- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
انسان کي دين سے امیدیں
(مذکورہ عنوان ،دين يا دينداري کے فوائد، دين کي کارگزارياں يا انسان کو دين کي ضرورت جيسي سرخيوں کے تحت بھي بيان کيا جا سکتا ھے ۔)
گذشتہ مباحث ميں اديان کے بارے ميں تحقيق و جستجو سے متعلق بحث کي گئي تھي جس ميں يہ بتايا گيا تھا کہ ايک آزاد اور وشن فکر انسان عقلي حکم کے تحت دين کے بارے ميں تحقيق و جستجو کے لئے کافي مقدار ميں دلائل رکھتا ھے۔ اب وقت آگيا ھے کہ ھم خود اپني ذات سے يہ سوال کريں کہ آخر انسان کو دين کي ضرورت ھي کيوں ھوتي ھے اور دين بشريت کو کون کونسے فائدے پھنچاتا ھے۔ دوسرے الفاظ ميں، ”بشر کي دين سے توقعات اور امیدیں کيا ھيں؟
اس سوال کا اجمالي اور مختصر جواب تو يھي ھے کہ ۱ دين سے يہ توقع اور اميد رکھتا ھے کہ دين اس کو دنيا و آخرت ميں ابدي کمال اور سعادت تک رھنمائي کرےگا اور يہ ايک بھت بڑي اور اھم توقع ھے کہ جس کي فقط دين ھي برآوري کر سکتا ھے اور جس کا دين کے علاوہ کوئي مترادف يامتبادل طريقھ بھي نھيں ھے۔
البتہ اس بنيادي اور وسيع ضرورت کے علاوہ دوسري توقعات اور ضرورتيں بھي موجود ھيں۔ مختصراً انسان کي دين سے وابستہ توقعات مندرجہ ذيل ھيں:
(۱) دين قابل اثبات اور استدلال ھو يعني عقل و منطق اس کي پشت پناھي کرتي ھو۔ دوسرے الفاظ ميں دين کے اصول وتعليمات عقل کے نزديک باطل اور غير قابل قبول نہ ھوں۔
(۲) دين انسان کي زندگي کو معني و مفھوم بخشنے والا ھو يعني انسان کو ايک حيثيت عطا کرنے اور اس فکر و نظريے کو اس کے ذھن سے خارج کرنے والا کہ زندگي لا يعني اور بيکار ھے۔
(۳) دين باھدف، شوق و عشق پيدا کرنے والا اور انساني ضرورتوں کو پورا کرنے والا ھو۔
(۴) انساني اور اجتماعي اھداف کو تقدس بخشنے والي قدرت کا حامل ھو۔
(۵) ذمہ داريوں، وظائف و تکاليف کا احساس دلانے والا ھو۔
مندرجہ بالا نکات ميں سے پھلا اور دوسرا نکتہ بنيادي اور اصلي ھے۔ پھلا اس لئے اھم ھے کيونکہ کسي دين کے اصول عقائد کا منطقي اور عقلي ھونا اس دين کو قابل قبول بنانے ميں نھايت موثر ثابت ھوتا ھے اور شک و شبھات اور سوالات و مشکلات کو برطرف کرتا ھے۔
دوسرا اس لئے اھم ھے کيونکہ ھماري دنيوي زندگي ھميشہ رنج و الم اور مصائب و مشکلات ميں بسر ھوتي ھے ان مشکلات و مسائل ميں سے بعض غور و فکر اور تدبير و ترقي علم و سائنس کي بنا پر حل ھوجاتے ھيں اور بعض اصلاً کسي بھي طرح حل ھونے کا نام نھيں ليتے۔ مثال کے طور پر:
الف: انسان حقيقت جو اور جستجو گر ھے اور اس لئے کہ کھيں وہ جاھل يا خاطي نہ رہ جائے ھميشہ پريشان رھتا ھے۔
ب: انسان خير کا طالب ھے اور چاھتا ھے کہ غلطيوں اور خطاؤں سے پاک و منزہ رھے۔ يہ سوچ کر کہ وہ بدکردار اور غلط کاريوں ميں گرفتار ھو گيا ھے، ھميشہ رنجيدہ رھتا ھے۔
