- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/25
- 0 رائ
جادہٴ حق پر چلنے والے انسان کو اپنی زندگی میں اھل بیت علیھم السلام کو سر مشق اور نمونہ عمل قرار دینا چاہئے۔
خداوند مہربان نے فضائل حاصل کرنے اور کمالات تک پہنچنے کا راستہ بیان کیا ھے، اس کے بعد حکم دیا ھے کہ تم عارف کے پیچھے پیچھے اور معصوم رہبر کی اقتدا میں اس راہ کو طے کرو تاکہ مقصد تک پہنچ جاؤ۔
البتہ ایسا نھیں ھے کہ قدم به قدم تمام منزلوں میں ان کے ساتھ ھو جاؤ، (کیونکہ) وہ اس منزل پر پہنچ چکے ھیں کہ جبرائیل جیسا فرشتہ بھی وہاں تک نھیں پہنچ سکا، اور یہ کہتا ھوا نظر آتا ھے:
”لَوْ دَنَوْتُ اٴنْمُلَةً لاحْتَرَقْتُ۔“[1]
”اگر انگلی کے ایک پور کے برابر بھی قدم آگے بڑھا تو بے شک جل جاؤں گا“۔
انسان کے لئے نمونہ عمل
خداوند عالم نے اھل بیت علیھم السلام کو انسانوں کے لئے سرمشق اور نمونہ عمل قرار دیا ھے تاکہ ہر شخص اپنی استعداد اور ظرفیت کے مطابق ان سے فیضیاب ھو سکے۔
<اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اٴَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا۔۔۔>[2]
”اس آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا۔۔۔۔“
آیت کی تاویل میں کہا گیا ھے: خداوند عالم نے عالم بالا سے آب حیات اور علم و دانش نازل کیا ھے پس ہر چیز اور ہر شخص اپنی گنجائش کے اعتبار سے فیضیاب ھوتا ھے۔
جو گڑھا اور گھاٹی گہری اور وسیع اور وجودی وسعت کے لحاظ سے بہت بزرگ اور وسیع ھو تو وہ آب حیات سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ھے اور خود کو وجودی اور معرفتی لحاظ سے اس مقام پر پہنچا سکتا ھے کہ مقام احسان تک پہنچ جاتا ھے۔
خداوند عالم فرماتا ھے:
< لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللهِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔۔۔>[3]
”(اے مسلمانو!) تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی، بہترین نمونہٴ عمل ھے۔۔۔۔“
یہ نمونہ عمل ھونا پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) سے مخصوص نھیں ھے بلکہ خود خدا اور پیغمبر اسلام(صلی الله علیه و آله و سلم) نے یہ اعلان کیا ھے کہ رسول اللہ(صلی الله علیه و آله و سلم) کے بعد یہ نمونہ عمل ھونا اھل بیت علیھم السلام تک پہنچے گا، کیونکہ یھی حضرات پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کے حقیقی خلفا، اوصیا، جانشین اور وارث ھیں، اور نمونہ عمل ھونا خود آنحضرت(ص) کی ذات نھیں ھے بلکہ ایک عہدہ اور مقام ھے جو پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) سے اھل بیت علیھم السلام کی طرف منتقل ھوا ھے۔
راہ ولایت پر چلنے والے کو معلوم ھونا چاہئے کہ غیبی فرشتوں کے ساتھ اُنس اور ان کی تسبیح کو سننا پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کی پیروی کے بغیر ممکن نھیں اور ان حضرات کی اقتدا کئے بغیر اس راہ کو طے کرنا غیر ممکن بلکہ محالات میں سے ھے۔
حضرت رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا:
