- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/12/08
- 0 رائ
انسان فطرت کی بنیاد پر کمال کی طرف کشش رکھتا ھے اور خداوندعالم کمال مطلق ھے، لہٰذا انسان فطری طور پر خدا کی نسبت کشش رکھتا ھے اور اس بات کی کوشش کرتا ھے کہ وہ خود کو کمال تک پہنچائے اور نقص و کمی سے نجات پائے، اس وجہ سے اگر حجاب و غفلت میں مبتلا نہ ھو تو اپنا دل خدا کے سپرد کردیتا ھے، کیونکہ کمال کا دلدادہ ھے اور خدا سے یہ دلدادگی اس بات کی سبب اور باعث ھوگی کہ خدا کی طرف قدم اٹھانے میں شوق اور اشتیاق پیدا ھوگا۔
<۔۔۔ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلَاقِیہ>[1]
”۔۔ تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ھے تو ایک دن اس کا سامنا کرے گا۔“
اور چونکہ کمال مطلق تک پہنچنا اس کے درجوں کو طے کرتے ھوئے ممکن ھے، لہٰذا جب تک نیچے درجے کی منزلوں کو طے نہ کیا جائے بلند و بالا درجوں تک پہنچنا ممکن ھی نھیں ھے کیونکہ اس نظام کائنات میں کسی مرتبہ سے گزرے بغیر اس سے بلند مرتبہ پر نھیں پہنچا جا سکتا، درجوں کو طے کرنا ترقی ھو یا تنزلی، ایک ضروری اور لازمی چیز ھے۔
لہٰذا اگر کوئی بلند و بالا مراتب اور کمال کی چوٹی اور مطلق جمال تک پہنچنا چاھے تو سب سے پھلے نبوت محمدی(صلی الله علیه و آله و سلم) کی اقتدا کی منزل میں قدم رکھے جو کمال مطلق کا سب سے پھلا مظہر ھے، اور اس منزل میں داخل ھونے سے پھلے ولایت علوی کی اقتدا کی منزل میں وارد ھو؛ کیونکہ صاحب ولایت علویہ باب پیغمبر(صلی الله علیه و آله و سلم) ھے:
”اٴنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ، وَعَلِیٌّ بَابُھَا۔“[2]
”میں شہر علم ھوں اور علی اس کا دروازہ“۔
انسان ولایت علوی سے تمسک کئے بغیر اور علم علوی کے موجیں مارتے ھوئے سمندر سے فیضیاب ھوئے بغیر، کمال مطلق کی حقیقت تک نھیں پہنچ سکتا۔
یہ دعویٰ کہ علی علیہ السلام کو چھوڑ کر پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) تک اور پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) سے خدا تک پہنچا جا سکتا ھے، ایک شیطانی اور باطل دعویٰ ھے اور ایک ایسا مطلب ھے کہ جس کا متحقق ھونا غیر ممکن اور ایک لفظ میں محال ھے۔
پس جو شخص کمال مطلق کا دلدادہ ھے اور اس تک پہنچنا چاہتا ھے تو اس کو اپنے روحانی اور معنوی نیز عملی سفر شروع کرنے سے پھلے اپنے دل کی روحی اور قلبی فکری اور باطنی ظلمتوں اور کدورتوں کو اھل بیت علیھم السلام کے نور کی روشنی اور نبوت و ولایت کی اقتدا کے ذریعہ دور کرے، کیونکہ اھل بیت علیھم السلام کی ولایت اور ان کی اقتدا کے بغیر پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) تک نھیں پہنچا جا سکتا، اور نہ ھی لقائے حق تک پہنچا جا سکتا ھے اور نہ ا نسان کے اعمال درجہ مقبولیت تک پہنچ سکتے ھیں۔
حضرت رسول اکرم(صلی الله علیه و آله و سلم) نے حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام سے فرمایا:
”مَنْ سَرِّہِ اٴنْ یَلْقیٰ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ آمِنَا مُطَھَّراً لا یَحْزُنُہُ الْفَزَعُ الاٴَکْبَرُ، فَلْیَتَوَلَّکَ وَلْیَتَولَّ ابْنَیْکَ الحَسَنَ وَالحُسَیْنَ، وَعَلي بنِ الحسینِ وَمُحَمَّدَ بنَ عليٍّ وَجَعْفَرَ بنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسی بنَ جَعْفَر ، وعلي بنَ موسی، ومحمّداً و علیّاً وَالحسنَ، ثمَّ المھديّ وَھو خَاتَمُھمْ۔“[3]