ج: انسان زندگي جاويد کا خواھاں ھوتا ھے اور موت اس کي زندگي کے خاتمے کے عنوان سے اس کو ھراساں کرتي رھتي ھے۔
د: انسان لامتناھي اور لامحد ود افکار و نظريات کا حامل اور خواھاں ھوتا ھے لھٰذا محدوديت اور نقائص اس کي ذھني پريشانيوں کا باعث بنتے ھيں۔
ہ: انسان يہ مشاھدہ کرکے کہ وہ اپني پيدائش کے زمانے ھي سے جسماني يا عقلي طور پر دوسرے افراد کے مقابلے ميں پسماندہ ھے، ذھني کوفت و پريشاني کا شکار رھتا ھے۔
فقط دين ھي وہ ذريعہ ھے جو انساني زندگي کو باھدف اور معني و مفھوم عطا کرکے انسان کي پريشانيوں اور رنج و آلام کو آسان اور برداشت کے قابل بنا ديتا ھے۔
اگر انسان يہ جان لے کہ اس کائنات کا خلق کرنے والا ايک حکيم اور رحمان و رحيم خالق ھے کہ جو کسي بھي بندے کے ساتھ بخل سے پيش نھيں آتاھے، سارے انسان اس کے نزديک مساوي ھيں، اس کے نزديک تقويٰ سے بڑھکر تقرب کا اور کوئي دوسرا اھم ذريعہ نھيں ھے نيز وہ عادل ھے اور کسي بھي مخلوق پر ذرہ برابر ظلم و ستم روا نھيں رکھتا تو اچانک ايسے انسان کے تمام مسائل و مشکلات، آسان اور رضائے خالق ميں تبديل ھو جاتے ھيں اور ايسے شخص کے تمام رنج و غم اس عاشق کے رنج و غم کي طرح شيريں اور لطف آور ھو جاتے ھيں جنھيں وہ اپنے معشوق کے وصال اور قرب کي خاطر ھنس کھيل کر برداشت کرجاتا ھے۔ يھي وہ درد و غم ھے جس کو عاشقان اور عارفان کسي بھي قيمت پر فروخت کرنے کيلئے راضي نھيں ھوتے
دين کي انسان سے توقعات
ظاھر ھے کہ دين ، عقائد اور احکام کا ايک مجموعہ ھے لھٰذا اس سے اس بات کي توقع نھيں رکھي جاسکتي کہ وہ انسان يا غير انسان سے کسي طرح کي توقع رکھتا ھوگا بلکہ يھاں دين کي بشر سے وابستہ توقعات سے مراد شارع اور دين کو نازل کرنے والے يعني خداوند عالم کي بشر سے وابستہ توقعات ھيں۔
مختصراً، شارع (خدا) کي ايک انسان سے يھي توقعات ھو سکتي ھيں کہ وہ ديني عقائد کو قبول کرتے ھوئے ان پر يقين محکم اور ايمان کامل لائے، دين کے احکام اور قوانين کو عملي جامہ پہنائے نيز اپنے کردار و گفتار کو دين کے مطابق ڈھالتے ھوئے صفات رذيلھ کوخود سے دور اور صفات حسنہ سے خود کو آراستہ کرے۔
واضح ھے کہ مذکورہ امور درحقيقت انسان ھي کے لئے اور اس کو منفعت بخشنے والے ھيں يعني جب يہ کہا جاتا ھے کہ دين انسان سے مذکورہ امور کي انجام آوري چاھتا ھے تو اس سے مراد يہ قطعاً نھيں ھوتي ھے کہ انسان اپني ذات ميں سے کچھ سرمايہ دين کے نام وقف کردے يا اپني ذات سے کچھ کم کردے اور دين کے اوپر انبار لگادے بلکہ ان امور کي انجا م دھي صرف اور صرف انسان کے لئے مفيد اور اس کے مفادات سے وابستہ ھے۔ دوسرے الفاظ ميں دين، بشر سے يہ چاھتا ھے کہ بشر خود کو کمال پر پھنچائے اور خدا کي برتر و اعليٰ نعمتوں سے لطف و اندوز ھو۔(قُلْ مَا سَاَٴلْتُکُمْ مِنْ اٴَجْرٍ فَھوَ لَکُمْ) يعني کھہ ديجئے کہ ميں جو اجر مانگ رھا ھوں وہ بھي تمھارے ھي لئے ھے۔ (۱)
