- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/17
- 0 رائ
روزہ انسان کی زندگی کے تین حصوں پر اثر انداز ہوتا ہے:
الف : تربیتی اثر
روزہ کے مختلف ابعاد پائے جاتے ہیں ، مادی اور معنوی لحاظ سے انسان کے وجود میں بہت زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے جن میں سب سے اہم پہلو ، »اخلاقی پہلو» اور اس کی تربیت کا فلسفہ ہے ۔
روزہ کا اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ انسان کی روح کو )لطیف(، اس کے ارادہ کو قوی اور اس کے غرائز کو معتدل کرتا ہے ۔ روزہ دار کے لئے ضروری ہے کہ وہ روزہ کی حالت میں کھانے اور پانی کی بھوک اور پیاس کے باوجود جنسی لذتوں کو بھی نظر انداز کرے اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح اصطبل اور گھانس کے پیچھے نہیں ہے ، وہ سرکش نفس کی زمام کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور اپنی ہوش اور شہوت پر مسلط ہوسکتا ہے ۔
حقیقت میں روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے ، جس انسان کے اختیار میں مختلف قسم کے کھانے اور پینے کی چیزیں ہوں اور وہ ان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں استعمال کرسکتا ہو وہ انسان ان درختوں کی طرح ہیں جو باغ کی دیواروںکی پناہ میں نہر کے کنارے اُگ جاتے ہیں ، نازوں کے پلے ہوئے ان درختوں میں مقاومت کرنے کی طاقت بہت کم ہوتی ہے ، اگر کسی دن ان کے نیچے پانی نہ ہو تو پژمردہ اورخشک ہوجاتے ہیں ۔
لیکن جو درخت پہاڑوں اور بیابانوں کے درمیان اُگتے ہیں اور ان کی شاخوں کو ابتداء ہی سے سخت طوفان، جلتی دھوپ اور سردیوں میں سردی کا سامنا کرنا پرتا ہے اور مختلف قسم کی محرومیت ان کے شامل حال ہے ، ایسے درخت محکم ، ہمیشہ قائم رہنے والے ، مقاوم اور سخت جان ہیں!
روزہ بھی انسان کی جان و روح کے ذریعہ اسی عمل کو انجام دیتی ہے اور وقتی محدودیت کے ساتھ انسان کو مقاومت ، ارادہ کی طاقت اور سخت حوادث سے جنگ کرنے کی طاقت عطا کرتا ہے اور جب وہ اپنے سرکش غرائز کو کنٹرول کرتا ہے تو انسان کے قلب کو نور اور صفا عطا کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے نکال کر فرشتوں کی دنیا میں لے جاتا ہے ،جملہ »لعلکم تتقون » ، انہی حقائق کی طرف اشارہ ہے ۔
نیز مشہور حدیث) الصوم جنة من النار( (روزہ آتش جہنم کی سامنے ڈھال ہے ) اسی موضوع کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں امام علی(علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ہم شیطان کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لئے کیا کریں ؟ فرمایا : الصوم یسود وجھہ والصدقة تکسر ظھرہ ، والحب فی اللہ والمواظبة علی العمل الصالح یقطع دابرہ والاستغفار یقطع و تینہ۔
روزہ، شیطان کے چہرہ کو سیاہ کرتا ہے، خدا کی راہ میں انفاق کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، خدا کی وجہ سے کسی سے دوستی کرنے اور عمل صالح پر پابند رہنے سے اس کی امید ٹوٹ جاتی ہے اور استغفار اس کے دل کی رگ کو کاٹ دیتی ہے!
نہج البلاغہ میں جس وقت امیرالمومنین علی(علیہ السلام) عبادت کے فلسفہ کو بیان کرتے ہیں اور روزہ تک پہنچتے ہیں تو اس طرح فرماتے ہیں:…والصیام ابتلاء لاخلاص الخلق»۔ خداوند عالم نے روزہ کو لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش کے لئے واجب کیا ہے!