”الرَّوْحُ وَالرَّاحَةُ، وَالرَّحْمَةَ وَالنُصْرَةُ، وَالیُسْرُ وَالیَسَارُ، وَالرِّضَا والرِّضْوَانُ، وَالمَخْرَجُ وَالفَلْجُ، وَالقُرْبُ وَالمَحَبَّةُ، مِنَ اللّٰہِ وَمِنْ رَسُولِہِ لِمَنْ اٴَحَبَّ عَلِیّاً، وَاٴَنْتُمْ بالاٴَوْصِیَاءِ مِنْ بَعْدِہْ۔“[4]
”آسائش اور راحت، رحمت اور نصرت، توانگری اور کشائش، خوشنودی اور رضوان، مشکلوں سے نجات کا راستہ، کامیابی، خدا اور اس کے رسول کی دوستی صرف اسی شخص کے لئے ھے جو علی(علیہ السلام) کو دوست رکھتا ھے اور ان کے بعد ائمہ کی اقتدا کرتا ھو“۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
”مَن سَرَّہُ اٴن یَنْظُرَ اِٴلَی اللّٰہِ بِغَیْرِ حِجَابٍ، وَیَنْظُرَاللّٰہُ اِلَیْہِ بِغَیْرِ حِجَابٍ، فَلیَتَوَلَّ آلَ مُحَمَّدٍ، ولْیَتَبَرَّاٴْ مِنْ عَدِوِّھِمْ، وَلْیَاٴْتَمَّ بِاِٴمامِ المُوٴْمِنِیْنَ مِنْھُمْ، فَاِٴنَّہُ اِٴذَا کاَنَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ نَظَرَ اللّٰہِ اِلَیْہِ بِغَیْرِ حِجَابٍ، وَنَظَرَ اِلَی اللّٰہِ بِغَیْرِ حِجَابٍ۔“[5]
”جو شخص اس بات پر خوش ھے کہ خدا کو (دل کی آنکھوں سے) بغیر حجاب کے دیکھے اور خدا بھی اس پر بے حجاب نظر کرے تو اس کو آل محمد(ع) کی ولایت قبول کرنا چاہئے اور ان کی دشمنی سے دور رہنا چاہئے، اور اگر کوئی ان میں سے کہ مومنین کے رہبر ھیں؛ پیروی کرے تو جب روز قیامت آئے گا تو خداوند عالم اس کو بلا حجاب دیکھے گا اور وہ بھی خدا کو بغیر حجاب کے دیدار کرے گا“!
اھل بیت علیھم السلام نے چونکہ تمام منزلوں اور مقامات اور بندگی و عبودیت کے تمام راستوں نیز معنویت و فضیلت کے تمام راستوں کو مکمل اخلاص کے ساتھ طے کیا ھے، سبھی کے لئے سرمشق اور نمونہ عمل ھیں۔
یہ حضرات اس مقام پر ھیں کہ جس مرحلہ میں قرآن کثیر ھے وہ بھی کثرت پر ناظر ھیں اور جس منزل میں بسیط ھے یہ بھی بساطت کا مشاہدہ کرتے ھیں کیونکہ ان کی حقیقت وھی قرآن کی حقیقت ھے ان کے بغیر قرآن سمجھنا اور مقام قُرب تک پہنچنا ممکن نھیں ھے۔
طالبان دنیا، اھل بیت علیھم السلام کو درک نھیں کر سکتے
جو شخص اپنی زندگی کے ہر پھلو میں اھل بیت علیھم السلام کی طرف رجوع کرے اور اپنے درک و فھم اور گنجائش کے لحاظ سے ان حضرات کی ولایت و حقیقت سے فیضیاب ھو کہ ان کی ولایت اور حقیقت خدا کی ولایت اور قرآن کی حقیقت ھے۔
کم گنجائش والے اور درمیانی قسم کے انسان اور وجودی وسعت رکھنے والا (ہر ایک کسی نہ کسی طرح سے) اھل بیت علیھم السلام کو نمونہ عمل قرار دیتے ھوئے ان کی حقیقت کو درک کرتا ھے اور اس پر ایمان رکھتا ھے اور ان حضرات کی اقتدا کرتا ھے اور اسی ادراک و ایمان اور اقتدا کی بنیاد پر اجر و ثواب پاتا ھے، لیکن مادیت پرستی کے کنویں میں غرق ھونے والے جو اس سے نکلنا بھی نھیں چاہتے:
<۔۔۔ کَمَنْ مَثَلُہُ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِنْہَا ۔۔۔>[6]
”۔۔۔ اس کی مثال اس جیسی ھو سکتی ھے جو تاریکیوں میں ھو اور ان سے نکل بھی نہ سکتا ھو۔۔۔۔“
ہرگز رسالت و ولایت کی حقیقت کو درک نھیں کرسکتے اور اس وجہ سے کہ نہ صرف ان کو اپنی زندگی کے لئے سرمشق اور نمونہ عمل قرار نھیں دیتے بلکہ ان کا انکار کرتے ھیں!