دين کي طرف رغبت کے اسباب
دين ايک ايسي حقيقت ھے جس کي تاريخ، بشريت کي تاريخ کے ساتھ ساتھ رواں دواں ھے۔ اس واضح اور آشکار حقيقت کے با وجود ايسے افراد بھي گزرے ھيں جودين کے منکر رھے ھيں۔ خدا پر اعتقاد اور اس کي پرستش، مبداٴ ھستي کے عنوان سے ھر زمان و مکان ميں تمام بشري معاشروں ميں مختلف تھذيب و فرھنگ کے ساتھ ساتھ مختلف شکل و صورت ميں موجود رھي ھے اور ھے۔
اس ناقابل انکار حقيقت نے ايسے لوگوں کو جو دين کي حقانيت کے قائل نھيں ھيں اور ديني عقائد کو باطل شمار کرتے ھيں، اس بات پر مجبور کر ديا ھے کہ وہ ابتدائے تاريخ بشريت سے اب تک لوگوں کے دين پر اعتقاد اور يقين کي توجيہ کريں اور اپنے اعتبار سے اس کے لئے(باطل) دلائل پيش کريں اور يہ بتائيں کہ کيوں بشر دين کي طرف راغب ھوتا ھے؟ حقيقت تو يہ ھے کہ ايسے اشخاص کے نزديک جو اس کائنات کے خالق يعني خدا کو نھيں پھچانتے ھيں، انسانيت کے اس عظيم کارواں کااپنے خالق پر اعتقاد و يقين اور اس کي پرستش نھايت وحشت ناک اور خوفناک ھوتي ھے اور اسي لئے وہ کسي نہ کسي طرح اس کي توجيہ اور تاويل کرکے اپنا دامن جھاڑنا چاھتے ھيں۔
اس بارے ميں جو نظريات بيان ھوئے ھيں وہ کبھي کبھي تو اتنے بے بنياد اور باطل ھوتے ھيں کہ انسانی عقل حیران رہ جاتي ھے ۔ ان نظريات ميں سے بعض نظريات کي وضاحت مندرجہ ذيل ھے:
(۱) نظريہٴخوف
فرائڈ (SIGMOND FREUD) نے خدا اور دين پر اعتقاد و يقين کا سرچشمہ خوف کو بتايا ھے البتہ اس سے قبل بھي يہ نظريہ پايا گيا ھے۔ شايد سب سے پھلے جس شخص نے يہ نظريہ پيش کيا تھا روم کا مشھور شاعر ٹيٹوس لوکر ٹيس ( متوفي : ۹۹ ءء) ھے ۔ اس کا قول تھا کہ خوف ھي تھا کہ جس نے خداؤں کو پيدا کيا ھے۔
بھرحال يہ وہ نظريہ ھے کہ جس کي رو سے طبيعي اسباب مثلاً سيلاب ، طوفان، زلزلہ، بيمار ي و موت اس بات کے موجب ھوگئے ھيں کہ انسان ان تمام خوف آور طبيعي اسباب کو مشترکہ طور پر خدا کا نام دے دے۔ فرائڈ کے مطابق خدا، انسان کي خلق کردہ مخلوق ھے نہ کہ اس کا خالق۔ فرائڈ کے بقول درحقيقت بشري ذھن ميں ديني عقائد پر اعتقاد و ايمان ان اسباب کے نقصانات اور ضرر سے محفوظ رھنے کي خواھش کي بنا پر پيداھوتا ھے۔ زمانہٴ اول کا بشر ان اسباب کے نقصانات اور اثرات کے خوف اور ڈر سے آھستہ آھستہ ايک ايسي صاحب قدرت ھستي کا قائل ھوگيا جو اس کے اعتبار سے ان تمام اسباب پر غالب اور مسلط تھي تاکہ اس طرح اس عظيم اور قادر ھستي کے حضور دعا، مناجات،قرباني، عبادت وغيرہ کرکے اس ھستي کي محبت و لطف کو ابھارے اورنتيجةً خود کو ان خطرات سے محفوظ کرلے۔
