- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/04/07
- 0 رائ
اس رات کی فضیلت انیسویں رمضان کی رات سے زیادہ ہے۔ لہذا انیسویں رات کے جو اعمال مشترکہ ہیں وہ اس رات میں بھی بجا لائے۔
﴿۱﴾غسل ۔
﴿۲﴾ شب بیداری۔
﴿۳﴾ زیارت امام حسین۔
﴿۴﴾ سورۂ حمد کے بعد سات مرتبہ سورۀ توحید والی نماز۔
﴿۵﴾ قرآن کو سر پر رکھنا۔
﴿۶﴾ سورکعت نماز۔
﴿۷﴾ دعاۓ جوشن کبیر وغیرہ۔
روایات میں تاکید کی گئی ہے کہ اس رات اور تئیسویں کی رات میں غسل اور شب بیداری کرے اور عبادت میں مشغول رہے کہ شب قدر انہی دو راتوں میں سے ایک ہے۔ چند ایک اور روایات میں مذکور ہے کہ امام جعفر صادق علیه السلام سے عرض کیا گیا کہ معین طور پر فرمائیں کہ شب قدر کونسی رات ہے؟ آپ نے کسی رات کا تعین نہ کیا ۔ فرمایا «ما أَیْسَرَ لَیْلَتَیْنِ فِیما تَطْلُبُ؛ کہ مگر اس میں کیا حرج ہے کہ تم ان دو راتوں میں اعمال خیر بجا لاتے رہو۔ یا یه که «ما عَلَیْکَ أَنْ تَفْعَلَ خَیْراً فِی لَیْلَتَیْنِ،؛ تمہارے لیے ضروری ھے که دونوں راتوں میں کوئی بهی نیک کام انجام دیں” (اور اسی طرح کی روایتیں اور بھی موجود ہیں۔)
وَقالَ شَیْخُنَا الصَّدُوقُ فِیما أَمْلىٰ عَلَى الْمَشایِخِ فِی مَجْلِسٍ واحِدٍ مِنْ مَذْهَبِ الإِمامیّةِ: «وَ مَنْ أَحْیَا هاتَیْنِ اللَّیْلَتَیْنِ بِمذاکِرَةِ الْعِلْمِ فَهُوَ أَفْضَلُ.»؛
ہمارے بزرگ عالم شیخ صدوق(رح) نے فرمایا کہ علمائے امامیہ کے ایک اجتماع میں میرے ایک استاد نے یہ بات املا کرائی کہ جو شخص ان دو ﴿اکیسویں اور تئیسویں رمضان کی ﴾ راتوں کو مسائل دینی بیان کرتے ہوئے جاگ کر گزارے تو وہ سب لوگوں سے افضل ہے۔ بہرحال آج کی رات سے رمضان المبارک کے آخری عشرے کی دعائیں شروع کر دے، ان دعاؤں میں سے ایک وہ دعا ہے جسے شیخ کلینی نے کافی میں امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے کہ فرمایا: ماہ رمضان کے آخری عشرے میں ہر رات کو یہ دعا پڑھے:
ٲَعُوذُ بِجَلالِ وَجْھِکَ الْکَرِیمِ ٲَنْ یَنْقَضِی عَنِّی شَھْرُ رَمَضانَ ٲَوْ یَطْلُعَ الْفَجْرُ مِنْ لَیْلَتِی ہذِھِ وَلَکَ قِبَلِی ذَنْبٌ ٲَوْ تَبِعَۃٌ تُعَذِّبُنِی عَلَیْہِ
ترجمه: تیری ذات کریم کی پناہ لیتا ہوں اس سے کہ جب میرا ماہ رمضان اختتام پذیر ہو یا جب میری اس رات کی فجر طلوع کرے تو میرے ذمے کوئی گناہ یا اس پر گرفت باقی ہو جس پر مجھے عذاب دے
شیخ کفعمی نے حاشیہ بلدالامین میں نقل کیا ہے کہ امام جعفرصادق رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ہر رات فرائض ونوافل کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ ٲَدِّ عَنَّا حَقَّ مَا مَضیٰ مِنْ شَھْرِ رَمَضانَ وَاغْفِرْ لَنا تَقْصِیرَنا فِیہِ وَتَسَلَّمْہُ مِنَّا مَقْبُولاً، وَلاَ تُؤاخِذْنا بِ إسْرافِنا عَلَی ٲَنْفُسِنا، وَاجْعَلْنا مِنَ الْمَرْحُومِینَ وَلاَ تَجْعَلْنا مِنَ الْمَحْرُومِینَ