اس وجہ سے قرآن مجید نے بیان کیا ھے کہ اس بات کا راز کہ کچھ لوگ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) کو سر کی آنکھوں سے تو دیکھتے ھیں لیکن آپ کی شخصیت اور رسالت و نبوت کو درک نھیں کرتے، یہ ھے ایسے لوگ مادیت پرستی کے کنویں اور ھوا و ھوس کے دردناک گڑھے میں غرق ھوچکے ھیں اور جس طرح انھوں نے صراط مستقیم کو نھیں پہچانا پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) اور آپ کے اھل بیت علیھم السلام کو بھی نھیں پہچانا، بالفاظ دیگر: ایسے لوگ قرآن کے باطن کو برداشت نھیں کر سکتے یا برداشت کرنا نھیں چاہتے؛ وہ اھل بیت علیھم السلام کے باطن کو بھی نھیں پہچان سکتے کیونکہ ان کی زندگی مخصوصاً ان کے دل پر ایسا پردہ ھے جو اھل بیت علیھم السلام کی حقیقت ان کی رہبری اور امامت کو درک نھیں کرسکتا۔
یہ پردہ اور حجاب وھی ھے کہ جو گناھوں کی کثرت، فسق و فجور اور ہٹ دھرمی سے پیدا ھوتا ھے اور حقیقت کے مشاہدہ میں رکاوٹ بن جاتا ھے!
<۔۔۔ وَتَرَاہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ وَہُمْ لاَیُبْصِرُونَ >[7]
”۔۔۔ اور دیکھو گے تو ایسا لگے گا جیسے تمہاری ھی طرف دیکھ رھے ھیں حالانکہ دیکھنے کے لائق بھی نھیں ھیں۔“
دیکھ سکتے ھیں، لیکن بصیرت نھیں رکھتے، ظاہر کو د یکھتے ھیں لیکن حقیقت کو دیکھنے کے لئے اندھے ھیں، یہ وھی ھیں جن کی باطنی آنکھ پر گناھوں کی زیادتی اور جاھلانہ تعصب اور ہٹ دھرمی نے پردہ ڈال دیا ھے:
<۔۔۔ْ اٴَعْیُنُہُمْ فِی غِطَاءٍ عَنْ ذِکْرِی ۔۔۔>[8]
”۔۔۔ جن کی نگاھیں ھمارے ذکر کی طرف سے پردہ میں تھیں۔۔۔۔“
حق پوشیدہ نھیں ھے
اھل بیت علیھم السلام کے سامنے کوئی پردہ نھیں ھے جیسا کہ خداوند عالم بھی کسی پردہ میں پوشیدہ نھیں ھے، اگر بعض لوگ چشم بصیرت سے خدا کو نھیں دیکھتے تو اس کی وجہ یہ ھے کہ وہ خود پردہ میں ھیں ورنہ خدا تو ظاہر و مُظہر اور نور ھے:
<اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔>[9]
”اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ھے۔۔۔۔“
ان لوگوں کی آنکھوں پر حق کو دیکھنے میں مانع حجاب اور نبوت و ولایت کو نہ دیکھنے کا سبب قیامت تک باقی رھے گا اور قیامت کے دن ان پر حقیقت واضح ھو جائے گی، جس طرح پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کے لئے حقیقت واضح ھے اور کوئی چیز ان سے مخفی نھیں ھے، اور جو کچھ مستقبل میں دوسروں کے لئے واضح ھوگی ان حضرات کے لئے اس وقت بھی واضح و روشن ھے۔
البتہ جو لوگ اھل بصیرت ھیں اس وقت میں حق اور نبوت و لایت کی حقیقت کو دیکھتے ھیں اور ان کے نزدیک ان کی عظمت واضح اور روشن ھے، اسی وجہ سے ان حضرات کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ھیں اور اپنے تمام وجود سے ان حضرات کی اقتدا کرتے ھیں۔
جمال یار ندارد نقاب و پردہ ولی
غبار رہ بنشان تا نظر توانی کرد[10]
(ترجمہ شعر: جمال خدا پردہ میں نھیں ھے لیکن اپنی راہ سے گرد و غبار صاف کرو تاکہ اس کا دیدار ھو جائے۔)
جی ہاں حق پوشیدہ نھیں ھے اور رسالت و امامت بھی پردہ میں نھیں ھے۔
غیب و شھود کے حقائق جو سب کے سب الٰھی نشانیاں ھیں کوئی بھی حجاب اور پردہ میں نھیں ھے، یہ انسان ھی ھے جو گناھوں کے پردہ میں لپٹا ھوا ھے اور اس وجہ سے حق دیکھنے سے محروم ھے، پردہ اور حجاب دیکھنے والوں کی آنکھوں پر ھے نہ حق پر کہ ھمیشہ مخلوق پر واضح ھے چنانچہ مولائے عاشقان، قبلہ عارفین اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:
”الحَمدُ لِلّٰہِ المُتَجَلُی لِخَلقِہِ بِخَلقِہِ۔“[11]
” تمام حمد و تعریف اس خدا سے مخصوص ھیں جو اپنی مخلوق کے لئے ان کی خلقت کے سبب آشکار ھے“۔
اھل بیت علیھم السلام نوری حقائق ھیں یہاں تک کہ ان کا جسم اور بدن بھی ان کے نوری وجود سے متاٴثرھے اور جن کے دل میں نفس کی پاکیزگی اور حقیقت سے عشق و محبت کی وجہ سے نور قرار دیا گیا ھے؛ وھی اھل بیت علیھم السلام کی حقیقت کو دیکھتے ھیں اور خود ان کی اقتدا کرتے ھیں اگرچہ سر کی آنکھوں سے محروم ھو!