”جو شخص اس بات پر خوش ھو کہ خدا کا امن و امان کے عالم میں اور پاکیزہ طور پر دیدار کرے اور قیامت کی عظیم وحشت اس کو غمگین نہ کرے تو اُسے چاہئے کہ تمہاری، تمہارے دو فرزند حسن و حسین اور علی ابن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علی بن موسیٰ و محمد و علی و حسن اور آخر میں مہدی(علیھم السلام) جو خاتم امامت ھے؛ کی ولایت و اقتدا کو دل و جان سے قبول رکھے“۔
نیز رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) نے ایک بہت اھم روایت میں فرمایا:
”مَا بَالُ اٴقوامٍ اِٴذَا ذُکِرَ عِندَھُمْ آلُ اِبراہِیمَ فَرِحُوا وَاسْتَبشِرُوا، وَ اِذَا ذُکِرَ عِندَھُمْ آلُ مُحَمَّدٍ اشْمَاٴزَّتْ قُلُوبُھُم؟!وَالَّذِي نَفَسُ بِیَدِہِ، لَو اٴنْ عَبْداً جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ بِعَمَلِ سَبْعِینَ نَبِیّاً، مَا قَبِلَ اللّٰہُ ذَلِکَ مِنہُ حَتّی یَلقاہ بِولایَتِي، وَوَلاَیَةِ اٴھلِ بَیْتِي۔“[4]
”کیا ھو گیا ھے ان قوموں کو کہ جب بھی ان کے سامنے خاندان ابراھیم کا تذکرہ آتا ھے تو وہ خوش و خرم ھو جاتے ھیں، لیکن جب بھی ان کے سامنے خاندان محمد(ص) کی بات آتی ھے تو وہ ناراحت اور پریشان ھو جاتے ھیں؟! قسم ھے اس خدا کی کہ جس کے قبضہ قدرت میں محمد(ص) کی جان ھے اگر (ایسا) بندہ روز قیامت ستر(۷۰) انبیا کا عمل لے کر حاضر ھو تو بھی خداوند عالم اس کو قبول نھیں کرے گا مگر یہ کہ میری اور میرے اھل بیت کی ولایت کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے“۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام زیارت جامعہ میں فرماتے ھیں:
”وَاٴشْرَقَتْ الاٴَرْضُ بِنُورِکُمْ، وَفَازَ الفَائِزُونَ بِولایَتِکُمْ، بِکُمْ یْسُلَکُ اِلیٰ الرِّضْوَانُ وَعَلیٰ مَنْ جَحَدَ وِلاَیَتَکُمْ غَضَبُ الرحمنِ۔“
” اور زمین تمہارے (علم و امامت و رہبری اور ولایت) کے نور سے روشن ھے اور کامیاب ھونے والے تمہاری ولایت کے ذریعہ کامیاب ھیں، تمہاری وجہ سے رضوان الٰھی کی راہ کو طے کیا جاتا ھے اور تمہاری ولایت کے منکر پر غضب الٰھی نازل ھوتا ھے“۔
اس بنا پر جو شخص کمال مطلق تک پہنچنے کا دلدادہ ھواور اس تک پہنچنے کا بہت زیادہ شوق رکھتا ھو تو اُسے چاہئے کہ پھلی منزل میں (اھل بیت علیھم السلام کی شناخت کے بعد) اپنے پورے وجود سے ان حضرات کی پیروی کرے اور اس راستہ کے ذریعہ اپنے کو کمال مطلق اور وصال الٰھی تک پہنچائے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:
<۔۔۔إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اللهُ ۔۔۔>[5]
”۔۔۔ کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو۔ خدا بھی تم سے محبت کرے گا۔۔۔۔“
اگر تم کمال مطلق کے عاشق ھو اور کمال مطلق تمہارا محبوب ھے تو میری پیروی کرو کہ میں فیض مقدس، نور السموات و الارض، کمال اطلاقی اور اسم اعظم کا مظہر ھوں، تاکہ تم محبوب حق بن جاؤ۔
لہٰذا حقیقت میں اھل بیت علیھم السلام کی محبت انسان کے کمال مطلق کی محبت میں سرچشمہ رکھتی ھے۔ جو شخص کمال مطلق کو فطرت کی بنیاد پر تلاش کرے اور اس تک پہنچنا چاھے اور اس نے اپنے ہدف کو نھیں بھلایا ھے اور اسی راہ پر گامزن ھے تو ایسا شخص سمجھتا اور دیکھتا ھے کہ اس کمال مطلق تک پہنچنے کے لئے اس کمال تک پہنچے اور اپنے وجود اور معرفت کو تکمیل کرتے ھوئے بلند درجوں تک پہنچائے۔