اے معبود ماہ رمضان کا جو حق ہماری طرف رہ گیا ہو وہ ہماری جانب سے ادا کردے ہمارا یہ قصور معاف فرما اور اسے ہم سے پورا پورا قبول فرما اس ماہ میں ہم نے اپنے نفس پر جو زیادتی کی اس پر ہمیں نہ پکڑ اور ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جن پر رحم ہو چکاہے اور ہمیں ناکام لوگوں میں قرار نہ دے
شیخ کفعمی نے یہ بھی فرمایاکہ جو شخص اس دعا کو پڑھے توحق تعالیٰ رمضان کے گذ شتہ دنوں میں سرزد ہونے والی اس کی خطائیں معاف فرمائے گا اور آئندہ دنوں میں اسے گناہوں سے بچائے رکھے گا۔
سید ابن طاوس نے کتاب اقبال میں ابن ابی عمیر کے ذریعے مرازم سے نقل کیا ہے کہ امام جعفر صادق رمضان کے آخری عشرے کی ہررات یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ إنَّکَ قُلْتَ فِی کِتابِکَ الْمُنْزَلِ شَھْرُ رَمَضانَ الَّذِی ٲُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ھُدیً لِلنَّاسِ وَبَیِّناتٍ مِنَ الْھُدیٰ وَالْفُرْقانِ فَعَظَّمْتَ حُرْمَۃَ شَھْرِ رَمَضانَ بِما ٲَ نْزَلْتَ فِیہِ مِنَ الْقُرْآنِ وَخَصَصْتَہُ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَجَعَلْتَہا خَیْراً مِنْ ٲَ لْفِ شَھْرٍ ۔
اے معبود! تو نے اپنی نازل کردہ کتاب میں فرمایا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جسمیں قرآن کریم نازل کیاگیا جو لوگوں کیلئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی دلیلیں اور حق وباطل کا امتیاز ہے پس تونے ماہ رمضان کو اس سے بزرگی دی اس میں قران کریم کا نزول فرمایا اور اسے شب قدر کے لیے خاص کیااور اس رات کو ہزارمہینوں سے بہتر قرار دیا
اَللّٰھُمَّ وَہذِھِ ٲَیَّامُ شَھْرِ رَمَضانَ قَدِ انْقَضَتْ، وَلَیالِیہِ قَدْ تَصَرَّمَتْ، وَقَدْ صِرْتُ یَا إلھِی مِنْہُ إلی مَا ٲَنْتَ ٲَعْلَمُ بِہِ مِنِّی وَٲَحْصیٰ لِعَدَدِھِ مِنَ الْخَلْقِ ٲَجْمَعِینَ، فَٲَسْٲَلُکَ بِما سَٲَلَکَ بِہِ مَلائِکَتُکَ الْمُقَرَّبُونَ، وَٲَ نْبِیاؤُکَ الْمُرْسَلُونَ، وَعِبادُکَ الصَّالِحُونَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَفُکَّ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ، وَتُدْخِلَنِی الْجَنَّۃَ برَحْمَتِکَ وَٲَنْ تَتَفَضَّلَ عَلَیَّ بِعَفْوِکَ وَکَرَمِکَ وَتَتَقَبَّلَ تَقَرُّبِی، وَتَسْتَجِیبَ دُعائِی وَتَمُنَّ عَلَیَّ بِالْاَمْنِ یَوْمَ الْخَوْفِ مِنْ کُلِّ ھَوْلٍ ٲَعْدَدْتَہُ لِیَوْمِ الْقِیامَۃِ
اے معبود! یہ ماہ رمضان مبارک کے دن ہیں کہ جو گزرے جا رہے ہیں اور اس کی راتیں ہیں جو بیت رہی ہیںاے میرے اﷲ ان گزرے شب وروز میں میری جو