جناب ابو بصیر کہتے ھیں: میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں وارد ھوا، لوگوں کو آتے جاتے دیکھا، امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: لوگوں سے پوچھو کیا مجھے دیکھ رھے ھیں؟ میں نے جس سے بھی سوال کیا کہ کیا امام باقر(علیہ السلام) کو دیکھتے ھو؟ وہ کہتا تھا: نھیں، جب کہ امام علیہ السلام اس کے مقابل کھڑے ھوتے تھے، اس موقع پر ابوہارون مکفوف (جو دونوں آنکھوں سے نابینا تھے) مسجد میں تشریف لائے، میں نے ان سے سوال کیا: کیا حضرت محمد باقر(علیہ السلام) کو دیکھ رھے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، اور پھر انھوں نے امام علیہ السلام کی طرف اشارہ (بھی) کیا اور کہا: کیا تم نھیں دیکھ رھے ھو امام (علیہ السلام) وہاں کھڑے ھوئے ھیں، میں نے ان سے سوال کیا: تم نے کس طرح سمجھا؟ تم تو نابینا ھو؟ انھوں نے جواب دیا: میں کس طرح امام کو نہ دیکھوں اور نہ جانوں حالانکہ امام چمکتا ھوا نور ھے[12]!!
جی ہاں سر کی آنکھوں سے نابینا لیکن دل کی آنکھوں سے بینا، حقیقت کو چاھے کچھ بھی ھو اور کھیں بھی ھو اور کسی بھی جلوے میں ھو دیکھتا ھے، لیکن سر کی آنکھوں سے بینا اور دل کی آنکھوں سے نابینا اگرچہ حقیقت اس کے سامنے بھی ھو تو بھی وہ اسے نھیں دیکھتا، یھی نھیں بلکہ اس کی تکذیب اور اس کے انکار کے لئے اٹھ کھڑا ھوتا ھے!
ممکن ھے کوئی شخص پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں گفتگو کرے یا ان کی تاریخ پڑھے یا ان کے سلسلہ میں کتاب لکھے لیکن ان کو نہ دیکھے یا دوسرے الفاظ میں: ان کے ظاہر کو دیکھے لیکن ان حضرات کی شخصیت اور عظمت کو نہ دیکھتا ھو، جیسا کہ عیسائی اور لامذہب دانشوروں نے بزم ربوبیت کے ان شاہدوں اور الوھیت کی نشانیوں کے بارے میں کتابیں لکھی لیکن ان پر ایمان نہ لائے اور تحریف شدہ ثقافت اور اپنے جھل کے ھولناک گڑھوں میں باقی رھے اور ختم ھوگئے!
حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کے حالات زندگی میں ملتا ھے[13] کہ قید خانہ میں ہر روز طلوع آفتاب سے زوال کے وقت تک سجدہ اور عبادت و مناجات میں مشغول رہتے تھے، ہارون دن میں جب زندان کی چھت پر جاتا تھا اور قید خانے کے روشندان سے قید خانہ کے اندر دیکھتا تھا قید خانہ کے گوشہ میں صرف کپڑا دیکھتا تھا، ایک روز اس نے داروغہ زندان ”ربیع“ سے کہا:
”مَاذاکَ الثَّوْبُ الَّذِی اٴَرَاہُ کُلُّ یَوْمٍ فِی ذَلِکَ المَوْضِعِ؟“
”اے ربیع! وہ کپڑا کیا ھے جس کو میں ہر روز وہاں دیکھتا ھوں؟“۔
ربیع نے جواب دیا:
”مَاذَاک بِثُوْبٍ، وَاِٴنَّمَاھُوَ موسَی بْنُ جَعْفَر، لَہُ کُلَّ یَوْمٍ سَجْدَةٌ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمسِ اِٴلَی وَقْتِ الزَّوَالِ۔“[14]
”وہ کپڑا نھیں ھے بلکہ موسیٰ بن جعفر(علیہ السلام) ھیں ہر روز طلوع آفتاب کے بعد سے زوال تک سجدہ میں رہتے ھیں“۔
ہارون چونکہ سر کی آنکھوں سے دیکھتا ھے لیکن اس کا باطن اندھا ھے لہٰذا حقیقت کو دیکھنے سے محروم ھے، بلاشک اگر اپنے باطن میں روشنی پاتا تو امام علیہ السلام کو قید خانہ سے آزاد کر دیتا اور حکومت امام علیہ السلام کے سپرد کر دیتا کیونکہ حکومت امام کا الٰھی حق ھے، اور خود ھمہ تن گوش غلام کی طرح امام علیہ السلام کی خدمت کرتا اور ایک لمحہ کے لئے بھی امام علیہ السلام کی اقتدا سے دست بردار نہ ھوتا۔
اس کے مقابلہ میں جن لوگوں کو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے آزار و تکلیف دینے کے لئے بھیجا گیا، چنانچہ صالح بن وصیف داروغہ زندان کہتا ھے: کیا کروں میں نے دو بدترین لوگوں کو امام کے آزار و تکلیف دینے کے لئے بھیجا، لیکن وہ دونوں امام کی عبادت اور راز و نیاز کو دیکھ کران سے اتنے متاٴثر ھوئے کہ وہ خود بھی عبادت اور راز و نیاز میں مشغول ھو گئے اس طرح کہ ان کا انداز بھی تعجب خیز تھا!