(۲) نظريہٴجہالت
ويل ڈورانٹ (WILL DURANT) اور برٹرانڈرسل(BERTRAND RUSSELL) کي مانند بعض افراد اس نظريے کے قائل ھيں کہ شروعاتي زمانے کے انسانوں نے جھالت اور لاعلمي کي بنا پر اپنے اندر خدا اور دين پراعتقاد پيدا کرليا تھا۔ يہ جاھل انسان جب چاند گرھن، سورج گرھن، آندھي اور بارش وغيرہ جيسے قدرتي واقعات وحادثات سے روبرو ھوتا تھا اور ان جيسے واقعات کي کوئي طبيعي اور ظاھري علت تلاش نھيں پاتا تھا تو لا محالہ ايک فرضي علت تلاش کرليتا تھا اور اس علت کا نام ”خدا“ رکھ ديتا تھا اور پھر مذکورہ تمام حادثات کو اس خدا سے منسوب کر ديتا تھا۔خدا انسان پر اپنا عذاب نازل نہ کرے اور اسے زميني اور آسماني بلاؤں ميں گرفتار نہ کرے لھذا وہ خدا کے سامنے خضوع و خشوع کے ساتھ سربسجود ھو جاتا تھا۔
مذکورہ دو نظر يوں پر تبصرہ
۱) يہ دونوں نظريے فرضي اور احتمالي ھيں اور ان کے تاريخي اثبات و ثبوت پر کوئي دليل موجود نھيں ھے۔
۲) اگر اس فرض کو تسليم کر بھي ليا جائے کہ تمام يا بعض انسان خوف يا جھالت کي بناپر خدا کو باور کرليا کرتے تھے اور اس کي پرستش کرتے تھے تب بھي منطقي لحاظ سے يہ نيتحہ اخذ نھيں کيا جاسکتا کہ ”خدا موجود نھيں ھے اور تمام اديان باطل اور لغو ھيں“ اگر فرض بھي کرليا جائے کہ يہ تمام نظريات صحيح ھيں توصرف اتنا ھي ثابت ھوتا ھے کہ دين اور خدا پر بشر کا اعتقاد و يقين غلط روش اور طريقے پر مبني ھے اور يہ غير از نفي وجود خدا اور نفي حقانيت دين ھے۔
مثلاً، تاريخ بشريت ميں ايسے نہ جانے کتنے اختراعات و اکتشافات پائے جاتے ھيں جو شھرت طلبي، ثروت طلبي يا عزت و مقام طلبي کي بنياد پر وجود ميں آئے ھيں جو يقينا غير اخلاقي اور غير صحيح افکار و اقدام تھے ليکن اس کا مطلب يہ نھيں ھے کہ غير اخلاقي افکار کي بنياد پر وجود ميں آنے والے علمي اختراعات و اکتشافات بھي غلط يا باطل قرار پا جائيں گے ۔
مختصراً يوں بھي کہا جاسکتا ھے کہ ان نظريات ميں کسي فعل کو انجام دينے کا ”جذبہ“ اور اس فعل کا ”حصول‘ مخلوط ھو گئے ھيں يعني ايک شےٴ کے باطل ھونے کو دوسري کا باطل ھونا فرض کرليا گيا ھے۔
۳) ايسے بھت سے حقائق ھيں جو ان دونوں مذکورہ نظريات کے برخلاف گفتگو کرتے نظر آتے ھيں مثلاً :
اولاً:
تاريخ گواہ ھے کہ دين کو انسان تک پھونچانے والے اور بشر کو خدا کي طرف دعوت دينے والے پيغمبر ھميشہ دلير اور شجاع ترين افرادھوا کرتے تھے اور سخت ترين حالات اور مشکلات سے بھي ھنس کھيل کر گزرجاتے تھے۔
ثانياً:
نہ جانے کتنے ايسے ڈر پوک اور بزدل افراد گزرے ھيں جو خدا پر ذرہ برابر اعتقاد نھيں رکھتے تھے اور آج بھي ايسے افراد ديکھے جا سکتے ھيں۔