حالت رہی تو اسے مجھ سے زیادہ جانتا ہے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر تو اس کا حساب رکھتا ہے لہذا میں اس وسیلے سے سوال کرتا ہوں جس سے تیرے مقرب فرشتے سوال کرتے ہیں اور تیرے بھیجے ہو ئے انبیائ اور تیرے نیک بندے سوال کرتے ہیں کہ محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ مجھے جہنم کی آگ سے رہائی عطا فرما اور اپنی رحمت سے مجھے جنت میں داخل فرما نیز یہ کہ مجھ پر اپنے درگذر اور احسان سے فضل کر میرے قرب حاصل کرنے کو قبول فرما اور میری دعا کوقبولیت ،بخشش اور مجھ پر احسان کرتے ہوئے اس خوف کے دن ہر دہشت سے محفوظ رکھ جو تو نے روز قیامت کیلئے تیار کی ہوئی ہے
۔ إلھِی وَٲَعُوذُ بِوَجْھِکَ الْکَرِیمِ وَبِجَلالِکَ الْعَظِیمِ ٲَنْ تَنْقَضِیَ ٲَیَّامُ شَھْرِ رَمَضانَ وَلَیالِیہِ وَلَکَ قِبَلِی تَبِعَۃٌ ٲَوْ ذَ نْبٌ تُؤاخِذُنِی بِہِ، ٲَوْ خَطِیئَۃٌ تُرِیدُ ٲَنْ تَقْتَصَّہا مِنِّی لَمْ تَغْفِرْھا لِي، سَیِّدِی سَیِّدِی سَیِّدِی، ٲَسْٲَلُکَ یَا لاَ إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ إذْ لاَ إلہَ إلاَّ ٲَنْتَ
اے اﷲ! میں پناہ لیتا ہوں تیری ذات کریم اور تیرے بزرگ تر جلال کی اس سے کہ جب ماہ رمضان المبارک کے دن اور راتیں گزر جائیں تو میرے ذمے کوئی
جواب دہی ہو یا کوئی گناہ ہو جس پر میری گرفت کرے یاکوئی لغزش ہو تو مجھے جس کی سزا دینا چاہتا ہو اور اسکی معافی نہ دی ہو میرے مالک میرے آقا میرے سردار میں سوال کرتا ہوں اے کہ نہیں کوئی معبود مگر تو کیونکہ نہیں کوئی معبود مگر تو ہی ہے
إنْ کُنْتَ رَضِیتَ عَنِّی فِی ہذَا الشَّھْرِ فَازْدَدْ عَنِّی رِضیً، وَ إنْ لَمْ تَکُنْ رَضِیتَ عَنِّی فَمِنَ الاَنَ فَارْضَ عَنِّی یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ، یَا اللّهُ یَا ٲَحَدُ یَا صَمَدُ یَا مَنْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُواً ٲَحَدٌ
اگر تو اس مہینے میں مجھ سے راضی ہو گیا ہے تو میرے لیے اپنی خوشنودی میںاضافہ فرما اور اگر تو مجھ سے راضی نہیں ہوا تو اس گھڑی مجھ سے راضی ہو جا اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے اے اﷲ، اے یکتا، اے بے نیاز، اے وہ جس نے نہ جنا ہے اور نہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے
اور یہ بہت زیادہ کہے : يَا مُلَيِّنَ الْحَدِيدِ لِداوُدَ عَلَيْهِ السَّلامُ، يَا كاشِفَ الضُّرِّ وَالْكُرَبِ الْعِظامِ عَنْ أَيُّوبَ عَلَيْهِ السَّلامُ، أَيْ مُفَرِّجَ هَمِّ يَعْقُوبَ عَلَيْهِ السَّلامُ، أَيْ مُنَفِّسَ غَمِّ يُوسُفَ عَلَيْهِ السَّلامُ، صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ كَما أَنْتَ أَهْلُهُ أَنْ تُصَلِّىَ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ، وَافْعَلْ بِى مَا أَنْتَ أَهْلُهُ، وَلَا تَفْعَلْ بِى مَا أَنَا أَهْلُهُ.