نیز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے : » ان للجنة بابا یدعی الریان لا بدخل فیھا الا الصائمون» ۔ بہشت کے ایک دروازہ کا نام »ریان» (سیراب شدہ) ہے ، اس دروازہ سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے ۔
مرحوم صدوق نے معانی الاخبار میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے : بہشت کے دروازہ کا یہ نام اس وجہ سے انتخاب کیا گیا ہے کہ روزہ دار کو سب سے زیادہ زحمت پیاس کی ہوتی ہے ، جس وقت روزہ دار اس دروازہ سے داخل ہوں گے تواس طرح سیراب ہوجائیں گے کہ اس کے بعد ان کو کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔
ب: روزہ کا اجتماعی اثرات
روزہ کے اجتماعی اثرات کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں ۔ روزہ اجتماع میں مساوات اور برابری کا درس دیتا ہے ، اس مذہبی حکم کو انجام دینے کے ذریعہ قدرت مند افراد بھی بھوکوں اور محروموں کی حالت کو محسوس کرتے ہیں اور اپنے شبانہ روز کے کھانے میں صرفہ جوئی کرتے ہوئے ان کی مدد کر سکتے ہیں ۔
البتہ ممکن ہے بھوکوں اور محروموں کی حالت کو بیان کرکے قدرت مند افراد کو بھوکوں کی حالت کی طرف متوجہ کریں لیکن اگر یہ مسئلہ اپنے حسی اور عینی پہلو کودرک کرلے تو پھر اس کے اثرات بھی دوسرے ہوں گے ۔
روزہ اس اجتماعی اہم موضوع کو حسی رنگ عطا کرتا ہے لہذا ایک مشہور حدیث میں امام صادق (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے کہ ہشام بن حکم نے روزہ کے واجب ہونے کی علت معلوم کی ، امام علیہ السلام نے فرمایا : إِنَّما فَرَضَ اللّهُ الصِّیامَ لِیَسْتَوِیَ بِهِ الْغَنِیُّ وَ الْفَقِیرُ وَ ذلِکَ أَنَّ الْغَنِیَّ لَمْ یَکُنْ لِیَجِدَ مَسَّ الْجُوعِ فَیَرْحَمَ الْفَقِیرَ لاِ نَّ الْغَنِیَّ کُلَّما أَرادَ شَیْئاً قَدَرَ عَلَیْهِ فَأَرَادَ اللّهُ تَعالى أَنْ یُسَوِّیَ بَیْنَ خَلْقِهِ وَ أَنْ یُذِیقَ الْغَنِیَّ مَسَّ الْجُوعِ وَ الأَلَمِ لِیَرِقَّ عَلَى الضَّعِیفِ وَ یَرْحَمَ الْجائِع:
روزہ کے واجب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غنی ، بھوک کے ذائقہ کو چکھنے کے بعد فقیر کا حق ادا کرے ، کیونکہ امیر لوگ عام طور سے جوبھی چاہیں وہ ان کے لئے فراہم کرسکتے ہیں خداوند عالم چاہتا ہے کہ اپنے بندوں کے درمیان مساوات قائم کرے ، اغنیاء کو بھوک، درد اور رنج کا مزا چکھائے تاکہ وہ ضعیفوں اور بھوکوں پر رحم کریں ۔
یقینا اگر دنیا کے ثروت مند ممالک سال میں کچھ دن روزہ رکھیں اور بھوک کا مزہ چکھیں توکیا پھر بھی اس دنیا میں اس قدر بھوکے موجود رہیں گے؟
ج: روزہ کے ذریعہ معالجہ
موجودہ اور قدیم طب میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے »امساک» کے معجزنما اثرات ثابت ہیں اور اس سے کسی کو انکار نہیں ہے ۔ بہت کم ایسے طبیب ہیں جنہوں نے اپنی کتابوں میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو ،کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں کھانے پینے میں زیادہ روی کا نتیجہ ہے کیونکہ جواضافی چیزیں جذب نہیں ہوتی و چربی کی صورت میں جسم کے مختلف حصوںمیں باقی رہ جاتی ہیں اور بدن کے اندر ان اضافی چیزوں سے بدبو پیدا ہونے کے بعد مختلف قسم کی بیماریوں کے میکروب کی پرورش کرتی ہیں ، لہذا ان بیماریوں سے چھٹکارا پانے کے لئے روزہ اور امساک سب سے بہترین راستہ ہے ۔
روزہ ،جسم میں جذب نہ ہونے والے اضافی مواد اور کثافت کو جلا دیتا ہے اور حقیقت میں بدن کو صحیح و سالم کردیتا ہے۔
اس کے علاوہ ہاضمہ کے لئے ایک قسم کا آرام اور ان کو صحیح کرنے کے لئے موثر عامل ہے اوراس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہاضمہ کی مشین بدن کی حساس مشینری ہے اور پورے سال ہمیشہ کام کرتی رہتی ہے لہذا یہ آرام اس کے لئے بہت ضروری ہے ۔
بدیہی ہے کہ روزدہ دار کو اسلام کے حکم کے مطابق افطار اور سحر کے وقت زیادہ کھانا نہیں کھانا چاہئے تاکہ اس معالجہ سے اچھی طرح استفادہ کرسکے ورنہ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ نتیجہ اس کے برعکس ہوجائے ۔
روسی دانشور الکسی سوفورین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے:
روزہ کے ذریعہ علاج کرنے سے بہت سے فائدہ ہیں جیسے خون کے کم ہونے کو پورا کرنے، آنتوں کی کمزوری کو دور کرنے ، بسیط اور مزمن التہاب ، اندر اور باہر نکلنے والے پھوڑے ، روماٹیزم ، پیاس ، عرق النساء ، کھال کے خراب ہونے ، آنکھوں کی بیماری ، شوگر کی بیماری ، کھال کی بیماری، پھیپڑوں اور گردے وغیرہ کی بیماری کا بہترین علاج ہے ۔
امساک کے ذریعہ علاج کرنا صرف مذکورہ بیماریوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بیماریاں جسم انسان کے اصولوں سے مربوط ہیں اور جسم کے سلول سے ملی ہوئی ہیں، جیسے کینسر، سفلیس، سل اور طاعون وغیرہ میں بھی شفا دیتا ہے(١)۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مشہور حدیث ہے: صوموا تصحوا روزہ رکھو اور صحیح و سالم ہوجاؤ (٢)۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک دوسری مشہور حدیث میں ذکر ہوا ہے: المعدة بیت کل داء والحمیة راس کل دوائ ۔ معدہ تمام بیماریوں کا گھر ہے اور امساک کرنا تمام دوائوں سے بہتر ہے (٣) ۔
حوالہ جات:
١۔ روزہ روش نوین برای درمان بیماری ھا ، صفحہ ٦٥ ، چاپ اول ۔
٢۔ بحار الانوار ، جلد ٩٣ ،صفحہ ٢٥٥ ، جلد ٥٩ ، صفحہ ٢٦٧ ۔ عوالی اللآلی ، جلد ، صفحہ ١، صفحہ ٢٦٨ (انتشارات سید الشہداء ) ۔
٣۔ تفسیر نمونہ ، جلد ١ ، صفحہ ٧٠٨ ۔