ثالثاً:
اگر خدا پر يقين و اعتقاد کي بنياد طبيعي حادثات و واقعات ھيں تب تو موجودہ دور ميں خدا پر ايمان باطل ،ختم يا کم از کم قليل ھو جانا چاھئے کيونکہ آج انسان بھت سے طبيعي حادثات و واقعات پر غلبہ حاصل کرچکا ھے۔ اس کے بر خلاف آج ھم يہ مشاھدہ کرتے ھيں کہ آج بھي خدا پر ايمان اور اس کي پرستش دنيا بھر ميں وسيع پيمانے پر رائج اور موجود ھے۔
نظريہٴ جھالت کي ترديد کرنے والے موارد بھي وافر مقدار ميں موجود ھيں۔ اس سلسلہ ميں صرف اتنا تذکرہ کافي ھے کہ دنيا ميں ايسے بھت سے دانشمند پائے گئے ھيں جودل کي گھرائيوں سے خدا پر ايمان و اعتقاد رکھتے تھے مثلاً نيوٹن (ISAAQ NEOTON) ، گيليليو (GALILEO) آئن انسٹائن اور نہ جانے ايسے ھزاروں کتنے افراد اور آج بھي ايسے خدا پر ايمان رکھنے والے افراد کا مشاھدہ کيا جا سکتا ھے ۔
۴)ھمارے اعتبار سے دين کي طرف انسان کي رغبت اور میلان کي دو وجوھات ھيں:
پھلي يہ کہ تاريخ کے شروعاتي دور ھي سے بشر يہ سمجھتا آيا ھے کہ ھر شئے ايک علت چاھتي ھے اور ايسي شےٴ جو ممکن الوجود ھو،اس کے لئے محال ھے خود بخود پيدا ھوسکے۔
دوسري وجہ يہ ھے کہ وجود خدا اور اس کي پرستش پر ايک طرح کا پو شيدہ يقين و ايمان تمام انسانوں کے دل کے کسي نہ کسي گوشے ميں رھتا ھے يعني جس طرح حقيقت طلبي اور حسن پرستي فطري طور پر ھميشہ سے تمام انسانوں ميں پائي جاتي رھي ھے اسي طرح سے خدا شناسي اور خدا پرستي بھي ھميشہ سے بشريت کا خاصہ رھي ھے اور يھي وہ فطرت الٰھي ھے جو ان کو خدا پر ايمان و يقين کي طرف کھينچتي رھتي ھے۔
دين کي طرف انسان کي رغبت سے متعلق اور بھي بھت سے نظريات بيان ھوئے ھيں ليکن ان سب کي وضاحت اور نقد ظاھر ھے ان مباحث کو طولاني کر دے گي جو يھاں مناسب نھيں ھے۔
مذکورہ نظريات کي وضاحت اور نقد سے واضح طور پر يہ حقيقت سامنے آجاتي ھے کہ ان نظريات کو پيش کرنے والے افراد شديد تعصبات کي بنياد پر دين کي مخالفت اور نفي کربيٹھے ھيںنيز يہ کہ محبت يا بغض کي زيادتي بھي اکثر عقل کو اندھا کرديتي ھے۔
علاوہ ازيں، ان نظريات کے بانيوں نے پھلے ھي سے يہ فرض کر ليا ھے کہ خدا اور دين پر ايمان و اعتقاد کيلئے کوئي عقلي اور منطقي دليل موجود نھيں ھے لھٰذا اسي وجہ سے اس سلسلے ميں لغو دلائل دينے پر مجبور ھوگئے ھيں اور اس رغبت کے وجود ميں آنے کي وجہ کچھ خاص نفساتي جذبات اور پھلووں کو قرار دے بيٹھے ھيں۔ مثلاً يھي کہ پھلے زمانے کا انسان طبيعي حادثات کي علت اور وجہ نھيں جانتا تھا لھٰذا انھيں سحرو جادو پر محمول کرديا کرتا تھا ليکن اگر يہ واضح ھوجائے کہ دين کي طرف رغبت کے مناسب عقلي اور منطقي دلائل موجود ھيں تو ان نظريات کي اھميت خود بخود ختم ھو جائے گي۔
حواله جات
۱۔سبا ۴۷