اے حضرت داؤد کے لیے لوہے کو نرم کرنے والے اے حضرت ایوب کے دکھ اور تکلیفیں ہٹا دینے والے اے یعقوب کی بے تابی دور کرنے والے اے یوسف
کا رنج مٹا دینے والے محمد(ص) اور آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو اس کا اہل ہے کہ ان سب پر اپنی طرف سے رحمت نازل فرما اور میرے ساتھ وہ سلوک کر جو تیرے شایان ہے اور وہ سلوک نہ کر کہ جو میرے لائق ہے۔
جو دعائیں کافی کی سند کے ساتھ اور مقنعہ و مصباح میں مرسلہ طور پر نقل ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کو اکیسویں رمضان کی رات پڑھے :
يَا مُولِجَ اللَّيْلِ فِى النَّهارِ، وَمُولِجَ النَّهارِ فِى اللَّيْلِ، وَ مُخْرِجَ الْحَيِّ مِنَ الْمَيِّتِ، وَمُخْرِجَ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ، يَا رازِقَ مَنْ يَشاءُ بِغَيْرِ حِسابٍ، يَا اللّٰهُ يَا رَحْمانُ، يَا اللّٰهُ يَا رَحِيمُ، يَا اللّٰهُ يَا اللّٰهُ يَا اللّٰهُ لَكَ الْأَسْماءُ الْحُسْنىٰ، وَالْأَمْثالُ الْعُلْيا، وَالْكِبْرِياءُ وَالْآلاءُ، أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّىَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَأَنْ تَجْعَلَ اسْمِى فِى هٰذِهِ اللَّيْلَةِ فِى السُّعَداءِ، وَرُوحِى مَعَ الشُّهَداءِ، وَ إِحْسانِى فِى عِلِّيِّينَ، وَ إِساءَتِى مَغْفُورَةً، وَأَنْ تَهَبَ لِى يَقِيناً تُباشِرُ بِهِ قَلْبِى، وَإِيماناً يُذْهِبُ الشَّكَّ عَنِّى، وَتُرْضِيَنِى بِما قَسَمْتَ لِى، وَآتِنا فِى الدُّنْيا حَسَنَةً، وَفِى الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنا عَذابَ النَّارِ الْحَرِيقِ، وَارْزُقْنِى فِيها ذِكْرَكَ وَشُكْرَكَ وَالرَّغْبَةَ إِلَيْكَ، وَالْإِنابَةَ وَالتَّوْفِيقَ لِما وَفَّقْتَ لَهُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمُ السَّلامُ.
ترجمه: اے رات کو دن میں داخل کرنے والے اور دن کو رات میں داخل کرنے والے اے زندہ کو مردہ سے نکالنے والے اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والے اے جسے چاہے بغیر حساب کے رزق دینے والے، اے اﷲ، اے رحمن ، اے اﷲ، اے رحیم، اے اﷲ، اے اﷲ، اے اﷲ، تیرے ہی لیے ہیں اچھے اچھے نام بلند ترین نمونے اور تیرے لیے ہیں بڑائیاں اور مہربانیاں میں تجھ سے سؤال کرتا ہوں کہ محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ آج کی رات میں میرانام نیکوکاروں میں قرار دے، میری روح کو شہیدوں کے ساتھ قرار دے میری اطاعت کو مقام علیین پر پہنچا دے، میری بدی کو معاف شدہ قرار دے اور یہ کہ مجھے وہ یقین عطا کر جو میرے دل میں بسا ہو وہ ایمان دے جو شک کو مجھ سے دور کر دے اور مجھے راضی بنا اس پر جو حصہ تو نے مجھے دیا ہے اور ہمیں دنیا میں بہترین زندگی دے اور آخرت میں خوش ترین اجر عطا کر اور ہمیں جلانے والی آگ کے عذاب سے بچا اور اس مہینے میں مجھے ہمت دے کہ تیرا ذکر کروں تیرا شکر کروں تیری طرف توجہ رکھوں.