میں نے ان سے کہا: تمھیں کیا ھوگیا ھے؟ تمہارے حوالہ جو کام کیا گیا تھا اس کو کیوں انجام نہ دیا؟ مگر تم نے ان میں کیا دیکھ لیا ھے؟ وہ جواب میں کہتے ھیں: ھم اس شخص کے بارے میں کیا کھیں جو دن بھر روزہ رکھتا ھو اور شب کو عبادت میں گزارتا ھو اور عبادت کے علاوہ کسی دوسرے کام میں مشغول نہ ھو، وہ جب ھماری طرف دیکھتے ھیں تو ھمارے بدن میں اس طرح لرزہ پیدا ھو جاتا ھے کہ ھم اس وقت اپنے اوپر قابو نھیں کر پاتے[15]!
جی ہاں، حقیقت دیکھنے والے حقیقت یافتہ ھو جاتے ھیں اور شیطانی کام انجام دینے کے بجائے اسلامی اور عبادی کاموں میں مشغول ھو جاتے ھیں۔
………….
حواله جات
[1] مناقب، ج۱، ص۱۷۸؛ بحار الانوار، ج۱۸، ص۳۸۲، باب۳، حدیث۸۶۔
[2] سورہٴ رعد (۱۳)، آیت۱۷۔
[3] سورہٴ احزاب (۳۳)، آیت۲۱۔
[4] تفسیر العیاشی، ج۱، ص۱۶۹۔
[5] المحاسن، ج۱، ص۶۰، باب۷۸، حدیث۱۰۱؛ بحار الانوار، ج۲۷، ص۹۰، باب۴، حدیث۴۲؛ اھل بیت علیھم السلام در قرآن وحدیث ، ج۲، ص۵۸۰، حدیث۸۸۰۔
[6] سورہٴ انعام (۶)، آیت۱۲۲۔
[7] سورہٴ اعراف (۷)، آیت۱۹۸۔
[8] سورہٴ کہف (۱۸)، آیت۱۰۱۔
[9] سورہٴ نور (۲۴)، آیت۳۵۔
[10] حافظ شیرازی، دیوان اشعار۔
[11] نہج البلاغہ، ص۱۵۷، خطبہ، ۱۰۸؛ اعلام الدین؛ بحار الانوار، ج۳۴، ص۲۳۹، باب۳۳۔
[12] الخرائج والجرائح، ج۲، ص۵۹۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۴۳، باب۵، حدیث۳۱۔
[13] اس واقعہ کی طرف اھل بیت علیھم السلام کے مقام فنا کی بحث میں اشارہ ھو چکا ھے، لیکن چونکہ جادہ حق پر چلنے والوں کے لئے سرمشق کی حیثیت رکھتا ھے اسی وجہ سے تکرار ھوا ھے۔
[14] عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۹۵، باب۷، حدیث۱۴؛ بحار الانوار، ج۴۸، ص۲۲۰، باب۹، حدیث۲۴۔
[15] اصول کافی، ج۱، ص۵۱۲، باب مولد ابی جعفر الحسن بن علی علیہ السلام، حدیث۲۳؛ الارشاد مفید، ج۲، ص۳۳۴؛ روضة الواعظین، ج۱، ص۲۴۸؛ بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۰۸، باب۴، حدیث۶۔