اگر اسلام، محبوب شریعت ھے تو اس کی وجہ یہ ھے کہ ایک راہ ھے اور اگر فضائل اور اخلاق حسنہ محبوب ھیں تو اس کی وجہ راہ ھے اور اگر اھل بیت علیھم السلام محبوب ھیں تو اس کی وجہ یہ ھے کہ وصال حق تک پہنچنے کے لئے بہترین راہ ھے، جیسا کہ حضرت امام ہادی علیہ السلام نے زیارت ناحیہ میں اھل بیت علیھم السلام کو ”صراط اقوم“ سے تعبیر کیا ھے اور بعض روایات میں انھی حضرات نے اپنے کو صراط مستقیم کے عنوان سے یاد کیا ھے:
”نَحْنُ الصِّرَاطُ المُسْتَقِیْم۔“[6]
”ھم صراط مستقیم ھیں“۔
اھل بیت علیھم السلام نہ صرف یہ کہ راہ ھیں اور نہ صرف یہ کہ خود عالی کمال اور مطلق کمال ھیں بلکہ اللہ کی وہ رسی ھیں جو زمین و آسمان کے درمیان واسطہ ھے کہ ان حضرات سے تمسک کے ذریعہ خود کو کمال مطلق سے متصل کیا جاسکتا ھے۔
یہ حضرات مقام فیض منبسط اور فیض اقدس یعنی مظہر اول (جو حقیقت محمدی ھے) کی زمین کی سرحدوں تک پھیلا ھوا ھے۔
<اٴَلَمْ تَرَی إِلَی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ ۔۔۔>[7]
”کیا آپ نے (اپنے پروردگار کی قدرت و حکمت کو) نھیں دیکھا کہ اس نے کس طرح سایہ پھیلا دیا ھے۔۔۔۔“
تاکہ کمال مطلق کا ہر عاشق انسان اس سے متمسک ھو جائے اور اس معنوی اور حقیقی وسیلہ کے ذریعہ خود کو حضرت حق تک پہنچائے۔
<وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ ۔۔۔>[8]
”اور اس تک پہنچنے کا (ایمان، عمل صالح اور اس کی بارگاہ کے مقرب کی عزت و آبرو کے ذریعہ) وسیلہ تلاش کرو۔۔“
اور ھمیشہ کے لئے رضوان الٰھی میں کہ جس کی ایک صفت ظل ممدود (یعنی پھیلا ھوا سایہ) ھے اور اس میں قرار پانا اھل بیت علیھم السلام کی اطاعت کا نتیجہ ھے، جگہ پائے اور وہاں خداوند عالم کی مادی اور معنوی نعمتوں سے فیضیاب ھو۔
اھل بیت علیھم السلام وھی حبل اللہ متین اور مستحکم وسیلہ و ریسمان ھیں جو ذات مکنون سے سایہ تک، اور سایہ کے پھیلنے تک، نور تک، عقل تک، مثال و وھم تک، جسم و مادہ اور مٹی اور خاک تک پھیلا ھوا ھے اور ساتوں آسمان اور ساتوں زمین میں پھیلا ھوا ھے، لہٰذا جو شخص غایت غایات اور کمال مطلق اور ذات مکنون تک پہنچنا چاھے تو ان حضرات کے وسیلہ اور ریسمان سے فیضیاب ھو تاکہ ان سے متمسک ھو جائے اور خود کو اس بلندی تک پہنچا سکے کہ اس کے لئے شائستہ اور ضروری ھے۔
بلا شک و شبہ جو شخص اپنے محبوب (جو کمال مطلق ھے) تک پہنچنا چاھے اور معرفتی اور وجودی کمالات پیدا کرنے کے لئے کوشش کرتا ھے اور چاہتا ھے کہ عین اللہ، ید اللہ ، سمع اللہ، وجہ اللہ اور نور اللہ نیز ان دیگر حقائق کی طرح بننا چاہتا ھے اور وہ چاہتا ھے کہ اس کی ذات اس حد تک کامل ھو جائے کہ خدا کا محبوب بن جائے تو اسے چاہئے کہ زمین سے آسمان تک پھیلے ھوئے اسماء کے مراتب کو اھل بیت علیھم السلام کے ذریعہ طے کرے۔
……………….
حواله جات
[1] سورہٴ انشقاق (۸۴)، آیت۶۔
[2] امالی، صدوق، ص۳۴۳، مجلس نمبر ۵۵، حدیث۱؛ الاشاد مفید، ج۱، ص۳۳؛ ارشاد القلوب، ج۲، ص۲۱۲؛ خصال، ج۲، ص۵۷۴، حدیث۱؛ عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۶۶، باب۳۱، حدیث۲۹۸؛ وسائل الشیعة، ج۲۷، ص۳۴، باب۵، حدیث ۳۳۱۴۶؛ بحار الانوار، ج۴۰، ص۲۰۱، باب ۹۴، حدیث۴۔
[3] الغیبة، طوسی، ص۱۳۶؛ مناقب، ج۱، ص۲۹۳، (تھوڑ ے فرق کے ساتھ)؛ بحار الانوار، ج۳۶، ص۲۵۸، باب۴۱، حدیث۷۷۔
[4] امالی، طوسی، ص۱۴۰، مجلس نمبر ۵، حدیث۲۲۹؛ کشف الغمة، ج۱، ص۳۸۴؛ بحار الانوار، ج۲۷، ص۱۷۲، باب۷، حدیث۱۵۔
[5] سورہٴ آل عمران (۳)، آیت ۳۱۔
[6] معانی الاخبار، ص۳۵، باب معنی الصراط، حدیث۵؛ تفسیر صافی، ج۱، ص۵۴؛ بحار الانوار، ج۲۴، ص۱۲، باب۲۴، حدیث۵۔
[7] سورہٴ فرقان (۲۵)، آیت۴۵۔
[8] سورہٴ مائدہ (۵)، آیت ۳۵۔