کفعمی نے سید (رح)سے نقل کیا ہے کہ رمضان کی اکیسویں رات یہ دعا پڑھے:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ، وَ اقْسِمْ لِي حِلْما يَسُدُّ عَنِّي بَابَ الْجَهْلِ، وَ هُدًى تَمُنُّ بِهِ عَلَيَّ مِنْ كُلِّ ضَلالَةٍ، وَ غِنًى تَسُدُّ بِهِ عَنِّي بَابَ كُلِّ فَقْرٍ، وَ قُوَّةً تَرُدُّ بِهَا عَنِّي كُلَّ ضَعْفٍ، وَ عِزّاً تُكْرِمُنِي بِهِ عَنْ كُلِّ ذُلٍّ، وَ رِفْعَةً تَرْفَعُنِي بِهَا عَنْ كُلِّ ضَعَةٍ، وَ أَمْناً تَرُدُّ بِهِ عَنِّي كُلَّ خَوْفٍ، وَ عَافِيَةً تَسْتُرُنِي بِهَا عَنْ كُلِّ بَلاءٍ، وَ عِلْما تَفْتَحُ لِي بِهِ كُلَّ يَقِينٍ، وَ يَقِينا تُذْهِبُ بِهِ عَنِّي كُلَّ شَكٍّ، وَ دُعَاءً تَبْسُطُ لِي بِهِ الْإِجَابَةَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ، وَ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ، السَّاعَةِ السَّاعَةِ السَّاعَةِ؛ يَا كَرِيمُ، وَ خَوْفا تَنْشُرُ لِي بِهِ كُلَّ رَحْمَةٍ، وَ عِصْمَةً تَحُولُ بِهَا بَيْنِي وَ بَيْنَ الذُّنُوبِ، حَتَّى أُفْلِحَ بِهَا عِنْدَ الْمَعْصُومِينَ عِنْدَكَ، بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.
اے معبود! محمد(ص) وآل محمد(ص) پر رحمت فرما اور مجھے وہ نرم خوئی عطا فرما جو جہالت کا دروازہ مجھ پر بند کرے اور ہدایت نصیب کر جس
کے ذریعے تو مجھ پر ہر گمراہی سے بچانے کا احسان کرے اور تونگری دے جس کے ذریعے تو مجھ پر ہر محتاجی کا دروازہ بندہ کرے اور قوت عطا کر جس کے ذریعے تو مجھ سے کمزوریاں دور کرے اور وہ عزت دے جس سے تو ہر ذلت کو مجھ سے دور کرے اور وہ بلندی دے کہ جس کے ذریعے تو مجھے ہر پستی سے بلند کر دے اور ایسا امن عطا کر کہ جس کے ذریعے تومجھے ہر خوف سے بچائے اور وہ پناہ دے کہ جسکے ذریعے تو مجھے ہر مصیبت سے محفوظ رکھے او ر وہ علم دے جس کے ذریعے تومیرے لیے ہر یقین کا دروازہ کھول دے اور وہ یقین عطا کرکہ جس کے ذریعے ہر شک کو مجھ سے دور کر دے اورایسی دعا نصیب فرما کہ جسے تو قبول فرمائے اسی رات میں اور اسی گھڑی میں، اسی گھڑی میں ،اسی گھڑی میں، اسی گھڑی میں ابھی، اے کرم کرنے والے، اور وہ خوف دے جس سے تو مجھ پر رحمتیں برسائے اور وہ تحفظ دے کہ میرے اور گناہوں کے درمیان آڑ بن جائے یہاں تک کہ اس کے ذریعے تیرے معصومین(ع) کی
خدمت میں پہنچ پاؤں تیری رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم والے۔
