: خدایا اس روز کو مختار کے لیے مت بھولنا، اہل بیت نبی علیھم السلام کی طرفسے مختار کو جزائے خیر عطا فرما۔ خدا کی قسم اس دن کے بعد مختار پر کوئی ملامت نہیں ہے۔[9]
تیسرا نکتہ
اس حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ مختار کا خروج اور امام حسین علیہ السلام کے خون کا بدلہ لینا یقینا خدا اور اہل بیت کرام علیھم السلام کے نزدیک پسندیدہ فعل تھا۔
جب میثم تمار اور مختار اکھٹے ابن زیاد کی قید میں تھے تب میثم نے بتا دیا تھا کہ تم قید سے نکل کر خون امام حسین کا بدلہ لو گے۔ یقینا میثم خود بھی معنویت کے اعلی درجے پر فائز تھے جو اس بات کی خبر دے رھے تھے۔اور بعض روایات میں ملتا ہے کہ مختار کا خروج امام زین العابدین علیہ السلام کی خاص اجازت سے ہوا تھا۔ مختار کے نمائندے جب خروج کی اجازت مانگنے محمد بن حنفیہ کے پاس آئے تو وہ ان کو لے کر امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس گئے۔ امام نے جواب دیا: يا عم، لو أن عبدا زنجيا تعصب لنا أهل البيت ع لوجب على الناس مؤازرته، و قد وليتك هذا الأمر فاصنع ما شئت(چچا جان! اگر کوئی زنجی غلام بھی ہم اہل بیت کے حق کے لیے اٹھ کھڑا ہو تب بھی لوگوں پر واجب ہے که اس کی مدد کریں۔ میں نے یہ کام آپ کو سونپا۔ جیسا چاہیں آپ حکم دیں۔)[10]
چوتھا نکتہ
بعض اہل سنت نے یہ بات کی ہے که مختار کا تعلق کیسانیہ فرقے سے تھا جو محمد بن حنفیہ کی امامت کے قائل تھے۔ اس فرقے کو “مختاریہ” کا نام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات بالکل بھی درست نہیں۔ چونکہ محمد بن حنفیہ نے کبھی بھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔
پس مختار کیسے لوگوں کو ایک ایسے شخص کی امامت کی طرف بلا سکتے ہیں جس نے خود سے کوئی دعوی نہ کیا ہو؟ اور پھر مختار کی شہادت اس وقت ہوئی ہے جب محمد بن حنفیہ زندہ تھے۔ جبکہ کیسانیہ فرقے کی بنیاد محمد بن حنفیہ کی وفات کے بعد پڑی ہے۔ پس ممکن نہیں ہے که مختار کا تعلق کیسانیہ سے ہو۔
جہاں تک تعلق ہے مختار کے لقب “کیسان” کا، اگر یہ لقب بالفرض درست بھی ہوتو اس کی وجہ وہ روایت ہو سکتی ہے جو کشی نے مولا امیر علیہ السلام سے نقل کی ہے جس میں آپ علیہ السلام دو مرتبہ مختار کو “کیس، کیس” یعنی زیرک زیرک کہہ کر خطاب فرما رہے ہیں۔ “کیس” کی تثنیہ “کیسان” ہے لہذا مختار کا لقب “کیسان” پڑ گیا۔ لهذا اس لقب کا تعلق فرقہ کیسانیہ سے ہرگز نہیں ہے۔[11]
تحریر: سید عباس حسینی
حواله جات:
[1] . (بحار، ج 45، ص 344، 351، رجال کشی، ص 127)
[2] . ۔(بحار، ج 45، ص 344، رجال کشی، ص 128)
[3] . (بحار، ج 45، ص 344، رجال کشی، ص 127، رجال ابن داود، ص 513)
[4] . (بحار، ج 45، ص 343، ص 351، رجال کشی، ص 125، رجال ابن داود، ص 513، رجال علامہ حلی، ص 168)
[5] . ۔(بحار، ج 45، ص 343)
[6] . ۔(بحار، ج 45، ص 386، رجال کشی، ص 127)
[7] . (معجم رجال الحدیث، سید خوئی، ج 19، ص 105)
[8] . (بحار، ج 45، ص 386، 387)
[9] . (معجم رجال الحدیث، سید خوئی، ج 19، ص 108)
[10] . (بحار، ج 45، ص 365، سفینۃ البحار، ج 2، ص 391)
[11] . (معجم رجال الحدیث: ج 19، ص 110)
منبع: http://abbashussaini.blogfa.com/