ایک اور روایت ہے کہ حماد بن عثمان اکیسویں رات امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ(ع) نے پوچھا: آیا تم نے غسل کیا ہے؟ اس نے عرض کی جی ہاں! آپ پر قربان ہوجائوں ۔ حضرت نے مصلیٰ طلب فرمایا۔ حماد کو اپنے قریب بلایا اور نماز میں مشغول ہو گئے حماد بھی حضرت(ع) کے ساتھ ساتھ نماز پڑھتے رہے ۔ یہاں تک کہ آپ نماز سے فارغ ہوئے تب حضرت نے دعا مانگی اور حماد آمین کہتے رہے ۔ اس اثنائ میں صبح صادق کا وقت ہوگیا ۔ پس حضرت(ع) نے اذان واقامت کہی پھر اپنے غلاموں کو بلایا اور نماز صبح باجماعت ادا کی پہلی رکعت میں سورۂ الحمد کے بعد سورۂ قدر اوردوسری رکعت میں حمد کے بعد سورۂ توحید پڑھی نماز کے بعد تسبیح وتقدیس ، حمدوثنائ الہی اور حضرت رسول (ص) پر درودوسلام بھیجا اور مومنین ومومنات اورمسلمین ومسلمات، سبھی کے لیے دعا فرمائی ۔ پھر آپ نے سرسجدہ میں رکھا اور بڑی دیر تک اسی حالت میں رہے جب کہ آپ کے سانس کے سوا کوئی آواز نہ آتی تھی ، اس کے بعد یہ دعا تاآخر پڑھی کہ جو سید بن طائوس کی کتاب اقبال میں مذکور ہے اور وہ اس جملے سے شروع ہوتی ہے :
«لا إِلهَ إِلّا أَنْتَ مُقَلِّبَ القُلُوبِ وَ الأَبْصارِ»
نہیں کوئی معبود مگر تو کہ جو دلوں اورآنکھوں کو زیروزبر کرنیوالا ہے
شیخ کلینی(رح) نے روایت کی ہے کہ امام محمدباقر رمضان کی اکیسویں اور تئیسویں راتوں میں نصف شب تک دعا پڑھتے اور پھر نمازیں شروع کر دیتے تھے ۔ واضح رہے کہ رمضان کی آخری راتوں میں ہر رات غسل کرنا مستحب ہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت رسول ان دس راتوں میں ہر رات غسل فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھنا مستحب ہے بلکہ اس کی بڑی فضیلت ہے اور یہی اعتکاف کا افضل وقت ہے۔
ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ ان ایام میں اعتکاف بیٹھنے پر دوحج اور دوعمرے کا ثواب ملتا ہے۔ حضرت رسول رمضان کے ان آخری دس دنوں میں مسجد میں اعتکاف بیٹھتے تھے، تب مسجد میں آپ کے لیے چھولداری لگا دی جاتی آپ اپنا بستر لپیٹ دیتے اور شب وروز عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔
یاد رہے کہ ۴۰ھ میں رمضان کی اسی اکیسویں رات میں امیرالمومنین کی شہادت ہوئی تھی۔ لہذا اس رات آل(ع) محمد(ص) اور ان کے پیروکاروں کا رنج وغم تازہ ہوجاتا ہے۔
روایت ہے کہ یہ شب بھی امام حسین علیه السلام کی شبِ شہادت کے مانند ہے کہ جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اسکے نیچے سے تازہ خون ابل پڑتا تھا۔
شیخ مفید (رح) فرماتے ہیں کہ اس رات بکثرت درود شریف پڑھے آل محمد(ص) پر ظلم کرنے والوں پر نفرین کرے اور امیرالمومنین کے قاتل پر لعنت بھیجے۔